کہتے ہیں کہ سیاسی لوگ مستقل مزاج نہیں ہوتے بلکہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں ۔یہ لوگ جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ایک بولی بولتے ہیں اور جب اقتدار میں آتے ہیں تو کوئی اور ہی بھاشا بولتے ہیں ۔ ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی لیڈراس ڈبل زبان کے فن میں ماہر ہیں ۔ وزیر اعلیٰ محترمہ محبوبہ مفتی صاحبہ کابہ حیثیت اپو زیشن لیڈر رویہ، اُن کے بیانات اور اُن کی تقاریر سن کر لوگ یہ توقع کرتے تھے کہ محترمہ اقتدار میں آکر کایا پلٹ کریں گی۔ اس وقت اُن کی زبان پر صرف اور صرف نیشنل کانفرنس کی مخالفت رہتی تھی مثلاًیہ کہ ریاست کے تمام بڑے پاور پروجیکٹوں کو نیشنل کانفرنس نے ہی مرکز کے پاس گروی رکھا ،یہ کہ مذکورہ پارٹی نے ہی دفعہ 370کو کمزور کیا ، یہ کہ نیشنل کانفرنس نے ہی یہاں ہندو مسلم و سکھ بھائی چارے کو زک پہنچائی وغیرہ وغیرہ۔ محبوبہ مفتی صاحبہ سے عرض ہے کہ جتنے الزامات آپ نے بہ حیثیت اپوزیشن لیڈر نیشنل کانفرنس کو دئے وہ صد فیصد صحیح ہیں اور اسی وجہ سے اس کے ممبران کی تعداد ایوانِ اسمبلی میں60سے گٹھ کر 15تک پہنچ گئی لیکن سوال یہ ہے جب سے آپ نےBJPکے ساتھ ہاتھ ملایا توکیا آپ نے بھی وہی طرز عمل اختیار نہ کیا جو کبھی نیشنل کانفرنس کا طرہ ٔ امتیاز تھا؟ جموں وکشمیر کا بچہ بچہ جانتاہے نیشنل کانفرنس نے سات دہائیوں تک ریاستی عوام کے لئے کون سے گُل کھلائے مگر آج نیشنل کانفرنس اورپی ڈی پی میں کون سا وجہ ٔ امتیاز بچاہے ؟ محبوبہ جی! خدارا بتایئے ریاست کے لوگ اب کس پارٹی اور کس لیڈر پر بھروسہ کریں جب اس حمام میں سب سیاسی لیڈر ننگے ہیں ؟ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ دہراتے چلتے ہیں کہ پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے آر ایس ایس اور شیوسینا کو کشمیر میں داخل کرایالیکن کوئی بندہ عمر صاحب سے پوچھے جب آپ صاحب نے 2004ء میں مرکزی سطح پربھاجپاکے ساتھ ہاتھ ملاکر مرکزی وزارت کا قلمدان پایا تو کیا اُس وقت BJPاور شیوسینا آر ایس ایس سے منسلک نہیں تھیں؟ ان سوالواں کا شایدہی جواب عمر صاحب کے پاس ہوگا۔ آخر عام جنتا کو کب تک سیاست دان الہ وانگن سمجھتے رہیں گے؟
شاہ نواز میر،کنہ گنڈ بیروہ
9797143854