رحیم رہبر
عارف آج بھی اپنے بزرگ بیمار باپ کو ’اولڈایچ ہوٗم‘ سے واپس گھر لے آیا۔ یہ جان کر بھی کہ اُس کی بیوی فاطمہ آج اُس سے بہت خفا ہوگی۔ اُس نے بزرگ باپ کو کمرے میں بٹھایا۔ مجبور باپ بیٹے کی لاچاری کو شدت سے محسوس کررہا تھا ۔۔۔۔۔!
’’بیٹا! مُجھے واپس کیوں لائے ہو؟ ۔۔۔ میں وہیں پر ٹھیک ہوں‘‘۔ بیمار باپ نے اپنے بیٹے عارف سے کہا۔
باپ کی فریاد نے بیٹے میں کپکپی سی پیدا کی۔ عارف باپ کو کچھ کہے بِنا کمرے سے باہر لان میں آگیا۔ وہ باپ کی بے بسی اور لاچاری کو دیکھ کر سسکیاں لے رہا تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں لان میں چہل قدمی کررہا تھا۔ مکان کے دلان سے فاطمہ کی نظر اپنے بیمار سُسر پر پڑی۔ وہ غصے میں اپنے شوہر سے مخاطب ہوئی اور زخمی شیر کی طرح غُرّائی۔
’’تُم۔۔۔تُم اس بوڑھے کو آج بھی واپس لے آئے ہو؟‘‘
عارف کے پاس بیوی کو کہنے کے لئے بہت کچھ تھا پر وہ احساسِ فرض کا درد اور اپنے بوڑھے باپ کا کرب اندر ہی اندر سہتا رہا۔ اُس نے حسرت بھری نگاہوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔
’’چُپ کیوں ہوئے ہو۔۔۔ میرے سوال کا جواب دو‘‘۔
’’یہ میرے والد ہیں۔۔۔ میں اس کا بیٹا ہوں۔۔۔ مُجھ پر میرے باپ کے احسان ہیں۔ باپ کی دیکھ بھال کرنا میرا فرض ہے۔ میں اِن حالات میں اپنے باپ کو کسی اور کے حوالے کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ عارف نے اپنی بیوی سے کہا۔
’’باپ ہے تو کیا ہوا۔۔۔ تُم تو میرے شوہر ہو۔ تُم کو میرا ماننا پڑے گا،میری شادی تمہارے ساتھ ہوئی ہے تمہارے باپ کے ساتھ نہیں۔ میں تمہارے باپ کی نوکرانی نہیں ہوں‘‘۔ فاطمہ غصے میں چِلائی۔
’’میں دیکھ لُوں گا‘‘۔ عاف نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
’’اس سے قبل کہ میں میکے چلے جائوں اپنے اس بوڑھے باپ کو واپس ’اولڈ ایچ ہوم‘ میں لے جائو۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔!‘‘
زبان دراز بیوی کے سامنے عارف بے بس تھا۔ اُس کی سوچ کے سمندر میں طغیانی آگئی۔ اس کے احساسات کی دنیا میں ہلچل سی مچ گئی۔ عارف کو اپنے ہونے نے ڈبودیا۔
’’جب میرا باپ جوان تھا تب اُس نے اپنی خوشیاں مجھ پر قربان کیں۔ اُس نے مزدوری کی لیکن مجھے پڑھایا۔ میری ماں کے انتقال کے بعد اُس نے مجھے کبھی بھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ میرے باپ نے مجھے آج تک کبھی بھی رونے نہیں دیا۔ خود بھوکا سوتا تھا لیکن مجھے کِھلاتا تھا۔ آج تک اُس نے کبھی بھی مجھے پر احسان نہیں جتلائے۔ آج میرا باپ بوڑھا ہے۔ اس کو میری ضرورت ہے۔۔۔ میں ان حالات میں اپنے باپ کو کیسے خود سے جدا کر سکتا ہوں۔ کل مجھے اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ میں تب اللہ کو کیا جواب دوں گا جب اللہ مجھے میرے باپ کے بارے میں پوچھے گا۔ یہ کیسا امتحان ہے!؟‘‘۔
’’ارّے۔۔۔! کیا ہوا۔۔۔ کس سوچ میں ڈوب گئے‘‘۔ فاطمہ چِلائی۔
’’میں۔۔۔ ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں یہاں ہوں۔۔۔ تُم ۔۔۔ تمہارے پاس۔۔۔ ہاں تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔۔۔۔ لان میں۔۔۔ مجھے درد ہے۔۔‘‘
’’درد۔۔۔!؟‘‘ فاطمہ نے تعجب سے پوچھا۔
’’میرا زخم رِس رہا ہے۔‘‘ عارف نے جواب دیا۔
’’زخم۔۔۔!؟‘‘ فاطمہ نے تعجب پوچھا۔
’’میرے احساس کا زخم رِس رہا ہے۔ یہ گھائو ابھی ہرا ہے۔ میں اس گھائو کا مرہم تلاش کررہا ہوں‘‘۔
’’ڈائیلاگ بولنا بند کرو۔۔۔ کل اس بوڑھے کو یہاں سے لے چلو۔‘‘ فاطمہ نے غصے میں کہا۔
’’مجھے باپ کو ’اولڈ ایچ ہوم‘ لے جانے میں کوئی دِقت نہیں ہے۔ لیکن ایک مسئلہ ہے۔‘‘
’’کیا ۔۔۔ کون سا مسئلہ !؟‘‘ فاطمہ نے حیرانگی میں پوچھا۔
’’اولڈ ایج ہوم کی نگہداش کے لئے ایک خوبصورت جوان دوشیزہ کو تعینات کیا گیاہے۔ میں اُس دوشیزہ کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں۔ تاکہ وہ میرے باپ کی خوب خاطر داری کرے۔‘‘
’’تم دوسری شادی کرنا چاہتے ہو؟‘‘ فاطمہ غصے سے لال ہوئی۔
’’ہاں۔۔۔ہاں ہاں فاطمہ یہ میری مجبور ہے‘‘۔ عارف نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’تمہارا باپ کہیں نہیں جائے گا۔۔۔ وہ اسی گھر میں رہے گا ہمارے ساتھ۔۔۔ میں اس کی بہو ہوں‘‘۔ دفعتاً زخمی شیرنی بھوکی بکری بن گئی۔ فاطمہ اپنے شوہر کے ہمراہ اُس کمرے میں چلی گئی جہاں عارف کا باپ سویا ہوا تھا۔ فاطمہ نے اس کو پیار سے جگانے کی کوشش کی۔
’’اٹھو۔۔۔اٹھو بابا۔۔ میں تمہاری بہو ہوں فاطمہ۔۔۔ مجھے معاف کرو بابا۔۔۔ تم ۔۔۔ ہاں بابا تم اب کہیں نہیں جائو گے۔۔۔ اُٹھو بابا۔‘‘
لیکن بوڑھا باپ کب کا انتقال کر چکا تھا!!
���
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام