کرشن چندراردو زبان کے ایک عظیم افسانہ نگارتھے۔ ا ن کے والد پونچھ میں میڈیکل آفیسر تعینات تھے۔ اس لئے ان کی ابتدائی زندگی کاکافی حصہ پونچھ میں گزرا۔ ان کے ابتدائی افسانوںمیں پونچھ کے پہاڑوں، ندی، نالوں، دریائوں، مر غزاروں ، آبشاروں کے کافی مناظر دکھائی دیتے ہیں۔
کرشن چندر نے اپنے طویل ادبی سفر کے دوران جوکچھ محسوس کیاہے۔ اسے اپنی تحریروں کے ذریعہ لوگوں کے سامنے رکھ دیاہے۔ اور اب وہی شاہکار کی شکل میں لوگوں کی زندگی میں رومانیت کا عنصر پیداکرنے کے ساتھ ساتھ سماجی بیداری کا کام بھی سرانجام دے رہاہے۔ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعہ نہ صرف اردو کی خدمت کی ہے۔ بلکہ سماج کی برائیوں کو بھی اُجاگر کیاہے۔
کرشن چندر اردو کے مشہور معروف افسانہ نگارہیں۔ ان کی پیدائش تئیس نومبر 1914کو وزیرآباد ضلع گجرانوالہ، پنجاب (پاکستان) میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسرتھے۔ جنہوں نے کرشن چندر کی تعلیم کا خاص خیال رکھا۔ کرشن چندر نے چونکہ تعلیم کاآغاز اردو وار فارسی سے کیاتھا اور اس لئے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے انیس سو انتیس میںہائی سکول کی تعلیم مکمل کی اور انیس سوپینتیس میں انگریزی سے ایم اے کی سند حاصل کی۔
چونکہ کرشن چندرنے پنجاب اور جموںوکشمیرکی آب وہوا میں ہوش سنبھالا ۔ اس لئے ان کے اکثر افسانوں اور ناولوں میں رومانیت کا عنصرزیادہ دیکھنے کوملتاہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے شروعاتی افسانے اس وقت کے سماجی پہلوئوں کو بہتر انداز میںپیش نہیں کرپاتے ہیں۔ لیکن دھیرے دھیرے جب ان کے ذہن نے پختگی اختیار کی اورسماجی معاملات سے ان کا سابقہ پڑاتو تحریری لہجے میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملی اور اس میں حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ طنز کاعنصر بھی شامل ہوتاچلاگیا۔
انہوں نے اپنے افسانوں میں اس دور کے معاشی ، سیاسی اور سماجی صورت حال کی خامیوں، مثلاً بیجار سم وروایات، مذہبی تعصبات،آمرانہ نظام اور تیزی سے اُبھرتے ہوئے دولت مند طبقہ کے منفی اثرات وغیرہ جیسے موضوعات کو شامل کیا۔ حقیقت تویہ ہے کہ آخرمیں تحریرکئے گئے ان کے زیادہ تر افسانوں میں زندگی کے اعلیٰ معیارا ور اس کے اقدار پر بحث کی گئی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ انہیںپڑھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی کئی تصنیفات ،مثلاً کالو بھنگی، مہا لکشمی اور ایک گدھے کی سرگزشت وغیرہ قارئین کے ذہن میںاچھی خاصی جگہ بنا لیتی ہیں اوربار بار پڑھے لکھے جانے کے باوجود انہیں دوبارہ پڑھنے کے لئے مجبور کرتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہاجائے تو ان تصنیفات نے لازوال شکل اختیار کرلی ہے۔ کرشن چندر کو زبان اردو پر جوعبور حاصل تھا۔ وہ شاید دوسروں کا مقدر نہیں۔ ان کی خوبصورت زبان قاری کو آغاز میںہی اپنے قبضے میں لے لیتی ہے اور افسانہ کے آخر تک اس سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیتی۔
کرشن چندر کی خوبیوں کے معترف اردو کے معروف ناقد گوپی چند نارنگ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کرشن چند ر اردو افسانے کی روایات کاایک ایسا لائق احترام نام ہے۔ جو ذہنوں میںبرابر سوال اٹھاتا رہے گا۔ ان کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی بے حد اہم نام ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کرشن چندر 1955-60تک اپنا بہترین ادب تخلیق کرچکے تھے۔ ان کانام پریم چندکے نام کے ساتھ بڑے افسانہ نگاروں میںآئے گا۔
کرشن چندر کے افسانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بلا مبالغہ اس بات کا اعتراف کیا جاسکتاہے کہ وہ نہ صرف محبت کے جذبہ اور احساس کوپورے انہماک اور حساسیت کے ساتھ اپنی کہانیوں میںپیش کرتے تھے ۔ بلکہ سماجی برائیوں کو بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھتے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور اسی لئے عام انسان کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ ان کے دل میںامیروں کے تئیں بغاوت اوربدلے کا جذبہ تھا۔
زندگی کے موڑ پر اور بالکونی جیسے رومانی افسانے نہ صرف جذباتی ہیں بلکہ قاری کو سوچنے پرمجبور کرتے ہیں۔جہاںایک طرف زندگی کے موڑ پر افسانہ پنجاب کی قصبابی زندگی کی انتہائی رومانی شبیہ پیش کرتاہے وہیں بالکونی کشمیر کی خوبصورتی اور آب وہوا کومرکز نگاہ میںرکھ کر لکھی گئی۔ کرشن چندر کے یہ رومانی افسانے دوسرے افسانہ نگاروں کے ذریعے لکھے گئے افسانوں سے انتہائی مختلف ہیں۔ کیونکہ وہ ان افسانوں میں روزمرہ کے عمل کے اندر سماجی عنصر کی تلاش کرلیتے ہیں۔ گویا کرشن چندر کے رومانی افسانوں کی دنیا وہ دنیانہیںہے جیسا کہ محمد حسن عسکری نے تحریر کیا ہے کہ ’’اب رہی وہ رومانیت جسے عام طورپر کرشن چندر سے منسوب کیا جاتاہے اور اس کے وہ افسانے جنہیں رومانی کہا جاتاہے۔ تھوڑی دیر کے لئے اگریہ مان بھی لیاجائے تو یہ افسانے رومانی ہیں۔تب بھی کرشن چندر کی رومانیت دوسروں سے کافی مختلف ہے۔وہ رومان کی تلاش میں ہجرت کرکے مالدیپ نہیں جاتا بلکہ یہ کوشش کرتاہے کہ روزمرہ کی زندگی میں رومان کے امکانات ہیںیانہیں۔درحقیقت یہ افسانے رومانی نہیں ہیں۔ بلکہ رومان کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہیں‘‘۔ کرشن چندر نے ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو بنیاد بناکر بھی کئی افسانے لکھے۔ جن میں اندھے ،لال باغ، جیکسن، امرتسر، اورپیشاور ایکسپریس وغیرہ قابل ذکرہیں۔ ان افسانوں میں کرشن چندر نے اس وقت کی سیاست کے عوام مخالف کرداروں پر بلا جھجھک اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی برائیوں سے پیداشدہ ماحول پر ضرب کرتے ہوئے انسانی رشتوں اور جذبات کو اہمیت دی ہے۔وہ ان افسانوں میںفرقہ واریت کی اصل ذہنیت اور صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے انسانیت پر مبنی سماجی نظام کی تعمیر پر زور دیتے ہیں۔ان کے یہ افسانے ہندستانی ادب میں انسانیت کی حق میں آواز اٹھانے کا کام انجام دیتے ہیں۔ اور قارئین کو غوروفکر کرنے پرمجبور کرتے ہیں۔ وہ اپنے ان خیالات کو اس خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں کہ بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔
کرشن چندر کے نادار افسانوں میں کالو بھنگی کافی اہمیت رکھتاہے ۔ اس کہانی میںانہوں نے چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے کالو بھنگی کے ذریعہ پسماندہ طبقات کی پریشان حال زندگی اور ان کے مسائل سے روشناس کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کہانی میں صرف کالو بھنگی کی پریشانیوں اور جدوجہد کوہی پیش نہیں کیاگیاہے۔ بلکہ پورے سماج کی پست ذہینت کو بھی ظاہر کیاگیاہے اورانہوں نے یہ سب اتنے بے باک اندازمیں کیاہے کہ بات دل کو چھو جاتی ہے۔
ایسی بات نہیں ہے کہ کرشن چندر صرف افسانہ نگاری کے لئے ہی معروف ہیںبلکہ انہوں نے ڈیڑھ درجن سے بھی زائد ناول لکھے ہیں۔ ان ناولوں میں سے ہی ان کی ایک شاہکار تصنیف ہے۔ ایک گدھے کی سرگزشت۔ یہ تصنیف ہندوستانی ادب میں انہیں ایک علیحدہ شناخت فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے ایک گدھے کی سرگزشت میںملک کی سیاست، حکومت اور سرکاری دفاتر کے کردار سے ہمیںانتہائی دلچسپ اندازمیں روبرو کرایاہے۔ اس مزاحیہ تصنیف کا اہم کردارگدھا ہے۔ جسے کرشن چندر نے ایک محنت کش اور مزدور طبقہ کے طورپر پیش کیاہے۔ اس گدھے کے ذریعے انہوںنے عام آدمی کی موجودہ صورت حال کو عیاں کرتے ہوئے ملک کے نظام میں پوشیدہ خامیوں کو انتہائی چالاکی اور بے باکی کے ساتھ پیش کیاہے۔ کرشن چندر نے ایک گدھے کاسہار الے کر اس وقت کے حکمران اورلیڈر ان کو کچھ اس اندازمیں نشا نہ بنایاہے کہ وہ زخمی توہوتے ہیں لیکن مصنف پرکسی طرح کاالزام عائد نہیںکرتے۔
ان کا یہ مزاحیہ ناول رسالہ، شمع ، میں قسط وار شائع ہواتھا اور لوگوں نے اسے کافی پسند کیاتھا۔ یہی سبب ہے کہ جب ایک گدھے کی سرگزشت،ختم ہوگئی تو لوگوں کا اصرارہوا کہ اس کومزید آگے بڑھایاجائے۔لوگوں کی گزارش کو دھیان میںرکھتے ہوئے کرشن چندر نے گدھے کی واپسی کے عنوان سے ایک نیا ناول تحریر کیا۔ بعد ازاں انہوں نے تیسرا ناول، ایک گدھا بھی تحریرکیا۔ان تینوں ہی ناولوں نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی اور اردو ہندی کے علاوہ متعدد زبانوں میں اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ صرف کرشن چندر نے ہی اردو کی خدمت نہیںکی تھی۔بلکہ انکے پورے خاندان نے د ل وجان سے ارود کی ترویج وترقی میں اپنا اہم کردار نبھایا۔ ان کے چھوٹے بھائی مہندر ناتھ نے بھی اردو کی افسانہ نگاری میں ایک نئے اسلوب کے ساتھ قدم رکھاتھا۔ لیکن انہیں کرشن چندر جیسی شہرت ومقبولیت حاصل نہیںہوسکی ۔ ان کے بہن سرلادیوی کے بارے میں بتایاجاتاہے کہ انہوں نے کئی بہترین اردو افسانے تحریر کئے۔ لیکن افسوسنا ک بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنا ذہنی توازن کھودیا۔ جس کے سبب پڑھنا لکھناسب کچھ ختم ہوگیا۔ سرلا دیوی کے شوہر ریوتی شرن شرما بھی ایک شہرت یافتہ شخصیت رہ چکے ہیں۔ اور انہوں نے اردو ڈرامہ اور سٹیج کو زندہ کیاتھا۔گویا کہ اردو ادب پر صرف کرشن چندر کے ہی احساسات نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے خاندان کے کئی افراد نے بھی اردو کی ترقی میں اپنا اہم تعاون پیش کیاہے۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے کرشن چندر کی بالی ووڈ میں بھی شناخت تھی اور یہاں بھی وہ کافی مقبول ہوئے۔ انہوں نے کئی فلموںمیں کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے تحریر کئے۔ دھرتی کے لال ۔دل کی آواز، دوچور، دوپھول، من چلی، شرافت وغیرہ ایسی فلمیںہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو فلم ناظرین کے سامنے پیش کیا۔
کرشن چندر نے اپنی تحریری صلاحیتوں کو مختلف ذرائع سے لوگوں کے سامنے رکھا اور داد وتحسین حاصل کی۔ یہی سبب ہے کہ آٹھ مارچ 1977میں جب ان کا انتقال ہوا تو محبان اردو نے اسے اردو ادب کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان تصور کیاتھا۔دلچسپ امریہ ہے کہ وہ مسلسل لکھتے رہے اور جب ان کا انتقال ہوا تو بھی وہ ایک مضمون بعنوان ادب برائے بطخ لکھ رہے تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ انہوں نے اپنے اس مضمون کاآغاز توکردیا لیکن اسے ختم کرنے سے قبل خود ہی اس دارِفانی کو الوداع کہہ دیا۔
آج کرشن چندر اس دنیامیں نہیںہیں۔ لیکن ان کے افسانے ، ان کے ناول اور ان کے تحریر کردہ مضامین موجود ہیں۔ کرشن چندر کے محبان اس کامطالعہ کررہے ہیں اور استفادہ بھی حاصل کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے طویل ادبی سفر کے دوران جو کچھ محسوس کیا اسے اپنی تحریروںکے ذریعہ لوگوں کے سامنے رکھ دیااور اب وہی شاہکار کی شکل میں لوگوںکی زندگی میںرومانیت کا عنصر پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی بیداری کا کام بھی انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعہ نہ صرف اردو کی خدمت کی ہے بلکہ سماج کی برائیوں کو بھی اُجاگر کیاہے۔
کرشن چندر کی تصنیفات ہندستانی ادب کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ نئے دورمیںبھی ان کی کہانیاں قاری کوترغیب دینے کا کام انجام دیتی رہیںگی۔ اردو ادب سے کرشن چندر کا تعلق دیکھئے۔ 8مارچ 1977کو اپنے ڈیسک پر انہوں نے ادب برائے بطخ کے عنوان سے ایک طنزیہ مضمون لکھنا شروع کیا۔ ابھی اس مضمون کا ایک لائن نورانی کوبچپن سے ہی پالتو جانوروں کاشوق تھا۔ کبوتر، بندر، رنگ برنگی چڑیاں، بھی مکمل نہ کیاتھا کہ حرکت قلب بند ہوا اور وہ مالک حقیقی سے جاملے۔