قیصر محمود عراقی
بچپن کی یادوں میں ایک بہت ہی مسحور کردینے والی چیز کتاب کا تحفے میں ملنا تھا۔ اس وقت اتنا جوش وخروش ہوتا تھا کہ ساری رات جاگ کر وہ کتاب مکمل کرنا چاہتے تھے، پھر اگلے تحفے یعنی کتاب کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ وقت نے کروٹ لی اور آج کل کے بہترین تحفے کچھ سائنسی آلات ہیں ، ہماری نوجوان نسل کے پاس مہنگےموبائل، لیپ ٹاپ یاپھر گیجیٹ نظر آجاتا ہے مگر شاید کسی کے ہاتھوں میں کوئی کتاب نظر آئے، یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ ایک وقت تھا جب چائے خانوں میں ، باغات میں اور ایوانوں میں ادبی محفلیں منعقد ہوتی تھیں ،جہاں بڑے بڑے دانشور ، صحافی اور اسکالرز ہوتے تھے، لوگ ان کی باتوں سے محظوظ ہوتھے تھے، ساتھ ہی کسی کتاب کی رونمائی ہوتی تھی اور نئےادیب کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی اور کتب پر تبصرہ، تجزیہ اور آراءکااظہار کیا جاتا تھا، عوام الناس میں کتب بینی کا رجحان زیادہ تھا، ان میں ذوق وشوق اس قدر پایا جاتا تھا کہ لوگ ٹرینوں ، بسوںاور فٹ پاتھ پر انتظار کرتے ہوئے بھی مطالعہ کرتے ہوئے نظر آتھے تھے۔ آج کل کی نسل کوایک اشارے پر دنیا بھر کی تمام معلومات تو حاصل ہوسکتی ہے جو اپنی صبح کا آغاز فیس بک اور واٹس ایپ کو دیکھ کر کرتے ہیںمگر ان میں مطالعہ کا رجحان بہت کم رہ گیا ہے۔ جیسے جیسے دورِ جدید کی ٹیکنالوجی ہماری زندگی میں شامل ہورہی ہے ، کتاب کہیں دور فضا میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ ترقی کرنا ہر دور کا تقاضا رہا ہے، ہماری نئی نسل کو بھی نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر چلنا چاہئے لیکن کتب بینی جیسی خوبصورت عادت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ آج ہماری نئی نسل ٹیکنالوجی کی بدولت کتب بینی اور مطالعے سے دور ہوتی جارہی ہے ایسے میں نسل نو کو کتب بینی کے حوالے سے شعور وآگہی دینا اور انہیں علم وادب کی جانب راغب کرنا انتہائی ضروری ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ اسکولوں ، کالجوںاور یونیورسیٹیوں میں نوجوانوں کیلئے ادبی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے تاکہ ان میں ادب سے متعلق دلچسپی بڑھے، کتابوں کے حوالوں سے ایسے پروگرام ترتیب دیئے جائیںجن کے ذریعے سے نئی کتابوں کا تعارف اور ان کی افادیت اجاگر ہوسکے۔ میڈیا میں ادبی پروگرام ہو ، مختلف کتابوں پر مثبت بحث ومباحثہ ہو ، سنیئر مصنفین چھوٹے اور نو آموز لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی، نسل نو میں کتب بینی کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ بچپن سے بچوں کو کتاب کی اہمیت دلائی جائے، چھوٹے بچوں کو موبائل ، کمپیوٹر اورلیپ ٹاپ سے دور رکھا جائے، چھوٹی چھوٹی معلوماتی کتابی دلائی جائیں۔ آج کل مختلف رنگ بھرنے والی کتابیں دستیاب ہیں جن میں چند سطروں میں تصویر سے متعلق معلومات بھی لکھی ہوتی ہے، ایسی کتابوں سے بچوں میں دلچسپی بڑھے گی، بچوں کے معلوماتی رسائل کتب بینی کا شوق بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، ان میں مختلف معلوماتی اور انعامی سلسلے موجود ہوتے ہیں جو بچوں کا شوق بڑھاتے ہیں، اس کے علاوہ بچوں کو کتاب میلوں میں شرکت کروائی جائے ، اس سے ان کے اندر کتاب دوستی کا شوق پیدا ہوگا۔ والدین کو چاہئے کہ وہ بچپن ہی سے بچے کو کتب بینی کی جانب راغب کریں، بچوں کو رسائل لاکر دیں، درسی کتابوں کے ساتھ معلوماتی دلچسپ کتابیں ان کو پاس بٹھاکر خود بھی پڑھیں اور ان کو پڑھائیں تاکہ وہ بصد شوق کتب بینی کی عادت ڈالیں ۔
نسل نو میں کتب بینی کے فروغ کیلئے خاص جدوجہد کرنی پڑے گی کیونکہ کتابوں کا مطالعہ بہت حد تک کم ہوچکا ہے، ہمارے نوجوان طبقے میں کتب بینی کا رواج معدوم ہوتا جارہا ہے، یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس میں کہیں نہ کہیں قصوروار ہم بھی ہیں کہ ہر چیز گوگل پر دیکھ لینگے، پڑھ لینگے لیکن جو سکون کتاب سے پڑھ کر ذہن کو ملتا ہے وہ نیٹ سے نہیں ملتا ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل میں وہ شعور نہیں جو پہلے تھا۔ آج پچیس تیس سال قبل تو کتب بینی کی شوقین افراد مطالعہ کیلئے ایک دن مخصوص کرلیا کرتے تھے، ایک فرد سب کو کتاب پڑھ کر سنا دیا کرتا تھا، باقی سب لوگ خاموشی سے سنتے تھے، جبکہ آج کل تو ہماری دسترس میں انٹرنیٹ آچکا ہے جس میں سب مصروف ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں انہیں یہ بتانا ہوگا کہ زندگی کی بدصورتیوں سے پناہ لینے کا طریقہ کتب بینی کی عادت ہے، کتب بینی آپ کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، آپ کی ذہنی صلاحیتوں کو سنوار کر اس قابل بناتی ہے کہ آپ دنیا کو تسخیر کرسکیں۔ موجودہ دور میں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مطالعہ کم ہونے کی ایک بڑی وجہ افراط زر ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جہاں پر لوگ انتہائی مشکل سے اپنی زندگی کا پہیہ چلا رہے ہیں، وہاں پر کتابیں خریدنا ایک مہنگا مشغلہ ہے۔ دوسری بڑی وجہ زندگی گذارنے کے اطوار بدل گئے ہیں، اس بھاگم بھاگ دور والی زندگی میں جہاں رات سے صبح اور صبح سے رات تک صرف اور صرف آسائشات کے پیچھے چلتے ہیں، ایسے میں ہمارے گھروں میں کتب کی موجودگی ایک معمہ بن گئی ہے۔ متوسط طبقے کا ایک گھر جہاں پر بس ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ ہے ، زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ نصابی کتب پڑھنا اور پھر اچھی ڈگری کا حصول ، پھر ایک اچھے ادارے میں ملازمت رہ گیا ہے۔ ایسے میں طلبا کا اپنی نصابی کتب سے ہٹ کر کچھ اور پڑھنے کی طرف ہی دھیان جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گھر کے بزرگ غیر نصابی کتاب پڑھنے کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرتے، ان کے نزدیک یہ وقت کا ضیاع ہے، ایک اور بڑی وجہ جس سے ہر عمر کے افراد متاثر ہوئے اور روز مرہ زندگی کا ہر شعبہ بھی اس کا اثر لیئے بغیر نہیں رہا، وہ ہے معلومات کا آسان حصول ، معلومات حاصل کرنے میں جدید سائنسی آلات اور انٹر نیٹ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، مگر معلومات کا حصول تو بڑھ گیا ہے لیکن دانش کم ہوکر رہ گئی۔
لہٰذا ان حالات میں کتب بینی کو فروغ دینے کیلئے ایسے اقدامت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں ایسا ماحول بنانا چاہئے جس سے بچوں میں مطالعے کے رجحان میں اضافہ ہو ، اس کے لئے ماں باپ کو خود مطالعہ کرکے مثال قائم کرنی چاہئے اپنے حلقہ احباب میں اچھی کتب کا ذکر ، مطالعہ ، تبصرہ اور اور تجزیہ کرکے شوق کو ابھارنا چاہئے۔ کتب بینی کو فروغ دینے کیلئے اسکول یا لائبریری ایک جامع اور کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے، اسکول اور کالجز میں وقتاً فوقتاً کتب میلے منعقد کرنے چاہئیں جس میں طلبا کو رعایتی قیمت پر کتاب دستیاب ہو ، نیز مقامی زبانوں اور قومی زبان میں ترجمے کو فروغ دینا چاہئے، دوسرے ملکوں ، زبانوں کے ادب کو ہماری مقامی زبانوں میں ترجمہ کرکے شائع کرنا چاہئے، اس سے نہ صرف ہماری اردو زبان کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ ہماری نسل بھی مطالعہ اور اچھی کتب سے نظر نہیں چرائی گی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کتابوں کو خریدا جائے اور نوجوانوں کو انہیں پڑھنے کیلئے کہا جائے پھر ان سے پوچھا جائے کہ مطالعے سے انہوں نے کیا سیکھا ؟ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کتاب بطور تحفہ دی جائے کیونکہ ایک اچھی کتاب سے اچھا تحفہ کوئی اور ہوہی نہیں سکتا۔ اگر گھر میں ادبی ماحول ہو تو پھر ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ کوئی بھی فرد کتب بینی سے انکار کرے۔
(رابطہ۔6291697668)