شہزاد انوری، پونچھ
ریاست جموں وکشمیر جہاں دیگر کئی سماجی، عرفی، رواجی اور غیر اخلاقی برائیوں سے جوجھ رہی ہے وہیں پر یہاں گزشتہ ایک دہائی سے جہیز کی لعنت بھی معاشرتی جہالت کی بنیاد پر تیزی کے ساتھ اپنے پیر پسار رہی ہے، بلاشبہ جہیز ایک ناسور ہے جو ہماری ریاست میں کینسر کی طرح پھیل رہا ہے۔ اس لعنت نے ریاست کی بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے، معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں، آرزؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اُجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔ یوں تو ساری دنیا میں عموماً مگر ہماری ریاست میں خصوصیت کے ساتھ یہ ایک رسم بنتی جا رہی ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں اور اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑے کپڑوں میں ان کی لخت جگر کو قبول کر لے۔
جہیز کی اصل حقیقت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ لڑکی کے والدین جنہوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اور گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت اگر کچھ تحفے دیتے ہیں تو اسے جہیز نہیں بلکہ اپنی اولاد سے محبت و تعلق کی بناء پر فطری عمل ہے لیکن موجودہ دور میں ان تحائف کی جو حالت بنا دی گئی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ ماں باپ کے ان تحفوں کو لڑکے والوں نے فرمائشی پروگرام بنا دیا ہے اور پورا نہ ہونے پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے یہ سماجی رسم ہوا کرتی تھی آج جہیز بن گیا ہے۔ اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کئے جا سکتے، بالخصوص ملک کے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ سرینگر اور جموں جیسے شہر اور اطراف بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ایک والد اپنے جگر پارے کو اشکوں بھرے ماحول میں داماد کے حوالے کرتا ہے، یہ بھی کوئی کم احسان نہیں ہے مگر جہیز کے لیے سسرال میں لڑکیوں کو پریشان کرنا بہت گھٹیا حرکت ہے، سسرال میں بہوؤں کے ساتھ خوش اخلاقی کا معاملہ ہونا چاہئے، انہیں پریشان نہیں کرنا چاہئے، جہیز کے نام پر ان کو تنگ کرنا، بار بار طعنے دینا، میکہ سے روپے اور سامان لانے کا مطالبہ کرنا، انہیں ذہنی ٹارچر کرنا اچھے لوگوں کا کام نہیں ہے، شریعت میں جہیز لینا اور دینا دونوں حرام ہے، لیکن افسوس ہمارا معاشرہ اس کی پابندی کرتا ہوا کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ریاست جموں وکشمیر تعلیماتِ اسلامی سے معمور اور سرشار زمین ہے، یہاں اسلام کی جڑیں انتہائی مضبوط ہیں مگر ہمارے قول وفعل کے تضاد کی وجہ سے دوسری اقوام ہماری جانب خلافِ شریعت کام کرنے کی وجہ سے بدظن ہوچکے ہیں جب کہ ہمیں ان کی دعوتی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی ہیں ۔
آج ہمیں زیادہ سے زیادہ اس مسئلہ کی طرف توجہ دینی چاہئے اور اس برائی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے اصلاح معاشرہ کے لیے بنائی گئی انجمنوں، کمیٹیوں اور اداروں کا مسلک ومشرب کے اختلافات سے بالاتر ہوکر ساتھ دینا چاہئے، ہر انسان اپنے گھر سے اس کی شروعات کرے اور یہ عزم کرے کہ نہ اپنی یا اپنے بچوں کی شادی میں جہیز لینا ہے اور نہ بچی کی شادی میں جہیز دینا ہے، پورے معاشرے سے جہیز کی بیماری ختم ہونی چاہئے تاکہ اس طرح لڑکیوں کو انتہائی اقدام کرنے کی نوبت نہ آئے اور معاشرے کے اندر کوئی نامناسب صورت حال پیش نہ آئے۔
آئیے ہم اپنے اندر جھانکیں اور یہ محسوس کریں کہ جس گھر میں لڑکا ہے اس گھر میں لڑکی بھی ہے، اگر وہ اپنی بہو کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں گے، تو ان کی بیٹی کے ساتھ بھی خوش اخلاقی کا مظاہرہ ہوگا۔ہمارے گھر میں جو بہو ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے، جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹی کو کوئی تکلیف نہ دے تو ہمیں بھی چاہئے کہ جو بیٹی اپنا گھر بار چھوڑ کر ہمارے گھر آئی ہے، اس کو بھی اپنی بیٹی سمجھیں اور اپنے کسی عمل سے اس کو ذہنی یا جسمانی تکلیف نہ پہونچائیں، ہر آدمی جب اس کی عادت ڈالے گا تو کسی بیٹی کے ساتھ بھی برا سلوک نہیں ہوگا۔
سرینگر کی شہرۂ آفاق ڈل جھیل، دریائے جہلم اور جموں کے دریائے چناب میں ہماری کئی بہنیں بیٹیاں اسی خوف کے مارے ڈوب کر خود کشی کرچکی ہیں جو ہم سب کے لیے نشانِ عبرت ہے۔جہاں تک خود کشی کا تعلق ہے تو ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جان اپنی امانت نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی امانت ہے، اسے کسی طرح سے برباد نہیں کرنا چاہئے، اور اسلام نے کسی بھی حال میں خود کشی کی اجازت نہیں دی ہے، آئیے ہم سب عہد کریں کہ اپنے گھر کا سماجی قبلہ درست کرنے کی کوشش کریں گے، کیوں کہ جب آغاز گھر سے ہوگا تو تاثیر ہر چہار سو پھیلے گی اس لیے کہ ایمانی معاشرہ مسلمانوں کی کثرت سے نہیں بلکہ ایمانی محنتوں سے بنتا ہے ۔
آج سماجی اور اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ کوئی پہلو اور زاویہ ایسا نہیں کہ ہم اطمینان کی سانس لیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہرماں باپ ہوش کے ناخن لیں۔ سماج کی رہبری کرنے والے آگے آکر معاشرے کو صحیح راہ پر گامزن کریں جب کہ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری صرف بچوں کی شادیاں کرنے تک محدود نہیں، اصل ذمہ داری تو بچوں کی تربیت کرنے کی ہے اور یہ فرائض میں شامل ہیں۔ نکاح کو بھی جتنی سادگی سے انجام دینے کی ہدایت تھی۔ ہم نے اس کو اتنا ہی بڑا تماشہ بنادیا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔