شبنم بنت رشید
یہ محض اتفاق تھا کہ اس دن میں فجر کی اذان دینے مسجد کی طرف گیا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔ جوں ہی میں مسجد کا تالا کھولنے لگا تو پیچھے سے کسی بچی کے رونے کی آواز آئی۔ میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو کچھ فاصلے پر واقعی ایک چھوٹی بچی رو رہی تھی۔ میں مسجد کا تالا کھولے بغیر اس کے پاس گیا۔ ایک میلی کچلی، گندی بچی اپنے گندے بال کھجا رہی تھی۔ کپڑے بھی بھیگ چکے تھے اور روتے روتے اسکا بُرا حال ہوچکا تھا۔ حالات کی ماری اس معصوم بچی کو میں گود میں اٹھا کر گھر لے آیا۔ میری شریک حیات بڑی نرم دل تھی اس نے اسکے کپڑے بدل دیئے۔ اسکا گیلا بدن سوکھے کپڑے سے پونچھا۔ پھر تھوڑا سا گرم دودھ پلایا تو اس کے بعد ہی میں مسجد کی طرف واپس گیا۔
بچی کی حالت ایسی تھی کہ کئی دنوں تک ہم اس سے کچھ پوچھ نہ سکے۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے اپنا نام گل بہار بتایا لیکن گھر ، گاوں، شہر ، محلہ، ماں، باپ ، بہن ، بھائی کچھ بھی نہ معلوم تھا۔ اسکی ٹوٹی پھوٹی اردو ، سانولی رنگت اور موتی جیسے چمکتے سفید دانت غیر مقامی ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔
یہ تو قسمت کا کھیل تھا ورنہ ہماری اپنی کئی اولادیں تھیں۔ کسی اور کو سونپنے یا قانون کے حوالے کرنے کے بجائے ہم نے اس معصوم کو ایسے اپنایا جیسے وہ ہمارا اپنا خون جو کبھی ہم سے بچھڑ کر پھر ملا ہو۔ ہم نے اپنے دلوں کو بڑا کیا اسی لئے ہمارے رویوں میں اپنی اولادوں اور اس کے درمیان کبھی کوئی فرق نہیں کیا۔ اس نے بھی کبھی ہمیں غیر نہ سمجھا۔ چپ چاپ ہمارے ماحول میں گُھل مل گئی۔ شاید وہ اپنے بچپن کی سختیوں اور تکلیفوں کو اندر سے بُھلا نہ پائی تھی اسی لئے وقت سے پہلے ہی سیانی ہوگئی۔
اپنا پہلا فرض سمجھ کر ہم نے اسکے لئے اسکے حساب سے ایک اچھا گھر، اچھا لڑکا تلاش کیا اور ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ اس کو گھر سے رخصت کیا۔ جہیز اپنی حیثیت سے بڑھ کر دیا کہ لوگ حیران رہ گئے۔ اس نے بھی ہمارے فیصلے کی لاج رکھ لی ۔گل بہار خوشی خوشی گھر سے رخصت تو ہوئی لیکن اسکی شادی اس کے لیے پھولوں کی سیج ثابت نہ ہوئی۔ اسکا شوہر تجمل احساس برتری کا شکار تھا۔ اسے اپنی رنگت پر شدید غرور تھا، جس کا نزلہ اس نے گل بہار پر گرادیا۔ اسلئے کچھ عرصہ بعد ہی گل بہار اپنی ننھی سی بیٹی عصرہ کو گود میں لے کر واپس گھرآگئی۔ میں تجمل کے غرور کو تحس نحس کردیتا مگر بیٹی کا معاملہ تھا اسلئے سمجھا بجھا کر گل بہار کو ہم نے واپس گھر بھیج دیا لیکن چند دنوں کے بعد وہ پھر واپس چلی تو آئی مگر ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا لے کر۔ ہم نے بارہا کوشش کی کہ گل بہار دوسرے نکاح کے لئے راضی ہوجائے لیکن ہر بار وہ یہی جواب دیتی رہی کہ اب لوگوں سے میرا بھروسہ اُٹھ گیا ہے۔ کسی بھی انسان کے ماتھے پر شرافت کی مہر نہیں ہوتی۔ کئی بار شریف انسان بھی زہریلے سانپوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ بس گل بہار اسی بات پر اڑی رہی تو اس طرح دس پندرہ سال کا عرصہ گزر گیا۔
ستمبر کا سہانا مہینہ شروع ہوا۔ دوسرے ہفتے میں میرے بڑے پوتے اور سگی پوتی کی شادی تھی۔ اس لئے گھر میں کئی دنوں تک چلنے والا فنکشن منعقد ہونے والا تھا۔ شادی کے دن قریب آتے ہی قریبی رشتہ دار اور دوست آچکے تھے۔ گھر میں ہلچل کا ماحول شروع ہوا اس کے ساتھ ہی شادی کی توقیر میں ضرورت کا کرایئے کا سامان بھی آنا شروع ہوا جس میں کرائے کے برتن، کراکری، کرسیاں، کمروں اور گلیوں کے لئے فرش کے علاوہ ڈھیر سارا کرایئے کا بستر بھی شامل تھا۔ کئی دن پہلے گھر کی چاروں طرف کی دیواریں رنگ بہ رنگی، ٹمٹماتی روشنیوں سے جگمگا تو اٹھے لیکن ہمارے گھر کے اندر نہ کوئی بڑا ہال تھا اور نا ہی آس پاس میں شامیانہ لگانے کی کوئی مناسب جگہ۔ اسلئے گھر سے دور ایک شاندار میرج ہال بُک کیا گیا تاکہ مہمانوں کے لیے کھانے پینے، خاطر تواضع، مہندی کی رسم، بارات کا استقبال اور دلہن کی رخصتی میں آسانی ہو۔ ٹھیک شادی کے دو دن پہلے دوپہر کا کھانا کھا کر ہم ضروری سامان اور کپڑے وغیرہ پیک کر کے اپنا گھر اپنے ہی گھر کے بھروسہ مند ملازم مشتاق احمد کے حوالے کر کے خوشی خوشی میریج ہال میں شفٹ ہوگئے۔ البتہ کرایئے کے تھوڑے بسترے گھر پر ہی رہ گئے۔ خیر کرایئے کے سجے سجائے ہال میں مہندی کی رسم بڑے آرام سے چل رہی تھی کہ اچانک عصرہ کی طبعیت خراب ہوئی۔ اس کے سر میں شدید درد شروع ہوا۔ گل بہار عصرہ کو سہارا دے کر میرے پاس لے آ کر بیٹھ گئی۔پھر میری طرف دیکھ دیکھ کر کہنے لگی اللہ رحم کرے اللہ میری بچی کو سلامت رکھے۔ گل بہار عصرہ کے سر پر مالش کرنے لگی ۔ ہم سب عصرہ کی حالت دیکھ کر پریشان ہوے۔ میرا چھوٹا پوتا حیدر اپنے تختی کے برابر موبائل سے ویڈیو بنانے میں مصروف تھا۔ گل بہار کو پریشان دیکھ کر اچانک کہنے لگا شاید عصرہ کو ڈفلی کی تھاپ گیتوں کے شور اور ہلچل کی وجہ سے سر میں درد ہورہا ہے۔ کیوں نہ میں اسے گھر چھوڑ آوں۔ شور شرابے سے دور رہ کر گھر میں آرام کرے گی تو صبح تک ٹھیک ہوجائے گی۔ اپنی ماں سے گاڑی کی چابی لیکر آیا اور پھر کہنے لگا وہاں سے میں کرائے کے دو تین بستر یہاں لے آئوں گا، ہے نا ٹھیک داد جی ؟ ہاں! یہ ٹھیک رہے گا میں نے بھی جواب دیا۔ گل بہار نے بھی حیدر کی بات کی تائید کی۔ پھر وہ بے دلی اور بوجھل قدموں سے عصرہ کو سہارا دے کر گاڑی میں بیٹھاکر واپس آئی۔
ابھی کچھ ہی وقت گزر گیا تھا کہ مجھے اپنی بےحسی اور غلطی کا احساس ہوا کہ کس طرح اور کیوں میں نے بھروسہ کرکے ایک اکیلی لڑکی کو رات کے وقت اپنی نگرانی میں رکھنے کے بجائے اور ماں کے بغیرگھر بھیج دیا۔ خدا نہ خواستہ اگر حیدر کی نیت بدل گئی تو۔۔۔۔۔۔ میں سخت پریشانی میں مبتلا ہوگیا۔ اب میرا دماغ سوچنے کی صلاحیت کھونے لگا۔ میں نے حیدر اور مشتاق احمد کو بار بار فون ملایا تو میرے وجود پر بجلی سی کوندی میرا کلیجہ منہ کوآگیا کیونکہ دونوں کے فون بند آرہے تھے۔ میں اب زیادہ ہی گھبرا گیا ۔ اکیلا ہی اپنی سکوٹی نکال کر جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا لیکن ایسا لگا کہ راستہ طویل ہورہا ہے۔گھر پہنچتے پہنچتے فجر کا وقت بھی قریب آ گیا تب میرے ذہن کو شدید جھٹکا لگا جب پورا گھر ٹمٹاتی روشنیوں سے جگمگا رہا تھا اور گھر کا بیرونی گیٹ اندر سے کھلا تھا۔ اندر داخل ہوا تو ہر طرف نظرے دوڑائی۔ مشتاق اور حیدر کو باہر برآمدے میں کرائے کے بستر پر سوتے ہوئے پایا ۔ گھر کے اندر داخل ہوا تو معصوم عصرہ بھی بڑے آرام سے ایک کمرے میں کرائے کے ایک بستر یہ سوئی ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر میرے دل کو ایک سکون سا آگیا تو اس کے ساتھ کئی میں حسب معمول فجر کی اذان دینے مسجد کی طرف چلا گیا۔
���
پہلگام ، کشمیر
موبائل نمبر؛9419038028