یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہر سال جب وادی ٔ کشمیرمیں برف باری ہو تی ہے تو سب سے زیادہ تکلیف دہ مسائل اور مشکلات کا سامنا سرحدی آبادی کو کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی وادی کے سرحدی علاقے ا س وقت برف کی موٹی چادر سے ڈھکے ہوئے ہیں اور اُن کا رابطہ ہنوز باقی دنیا کے ساتھ کٹا ہوا ہے ،کہیں سڑکیں بند ہیں تو کہیں مسافر درماندہ ، کہیں بیمار ایڑیاں رگڑ رہے ہیں ،کہیں قحط اور کال جیسی قیامت ٹوٹی ہے۔ان دور افتادہ علاقوں میں نوزائدہ بچوں کے لئے ڈبہ بنددودھ تک دستیاب نہیں ہوتا اوررسوئی گیس اورمٹی کے تیل کی قلت اس قدر گھمبیرتا اختیار کر چکی ہے کہ کئی گھرانوں کا چولہا ہی نہیں جلتا اور نوبت فاقہ کشی پر آتی ہے ۔ حد یہ کہ میڈیکل شاپوں پر ضروری ادویات بھی میسر نہیں ۔
کرناہ کی زندگی کا دارومدار نستہ چھل گلی پر ہے
کرناہ کپوارہ شاہراہ جب ٹریفک کے لئے کھلی ہوتی ہے تو علاقے میں سامانِ زیست اشیائے ضروریہ کی صورت میںپہنچ جاتا ہے اور جب شاہراہ بند ہو جائے تو علاقے میں لوگ ا س قدر پریشان حالیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اُن کے پاس صرف صدائے احتجاج یا واویلاکے سوا کچھ اور نہیں بچتا لیکن وہ احتجاج کی یہ آوازیںبھی اُس وقت بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں جب لوگوں کی چیخ وپکار فلک بوس پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس اُن کے کانوں تک محدود کر رہ جاتی ہے ۔اس علاقے کی 80؍ہزار نفوس پر مشتمل آبادی اپنا درد اور مشکلات کس کو سنائے جب انتظامیہ کے کل پرزے خود بھی برف تلے دبی ہوں ؟پچھلے سال کرناہ ۔ کپوارہ شاہراہ پر موسم برف سفر کرنے کے دورا ن 11؍افراد کی موت ہوئی اوراس سال بھی کرناہ کی ایک عمرہ رسیدہ خاتون اسی شاہراہ پر حرکت قلت بند ہونے سے ہلاک ہوگئی ۔یہ خاتوان بھی باقی درماندہ مسافروں کے ساتھ اس شاہراہِ پُر برف سے پیدل سفر کر کے کرناہ جانے کی تیاریاں ہی کر رہی تھی کہ موت کے فرشتے نے پیغام ِ اجل دیا۔بمنہ سرینگر میں کرناہ کا جو کنبہ درماندہ تھا ، رات کو اپنے کرائے کے کمرے میں سوئے رہا اور گیس ہیٹر کا بد قسمتی سے ایسا استعمال کیا کہ صبح دو بچوں سمیت 5؍افراد کی لاشیں برامد ہوئیں، پھر متوفین کو اپنے علاقے تک پہنچانے میں کئی دن لگ گئے ۔ یہی نہیں بلکہ بادکوٹ کے ایک شہری کی میت کو 6دن بعد بذریعے ہوائی جہاز کرنا ہ پہنچایا جاسکا ۔ سردیوں کے موسم میں ان دور افتادہ علاقوں کے زندہ لوگوں کو ہی پریشانیاں نہیں بلکہ مر کے بھی اُن کی نعشوں کو کئی کئی روز بعد گھر میں تجہیز وتکفین وتدفین کے لئے پہنچایا جاتا ہے اورلوگ کئی کئی روز تک نماز جناہ میں شمولیت کیلئے میتوں کی آمد کا انتظار کرتے رہتے ہیں ۔اس سال بھی کرناہ کپوارہ شاہراہ 2؍ماہ میں صرف 3دن کے لئے گاڑیوں کی آمد ورفت کیلئے کھلی رہی اور شاہراہ کے مسلسل بند رہنے سے علاقے کی دوکانوں پر جہاں اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے، وہیں دوکانوں پر سبزیاں ، پھیل ، انڈے ، مرغ اور دالیں بھی دستیاب نہیں ۔یہاں تک کہ نوزائدہ بچوں کو پینے کیلئے ڈبہ بند دودھ تک دستیاب نہیں ہوتا اورکئی بیمار معمول کے طبی معائنہ کیلئے سرینگر آنے سے قاصر ہیں جن کا علاج متاثر ہورہاہے ۔ معلوم رہے کہ ایک سال قبل بڑے ہی دھوم دھڑلے کے ساتھ سابق پی ڈی پی سرکار نے سرحدی علاقوں کیلئے ہوائی سروس شروع کرنے کا اعلان کیا تھا ۔شروع میں اگرچہ اس سروس کو تواترکے ساتھ چلایا گیا مگر اس سال یہ سروس بھی کٹھن موسمی صورت حال کے سبب اُڑان ہی نہ بھر سکی ۔پوری وادی میں یہ سطور لکھتے وقت کرناہ کے قریب 300؍مسافر در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ،جہاں اُن کی جیبیں خالی ہیں، وہیں اُن کو رہنے کیلئے کوئی جگہ بھی دستیاب نہیں اور ان کی پریشانیوں میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا چلاجا رہا ہے۔ ایسے مسافروں نے شہرسری نگر کے قلب لال چوک میں بھی انتظامیہ کی بے حسی کے خلاف متاثرہ لوگوں نے احتجاج کیا ،جب کہ کرناہ میں مریضوں کے لواحقین کے ساتھ دیگر مسافر بھی مسلسل احتجاج پر ہیں۔ کرناہ کے لوگوں کے مطابق اگر بھارت کی سرکار 100؍کلو میٹر سڑک سے برف نہیں ہٹا سکتی تو پھر سرما میںپاکستان سے بات کر کے ٹنگڈار ٹیٹوال کے بیچ سڑک کو بحال کرانا چاہئے تاکہ لوگ سرما کے دوران سرحد پار سے اپنے لئے کم ا زکم ضروریاتِ زندگی کی چیزیں لاسکیں۔علاقے میں نومبر سے اب تک قریب 10؍بار برف باری ہو چکی ہے اور کرناہ کو کپوارہ سے ملانے والا درہ جسے نستہ چھن گلی کے نام سے جانا جاتا ہے ،پر اس وقت قریب 13فٹ برف جمع ہے ۔برسوں سے لوگوں کا یہ مطالبہ بھی رہا ہے کہ شاہراہ پر 7؍کلو میٹر کا ایک ٹنل تعمیر کیا جائے تاکہ یہاں کے لوگوں کا ایک تو سال بھر کا رابطہ بحال رہے اور ساتھ میں یہاں کی آبادی کی اقتصادی پوزیشن بھی بہتر ہو لیکن اس جانب اربابِ اقتدار سے کوئی دھیان نہیں دیاجارہا ہے۔ کرناہ میں اس مانگ کو لے کر آج تک 100؍مرتبہ احتجاج بھی ہوچکاہے اور ایک وفد بھی مرکزی سرکار کے وزرا سے ملاقی ہوا، جب کہ باڈر روڑ آرگنائزیشن نے سروے کر کے ایک مفصل پروجیکٹ رپورٹ بھی تیار کر لی لیکن اُس کے باوجود علاقے کے لوگوں کی مشکلات جوں کی توں برقرار ہیں ۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس سے قبل بھی لوگ علاقے میں رہتے تھے اور یہ وہ دور تھا جب سڑک 6ماہ کیلئے پوری دنیا سے بند ہو کر رہ جاتی تھی۔1947سے قبل کرناہ کے لوگ تو ٹیٹوال اور مظفرآباد کے بیچ سفر کر کے اپنے لئے اشیائے ضروریہ بڑی آسانی کے ساتھ لاتے لے جاتے تھے اور جب جبری تقسیم ہوئی تو یہاں کی آبادی کی پریشانیاں ہمہ گیر انداز میں بڑھ گئیں اور پھر 6ماہ تک سڑک بند ہونے کی صورت میں لوگ اپنے لئے سوکھی سبزیاں ، دالیں اور راشن ، مٹی کا تیل ، جلانے کیلئے لکڑی ذخیرہ کر کے رکھتے تھے اور پھر جب بھی کبھی برف باری ہوتی اورراستے بند اور رابطے منقطع ہو جاتے ، اُس وقت کرناہ کے لوگ آرام سے 6؍ماہ تک گزارہ کر لیتے تھے، لیکن جب سے کرناہ کپوارہ شاہراہ کو نیشنل ہائی وے کا درجہ دیا گیا ہے، تب سے اس سڑک کو تین سے چار روز تک بند رکھ کر برف ہٹائی جاتی ہے اور اسی لالچ میں آکر لوگ بھی غافل ہو جاتے ہیں، پھر اس کا خمیازہ انہیں اُس وقت بھگتنا پڑتا ہے جب بھاری برف باری ہوجاتی ہے اور علاقہ کئی کئی دن تک کٹ کر رہ جاتا ہے ۔ اس سال اتنی برف گری ہے کہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مارچ اور اپریل میں شاہراہ پر پسیاں اور پتھر گرنے کا عمل شروع ہو جائے گا کیونکہ آنے والے دنوں میں دھوپ کے ساتھ پسیاں گرسکتی ہیں جس سے خدا نخواستہ جانی نقصان کا خطرہ بھی لاحق رہے گا۔
مژھل ، کیرن اور گریز
یہ علاقے اس سال ابھی تک ایک ماہ سے زائد مدت سے بقیہ دنیا سے منقطع ہیں ۔ان دونوں علاقوں کی حالت ایسی ہے کہ مقامی دوکانوں پر نمک تک دستیاب نہیں ،مرغ ،دالیں، انڈے، گوشت تو دور کی بات ،ماچس کی ڈبی کیلئے بھی لوگ پریشان ہیں ، اس طرح کئی ایک گھرانوں کا چولہا بھی بجھ چکا ہے ۔ ان علاقوں کے مریضوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ۔حالیہ دنوں درد زہ میں مبتلا کیرن کی ایک خاتون طبی امداد نہ ملنے کے سبب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ بیٹھی اورلوگ آواز بلند کریں تو کس کے سامنے؟ کیونکہ انتظامیہ سر تا پا ہی مفلوج ہے اور ہیلتھ سنٹروں پر عملہ تو دور ادویات بھی دستیاب نہیں ہوتی ۔ان علاقوں کی ضلع صدر مقامات کے ساتھ لگنے والی سڑکوں کی بات تو دور اندروانی سڑکوں سے برف نہیں ہٹائی گئی جس کے نتیجہ میںلوگوں کو عبور ومرور میں سخت دقتیں آرہی ہیں۔کیرن ، مژھل ، جم گنڈ ، بڈنمل علاقے ایسے ہیں جہاں پر آج تک مواصلاتی نظام بھی نہیں پہنچ پایا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں عملی طورحالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا ہے۔ان علاقوں کے ہزاروں مسافر بھی وادی کے متعدد علاقوں میں درماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔گریز کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بانڈی پورہ گریز سڑک پر قریب 10؍فٹ برف جمع ہے اور ایک ماہ میں انہوں نے صرف ایک دن شاہراہ کو کھولنے کا اعلان سنا مگر اُس وقت بھی کوئی شہری اس پر سفر نہیں کر سکا کیونکہ شاہراہ پر سڑک کے بحال ہونے کے بعد ہی تازہ برف باری ہو گئی تھی ۔سرکار کو چاہئے کہ عوامی مشکلات کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کئے جائیں ۔
نوٹ: کالم نگار ’’کشمیر عظمیٰ‘‘ سے وابستہ ہیں ۔