بشارت بشیرؔ
کسی بھی انسانی معاشرے کے اخلاق و احساس و ضمیر پر جب مردنی چھاجاتی ہے تو تباہی و ہلاکت اُس کا مقدر بن جاتی ہے یہی فطرت کا ازل سے دستور رہا ہے اور یہی نوشتۂ دیوار! اسلام جیسے دین رحمت نے انہی اخلاق سے انسان بالخصوص مسلمان کو مزین کرنا چاہا ہے اور اس زیور سے وہ جب بھی آراستہ ہوا تو چہار دانگ عالم میں اس کا ڈنکا بجا اور جب اُس کے قدم ڈگمگائے تو زوال نے غیر محسوس طریقہ پر اُسے گھیر لیا۔ نتیجہ چودھویں کے چاند کی مانند بساط حیات پر نظر آرہا ہے۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ کی شہرہ آفاق مقدمہ میں یہی بات بتائی ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے۔جبکہ بُرے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے ، ملحوظ نگاہ رہے کہ اخلاقی انحطاط کی وجہ انسان کے اپنے دائرہ کار سے باہر آنا ہے اور حصول مال و دولت کے لئے جب حلال و حرام کی تمیز مٹ جائے حصول ِزر جب مقصد زندگی بن جائے تو اخلاقی اقدار سے چشم پوشی کرنے لگتا ہے۔ اس کے اخلاقی وجود کو روگ لگ جاتا ہے اخلاق واحساس کی یہ بیماری اسے ہلاکت کی جانب دھکیلتی ہے، خاص طور کسی بھی انسانی معاشرہ کے نوجواں جن پر اقوام و ملل کی نگاہیں اُمیدوں سے ٹکی رہتی ہیں، جب وہ مال و منال کی دوڑ میں حق و ناحق کو صرف نظر کرتے ہوئے سرپٹ دوڑ لگائیں تو ہوس ِزر کا یہ نشہ جو اُن کے سر پر سوار رہتا ہے اس معاشرہ کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا کر زمین بوس کردیتا ہے ۔ عصر حاضر میں اس پیسے کے حصول کے لئے انسان جو کچھ بھی کرتا ہے ۔ اُن میں سے ایک ’’پیشہ‘‘ اُس کا پرینک(PRANK) بن گیا ہے۔ حیرت میں ڈالنے والے امور کی انجام دہی یا انسان جس کا م سے ایک دم اپنے حساس ردِ عمل مثلاً غصہ ، نفرت ، ڈر اور تکلیف کا اظہار کرے پرینک کہلاتا ہے، یہ ایک عملی شرارت ہے یہ کبھی ایسی آگ لگائے دیتی ہے، جو بجھانے سے بہت عرصہ تک بجھنے کا نام نہیں لیتی ، گویہ عمل بہت پرانا ہے لیکن اب اُس نے ہلاکت خیز اور بھیانک شکل اختیار کی ہے۔ اس مرض میں کبھی امریکہ کے سابق صدر بنجمن فرینکلن بھی مبتلا رہے، ابراہیم لنکن بھی اس تعلق سے معروف رہا، ایڈیسن جب شہرت کی بلندیوں کو چھورہا تھا تو نیویارک کے ڈیلی ٹیلی گراف میں ایک صحافی نے اس کے حوالہ سے ایک اسٹوری چھاپ ڈالی کہ ایڈیسن نے ہوا کے ذریعہ خوراک پیدا کرنے کی ایک مشن ایجاد کی ہے، اسٹوری اتنی مقبول ہوئی کہ لوگوں نے اس ’’ایجاد‘‘ کا بھر پور جشن بھی منایا ۔ ماضی میں کچھ ایسے معاملات تو ہوئے اگر چہ یہ بے ضرر تھے لیکن دین رحمت کسی کو ہنسانے کے لئے معمولی جھوٹ بولنے کی اجازت دینے کا بھی روادارنہیں۔
مغرب کی تعلیم گاہوں میں آج بھی ’’پرینک‘‘ کے نام پر اخلاق و شرافت کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں۔ دنیا کی بہت ساری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس نام سے ایسے افعال سرزد ہوتے ہیں کہ گھن آجاتی ہے۔ اب اس پرینک کے جدید طریقے عصر حاضر کے ’’موجدین‘‘ نے ایجاد کئے ہیں ۔ مثلاً ریڈیو ایف ، ایم کے کسی پروگرام کے لئے پہلے کچھ سیدھے سادھے لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ پھر فون کال کے ذریعے اُنہیں کسی لغو اور بیہودہ داستان میں اُلجھا کر صورتِ حال کو ہنسنے کے قابل و دلچسپ بنانے کی مکروہ حرکات و گفتگو ہوتی ہے ۔ 15-20 منٹ تک اس شخص کو ذہنی لحاظ سے پراگندہ و پریشان کرنے کے بعد اُسے کہا جاتا ہے کہ ہم معذرت خواہ ہیں کیونکہ یہ محض ایک پرینک ہے ،اس دوران سامعین خوب ’’لطف اندوز‘‘ ہواکرتے ہیں ۔ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوتے ہیں اور یہ پرینکی لوگوں کی عزت سے کھیل کر خوب پیسے کماتے ہیں ، عصر جدید میں اِن بدترین حرکات کو اچھے ٹیلنٹ اور بہتر ذہانت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اللہ بچائے اب یہ بیماری برصغیر میں داخل ہونے کے بعد اپنی اس وادی مینو سواد میں قدم جما چکی ہے۔ پارکوں ،بازاروں، تعلیم گاہوں ، سڑکوں اور فون پر کتنی اورکیسی غلیظ شرارتیں ہوتی ہیںسنجیدہ وجود دہل جاتا ہے ۔ ان شرارتوں کو فروغ و پھیلاؤ دینے کے لئے اُنہیں لائک اور شیئر کرنے کی بھی ساتھ ساتھ درخواستیں کی جاتی ہیں۔ اب یہ دھندہ یوٹیوب کے ذریعے خوب ہورہا ہے ۔ کہیں راہ چلتے لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور کہیں دوسرے مختلف مقامات پریہ عمل عملایا جاتا ہے۔ ٹارگٹ ہونے والے اکثر نوجوان ہی ہوتے ہیں اور انہیں خوب مذاق بنایا جاتا ہے ۔ اس پرینک کے نتائج اب شرارت و مزاح سے بہت زیادہ ہراسانی اور خفت کا باعث بن جاتے ہیں۔ کچھ پرینک تو ہوتے ہی ایسے ہیں کہ لوگ غصہ سے آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور کرسیوں پر بیٹھے لوگوں سے جب کرسیاں کھنچی جائیں ، جب لوگوں کو تالابوں اور ندی نالوں میں دھکیلا جائے اُنہیں سرِ راہ تھپڑ مارا جائے ، اُن پر برسرِ عام وہ الزام دھرا جائے جسے سن کر اُن کے ہوش اُڑ جائیں جس کا اُن کی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں بنتا ہو۔ جب کوک کی بوتل لوگوں پر انڈیل دی جائے ، جب اُنہیں کیچڑ میں دھکیل دیا جائے، تو لوگ مشتعل ہی ہوں گے نا؟ردِ عمل تو دیں گے ہی !گل پاشی تو نہیں کریں گے رات کی تاریکی میں پہلے ہی سہمے ہوئے کسی انسان کو کسی تاریک راہ میں بھوت پریت بن کر اُسے ڈرایا جائے ،یہ حرکت کسی کمزور دل شخص کی جان بھی لے سکتی ہے ۔ ایسا زیادہ مغرب میں ہوتا ہے ۔ حقیقت معلوم ہونے پر پرینک کرنے والوں کو متعدد جگہوں پر متاثرین نے تشدد کا نشانہ بھی بنایا، کچھ ایسے پرینک بھی ہوئے کہ لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ،ایک امریکی لڑکا پرینک کی غرض سے ہی ہاتھ میں نقلی پستول لہراتے ہوئے سڑک کے بیچ کیا آیا کہ پولیس نے خطرناک دہشت گرد سمجھ کر دور سے ہی گولی کا نشانہ بنایا۔ 2015 میں سولہ سالہ جارڈن نے اپنی بہن کو ڈرانے کے لئے جعلی پھندہ لینے کی کوشش کی یہ ڈرامہ کرتے ہوئے واقعی وہ پھندہ اُس کی جان لے گیا۔یاد رہے کہ جوش و جنون کا یہ بے جا اظہار اور لوگوں کو کسی حرکت سے حیرت زدہ کرنے کی یہ خواہش کوئی اچھا رجحان نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ ہے ، یہ بھی واضح رہے کہ مزاح اور مذاق میں واضح فرق ہے ۔ ابن ِ حبان لکھتے ہیں کہ ہنسنے ہنسانے کے لئے عربی میں دو الگ الگ الفاظ ہیں : ۱۔مزاح ، ۲۔ مذاق ۔
مزاح کا مطلب ہنسانا ہوتا ہے جبکہ مذاق کا مطلب پھاڑ نا ہوتا ہے ، ابن حبان بیان کرتے ہیں کہ میں اس طرح کے مزاح کو پسند کروں گا جس میں کسی انسان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب دو دوست آپس میں ناراض ہوتے ہیں ، الگ ہوتے ہیں یا جب رشتے آپس میں ٹوٹ جاتے ہیں ہم پھر اسے مزاح نہیں کہتے بلکہ مذاق کا نام دیتے ہیں یعنی پھاڑنے والے ، توڑنے والے۔ مذاق تو نری جہالت ہے ہم نہیں حضرت موسیٰ ؑنے کہا ہے :’’کہ اگر میں مذاق کروں تو جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔‘‘یعنی مذاق کی عادت عمل سنجیدہ ، معتبر اور بہتر خصائل و خصائص رکھنے والے لوگوں کی نہیں جاہلوں کی ہوتی ہے ۔
ٹِک ٹاک کے ویڈیوز اور فنی ویڈیوز یہ تو اسی جہالت کے عیاں مظاہر ہیں ۔ انٹرٹینمنٹ کے لئے لوگوں کو ہراساں کرنا اُن کی عزتوں کواچھالنا قطعی اچھی حرکت نہیں یہ لوگ چاہیے کسی بھی دین سے منسلک ہوں اسلام نے تو بطور استہزا و طنز تو کسی بلند قامت کو او لمبے اور کسی پست قد کو او ٹھگنے کہنے سے بھی روک رکھا ہے ۔ صاف کہا ہے : اے ایمان والو! تم میں سے کوئی کسی کا مذاق نہ اُڑائے، کیا خبر جس کا مذاق اُڑا رہے ہو وہ تم سے زیادہ بہتر ہو‘‘ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی معاشرتی زندگی کو درست کریں، ہمیں قطعاًیہ آزادی حاصل نہیں کہ ہمارا ہاتھ کسی کی ناک کی جانب بڑے۔ دنیا میں تو یہ عمل قابل برداشت تو ہے ہی نہیں لیکن آخرت میں بھی اس کی سزا شدید تر ہوگی ۔
ہاں! اسلام بھی انسان کو زاہد ِ خشک نہیں بناتا، وہ اس کی لبوں پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتا ہے ۔ لیکن حدود سے باہر نہیں نکلتا ۔کذب و افترا کی اجازت نہیں دیتا ،کسی انسان کی عزت کو اچھالنے کاروادار نہیں ، چند مختصر واقعات ملاحظہ ہوں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ آپؐ سے ایک سائل نے سواری طلب کی تو آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں اُونٹ کا بچہ دوں گا۔ عرض گذار ہوا کہ میں بچے کو لے کر کیا کروں گا۔ آپ ؐ نے فرمایا کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے ؟ دیکھئے کہ آپؐ نے سائل سے مزاح بھی فرمایا اور حق و سچ کی رعایت بھی برتی ۔ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ سے ایک عورت نے دخولِ جنت کی دعا کی درخواست کی آپؐ نے مزاحاً فرمایا :بڑھیا تو جنت میں داخل نہیں ہوگی ۔ بڑی بی کو رنج ہوا، روئی ۔ آپؐ نے فرمایا اس سے کہہ دو کہ عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی ۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہم جنتی عورتوں کو پیدا کرینگے ،پس ہم ان کو کنواریاں بنادیں گے ۔ ایک دیہاتی شخص تھا اُس کانام زاہر تھا،وہ آپؐ کو دیہات کے ہدیے دیا کرتا تھا اور کچھ عرصہ بعد اپنا کام ختم کرنے کے بعد جب گھر جانے کا موقع اُسے آتا تو آپ ؐ اسے شہر کا ہدیہ دیا کرتے تھے ۔ آپؐ فرماتے تھے کہ زاہر ہمارے دیہات ہیں اور ہم اس کے شہر ہیں۔ آپؐ اسے محبت بھی فرماتے تھے، وہ شکل و صورت کے اعتبار سے کچھ زیادہ اچھے نہ تھے ،آپؐ ایک دفعہ اس حال میں جب وہ بازار میں اپنی اشیاء فروخت کررہا تھا، اس کے پاس آئے پیچھے سے سینہ ٔ مقدس کے ساتھ اسے چمٹایا ،وہ آپؐکو دیکھ نہیں پارہا تھا، اس نے کہاکون ہو مجھے چھوڑ دو، پھر جب پیچھے پلٹ کر دیکھ لیا تو اپنی پیٹھ کو آپؐ کے سینۂ مبارک سے اور لگانے لگا۔ آپؐ نے فرمایا کہ کون ہے جو اس غلام کو خریدے گا ،اُس نے کہا اے اللہ کے رسولؐ تب تو میں معمولی قیمت پر بک جاؤ ں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم اللہ کے یہاں معمولی قیمت کے نہیں ہو یا یوں ارشاد کیاتم اللہ کے یہاں بہت زیادہ قیمتی ہو ۔یوں اس کی دل داری بھی فرمائی اور کچھ مزاح کا ماحول بھی کچھ دیر بنا رہا ۔
قارئین! آپؐ کے ایسے بہت سارے واقعات بیان کئے جاسکتے ہیں اور اپنے اسلاف کے حوالہ سے بھی ایسے بے شمار واقعات بیان کئے گئے ہیں ۔ فی الوقت مقصد بس اتنا کہنا ہے کہ اسلام خوش طبعی اور تہذیب و شائستگی کے دائرے میں رہنے والے مزاح کا قطعی مخالف نہیں لیکن وہ انسان کی عزت نفس کا محافظ ہے ، اور یہ عزت ِ نفس سماج کے ہر ادنیٰ و اعلیٰ انسان کے ہوتی ہے۔ ہر کار دار اور بے کار کی ہوتی ہے، ہر مرد اور ہر عورت کی ہوتی ہے ،ہر رنگ اور نسل کے انسان کی ہوتی ہے، ہر بچے اور ہر بڑے کی ہوتی ہے اور اس عزتِ نفس سے چھیڑنا جس بھی طریقے سے ہو بداخلاقی ہے ،جس بھی نام سے ہو جہالت ہے ۔یہ عمل ایسا فسادپیدا کرسکتا ہے جو بہت دور تک جاسکتا ہے ۔ لازم ہے کہ ہم اور ہمارے جوان ، ہمارا ہر چھوٹا بڑا اس عمل سے اجتناب کرے، جس سے شر و فتن کی آگ پھوٹ پڑے ، انسانیت کی تحقیر ، اہانت اور تذلیل ہو ۔ہم پر اصلاح کا فریضہ عائد ہے ۔ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے _۔آئیے اس روشنی میں اپنے سارے عمل کا جائزہ لے کر اپنے آپ کو اسلام کا مسلمان ِ مطلوب ثابت کریں۔
رابطہ۔7006055300