تواریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ دُنیا میں ہر دور میں قوموں کی بر بادی کے ذمہ دار اغیار سے زیادہ خود اسی قوم کے بکاؤ ،خود غرض، لالچی، جاہل، کینہ پرور، مکار اور بے غیرت قائدین ہوتے ہیں۔ ملک کشمیر کے حصے میں بھی روزاول سے اسی قماش کے رہبر وپیشوا آئے ۔ ہم لوگوں نے اگر چہ کئی صدیوں تک مغل، افغان، سکھ اور ڈوگرہ حکمرانوں کے تسلط رہ کر غلامانہ اور محکومانہ زندگی بسر کی مگر 1947ئسے آج تک ہندوستان کے زیر تسلط رہ کر کشمیری عوام زندگی کے ہر شعبے میں بر باد ہو کر چلے آرہے ہیںاورا س وقت حقیقت حال یہ ہے کہ کشمیری عوام ہر معنی میں مظلوم ومحکوم و مجبور ہی نہیں بلکہ دانے دانے کو محتاج ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ یہاں ہر روز ہندوستانی سپاہی معصوم و بے گناہ کشمیری مسلمانوں کا خون نا حق حیلے بہانے کرکے بہاتے جارہے ہیں ۔کشمیری عوام کا گناہ کالے قانون افسپا کی نگاہ میں یہ ہے کہ یہ نہتے لوگ اپنے پیدائشی حق کی بازیابی کے لئے اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے ہر نوع کی قربانیاں دیتے ہیں ۔ بدلے میں یہ ہرقسم کی زیادتیاںو ناانصافیاں بشمول ظلم و تشدبرداشت کرتے جا رہے ہیں۔ 1947ء میں ہندوستان نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر ملک کشمیر میں کشمیریوں کی مرضی اور خواہش کے خلاف اپنے پیر جمائے اور تب سے لے کرآج تک کشمیری مسلمانوں کی زندگیوں کے ساتھ سنگینوں کے سائے میںلگاتار کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ اٹل سچ یہ ہے کہ شاید ہی ظالم وجابر قوتیںاہل کشمیر پر مشکیں کسنے میں کامیاب ہوتیں اگر ہمارے ا پنے خود غرض و ظالم، جفاکار اور خاندانی راج پر فریفتہ نام نہاد کشمیری سیاست کار دلی کو اپنا تعاون کرسی کے عوض نہ دیتے اور قتل وخون اور جبر وجور جاری رکھنے مین اس کی پیٹھ نہ ٹھونکتے۔ ایک اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان نام نہاد لیڈروں کے زمانہ ٔاقتدار میں متواتر پچھلے ستر برسوں سے ملک کشمیر کے عوام کو کس طرح کے اقتصادی معاشی، اخلاقی، سیاسی مسائل اور استحصال نے توڑ کر رکھ دیا ہے، وہ ایک الگ الم ناک داستان ہے ۔ ا س بارے میں ذرا ساایک اچکتی نظر ان سرکاری اعداد وشمارپر ڈال دیجئے :۔
ا۔ملک کشمیر میں اس وقت فی کس سالانہ آمدنی اوسط ہندوستانی سے کم ہے۔
۲۔ یہاں خواندگی کی شرح اوسط ہندوستانی سے نیچے ہے۔
۳۔ یہاں آشیاء ضروریہ کو در آمد کرنے کے لئے ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے ہر سال 45؍ ہزار کروڑ روپیہ خرچ کرنا پڑتے ہیں حالانکہ یہاں و سائل کی بہتات ہے۔
۴۔ یہاں بے روزگاری کا شرح تناسب اوسط ہندوستان سے دو گنا سے زائد ہے۔
۵۔ یہاں زراعت، باغبانی، پشو پالن، جنگلات، آبی وسائل، دستکاریاں، قالین بافی ، سیاحت، پشمینہ و توسہ کے شعبوں کو برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
۶۔ یہاں سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں کشمیری مسلمانوں کی نو کریوں میں شرح تناسب مشکل سے ۵۰؍ فیصدی ہے۔ اگر مسلمان کل آبادی کا دو تہائی حصہ ہیں تو پھر ایسا کیوں ہوتاہے؟ کیا مسلمان پڑھے لکھے اور قابل و اہل نہیں ہیں ؟ حد تو یہ ہے کہ کشمیری پنڈتوں کو سرکار ی نوکریاں مخصوص کوٹے اور اسپیشل ریکروٹمنٹ ڈرائیو کے تحت دی جا رہی ہیں ، کیا یہ مسلمانوں کے ساتھ ملازمتوںبھید بھاؤ نہیں ؟ کیا ایسا کرنا ملک کے آئین اور اصول ِقانون وانصاف کے خلاف نہیںہے؟
۷۔ آبی وسائل کی بہتات ہو کر بھی یہاں عوام کو روشنی و پنکھا جھلانے کے لئے معقول بجلی میسر نہیں ہے جب کہ ہندوستانی ادارہ این ایچ پی سی (NHPC) یہاں پر قائم کر کے بجلی گھروں سے پیدا شدہ برقی رو سے ہر سال اربوں روپیہ کما کے لوٹتی ہی اور ہمیں ’’اندھیرا قائم رہے ‘‘ کی صورت حال سے دوچار کیا جاتا ہے ۔ لوٹ مار کے ان حالات میں یہاں انڈسٹریز کا قیام کیسے ہو سکتا ہے؟
۸۔ ملک کشمیر میںبد اخلاقیاں، شراب نوشی، نشیلی ادویات کا استعمال، بدکاری وفحاشی اور بد معاشی کو ترقی دینے کے منصوبے مختلف ناموں سے چلائے جا رہے ہیں۔ شراب نوشی یہاں سیاحتی صنعت کی آڑ میںعام کی جارہی ہے جو کہ ہر برائی کی جڑ ہے۔
۹۔ ریاستی سرکار کے دفاتر میں رشوت ستانیاں ا ور بد عنوانیاں معمول بنائے جاچکی ہیں اور اس وجہ سے عام کشمیری کو انصاف ملنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہ کہاں کی ترقی اور جدیدیت ہے؟
ملک کشمیر میں عوام کا کوئی طبقہ محفوظ نہیں ہے ، گزشتہ دنوںآرمی جوانوں کی طرف سے بیروہ میں ایک نہتے جوان سال ٹیلر اور گاندربل میں چھ پولیس اہل کاروں کی پولیس اسٹیشن میں مارپیٹ کی کارروائیاں اس ضمن میں مشتے نمونے ازخروارے ہیں ۔ یہ اس لئے ہے کہ یہاں مسلط شدہ وردی پوش اہل کارا ور افسر کسی بھی انسانیت سوز حرکت میں ملوث ہوں، ان کی کوئی جواب طلبی ہوتی ہے نہ قانونی مواخذہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے یہاں روز کشمیری عوام کے ساتھ جانوں سے بدترکھلواڑ کیا جاتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں بلکہ نومبر 1947میں بھی ہندوانتہا ء پسندوں نے ڈوگرہ شاہی کی آشیر باد سے جموں خطہ میںپانچ لاکھ سے زائد بے گناہ مسلمانوں کو قتل کر وا دیا گیا ،جب کہ وادیٔ کشمیر میں مسلمانوں نے غیر مسلم آبادی کے پاؤں میں کانٹا تک نہ چبھنے دیا، ان کی عزت وآبرو پر ذرہ بھر کوئی آنچ نہ آنے دی۔اسی قابل تعریف حقیقت سے متاثر ہوکر گاندھی جی کو کشمیر سے زندگی کی امید کرن نظر آئی تھی، حا لاں کہ بعد میں یہ سب مکاری ثابت ہو ئی کیو نکہ کشمیرکا مسئلہ ان کی آنکھوں کے سامنے محلاتی سازشوں کے نتیجے میں پیدا ہوا۔تب سے برابر کشمیری مسلمانوں کو ہر روز نت نئے ظلم و تشدد کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ 1989-90ئسے کشمیریوں نے عوامی تحریک شروع کی تاکہ ہندوستانی سیاست کار و حکمران و ہ وعدے پورے کریں جو وعدے وہ کشمیریوں سے بحوالہ حق خودارادیت بار بار کر چکے ہیں مگر اس کے بجائے کشمیری مسلمانوں کے تئیں ہندوستان کی سابقہ سرکا ر کے نقش قدم پر چل کر موجودہ بھاجپاسرکار تمام ریکارڈ توڑ کر زیادتیاں، نا انصافیاں، ظلم و تشدد، مار دھاڑ، قتل و غارت ، عورتوں کی بے حرمتیاں، معصوم بچے و بچیوں پر گولیوں و پیلٹ گن کے مسلسل استعمال سے جو کچھ ’’نیک نامی ‘‘ کما رہی ہے ،اس پرانسانیت شرمسار اور عالمی ضمیر انگشت بدنداں ہے۔ جب سے ملک کشمیر پر ہندوستانی تسلط قائم ہے ،اس ستر سال طویل مدت میں اس وشال دیش نے غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اخلاقی حرکات اور مکاریوں و زور زبردستیوںکے علاوہ اہل کشمیر کو کیا دیا ؟ عوام کی ترقی و بھلائی کا کوئی کام انجام دیا ؟ کشمیری مسلمانوں کو تہہ و تیغ کرنے کے علاوہ انہیں کوئی ایک پل راحت کی سانس لینے دی ؟ ان کھلے وحشیانہ مظالم کے باوجود ہند نواز کشمیری سیاست کاروں کا دلی دربار کی جی حضوری ا ور پیالہ برداری کے حوالے سے وہ اپنے آپ کو مظلوم کشمیری قوم کا حصہ جتلا سکتے ہیں ؟ کیا کشمیر تا ملک ہند مسلمانوں کے تئیں فسطائیوں اور بلوائیوں کے ہاتھوں ظالمانہ قتل وخون اور مذموم سازشوں کے ردعمل میں ان سیاست کاروں کی رگ ِ حمیت ایک بار بھی پھڑکی؟ اس بے حسی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اپنے لخت جگر، بھائی بہن، ہمسائے ، دوست احباب و غیرہ فی ا لحال مظلومیت وبے کسی اور خون آشامیوں کے شکار نہیں ہوئے ہیں لیکن وہ وقت دور نہیں جب ملک کی مکدر فضا اُن کا جینا بھی حرام کر دے گی ۔ کاش وہ دن آنے سے قبل ہی ہند نوا ز اور اقتدار پرست سیاسی لیڈروں کا ضمیر اور ذہن زندہ ہوجائیں تاکہ وہ اپنی کھلی آنکھوں سے یہ دیکھنے کی توفیق پاسکیں کہ کشمیر حل خود ا ن کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ بہر حال اگر ان کے سنیوں میں دل ، ضمیر میں زندگی کی رمق اور آنکھوں میں بینائی باقی ہے تووقت آچکا ہے جب وہ محض اپنے نامہ ٔاعمال کو درست کر نے کی نیت سے عوام کا مخلصانہ ساتھ دے کر کشمیر حل کے لئے اپنا مثبت اور کلیدی ادا کریں، ورنہ اللہ کی عدالت کے ساتھ ساتھ تاریخ کشمیر بھی انہیںنہ جانے کن نازیبا ناموں سے یاد کر ے گی !!!
رابطہ؛ 9858434696