وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے سنیچر کے روز گوا کے دارالحکومت پنجی میں انڈیا آئیڈیاز کنکلیو میں تقریر کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ جنگجوئوںکی ہلاکتوں میں ہی کشمیر مسئلے کا حل مضمر نہیں بلکہ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھ کر ایک نئی شروعات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جموںوکشمیر کی ریاست کو سارک ممالک کے اشتراک کاایک نمونہ بنایا جانا چاہئے۔ ظاہر بات ہے کہ وزیراعلیٰ مرکزی حکومت اور اسکے ماتحت اداروں اور ایجنسیوں سے مخاطب تھیں لیکن اسی دن رات دیر گئے کپواڑہ کے کرالہ پورہ علاقہ میں ایک عام شہری فورسز کی گولیوں کانشانہ بن کر لقمہ ٔ اجل ہوگیا۔ ریاستی حکومت اور مرکزی اداروں کے درمیان زمینی صورتحال کے افہام کے بارے میں یہ بُعد المشرکین عوامی مشکلات کا ایک بہت بڑا سبب ہے کیونکہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی ایجنسیاں صورتحال کے تئیں ریاستی سرکار کو خاطر میں لانے کی روا دار نہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے بلکہ ماضی میں اسکی ایک لمبی تاریخ موجود ہے، جب ریاستی سرکار کے عندیہ اور بعض اوقات معلنہ مؤقف کے برعکس مرکزی اداروں ، خاص کر سیکورٹی ایجنسیوں کو سرگرم عمل دیکھا گیا ہے ۔ ریاستی انتظامیہ نے اس اندوہناک واقعہ پر عوامی غیض و غضب کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے فوراً ہلاکت میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور واقع کی مجسٹریل تحقیقات کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں۔لیکن کیا یہی صورتحال کو سنبھالنے کا اقدام ہوسکتا ہے، خاص کر ایسے حالات میں جب اس نوعت کے تحقیقاتی عمل سے لوگوں کا اعتبار مکمل طو ر پر اٹھ چکا ہے، کیونکہ ماضی میں بیسیوں ایسے ہی واقعات کی مثالیں دی جاسکتی ہیں، جب مجسٹریل یا پولیس انکوائری کے اعلان کئے گئے، لیکن بعد میں انکا کیا حشر ہوا؟اس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ یہاں تک کہ دہائیاں گزر چکی ہیں مگرکئی انکوائریاں انجام کو نہیں پہنچیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں رواں برس کے ماہ اپریل میں اسی کرالہ پورہ کپواڑہ کے ایک گائوں میں فورسز ارو جنگجوئوں کے درمیان مڈبھیڑ کے بعد عام شہریوں کے مکانات کو نقصان پہنچائے جانے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے والے لوگوں پر وہاں تعینات فوجیوں نے گولیاں چلائیں، جس میں ایک بزرگ شہری جاں بحق ہوا۔ اس واقعہ پر بھی انتظامیہ نے ایک اعلیٰ پولیس آفسر کی سرکردگی میں تفتیش اور مجسٹریل انکوائری کرانے کا اعلان کرکے خاطی اہلکاروں کےخلاف قانونی کاروائی کرنے کا یقین دلایا تھا مگر معاملہ وہیں کاو ہیں ہےجبکہ سال 2017ختم ہونے میں چند ایام رہ گئے ہیں، لیکن نہ تو پولیس تحقیقات کے ہی نتائج سامنے آئے اور نہ ہی مجسٹریل انکوائری کی کوئی رپورٹ۔ ایف آئی آر اُس وقت بھی درج ہوا تھا لیکن اب تک کسی اہلکار کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ موجودہ معاملہ بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ مہلوک شخص، جو ایک عام نوجوان شہری تھا ، کی خطا صرف یہ تھی کہ وہ پیشہ سے ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا اور کسی مریض کی جانب سے فون ملنے پر وہ اپنافرض سمجھ کر اُسے ہسپتال لے جانے کے لئے دوسرے گائوں جا رہا تھا کہ راستے میں فورسز کے ناکے کی نذر ہو گیا۔ فوج نے اس ہلاکت کو کراس فائرنگ کا نتیجہ قرار دیا ہے، حالانکہ مقامی لوگوں کے مطابق اُس وقت جائے واردات پر کوئی مڈ بھیڑ یا کراس فائرنگ نہیں ہو رہی تھی ۔ اب حقیقت کیا ہے یہ غیر جانبدارانہ تحقیقات سے ہی سامنے آسکتی ہے، لیکن سرکاری تحقیقاتی عمل پر اعتبار کے فقدان کی وجہ سے یہ سب کچھ عوام کے حلق سے اُترنا مشکل ہے۔ چونکہ فوج نے پہلے ہی کراس فائرنگ کا دعویٰ کرکے مذکورہ شہری کو ہلاکت میں فوجیوں کا ہاتھ ہونے کو خارج کر دیا ہے تو ایسے میں ایف آئی آر کس کےخلاف لگایا گیا اور انکوائری کس کےخلاف ہوگی ، اسکی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سماج کے حساس طبقے اس خون ناحق پر زبردست برہم ہیں۔ اور تو اور مین اسٹریم سیاسی جماعتیں تک اس دعوے کو تسلیم کرنے کےلئے تیار نہیں ہیںمزاحمتی خیمہ اور عام لوگوں کی تو بات ہی نہیں۔ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے پنجی میں دیئے گئے بیان کو اگر ریاستی حکومت کی کلیدی اکائی پی ڈی پی کی پالیسی سوچ مان لیا جائے تو یہ انکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسکو زمینی سطح پر روبہ عمل لاکر عوا م کے اعتماد کو بحال کرنےکے جتن کر ے وگرنہ بڑے اجتماعات میں بڑی باتیں کرنے سے صورتحال میں کوئی تبدیلی پیدا ہونے کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب سوشل میڈیا اور یک رخی سوچ رکھنے والی میڈیا چینلوں پر حقوق انسانی کی پامالیوں کو مختلف بہانوں سے درست قرار دینے اور وطن کے تئیں خدمت کے طور پر پیش کرنے کا بھوت سوار ہے۔موجودہ کرالہ پورہ ہلاکت کے حقائق کو سامنے لانے کےلئے حکومت کو جوڈیشل تحقیقات کرانے کا اقدام کرنا چاہئے، جبھی کسی قسم کے تحقیقاتی عمل پر عوامی اعتماد کو بحال کیا جاسکتا ہے۔