فہم و فراست
مختار احمد قریشی
آج کی دنیا میں تعلیم کو ترقی اور کامیابی کی کنجی سمجھا جاتا ہے لیکن جب یہ تعلیم کردار سازی کے بغیر دی جائے تو انسان کے اندر صرف علم کا ذخیرہ رہ جاتا ہے، انسانیت اور اخلاقیات کا نور معدوم ہو جاتا ہے۔ محض ڈگریاں حاصل کرنے والے ایسے افراد سماج میں بوجھ بن جاتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں کامیابی صرف مادی ترقی تک محدود ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذہانت اور صلاحیتیں دولت کمانے اور ذاتی مفادات کے تحفظ میں صرف کرتے ہیں مگر معاشرتی خدمت، قربانی، ایثار اور دیانت داری جیسے اوصاف ان کی زندگی سے غائب ہوتے ہیں۔ اس طرح کے افراد چاہے بڑے عہدوں پر کیوں نہ پہنچ جائیں، وہ معاشرے کو حقیقی سکون، انصاف اور خوشحالی فراہم نہیں کر سکتے بلکہ ان کی تعلیم خود معاشرتی زوال کا سبب بن جاتی ہے۔
کردار سازی کے بغیر تعلیم کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے۔ اگر کسی کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم ہے لیکن کردار کی پختگی نہیں، تو وہ اپنی ایجادات انسانیت کی بھلائی کے بجائے تباہی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اسی طرح ایک وکیل، ڈاکٹر، انجینئر یا استاد اگر دیانت داری اور اخلاق سے عاری ہو تو وہ اپنے پیشے کو محض کمائی کا ذریعہ بنا لے گا اور دوسروں کے ساتھ انصاف کرنے کے بجائے دھوکہ دہی، مفاد پرستی اور بدعنوانی میں مبتلا ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشروں میں تعلیمی ترقی کے باوجود بدعنوانی، جرائم اور سماجی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں کیونکہ تعلیم کے ساتھ تربیت اور اخلاقی شعور کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جب کردار سازی تعلیم کے ساتھ شامل نہ ہو تو نتیجہ ایک بے مقصد اور خود غرض معاشرہ ہوتا ہے جس میں اعتماد اور امن کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات اور ہماری تہذیب ہمیشہ تعلیم کو کردار سازی کے ساتھ جوڑنے پر زور دیتی آئی ہے، کیونکہ حقیقی تعلیم وہی ہے جو انسان کو اچھا شہری، نیک انسان اور سماج کا کارآمد فرد بنائے۔ اگر کردار سازی کو تعلیم کا لازمی جزو نہ بنایا گیا تو آئندہ نسلیں محض مشینوں کی طرح سوچنے اور کمانے والی تو ہوں گی مگر احساس، محبت اور انسانیت سے خالی رہیں گی۔ یہی وہ لمحہ ہے جو سماج کے زوال کی بنیاد بنتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم تعلیم کے ساتھ تربیت کو بھی اولین ترجیح دیں تاکہ ہماری نئی نسل نہ صرف علم میں آگے بڑھے بلکہ کردار میں بھی مثالی بنے۔ کردار کے بغیر تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جو انسانیت کو مٹا دیتا ہے، جبکہ کردار کے ساتھ تعلیم روشنی کا وہ چراغ ہے جو نسل در نسل معاشرے کو امن، سکون اور خوشحالی عطا کرتا ہے۔
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہی قومیں کامیاب ہوئیں جنہوں نے تعلیم کے ساتھ کردار سازی کو لازم پکڑا۔ لیکن جن اقوام نے محض علم اور سائنس پر توجہ دی اور اخلاق و کردار کو بھلا دیا، وہ دنیا میں بظاہر طاقتور تو ہوئیں مگر اندرونی طور پر بکھر گئیں۔ یہی حال آج کے دور کا ہے، جب تعلیم یافتہ نوجوان والدین اور اساتذہ کی عزت نہیں کرتے، جب پڑھا لکھا انسان معاشرتی اقدار کو روند ڈالتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی تعلیم کردار سے خالی ہے۔ ایسی تعلیم انسان کو روبوٹ بنا دیتی ہے جس کے پاس سوچ تو ہے مگر احساس نہیں۔
کردار سازی کے بغیر تعلیم کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ نسلِ نو میں مقصدیت ختم ہو جاتی ہے۔ جب طلبہ کو یہ باور نہ کرایا جائے کہ تعلیم کا اصل مقصد اچھا انسان بننا اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے تو وہ تعلیم کو محض مقابلہ بازی، ڈگریوں اور ملازمت کے حصول تک محدود کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً طلبہ کے درمیان حسد، مقابلہ برتری، دباؤ اور ذہنی تناؤ بڑھتا ہے۔ وہ دوسروں کو پیچھے چھوڑنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ اس رویے سے نہ صرف فرد کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے بلکہ معاشرے میں بھی منفی رجحانات پروان چڑھتے ہیں۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ تعلیم کے بغیر کردار ناقص ہوتا ہے لیکن کردار کے بغیر تعلیم تباہی ہے۔ اگر ایک ڈاکٹر اپنی ڈگری کے باوجود مریضوں کے ساتھ ہمدردی نہ کرے تو وہ جان بچانے کے بجائے جان لینے کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر ایک جج انصاف کو پسِ پشت ڈال دے تو وہ معاشرے کو عدل کے بجائے ظلم کا تحفہ دے گا۔ اگر ایک استاد صرف کتابیں پڑھا دے مگر طلبہ کے دلوں میں ایمانداری اور انسانیت کا جذبہ پیدا نہ کرے تو وہ اپنی ذمہ داری سے کوسوں دور ہے۔ اس لیے تعلیم کا حقیقی حسن تب ہے جب وہ کردار کے زیور سے آراستہ ہو۔ بصورتِ دیگر تعلیم روشنی نہیں بلکہ اندھیرا ہے۔
کردار سازی کے بغیر تعلیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ انسان کو خود غرض بنا دیتی ہے۔ ایک ایسا شخص جو اعلیٰ ڈگریوں اور بڑے عہدوں تک پہنچ جاتا ہے لیکن اس میں ہمدردی، ایثار اور قربانی کا جذبہ نہیں ہوتا، وہ اپنی کامیابی صرف اپنے لیے چاہتا ہے، دوسروں کی بھلائی اس کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس حقیقی تعلیم انسان کو وسیع النظر بناتی ہے، دوسروں کی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہے۔ جب یہ پہلو ختم ہو جائے تو تعلیم یافتہ انسان اپنی ذات کے گرد قید ہو کر رہ جاتا ہے اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
کردار سازی کے بغیر تعلیم میں یہ خطرہ بھی موجود ہوتا ہے کہ نئی نسل رہنمائی کے بجائے گمراہی کا شکار ہو جائے۔ اگر اساتذہ اور والدین بچوں کو صرف نصاب پڑھانے پر زور دیں اور اخلاقی اقدار کو نظر انداز کر دیں تو بچے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو سماج کی بھلائی کے بجائے ذاتی خواہشات پوری کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کئی تعلیم یافتہ افراد معاشرتی برائیوں میں دوسروں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس کردار کا وہ چراغ نہیں ہوتا جو ان کی رہنمائی کرے۔
کردار سازی کے بغیر تعلیم کا نقصان صرف فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک بدعنوان سیاست دان، ایک غیر ذمہ دار استاد، ایک مفاد پرست ڈاکٹر یا ایک ظالم افسر صرف اپنی ذات کو نہیں بلکہ پورے سماج کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسے افراد قوم کی بنیادیں کمزور کر دیتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے بگاڑ کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جب تعلیم کے ساتھ کردار سازی ہو تو معاشرہ عدل و انصاف پر قائم ہوتا ہے، ادارے مضبوط ہوتے ہیں اور افراد باہمی اعتماد کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ تعلیم بغیر کردار کے ایک ایسی عمارت ہے جس کی بنیاد کھوکھلی ہو، جو کبھی بھی زمین بوس ہو سکتی ہے۔
(کالم نگار پیشہ سےایک اُستاد ہیں ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)
رابطہ۔8082403001
[email protected]