عام آدمی پارٹی میں پھوٹ کے آثار نمایاں ہیں۔ دو تین دن قبل ایک منسٹر کو برطرف کیا گیااور اس نے کیجریوال پر رشوت خوری کا الزام عائد کیا ۔ روایت یہ رہی ہے کہ جب بھی کوئی فرد یا ادارہ ترقی کرتا ہے تو دشمن بھی دوست بننے کی راہیں تلاش کرتے ہیں اور جب وہ روبہ زوال ہوتا ہے تو اسے دامن چھڑانے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ اکثر سننے میں بھی آتا ہے اور آئے دن مشاہدہ بھی ہوتا ہے کہ ڈوبتے جہاز کو چھوڑنے والے سب سے پہلے چوہے ہوتے ہیں کیوں کہ چوہوں کو قدرت نے آنے والے حالات کو سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔ صرف چوہے کیا جہاں کہیں آفات نازل ہوتی ہے‘ تباہی کے آثار پیدا ہوتے ہیں تو اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہاں کے جانور، مویشی، درندے اس علاقوں کو چھوڑنے لگتے ہیں۔ انسان کو بھی سماجی جانور کہا گیا ہے۔ اگرچہ کہ اشرف ترین مخلوق ہے۔ ظاہر ہے حالات کو سمجھنے میں اُسے دیر نہیں لگتی۔ وہ بھی گرتی ہوئی دیوار سے دور ہی رہنا چاہتا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ایسے کتنے واقعات پیش آئے ہیں۔ اُترپردیش کے انتخابی نتائج کے دوران سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج وادی پارٹی اور کانگریس سے برسوں کی وفاداری ختم کرکے بی جے پی میں شامل ہیں۔ یہی حالات عام آدمی پارٹی کے ہیں‘ جس سے کئی سرکردہ قائدین انحراف کرنے لگے ہیںکیوں کہ انہیں اس پارٹی کے غیر یقینی مستقبل کا اندازہ ہوچکا ہے۔ کمار وشواش کے بارے میں بہت کچھ کہا جارہا ہے‘ کمار جو کل تک کجریوال کا وشواش رہے ہیں‘ امانت اللہ کے اس الزام کو سہہ نہ سکے کہ وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ایجنٹ ہیں۔ عام آدمی پارٹی سے یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن جیسے اہم قائدین بہت پہلے علیحدہ ہوکر اپنی نئی سیاسی دکان لگاچکے ہیں۔ پرشانت بھوشن اُن قائدین میں سے ہیں‘ جنہوں نے عام آدمی پارٹی کو ابتدائی دنوں میں مالیہ فراہم کرنے اُسے مستحکم کرنے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ ان کے والد شانتی بھوشن نے اُس وقت ایک کروڑ روپئے کا عطیہ پارٹی کیلئے دیا تھا اور امریکہ کے 20شہروں میں عام آدمی پارٹی کی تائید اور اُسے مستحکم کرنے کے لئے این آر آئیز نے فنڈ ریزنگ پروگرامس کا اہتمام کیا تھا تو اس میں بھی ان کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ اگرچہ کہ انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوسکا‘ تاہم حالیہ دہلی بلدی انتخابات میں کجریوال کو اِن قائدین کی کمی کا احساس ہوا، اور اب توقع ہے کہ کمار وشواش بھی رسی تڑواکر بی جے پی کیمپ میں گھسنے کی تیاری کررہے ہیں۔
عام آدمی پارٹی سے نہ صرف دہلی کے بلکہ پورے ملک کے عوام کو بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ کرپشن سے آزاد سماج کی تشکیل کا خواب حقیقت میں بدلتا ہوا نظر آنے لگا تھا،کیوں کہ اروند کجریوال دہلی کے چیف منسٹر کی گدی تک اگر پہنچے ہیں تو محض کرپشن کے خلاف آواز بلند کرتے کرتے۔ پہلے تو انہوں نے اَنا ہزارے کی آواز میں آواز ملائی تھی۔ ان کی تحریک کو تقویت دینے کے لئے ان کے ساتھ ہوئے اور پھر بہت ہی سلیقہ کے ساتھ اَناہزارے کو کنارہ کش کردیا۔ ایک دور وہ بھی تھا جب اناہزارے‘ کجریوال کے ساتھ ہندوستان کی تاریخ کی پہلی خاتون آئی پی ایس کرن بیدی بھی ہوا کرتی تھیں۔ کجریوال کے رویہ سے ایک طرف اناہزارے کنارے کنارے ہوگئے تو دوسری طرف نے بی جے پی میں گوشہ عافیت تلاش کی۔ وہ 2015ء کے دہلی اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے چیف منسٹر کے عہدہ کی امیدوار رہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بی جے پی کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا اور عام آدمی پارٹی نے 70میں سے 67اسمبلی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ برسوں تک اقتدار میں رہنے والے کانگریس کھاتا نہیں کھول پائی۔ اروند کیجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی کی شاندار کامیابی کی وجہ بعض اصولوں کی بنیاد پر ان کی حکومت کا استعفیٰ آپ کو یاد ہوگا۔ 2013ء کے دہلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی نے 28نشستیں جیت کر دوسری بڑی پارٹی کا موقف حاصل کیا تھا اور کانگریس کی تائید سے حکومت تشکیل دی تھی۔ 49دن ہی میں یہ حکومت ختم ہوگئی۔ کجریوال کی عوامی تحریکات عام آدمی سے اس کا ربط ضبط‘ احتجاجی اقدام کے طور پر سڑکوں پر دھرنا، فٹ پاتھ پر شب بسری نے انہیں عوامی لیڈر بنادیا تھا مگر صرف دو ہی برس میں عام آدمی پارٹی اندر سے کھوکھلی ہوتی گئی۔ شاید اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی رہی ہے کہ دہلی سے ہندوستان کی دوسری ریاستوں تک وسعت دینے کی خواہش کجریوال کو لے ڈوبی۔ پنجاب اور گوا میں انہوں نے باقاعدہ بڑے پیمانہ پر مقابلہ کیا۔ گوا میں 39 میں سے 38نشستوں پر اس کے امیدواروں کی ضمانت ہوگئی اور پنجاب میں اس کی حمایت سے لوک انصاف پارٹی نے 22میں سے 17نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ تاہم دہلی ایم سی ڈی کے انتخابات میں عامی آدمی پارٹی کو جو شکست فاش ہوئی اس نے کجریوال کا بھرم ختم کردیا۔ ویسے بھی لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ سے مسلسل اختلافات، بیان بازی، اور کرپشن کے خلاف نعرے لگاتے لگاتے خود بعض معاملات میں کرپشن میں ملوث پائے جانے سے ان کے ساکھ متاثر ہوئی۔ شنگلو رپورٹ میں بھی کجریوال کی کارکردگی پر سوال اُٹھایا گیا۔ میڈیا نے اُسے بہت زیادہ اُچھالا۔ جس کا دہلی والوں پر کوئی اچھا اثر نہیں پڑا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے منصوبے کے مطابق دارالحکومت دہلی پر فتح کرنے میں کامیاب رہی۔ عام آدمی پارٹی تنقید کرتی رہی‘ اندر سے اندر وہ کھوکھلی بھی ہوتی رہی۔ اس کے عہدیداروں، کارکنوں کو کجریوال سے یہ شکایت ہونے لگی کہ وہ پہلے جیسے عام آدمی والے کجریوال نہیں رہے بلکہ وہ خود پسند ڈکٹیٹر بن گئے ہیں۔ بہرحال جب بُرے دن آتے ہیں تو خوبیاں بھی عیب بن جاتی ہیں۔ کجریوال کل تک اصول پسند، آہنی عزائم کے مالک نظر آتے تھے۔ اب یہی صفات کو ان کی ڈکٹیٹرشپ کا جز کہا جانے لگا ہے حالانکہ اڑوس پڑوس کی ریاستوں میں سنیاسیوں کو گدی مل گئی تو مہینے ڈیڑھ مہینے میں وہ واقعی ڈکٹیٹر بن گئے ہیں اور لگے پوری ریاست کو ویجیٹرین بنانے۔آج ایسا ہی ڈکٹیٹرس کو سراہا جارہا ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہر دور میں ایسے ڈاکٹیٹرس آئے‘ کچھ دن کچھ برس انہوں نے من مانی کی۔ اپنی مرضی عوام پر مسلط کئے۔ پھر جب حالات نے کروٹ لی تو ان ڈکٹیٹرس کے تکبر بھرے سر زمانے کی ٹھوکروں میں نظر آئے۔ ہندوستان اور اس کی ریاستوں میں جمہوری طریقہ سے حکومتیں‘ منتخب کی جاتی ہیں۔ جمہوری نظام کے سب سے اہم خصوصیت یہی ہے کہ الیکشن سے پپلے امیدوار عوامی کے سامنے ہاتھ جوڑے رہتے ہیںاور الیکشن کے بعد عوام اپنے منتخبہ امیدواروں کے آگے ہاتھ جوڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہم جمہوری طریقہ سے ڈکٹیٹرس کا انتخاب کرتے ہیں یا پھر اچھے خاصے انسان کو اس کے حاشیہ بردار ڈکٹیٹر بننے کے لئے مجبور کردیتے ہیں۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی جماعت اگر ایک خاندان کے زیر اثر ہے تو اس میں ڈکٹیٹرشپ کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔ کانگریس میں نرسمہا رائو کے دور کو چھوڑ کر عنان اقتدار ہمیشہ نہرو خاندان کے پاس رہی۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اندرا گاندھی کو پہلی ڈکٹیٹر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔اس کے بعد راجیو گاندھی ہو یا سونیا گاندھی ہو کانگریس پر اسی خاندان کا اثر رہا اور کانگریس کے اقتدار سے دوری کی وجہ بھی یہی رہی۔ آج کانگریس میں بھی بغاوت ہے۔ راہول گاندھی کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ جانے کیوں کانگریسیوں کی نظر نہرو خاندان سے پار نہیں جاتی۔ سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، لوک دل اور کس کس جماعت کا نام لیں۔ایک خاندان کی اجارہ داری نے اُن جماعتوں کے سربراہوں کو خود پسند اور ڈکٹیٹر بنادیا ہے۔ کب کس کے خلاف بغاوت ہوگی یہ نہیں کہا جاسکتا۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض جماعتوں میں حلیف جماعتیں بھی بہت سلیقے سے دھوکہ دیا کرتی ہیں۔ اس وقت بی جے پی میں اجتماعی قیادت یا داخلی جمہوریت کی باتیں کہی جارہی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس پارٹی کے سینئر قائدین جانتے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے؟ اس طرح بڑے بڑے عہدوں کے دعویداروں کو بڑے احترام کیساتھ اپنے سرپرست بناکر دور بٹھادیا جاتا ہے اور کس طرح پارٹی میں ابھرنے والی قیادت کو زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ دے کر ان کی صلاحیتوں کو ختم کیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں مجموعی طور پر جمہوری مزاج کمزور ہے۔ جمہوریت دولت مند گھرانوں کی کٹھ پتلی ہے۔ یہ دولت مند گھرانے ہی حکومت چلاتے ہیں جسے امراء کی حکومت یا Pluto Cracy کہتے ہیں۔ اُس وقت ہندوستان کی حکومت امبانی، اڈانی جیسے گھرانے چلاتے ہیں۔ بہرحال آزادی کو 70برس بیت گئے تو لگتا ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت بھی بوڑھی اور کمزور ہونے لگی ہے۔ڈکٹیٹر شپ کا دور ہے‘ جو کچھ عرصہ رہے گا پھر حالات بدلیںگے کجریوال کے حالات سے ہر ایک کو سبق لینے کی ضرورت ہے۔ آج ان کی تو کل کس کی باری ہے‘ کون کہہ سکتا ہے۔ آج ہندوستان کے طاقتو رترین سمجھے اور تسلیم کئے جانے والے نہرو کا انجام کیا ہونے والا ہے‘ کون کہہ سکتا ہے۔ کیا اندرا گاندھی یا نرسمہا رائو کو اپنے عروج کے دور میں اس کا اندازہ تھا۔
ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ فون9395381226