۲۰۱۴ء میں مودی اور بی جے پی کی حکومت صرف اس لئے معروض ِوجود میں آئی تھی کہ سابقہ حکومت کی بدعنوانی یعنی کرپشن اس کا اہم مو ضوع تھا لیکن کر ناٹک کے حالیہ اسمبلی الیکشن کی مہم مین یہ دعویٰ ہو امیں تحلیل ہو کرر ہا۔ یہاںوزیراعظم مودی جی نے سدارمیا کی حکومت کو ۱۰؍پر سینٹ(رشوت) حکومت کہا ۔یہ بیان بہت دنوں تک چلتا رہا لیکن آخری دنوں میں سدارمیا نے مودی اور امیت شاہ کو ایک قانونی نوٹس بھیجا کہ یا تو یہ دونوں اپنے الزام کو ثابت کریں یا معافی مانگیں ورنہ وہ عدالت میں ۱۰۰؍کروڑ کے ہتک عزت کے دعویٰ کا سامنا کریں ۔اس کے علاوہ جب سدارمیا نے دوسری سیٹ کے لئے’بادامی‘ سے پرچۂ نامزدگی داخل کیا تو بی جے پی نے’ ٹو پلَس وَن ‘ (۲؍پلَس ۱؍)کا نعرہ ہوا میں اچھالا۔اس سے بی جے پی یہ کہنا چاہتی تھی کہ سدارمیا ۲؍سیٹوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور ساتھ میں ان کا بیٹا بھی میدان میں ہے۔بیٹا کہہ کر بھاجپا وراثتی سیاست کی توہین کرنا چاہتی تھی اور سیدھا نشانہ راہل گاندھی تھے۔یہ بات کہتے وقت بی جے پی اورمودی و امیت شاہ جوڑی یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ اُن کی پارٹی میں بھی وراثتی نظام رائج ہے۔کیا وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ،کلراج مشرااوریشونت سنہا وغیرہ کے بیٹے میدانِ سیاست میں نہیں ہیں؟اور کیا سدا رمیا ہندوستان میں ایسے پہلے شخص ہیں جو ۲؍سیٹوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں؟خود یہاں کرناٹک میں ہی انہی کی پارٹی بی جے پی سے’ سری راملو‘۲؍سیٹوں سے زور آزمائی کر رہے ہیں۔یہ ’سری راملو‘ کون ہیں آگے اسی مضمون میں تفصیل سے آئے گا اور کیا وزیر اعظم نریندرمودی نے ۲۰۱۴ء کا عام چناؤ ۲؍ جگہ سے نہیں لڑا تھا؟ کیا اُنہیں ڈر نہیں تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو ہ وہ اکلوتی سیٹ پر فائٹ کرنے میں کہیں ناکام ہو جاتے تو ’سارا کرا دھرا‘ یوں ہی رہ جاتا۔اُس وقت تو یہ جواب دیا گیا تھا کہ مودی جی بنارس کی سیٹ پر اس لئے الیکشن لڑ رہے ہیں کہ اس وجہ سے شمالی ہند میں ایک اچھا پیغام جائے گا اور ممکن ہے کہ بی جے پی کی طاقت بڑھے گی۔یہ اور بات ہے کہ ہوا بھی ایسا ہی۔تو کیا سدا رمیا ایسا ہی دعویٰ نہیں پیش کر سکتے ؟ آپ کر سکتے ہیں تو کانگریس کیوں نہیں؟ دراصل سدارمیا نے کرناٹک میں کوئی ایسی حکمت عملی نہیں چھوڑی جس سے کانگریس کو نقصان اُٹھانا پڑے بلکہ ۱۰؍ قدم آگے بڑھ کر سارے انتخابی معاملات طے اور پیش کئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مودی اور امیت شاہ جوڑی حد درجہ حیران و پریشان رہے کیونکہ اگر سدارمیا کے داؤ کامیاب ہو گئے تو انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا لیکن جو فیصلہ آیا اس میں بھی سدارمیا نے حکمت عملی پیش کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائی بلکہ ایک قدم آے بڑھ کر جنتا دل ایس کے کمارسوامی کے بلا شرط وزیراعلیٰ کی کرسی سونپ دی۔
مودی امیت شاہ کے ’ٹو پلَس ون‘ کا جواب سدارمیا نے کیا خوب دیاتھا:ٹو ریڈّی پلَس وَن یڈّی۔یعنی ۲؍ریڈی برادران اور ایک یدی یورپا۔یہ کہنا تھا کہ پورا ہندوستان اور کرناٹک اس کا مفہوم سمجھ گیا۔قارئین اتنا سمجھ لیں کہ جناردھن ریڈی کے ۲؍ بھائیوں سوماشیکھرریڈی اورکروناکر ریڈی کو بی جے پی نے اسمبلی کے ٹکٹ دئیے ہیں۔اس کے علاوہ سری راملو ۲؍ جگہوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں جب کہ وہ ’بیلاری‘ کے موجودہ ایم پی ہیں۔یہ سری راملو جناردھن ریڈی کے خاص آدمی ہیں بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ راملو اور جناردھن ریڈی دیکھنے میں صرف الگ الگ ہیں لیکن وہ ہیں ایک ہی۔سارا سیاسی کاروبار یہی سری راملو کے نام پر چلتا ہے۔ اسی طرح ۵؍ اور امیدوار ہیں جو جناردھن ریڈی کے لوگ ہیں ۔جناردھن ریڈی کان کنی کے ایک بڑے مافیا ہیں اور تقریباً ۴۲؍ ماہ حیدرآباد کے چنچل گوڑا جیل میں بدعنوانی کے الزام میں گزار چکے ہیں ۔ابھی وہ ضمانت پرہیں لیکن عدالت کی طرف سے یہ حکم ہے کہ وہ ’بیلاری ‘ نہ جائیں۔یعنی کہ وہ تڑی پار ملزم ہیں۔اُن کے ساتھ بی جے پی کی سانٹھ گانٹھ اور کرنا ٹک کی سیاست میں اُن کو اتنی اہمیت دینا یہ سوچنے پر مجبور کرتاہے کہ بی جے پی عملاً بدعنوانی میں شرابور لوگوں کی ہی پارٹی ہے یعنی کہ جس کے پاس روپے پیسے ہیں اُس کی بی جے پی میں شمولیت میں کوئی رکاوٹ نہیں چاہے وہ روپے کرپشن کے ذریعے کیوں نہ کمائے گئے ہوں!قارئین یاد کریں کہ ۸؍نومبر ۲۰۱۶ء کی نوٹ بندی کے بعد جلد ہی ۱۶؍نومبر کو ہونے والی اپنی بیٹی کی شادی میں جناردھن ریڈی نے تقریباً جو ۵۰۰؍کروڑ روپے خرچ کئے تھے ،وہ روپے کس طرح کے تھے؟ اور کس طرح نوٹ بندی کا استعمال جناردھن ریڈی نے بحسن و خوبی کر لیا تھا! تو کیا نوٹ بندی کے سرغنہ سے جناردھن ریڈی کا کوئی رشتہ استوار نہیں ہوتا؟ اِس شادی میں ۵۰۰۰۰؍کے قریب مہمان آئے تھے اور بنگلور کے مشہور پیلیس میں اس شادی کا انعقاد ہوا تھا۔ اس مقام کو ایک راجواڑے کی سلطنت سے مشابہ بنانے کے لئے اربوں روپے خرچ کئے گئے تھے۔جب چہار جانب سے شور شرابا ہوا تو کہیں جاکر انکم ٹیکس محکمے نے ریڈ ڈال کر تلاشی لی۔جناردھن ریڈی نے اخراجات کا تخمینہ ۳۰؍کروڑ کا جب پیش کر دیا تو انکم ٹیکس محکمے نے اُس کیس کو بند کر دیا۔کیا ایسا کسی اپوزیشن لیڈر کے ساتھ انکم ٹیکس رویہ روا رکھ سکتا ہے؟ بالکل نہیں ۔وہ تو کانگریس یا دوسرے اپوزیشن کے لوگوں پر روز بروز چھاپے مار رہا ہے اور پریشان کرنے کے ساتھ بدنام بھی کرر ہا ہے۔
اب آتے ہیں سدارمیا کے جوابی بیان ’ٹو ریڈی پلس ون یڈی‘ کے دوسرے حصے یڈی کی طرف۔ یہ یہی یدی یورپا ہیں جو بدعنوانی کے الزام میں جیل بھی گئے اور بی جے پی سے کچھ عرصوں کے لئے نکالے بھی گئے۔جب الزام سے بری کرائے گئے تو پھر سے بی جے پی میں ان کی شمولیت ہوئی،ایسا بی جے پی کی مرکزی قیادت بمعنیٔ دیگرامیت شاہ کا کہنا ہے۔ انتخابی مہم کے پہلے ہی دن جو پریس کانفرنس امیت شاہ نے بنگلور میں کی تھی اُس میں سب سے بڑا بدعنوان لیڈر انہوں نے یدی یو رپا کو ہی گردانا تھا۔دراصل بات دل سے زبان پر آگئی تھی۔یہ تو سب کو معلوم ہے کہ روپے میں بڑی طاقت ہوتی ہے لیکن بی جے پی کو یہ کلیہ زیادہ ہی معلوم ہے اور کرناٹک کو جب ہم سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں تو بی جے پی کا سارا بھید کھلتا جاتا ہے۔یہ پارٹی روپے پیسے میں زیادہ یقین رکھتی ہے کیونکہ جمہوریت اس کے لئے سودا ہے۔اس سودے بازی کا مزہ اس نے خوب چکھ لیا ہے اور وہ یہ جانتی ہے کہ روپوں سے ووٹ خریدے جا سکتے ہیں اور اسے یہ بھی پتہ ہے کہ اصول و ضوابط اس کا کیا بگاڑ لیں گے۔دیکھئے آج تک کسی نے نہیں سنا تھا کہ ووٹر شناختی کارڈ بھی خریدے جاتے ہیں لیکن کرناٹک میں ایسا ہوا اورہزاروں شناختی کارڈ ایک فلیٹ سے بر آمد ہوئے۔پتہ یہ چلا کہ انہیں خریدا گیا ہے جس کی قیمت فی کارڈ۲۰۰؍روپوں سے لے کر ۱۰۰۰؍روپوں تک ہے۔یہ کوئی شیطانی دماغ ہی ایسا سوچ سکتا ہے۔یعنی کہ اب ووٹ نہیں دینے کے بھی روپے دئیے جائیں گے۔واہ رے بی جے پی!اسی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح مقامی یا قومی چند پارٹیاں ووٹ کاٹنے کے روپے لیتی ہیں اور ان کے سربراہ کروڑوںمیں کھیلتے ہیں۔
کرناٹک کا منقسم انتخابی فیصلہ آگیا ہے ۔اگرچہ بی جے پی ۱۰۴؍سیٹوں کے ساتھ بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے لیکن حکومت بنانے سے ۸؍سیٹیں پیچھے ہے وہیں جنتادل سیکولر ۳۸؍سیٹوں کے ساتھ بادشاہ گر نہیں بلکہ بادشاہ بننے کے لئے تیار ہے کیونکہ کانگریس کے ۷۸؍ممبران اسے حمایت دے رہے ہیں ۔اس طرح۱۱۶؍ممبروں کے دستخط دونوں نے گرنر کو سونپ دئیے ہیں ۔کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ ۲؍آزاد فاتح ارکان اسمبلی بھی جنتا دل کے ساتھ ہیں۔لیکن گورنر موصوف آر ایس ایس کے آدمی ہیں اور گجرات میں جب مودی وزیر اعلیٰ تھے تو یہ وہاں وزیر خزانہ تھے۔اصول وضوابط سے بڑھ کر آرایس ایس کی کاز کو اہمیت دینا ۴؍برسوں سے چل رہا ہے ۔اسی لئے یہ امید نہیں ہے کہ گورنر موصوف جنتادل اور کانگریس کو حکومت سازی کے لئے بلائیں گے بلکہ وہ کھلے عام ایمایل ایز کی خرید و فروخت کا راستہ ہموار کریں گے۔اب یہ دونوں پارٹیوں پر منحصر ہے کہ اپنے ایم ایل ایز کو کس طرح اور کہاں باندھ کر رکھتے ہیں کیونکہ جناردھن ریڈی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔کمارسوامی نے یہ الزام لگایا ہے کہ جناردھن ریڈی ایک ایک ایمایل ایز کی قیمت ۱۰۰؍کروڑ دے رہے ہیں ۔ملک میں کیا چل رہا ہے؟ہے کوئی پوچھنے والا؟اس لئے اب یہ طے ہے کہ ۲۰۱۹ء کے عام چناؤ میں کرپشن کوئی موضوع نہیں رہے گا کیونکہ بی جے پی بھی کرپشن میں گلے تک ڈوبی ہوئی ہے۔ویاپم گھوٹالا،للت مودی ، وجے مالیا،نیرو مودی،رافیل سودا،نوٹ بندی وغیرہ دسیوں گھوٹالے ہیں جو اس حکومت کے نام ہیں ۔کرپشن جب کوئی موضوع نہیں رہے گا تو دیکھتے ہیں کہ کون سا موضوع بی جے پی لے کر آتی ہے لیکن جس اکثریت سے۲۰۱۴ء میں بی جے پی نے بازی ماری تھی اُس کا ۵۰؍فیصد بھی سیٹ جیت لے تو بڑی بات ہوگی ۔اس کے لئے اپوزیشن کو یہ بھی کرنا ہوگا کہ ای وی ایم مشین سے الیکشن کرانے کے بجائے بیلٹ پیپر سے الیکشن ہوں اس کے لئے احتجاج کریں اور اس کو یقینی بنائیں کیونکہ ووٹنگ فیصد کانگریس کو زیادہ ملنے کے بعد بھی سیٹوں کا کم ملنا بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883