انگریزکی غلامی سے ہندوستان کی آزادی کے بعد ہمارے رہنماؤں نے برطانوی پارلیمانی نظام کی تقلید میں جمہوری سسٹم نافذ کیا۔ ا س کے لئے ایک ضخیم آئین مر تب کیا گیا ۔ دستور ہند میں ہندوستان کے ہر شہری کو برابری کے حقوق فراہم کئے گئے، اُسے اپنی من مرضی کےمطابق زندگی گزارنے کی آزادی ملی، اُسے ہر طرح کے استحصال سے نجات دی گئی، اُسے تعلیمی و ثقافتی حقوق انجوائے کر نے کا حق ملا، اُسے بلا کسی روک ٹوک کے اپنے مذہبی قانون پر چلنے اور سماجی رسومات کی پیروی کرنے کی آزادی سے سرفراز کیا گیا۔ آئین کی ان عنایات کے برعکس موجودہ حالات کوئی اور ہی رام کہانی سنا رہے ہیں ۔ بی جے پی اقتدار کے پونے پانچ سال میں جمہوری نظام کی ان عنایات اور نعمتوں کوبہت بُری طریقے سے گھائل کر تی جا رہی ہے۔ اس کےجیتےجاگتے ثبوت ہر جانب بکھرے پڑے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 2017-18میں ڈیموکریسی انڈیکس کی گرتی ہوئی رینکنگ میں انڈیا 10 سے 42 پر آگیا اور economic intelegence group کے مطابق ہندوستان میں ہندوتوا کی وجہ سے اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور سنگھ پریوار سے اختلاف رائے رکھنے والی تمام آوازوں کے خلاف تشدد بڑھا ہے، مذہبی فسادات میں شدت آئی ہے، لوجہاد کے بہانے مسلمانوں کو ستایا جارہاہے ، گھر واپسی مہم چلاکر اقلیتی مسلم طبقے کو ڈرایا دھمکایا جارہاہے ، گائے رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو موب لنچینگ کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ آئین ہند کے مطابق کسی بھی مجرم کو عدالتی کارروائی کے بغیر مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا اور جب تک عدالت میں جرم ثابت نہیں ہوجاتا ،اُس کو بے قصور سمجھ کرسزا نہیں دی جاسکتی، لیکن ہجومی قاتل آئین و قانون کو مانتے ہیں نہ انسانیت کی خلاف ورزی کر نے اور انصاف کی دھجیاں اڑانے میں انہیں کوئی مضائقہ نظر آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بےگناہ انسانوں کو بیف کھانے کے نام پر قتل کیا جارہا ہے، عورتوں کی عزتیں پامال کی جارہی ہیں ، عزتیں لوٹنے والوں کو پہلے قانون کے رکھوالے خای وردی والے چھیڑتے ہی نہیں جاتا لیکن اگر رائے عامہ کے دباؤ میں کسی درندے کی جیل بھی ہوتی ہے تو زندان خانے میں اُسےوی آئی پی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، پھر چند روز بعد ’’باعزت‘‘ بری کر کے کر ائم کی دنیا جگمگانے کے لئے رہاکیا جاتا ہے۔ دوسری طرف محض فرضی کیسوں اور بے بنیاد شک کے بہانے مسلم نوجوانوں کو سالوں سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ اس ظالمانہ اور آمرانہ طرز عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں آئین کا نہیں بلکہ غنڈہ راج ہے ، اَندھ کار ہے ، قاتلوں کا دبدبہ ہے ۔اس لئے ملک میں جمہوریت کی بنیادیں ڈھ کئی ہیں بلکہ جمہوری نظام کے چاروں ستون یعنی مقننہ، منتظمہ، عدلیہ اور میڈیا آثار قدیمہ بنے بکھرے پڑے ہیں ۔ ڈیماکریسی کا چوتھا ستون کہلانے والا میڈیا کو بھاجپا نے کھوٹے سکوںخرید لیا ہے اور اگر کوئی صحافی یا چنل صحافت کی عزت ریزی سے بارہے تو ڈرا دھمکا کر اُس کی آواز کچل دی جاتی ہے یا اس کی اَن سنی کردی جاتی ہے ۔ چنانچہ گوری لنکیش، مدھیہ پردیش کے صحافی سندیپ شرما، نوین نشچل اور پروفیسر کلبرگی جیسے بےباک صحافیوں اور دانشودروں کو قتل کیا گیا اور انسانی حقوق کی بات کر نے والے گوتم نولکھا اور اُن کے دیگر ساتھیوں کو’’گناہ گار ‘‘ قرار دے کر کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا اورایسے دوسرے ’’قصورواروں‘‘ پر حملے کرواکے چپ کرایا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ سنگھ کی سر پرستی میں کالی کرتوتیں کر نے والوں کو ایماندار اور فرض شناس پولیس اہلکار وں کو ٹھکانے لگانے کی سپاری دی جاتی ہے ۔اس کی تازہ مثال پہلوخان کے قتل کی جانچ کرنے والے بلندشہر کے انسپکٹر سوبودھ کمار کا دن دھاڑے ہندوتوغنڈے کے ہاتھوں قتل ہے ۔ ان اندھے بھگتوں کو کھٹوعہ کے بدنام زماں آصفہ کیس کی طرح کہنے کو گر فتار تو کیا جاتاہے مگر ان کے سفاکانہ ظلم کے شکار متاثرین کی آنکھیں انصاف کے انتظار میں پتھر اجاتی ہیں مگرمظلوموں کو عدالتوں سے بجائے عدل کے صرف تاریخ پہ تاریخ ملتی ہے، کیونکہ ہندوستان میں کرپشن اتنا بڑھ چکا ہے کہ چپراسی سے لے کر اعلیٰ عہدیدار و ں تک سب رشوت کے سمندر میں ڈبکیاں مارنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کر تے ۔جہاں حرام خوری عام ہو چکی ہو ،وہاں بے چارے عام انسان کی زندگی آدم خوروں اور خون کے پیاسوںکے پنجوں سے کیسے بچی رہے ؟ بنابریںہندوستان کا ہر عام و خاص شہری حکومت سے لے کر عدالت تک سے شاکی ہے ۔
حد یہ ہے کہ کرسی کے پجاری ان نیتاؤں کو ملک اور قوم کی چٹی نہیں پڑی ہے ورنہ جن کی شان میں ’جے جوان جے کسان ‘‘کا نعرہ بلند ہوا تھا ،وہ سرحد پر گولیاں نہیں کھا ر ہے ہوتے ، کھیتی کسانی والے بھوک، بنک قرضوں اوع عدم شنوائی کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی نہیںکرر ہے ہوتے، ملک کا مستقبل کہلانے والے نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بےروزگار کی مار نہیں کھا رہے ہوتے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تلخ وتند حقیقتوں کے باجود صرف امبانی، اڈانی ، نیرو مودی ، للت مودی ا ور وجے مالیہ جیسوں کے لئے اچھے دن لانے والے عوام کو جھوٹے بہلاوے دے رہے ہیں ، حالانکہ غریب جنتا بے روزگاری ،مہنگائی اور گراں بازاری کے ہاتھوں بے موت مر رہی ہے ۔ اور اگر کوئی کسر رہی تھی اُسے نوٹ بندی سے اور جی ا یس ٹی جیسے بےتکے قوانین لاگو کر کے پوار کیا گیا کہ ہر چھوٹے بڑے انسان کا جینا محال ہوا ۔ دوسرے لفظوںمیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جمہوری نظام میں طاقت کا منبع کہلانے والے عوام کو کرسی کے دیوانے نیتا لوگ محض دھوکے کی غذا ئیں، سرابوں کے جشن اورفریبوںکے گورکھ دھندے کے سوا کچھ اور دینے کی پوزیشن میں نہیں ۔ اب چونکہ کچھ ہی عرصہ بعد جمہوریت کو فسطائیت میں بدلنے والے اور قانون کو لاقانونیت کا لباس پہنانے والے استحصالی عناصر پھر ایک بار ہندوستان کے بھولے بھالے ووٹروں کے پاس ووٹ کے لئے کشکول لئے آئیں گے ، سبز باغ دکھائیں گے، جھوٹے وعدے دیں گے ، عوام کو تحفظ دینے کی قسمیں کھائیں گے ، مہنگائی اور بےورزگاری سے نجات دلانے کی تقریریں جھاڑیں گےمگر یہ سب ان کا مکر وفریب ہوگا۔ خبراد رہئے، یہ مورکھ اگر ہوا کا رُخ اپنے خلاف دیکھیں گے تو نچلے نہیں بیٹھیں گے بلکہ رام مندر کے نام پر ، سہ طلاق کی راگ چھیڑ کر ، سر حد پر جنگی حالات پیدا کرواکے ، مسلم اور دلت اقلیتوں ا ور اکثریت ہندؤوں کو مذہب کے نام پر آپس میں لڑوا کر اپنی ہاری ہوئی بازی جیت لینے کا رقص نیم بسمل کر یں گے کیونکہ انہی چیزوں سے ان کی مری ہوئی سیاست کو آکسیجن ملتی رہی ہے ۔اس لئے ملک وقوم کے وفاداروں کو جاگنا ہوگا ۔ اگر اس بار بھی جنتا سنہرے سپنوں کی گود میں سوگئی تو وہ وقت ضرور آکر رہے گا جب ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا ۔اس لئے وقت رہتے ہوش کے ناخن لیجئے ،سنبھل جائیے ،اگر ہم سچ میں وطن دوست ہیں تو اپنی سیاسی سوچ کو بدلیں اور اپنی اہم ذمہ داریوں کو سمجھیں،اپنی اجتماعی طاقت کو پہچانیں،جب تک ہم اپنے آپ کو نہ بدلیں خدا بھی ہماری نہ بدلے گا ؎
خدا نے آج تک ا س قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ جس کو خیال اپنی حالت آپ بدلنے کا
مجھے یقین ہے کہ ا ب کی بار بھارت کے اصل وفادار اور جمہوریت کے حقیقی مددگار انتخابی جنگ جیت لیں گے اور فسطائیت اور نفرت کے پجاری منہ کی کھائیں گے ؎
پھر دیارِ ہند کو آباد کرنے کے لئے
جھوم کر پھر اُٹھو وطن آزاد کرنے کے لئے