مجتبیٰ علی شجاعی
قیام عاشورا محض ایک تاریخی واقعہ،افسانہ،سانحہ یا حادثہ نہیںبلکہ عاشوراایک ایسا عظیم انقلاب ہے جو چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی معنویت اور اثرانگیزی کے ساتھ زندہ و پائندہ ہے۔ عاشورا ایک مصمم ارادہ ہے جو راہ حق میں جان دینا سعادت اور خاموشی کو خیانت سمجھتا ہے، عاشورا ایک ایسی شجاعت ہے جو خون سے تاریخ لکھتی ہے اور قربانی میں حیات کو دیکھتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر کربلا کا پیغام صدیوں سے دلوں کو جھنجھوڑتا چلا آ رہا ہے؟
قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ جو شخص ایمان کے ساتھ نیک عمل انجام دے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، ہم اُسے پاکیزہ اور باعزت زندگی عطا کرتے ہیں۔(سورہ نحل آیت۔ ٩٧)
اللہ تعالیٰ کا یہی اصول بقائے عاشورا کی بنیاد ہے ۔ تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ بشریت نے بے شمار تحریکیں اور انقلابات دیکھے مگر جو مقام، جو تاثیر اور جو تسلسل نہضت کربلا کو نصیب ہوا، وہ کسی اور کو نہ مل سکا۔شروع سے ہی اس الٰہی تحریک کا پیغام اور اس کے اہداف بالکل واضح تھے۔ظلم کے خلاف قیام، حق کا تحفظ، دین کا دفاع، عوام کے حقوق کی پاسداری اور باطل کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرنا،اس تحریک کے ابدی اہداف میں شامل ہے۔مگر اس تحریک کی اثرپذیری محض پیغام تک محدود نہ رہی بلکہ اس ابدی تحریک نے ایسےلازوال نقوش چھوڑ گئے جو دل و دماغ پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئےاورایسی تاثیر پیدا کی جو وقت کے دامن سے باہر نکل کر جاوداں ہو گئی۔
صرف حضرت حرؓ ہی کربلا میں تائب نہ ہوئے بلکہ عصر حاضر تک لاکھوں افرادنے حضرت امام حسینؑ کے پیغام سے متاثر ہو کر اپنے دل و دماغ بدل دیے، یہاں تک کہ غیر مسلموں نے بھی اس نور سے روشنی پائی اور فانی دنیا کے زوال سے نجات حاصل کی۔ کچھ سوالات ایسے ہیں جو غور و فکر کا تقاضا کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی حسینؑ کی محبت دلوں سے کم نہیں ہوئی ،بلکہ ہر سال مجالس و عزاداری بڑھتی جاتی ہے، حسینؑ کا ذکر عالمگیر ہوتا جاتا ہے۔
اس طرح کے سوالات کا جواب بالکل غیر مبہم اور دو ٹوک ہے کہ یہ تسلسل محض اتفاق نہیں بلکہ سب سے بڑھ کر خدائی ارادہ ہےاوردوسرا یہ کہ بیداری کی علامت ہے ،کیونکہ کربلا کی اصل روح ہی بیداری ہے،بیداری ضمیر،بیداری شعور،بیداری حق۔اس نہضت کی حرارت ہر زمانے کےضمیر کو بیدار کرنے کے لئے کافی ہے ۔کربلا کی سرزمین پر جو صدائے استغاثہ بلند ہوا اس نےہر دور میں سوئی ہوئی انسانیت کو بیدار کیا ۔
افسوس کا مقام ہے کہ اس عالمگیر تحریک کو ایک سانحہ کے طور پر پیش کیا گیا ،ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے حسین ؑ نعوز باللہ ڈرا ہوا تھا سہما ہوا تھا جیسے حسین ؑ یا زینب ؑ ،یزیدی فوج سے جان بچانے کی بھیک مانگ رہا تھا ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کربلا ظلم کی آخری منزل تھی ،ظلم وجبر کی وہ انتہا کہ انسانیت شرما گئ،زندہ مثال چھ ماہ کا شیر خوار جس کو پانی کے ایک بوند کے بدلے تین شاخوں والا تیر گلوئے مبارک پر مارا گیا۔ لیکن ظلم وجبر کا یہ آخری وارصبر ووفا کے سامنے ناکام ہوگیا اور حسین ؑ ہے جو طوفانوں کے بیچ کھڑا رہا ،سَر دے دیا لیکن سر نہیں جھکایا ۔یہ مصمم ارادے والی تحریک تھی جہاں سب ڈرے اوریزیدپلید بھی ڈرا، لیکن جری اور شجاع حسین ؑ نہیں ڈرے ۔شیر خوار اصغر ؑ نہیں ڈرے ،کم سن قاسم ابن حسنؑ ،اکبر، عون و محمد ،حبیب وجون،عباس علیہما السلام نہیں ڈرے،فوج اشقیاء پر بادل کی طرح گرجےاور حسین ؑ نے دوٹوک انداز میںکہا کربلائی سماج میں ڈر اور خوف نہیں بلکہ جرأت ،غیرت،وفا،صبراور یقین کا غلبہ ہے ۔گویا کربلا بزدلی کی کہانی نہیں حسین ؑ کی وہ للکار ہے، جس نےیزیدکے ایوان لرزا دئیے ۔جو طفلِ شیرخوار کا خون دے سکتا ہے وہ کربلا جان بچانے نہیں، دنیا کو جگانے کربلا آیا تھا ۔تحریک کربلا کے بقا ءو دوام کا سب سے پہلا اور بنیادی سبب خود خدا کا ارادہ ہے۔ جس چیز پر خدا اپنی بقا کی مہر ثبت کر دے، اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ جیسے ابراہیمؑ نے دعائیں کیں کہ ان کی اولاد محبوبِ دل ہو، ویسے ہی نبی اکرمؐ نے امام حسینؑ کے لیے دعا فرمائی کہ خدایا! لوگوں کے دلوں کو حسین کی طرف مائل فرما۔پھر خود نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایاکہ’’بے شک قتل حسینؑ سے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا ہوگی جو کھبی خاموش نہیں ہوگی ۔‘‘اسی سلسلہ کی ایک کڑی جب شریکتہ الحسین حضرت زینبؑ ،یزیدی دربار میں باطل کو للکار کر کہتی ہیںکہ خدا کی قسم! تم ہمارا ذکر مٹا نہیں سکتے۔
دوسرا سبب حسینؑ اور ان کے اصحاب کا خالص ترین عملِ صالح ہے۔ قرآن وعدہ دیتا ہے کہ نیک عمل کرنے والوں کو پاکیزہ زندگی دی جائے گی۔ کربلا کا ہر لمحہ قربتِ الٰہی اور توحید کی اعلیٰ مثال ہے۔ امامؑ کی نیت، ان کا ایثار، ان کا اخلاص سب اس وعدۂ قرآنی کی عملی تصویر تھے۔علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں کہ عمل صالح وہ ہے جو خالص نیت سے ہو اور انسان کے ایمان میں اضافہ کرے۔ کربلا اسی کا مصداق ہے۔گویا کربلا بندگی کا ایسا عمل صالح ہے جس میں خون سے تحریر کردہ درس توحید پوشیدہ ہےاور عمل صالح کا یہ اعلیٰ ترین نمونہ تا روز ابد انسانیت کے لئے مشعل راہ بن گیا۔کربلا کے جامع سماج پر نظر ڈالیے ہر اعتبار سے ہر انسان کے لئے ایک آئینہ ہے۔ اس سماج میںنوجوان کے لئے قاسم ابن حسن ؑ، جوان کے لیے علی اکبرؑ، بزرگ کے لیے حبیبؑ، بچوں کے لیے قاسمؑ، شیر خواروں کے لئے علی اصغرؑ،خواتین کے لیے زینبؑ اور غلاموں کے لیے جونؑ کی مثال ہے۔ یہ ایک ایسی درسگاہ ہے جس میں ہر طبقۂ انسانیت کو راہِ نجات ملتی ہے۔اس سماج میںمیں نہ رنگ نہ نسل، نہ عرب نہ عجم، نہ حسب نہ نسب کوئی طبقاتی نظام نہیں بلکہ فقط اخلاص، ایمان اور قربانی کا مقام ہے، وہاں حق پرستی سب سے بڑی شناخت ہے۔کربلا کی قیادت ایک معصوم امامؑ کے ہاتھ میں تھی۔ امام حسینؑ کوئی عام عالم، مجاہد یا زاہد نہ تھے بلکہ اللہ کے منتخب بندے اور رسولؐ کے نورِ نظر نواسے تھے۔ جب قیادت معصوم کی ہو تو تحریک بھی معصوم ہوتی ہے،کربلا کی بنیاد حق پر تھی۔ حضرت امام حسینؑ کو جب اپنے نور نظر علی اکبر نے فرمایا،بابا! کیا ہم حق پر نہیں؟ تاریخ کا وہ لرزہ خیز لمحہ ہے جو صرف ایک سوال نہیں بلکہ حق و باطل کی پہچان، مظلومیت کی انتہا اور حسینیت کی معراج بن کر رہ گیااور جب امام حسینؑ نے فرمایا، ہاں میرےلال! ہم یقیناً حق پر ہیں،تو حضرت علی اکبرؑ نے فوراً کہا تو پھر ہمیں موت کا کوئی خوف نہیں۔یہی وہ لمحہ ہے جہاں شہادت مسکرائی اور تاریخ جھک گئی۔کربلا کا یہ آفاقی پیغام انسانیت کو بیدار کرگیا،مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ کرگیا،حق و باطل کا ایک میعار قائم ہوگیااورظلم کا ایوان لرز گیا۔آج ہم اگر مشرق وسطیٰ یا دنیا کے دیگر ممالک میں ہشاش بشاش چہرے دین کی بقاء ،عالمی طاغوت کے خلاف اور مظلوموں کےلئے اپنے جانوں کا نذرانہ مسکراہٹ کے ساتھ پیش کررہے ہیںیہ وہی مسکراتی شہادت ہے جو علی اکبر ؑ یہ کہہ کر دی کہ موت کا کوئی خوف نہیں اور حضرت قاسم ؑ نے جسے شہد سے شیرین قرار دیا۔
کربلا کی تحریک اس لئے دائمی بن گئی کہ اس کے جانباز، امامؑ کے وہ وفادار تھے جن کی وفا، ایثار اور فداکاری کی مثال تاریخ نے نہ دیکھی۔ شبِ عاشور اُن کے عہد وفا اور دنِ عاشور اُن کی قربانیوں کا آئینہ ہے۔ ایک جون، ایک حرؓ، ایک مسلم بن عوسجہ، ایک حبیب، ایک قاسم۔ ہر ایک وفا کا مجسمہ تھا۔عباس ؑ کی وفا نے تو وفا کو سربلند کیا ،وفا کو اتنا بلند کیا کہ اب وفا خود کو عباس ؑ کہلوانے پر فخر کرتی ہے۔ایک ایک جانباز وفا کا ایسا پیکر تھا جس نے کربلا کو ابدی بنادیا۔
کربلا کی دائمی تحریک میں وہ جو سب سے مؤثر ثابت ہوا ،وہ اہل بیتؑ کی اسیری ہے۔ اگر کربلا فقط کربلا میں ختم ہو جاتی تو شاید صرف تاریخ کا ایک المیہ بن کر رہ جاتی۔ مگر زینبؑ اور سجادؑ نے کوفہ و شام میں حق کا علم بلند رکھا۔ ان کی خطابت، صبر، احتجاج اور گواہی نے عاشورا کو زندہ جاوید کر دیا۔یزید نے سوچا تھا کہ خاندانِ رسولؐ کو خاموش کر کے اپنی فتح کا جشن منائے گا، مگر زینبؑ کی للکار اور امام سجادؑ کی دعا نے کربلا کو ابدی بنا دیا۔ یہ للکار وقت کی زنجیروں سے آزاد ہوگئی اور اس تحریک نے بقاء کو گلے لگایا۔
عاشورا اس لئے زندہ ہے کہ وہ محض ایک معرکۂ شمشیر و ستم نہ تھا بلکہ ایک مکتب، ایک پیغام، ایک نور تھا جس پر ارادۂ الٰہی سایہ فگن تھا، جو عمل صالح سے مزین تھا، جسے ایک معصوم کی قیادت حاصل تھی اور جو آج بھی ہر حق طلب دل کو روشنی عطا کرتا ہے۔آج کی تاریخ میں بھی کربلا اپنا کردار ادا کررہا ہے ،زندہ مثال حالیہ ایران ۔اسرائیل امریکہ جنگ ہے ۔جہاں تحریک کربلا کے پروردہ قوم نے عالمی طاغوت کوایک مرتبہ پھر خیبر کی یاد دلائی ،عالمی طاغوت سر نگون ہوگیا اور اسلام و مسلمین کا سر فخر سے بلند ہو ا۔
کربلا کا مطلب ہر دور کے یزید کی للکار ہے ہردور کے ناانصافیوں کا خاتمہ اور ہردور میں دین و انسانیت کا دفاع ہے ۔اس آفاقی انقلاب اور پیغام کو محدود دائرے سے نکال کر اس کے ایک ایک ہدف اور ایک ایک پیغام کو عالمگیر سطح پر اُجاگرکرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت امت اور انسانیت کو جو چلینجز درپیش ہیں اُن کا واحد حل کربلائی سماج کی تشکیل ہے ،عزاداری بھی ضروری ہے کیونکہ عزاداری ایک احتجاج ہے 60ھجری کے یزید سے لیکر دور حاضر کے یزید اور یزیدی نظام کے خلاف ۔اسی عزاداری کی بدولت دنیا کے گوشے گوشے میں حسینی ؑپیغام پہنچا ہے اور اس پیغام نے شجاعت،صبر،عزم و اسقلال اور حریت جیسے لازوال نقوش چھوڑے ہیں ۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ حسینی فکرصرف امامبارگاہوں ،درگاہوں اور مساجدوں تک محدود نہ رہے بلکہ حسینی فکر و طرز عمل کو سماج میں اپنانے کی ضرورت ہے۔
(ریسرچ اسکالر کشمیر یونیورسٹی،سرینگر)