Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

کرتارپور کوریڈور

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 16, 2020 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
17 Min Read
SHARE
آج تقریباً72 سال ہوگئے لیکن اب بھی مجھے یاد ہیں وہ دن بچپن کے جب سکینہ اور میں محلے کے دیگر بچوں کے ساتھ گھر کے پاس والے میدان میں ’پٹھو گرم‘ کھیلا کرتے تھے۔ سکینہ یاد آتے ہی جسم میں عجیب سی ترنگ پیدا ہوتی ہے۔ بچپن میں اس کے ساتھ کھیلنے میں، شرارتیں کرنے اور ہمارے گاؤں کرتار پورکے نزدیکی باغوں سے چوری کرنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ ان شرارتوں میں سکینہ کا کئی بار گرنا اور گر کر چوٹ لگنا، چوٹ لگ کر رونا ،رو کر مجھ پہ چلانا اور میرا اسے منانا، یہ ساری چیزیں جیسے کل کی باتیں ہیں۔ ہمارے ساتھ قاسم، بلوندر، گوری، زیبا ،رحمان وغیرہ بھی کھیلا کرتے تھے۔ لیکن سب سے زیادہ سکینہ اور میری بنتی تھی ۔ہم صبح اسکول ایک ساتھ جاتے تھے اور چار بجے واپس بھی ایک ساتھ آتے تھے۔ اسکول میں گلفام اکثر مجھ سے لڑا کرتا تھا اور مجھے چڑھا کر کہتا تھا،"اوے کرتار پور کے کرتارے، میں تیری ترکاری بنا دوں گا۔" میں اس سے ڈرتا تھا، لیکن سکینہ ہمیشہ میرے بدلے اس کے ساتھ جھگڑنے بیٹھتی تھی ۔چار بجے اسکول سے آکر کچھ دیر پڑھائی کرنے کے بعد اکثر پانچ بجے سے محلے کے سبھی بچے روز میدان میں کھیلا کرتے تھے ،جس میں میں اور سکینہ ہمیشہ ایک ہی ٹیم میں ہوتے تھے۔ لیکن صرف پِٹھوگرم ایک ایسا کھیل تھا جو کھیلتے وقت ہم الگ الگ ٹیموں میں رہا کرتے تھے۔
میں پٹھو کی اینٹیں اور ٹھیکرے گیند مار کے گراتا تھا اور وہ گیند مجھ پہ مار کر مجھے آؤٹ کرتی تھی۔ پھر وہ گیند سے ٹھیکرے گراکر بھاگتی تھی اور میں اسے گیند مار کر آؤٹ کرتا تھا۔بچپن میں ہمارے محلے کی خوشحال زندگی اسی طرح گزر رہی تھی، کہ اچانک کچھ عجیب سے حالات گاؤں میں شروع ہونے لگے ۔ہم بچے تھے ،سیانے اور سیاسی لوگوں کی دنیا سے بے خبر۔ بس یوں لگ رہا تھا کہ گاؤ میں سبھی لوگ پریشان ہیں ۔
ایک دن میں نے گھر میں پتا جی سے سنا تھا کہ آزادی آئے گی۔ ماں نے جب پوچھا کب آئے گی؟ تو پتا جی بولے بہت جلد۔ اس دن میں بڑا خوش تھا کہ ہمارے گھر آزادی آئے گی اور گھر میں مٹھائیاں اور اچھے اچھے پکوان بنیں گے۔پھر میںبھی ساری مٹھایاں کھاؤں گا اور سکینہ کو بھی کھلاؤں گا۔ اگلے دن میں نے سکینہ کو بھی کہا کہ میں تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھلاؤںگا ،کیونکہ ہمارے گھر آزادی آئے گی۔ وہ زور زور سے ہنسنے لگی اور بولی"پگلے وہ آپ کے گھر نہیں ہمارے گھرآئے گی۔ میرے ابا جان نے مجھے آج ہی کہا ہے۔ "تب میں اس سے بحث کرنے لگا کہ آپ کے ابا جھوٹ بول رہے ہوں گے۔ میری اس بات سے وہ ناراض ہو کر بیٹھ گئی اور پھر میں اسے اس دن بھی منانے لگا۔ پھر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ جس کے گھر بھی آئے گی، اچھی اچھی چیز یں دونوں مل جل کے کھائیں گے۔
ہم دونوں اپنے اپنے گھروں میں آزادی کا انتظار کرتے رہے ،لیکن آزادی نہ ان کے گھر آ رہی تھی اور نہ ہمارے۔ پر ہاں! کچھ تو گاؤں میں ضرور آرہا تھا، جس سے گاؤں کے سبھی لوگ پریشان لگ رہے تھے ۔لیکن ہم پھر بھی روز شام کو میدان میں اپنا کھیل کھیلتے رہے۔ ایک دن صبح اُٹھ کے ہم جب سکول جانے کی تیاری کرنے لگے تو پتا جی نے مجھے سکول جانے سے منع کیا۔کہا "آج سکول مت جاؤ، باہرحالات خراب ہیں۔"اس دن میں خوش بھی ہوا اور حیران بھی ! خوش اس لئے کہ مجھے چھٹی مل گئی اورحیران اس لیے کہ جب کبھی میں سکول نہ جانے کی ضد کرتا تھا تو پتا جی ڈانٹ کے سکول بھیجتے تھے۔ آج وہ خود مجھے سکول نہ جانے کے لئے کہہ رہے ہیں!! خیر جو بھی تھا میرے لیے تو چھٹی کی خوشی تھی۔ شام کو جب میں کھیلنے کے لیے گھر سے نکلا، تو پتا جی نے مجھے پھر باہر جانے سے روکا۔ اس بار میں خوش نہیں بہت دکھی ہوا۔آخر ایسا کیا ہوا جو مجھے گھر سے باہر نکلنے نہیںدیتے۔
پتا جی بھی میرا مایوس چہرا دیکھ کر بہت دکھی ہوئے اور کہنے لگے: "باہر حالات بہت خراب ہیں، شاید ہمیں یہاں سے جانا ہوگا۔"
میں نے پوچھا کہاں جانا ہوگا؟
پتا جی بولے۔" وہ مجھے بھی نہیں پتہ! بس جانا ہوگا۔"
مجھے اپنے پتاجی کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی، مجھے بس باہر سکینہ کے ساتھ کھیلنے جانا تھا۔اس لیے میں بہت اداس ہوا۔ سکینہ بھی شاید اداس ہوگی۔ وہ بھی شاید گھر سے باہر نہیں نکلی ہوگی۔ ان کے گھر والوں کو بھی شاید کہیں جانا ہوگا۔۔۔
اگلے دن جوں ہی صبح میں نیند سے جاگا تو دیکھا چاروں طرف شور شرابا تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ پورا گاؤں ہمارا پِٹھوگرم کھیل کھیل رہا ہے۔ میں بڑا خوش ہوا۔ جلدی سے ماں کے پاس دوڑ کر گیا اور ماں سے پوچھا،"ماں باہر اتنا شور کیوں ہے ۔"
ماں بولی "آزادی آگئی ،اس لیے جشن ہورہے ہیں۔"
آزادی !! یہ سن کے میں بہت خوش ہوا۔ میں نے ماں سے پوچھا ہمارے گھر ہی آرہی ہیں نایا سکینہ کے گھر ؟
ماں ہنس کر بولی" سب کے گھر آئے گی۔"
میں سوچنے لگاکہ یہ آزادی کون ہے ،جو سب کے گھر جائے گی اور اچھے اچھے پکوان کھائے گی؟ خیر چلو!جہاں بھی جائے گی مجھے اور سکینہ کو پھراچھی اچھی چیزیں کھانے کو ملیں گی ۔
اس دن بھی ہم سکول نہیں گئے ۔کہا گیا کہ پورے گاؤں میں چھٹی کردی گئی ہے۔ میں کافی دیر تک دروازے پر کھڑا رہا۔سوچا آزادی آئے گی تو میں اسے خود اندر لے آؤں گالیکن جب میں انتظار کرتے کرتے تھک گیا اور آزادی نہیں آئی ،تو میں نے سوچا ضرور سکینہ کے گھر گئی ہوگی۔ میں دوڑتے دوڑتے سکینہ کے گھر کی طرف گیا اور سوچا وہیں آزادی کو دیکھ لوں گا اورہاتھ پکڑ کر اسے اپنے گھر لے آؤں گا۔ لیکن دیکھا سکینہ بھی گھر کی دہلیز پر کھڑی تھی! آزادی ابھی ان کے گھر بھی نہیں آئی تھی۔ ہم دونوں اداس ہو کر بیٹھ گئے ۔
میں سکینہ سے کہنے لگا ،"شاید پہلے رحمان کے گھر گئی ہوگی۔ اس کا باپ بہت امیر ہے ۔"
سکینہ بولی "نہیں گوری کا باپ سپیکر پہ بولتا رہتا ہے نا، اس لیے وہ ضرور ان کے گھر گئی ہوگی۔"
پھرہم نے سوچا جہاں بھی گئی ہوگی ،ہم ابھی اپنا کھیل کھیلنے جائیں گے۔کئی دن تک ہم صبح انتظار کرتے رہے، لیکن آزادی نہ سکینہ کے گھر آئی اور نہ ہمارے ۔ پھر تھک کر شام کو ہم اپنا کھیل کھیلنے جاتے تھے۔
ایک دن شام کو رحمان، سکینہ ،گوری، قاصم، بلوندر اور میں پِٹھو گرم کھیل رہے تھے۔ پہلے ہماری ٹیم کی باری تھی۔ میں نے اینٹوں اور ٹھیکروں پر گیند مار کر سارے ٹھیکرے گِرا دیئے۔ سکینہ گیند کے پیچھے دوڑی ۔میں پِٹھو بٹورنے لگا کے سکینہ کی گیند آکے میرے کندھے پر لگی اور میں آؤٹ ہوگیا۔ اس کے بعد سکینہ کی باری تھی ۔سکینہ ٹھیکر ے گرا کر جب پِٹھو بٹورنے لگی، میں گیند کے پیچھے دوڑا۔ گیند ہاتھ میں اٹھا کر سکینہ کی طرف دوڑنے لگا تاکہ اسے گیند مار کر آؤٹ کردوں۔اسی بیچ کئی لوگ جھگڑا کرتے ہوئے میدان میں پہنچ گئے ۔ان سب لوگوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور تلواریں تھیں۔ ہم سبھی ڈر گئے۔ کہیں سے میرے پتاجی آگئے اور مجھے اُٹھا کر گھر کے اندر پہنچا دیا۔پِٹھو گرم کی گیند میرے ہاتھ میں ہی رہ گئی۔
ماں رسوئی سے باہر آئی اور پتا جی اُسے کہنے لگے ۔ "سارا ضروری سامان باندھ لو، ہمیں یہاں سے جانا ہوگا۔"
ماں بہت پریشان ہوئی اور رونے لگی۔
پتا جی نے کہا ، "گاؤں کے چوراہے پر آٹھ لوگوں کو مارا گیا۔ اس لئے ہمیں یہاں سے جلدی نکلنا ہوگا۔"
ماں ضروری سامان باندھنے لگی اور میں گیند کو ہاتھ میں لئے یہ سوچنے لگا کہ کہیں ان آٹھ لوگوں میں آزادی کو بھی چوراہے پر نہ مارا گیا ہو، اس لیے ابھی تک نہ سکینہ کے گھر آئی اورنہ ہمارے گھر۔ پتا جی تب تک کہیں سے بیل گاڑی لے آئے اوراسی رات میں ماں اور پتا جی بیل گاڑی پر سوار ہو کے گاؤں کرتارپور سے نکل گئے اور پٹھو گرم کی گیند میرے ہاتھ میں ہی رہ گئی۔
میں نے پتا جی سے پوچھا ،"پتا جی، ہمیں کہاں جانا ہے۔"
پتا جی بولے ،"بیٹا جہاں قسمت لے چلے۔"
آدھی رات تک ہم چلتے رہے، پھر مجھے نیند آگئی۔ اگلے دن خود کو کسی نئی دنیا، نئے لوگوں کے بیچ میں پایا،جہاں لوگ مکانوں میں نہیں خیموں میں رہا کرتے تھے۔ نہ وہاں سکینہ تھی نہ رحمان، بلوندر تھا نہ گوری۔ میں اُن میں سے اکیلا تھا نئے بچوں کے بیچ۔ ساتھ تھا کچھ تو وہ گیند جو سکینہ کو مارنی باقی تھی۔ بہت رویا سکینہ کو یاد کرکے۔ کیا سکینہ بھی روتی ہوگی مجھے یاد کرکے؟ پتہ نہیں وہ اور ان کے ابا جی کہاں گئے ہوں گے۔ کیا وہ بھی اسی طرح کہیں خیموں میں ہی ہوں گے؟۔۔ دن گزرتے گئے، ہمیں کسی دوسری جگہ بھیجا گیا جو میرے لئے انجان تھی۔۔۔
ماں سے میں نے ایک دن پوچھا تھا کہ سکینہ کہاں ہے۔
وہ بولی،" دوبارہ ان لوگوں کا نام مت لینا ۔وہ سب مر گئے ہمارے لئے ۔"
میں سوچنے لگاکیا پھر چوراہے پر اس دن آزادی کے ساتھ ساتھ سکینہ کو بھی مارا گیا !!
میں رونے لگا اور اس دن میں سکینہ کو یاد کرکے شام تک روتا رہا ۔ سوچنے لگا سکینہ یہاں ہوتی تو یہ گیند اس کو مار کر ابھی آؤٹ کرتا لیکن وہ ادھورا کھیل ادھورا ہی رہا۔
آج 62 سال ہوگئے۔ آج بھی بچپن کے وہ دن یاد کرکے آنکھوں میں آنسو آتے ہیں۔لیکن آج ۔۔آج پہلی بار اتنے سالوں بعد کرتارپور نام سن کر دل میں خوشی کی لہردوڑنے لگی ۔سنا ہے کرتار پور کارِڈور کھولا جائے گا اور اِس پارکے سکھوں کو اُس پار کے گرودوارہ میں جانے کی اجازت ہوگی ۔ اُس پار جانے کا بہت من کرتا ہے۔ سوچتا ہوںذرا دیکھ آؤں محلے کا وہ میدان اور میدان کے پاس وہ پیڑ جہاں میں اور سکینہ بیٹھا کرتے تھے۔ اور پیڑ کے نزدیک بنا ہوا وہ پہلا ہی گھر جو سکینہ کا تھا۔سکینہ !پتا نہیں کہاں ہو گئی۔ کہیں اس دن چوراہے پہ آزادی کے ساتھ اس کو بھی نہ مارا گیا ہو۔
آج کرتار پور کے لئے میں بھی روانہ ہو۔ اُس پار کی دنیا دیکھنے کے لئے بہت بے قرار ہوں ۔اُس پار پہنچ کر پہلے گردوارہ صاحب گئے ۔ماتھا ٹیکا اور جپ جی صاحب کاپاٹھ کیا۔ پھر کچھ دیر بعد گردوارے سے تھوڑی دوٗر  اپنے اُس محلے کی طرف گیا،جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ محلہ تو پورا بدل گیا ہے۔ کوئی خاص پرانی نشانی باقی نہیں، سوائے اس میدان اور پیڑ کے۔ اس میدان میں آج اتنے سالوں بعد قدم رکھ کے دل کو بہت سکون ملا۔ آج بھی اس میدان میںاسی جو ش سے بچے پٹھو گرم کی جگہ فٹ بال اور والی بال کھیل رہے ہیں۔
آآآہ۔۔۔ مجھے اپنا سارا بچپن یاد آگیا۔۔۔ اور اپنا وہ آخری ادھورا کھیل ۔۔۔
میدان سے تھوڑا آگے اس پیڑ کی طرف گیا جہاں سکینہ اور میں بیٹھا کرتے تھے ۔میری طرح وہ پیڑ بھی ا ب کافی پھیل گیا ہے ۔اس پیڑ کے بغل میں ایک نیا مکان بنا ہوا دیکھا۔ ٹھیک سکینہ کے مکان کی جگہ اور مکان کے آنگن میں ایک بوڑھی عورت سوئیٹر بنُ رہی تھی ۔میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیلی کیونکہ بچپن میں سکینہ کہتی تھی "میں بڑی ہو کر ماں کی طرح آپ کے لئے  سوئیٹر بُنوں گی۔"آنگن میں بیٹھی وہ عورت سفید بالوں میں بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔میں تھوڑا نزدیک گیا اور وہ اسی وقت کسی کو آواز دینے لگی۔" احمد۔۔ احمد۔۔۔"
یہ آواز سن کے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ یہ تو وہ ۔۔ وہی بولنے کا انداز ہے جو سکینہ کا تھا!!
کیا یہ سچ مچ سکینہ ہے!! مجھے خود یقین نہیں ہو رہا ۔
پاس آکر دیکھا۔۔چہرے کی وہ رنگت سکینہ کی ہی تھی۔ میں اس کے اور قریب آیا۔
جوں ہی اس نے مجھے دیکھا وہ پوچھنے لگی۔” ہاں جی آپ کون؟ کس سے ملنا ہے ؟
میرے حلق سے کوئی بھی آواز باہر نہ آ سکی۔ کیونکہ بچپن کا یہ’ کرتا رے‘ اب لمبی سفید داڑھی، سر پر پگ اور ڈھیلا ڈھالا ’کرتارسنگھ‘ بن گیا تھا،جس کو سکینہ بالکل بھی پہچان نہ پائی ۔
"جی آپ کو کس سے ملنا ہے ؟"یہ کہتے ہوئے وہ کھڑی ہونے لگی اور کھڑے ہوتے ہوئے اس کی گود سے اون کے دھاگے کا گولہ سیدھے میری طرف آگیا۔
وہ کھڑی ہو کر پھر سے پوچھنے لگی،"اجی بتائے کس سے کام ہے ؟"
میں مسکرایا اور میں نے قریب پڑا اون کا گولہ ہاتھ میں اٹھا یا جس کا دھاگا اس کی سوئیٹر کے ساتھ جڑا تھا۔
 وہ مجھے حیران آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔
میں نے اون کا گولہ دھیرے سے اس کی طرف پھینکا جو ہلکے سے اس کی ٹانگ پر جا لگا، اور میں نے کہا، " آؤٹ"۔۔۔
اتنا کہہ کر میں واپس مڑ گیا ،اوروہ دیکھتی رہی۔۔ بس دیکھتی ہی رہی۔۔ تب تک۔۔ جب تک میں اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔
شاید وہ کچھ کہتی ضرور۔۔ لیکن اس کے سامنے اب کرتارے نہیں کرتار سنگھ تھا ،جو رسموں، رواجوں اور سرحدوں کے کہیں پار رہتا تھا،جس کے بارے میں سکینہ کچھ جانتی ہی نہیں تھی ۔
جانتی بھی کیسے ، کیونکہ آزادی ابھی تک نہ اس کے گھر آئی ہے اور نہ میرے۔۔۔
���
لیکچرر، این ایل آر سی، پنجاب یونیورسٹی پٹیالہ
موبائل نمبر؛9796715300
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

وادی کشمیر میں 10 مقامات پر سی آئی کے کے چھاپے
تازہ ترین
شری امرناتھ یاترا: چھ ہزار سے زیادہ یاتریوں کا 17 واں قافلہ روانہ
تازہ ترین
ہندوستان میںکاروباری اختراع کاروباری رہنماؤں اور کل کے مفکرین کے کندھوں پر :منوج سنہا | جموں و کشمیر تعلیم اور اختراع کا بڑا مرکز بن کر ابھرا لیفٹیننٹ گورنر کا آئی آئی ایم جموں میں اورینٹیشن پروگرام کے اختتامی اجلاس سے خطاب
جموں
ڈی کے جی سڑک پر لینڈ سلائیڈنگ، گاڑیوں کی آمد و رفت متاثر
پیر پنچال

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ماسٹر جی کہانی

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ضد کا سفر کہانی

July 12, 2025

وہ میں ہی ہوں…! افسانہ

July 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?