ہلال بخاری
کسی دانشور کا قول ہے کہ جس کمرے میں کوئی کتاب نہ ہو، وہ اس جسم کی طرح ہے کہ جس میں روح ہی نہ ہو۔ کتابوں کو ہمیشہ سے علم کا ماخذ تصور کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ علم صرف کتابوں میں نہیں ہوتا۔ ہمارے آس پاس بسنے والی فطرت اور یہاں تک کہ ہمارا اندرون ہمیں علم کے مختلف گوشوں سے خود بہ خود آگاہ کرتے ہیں۔ لیکن بلواسطہ یا بلاواسطہ کتابوں کے ذریعے ہی ہم ہر طرح کے علم سے آگاہ ہوتے ہیں۔ کتابیں ہی ہمیں فطرت اور اپنے اندرون کو صحیح معنوں میں پہچاننے میں مدد کرتی ہیں۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آج کے زمانے میں کتابیں ہی ہمارے علم کی بنیادی ماخذ ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے نوجوان نسل میں دن بدن کتب بینی کی عادت کم ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے نوجوان آج کل کتابوں کے بجائے اپنا قیمتی وقت موبائل فونوں پر گزارتے ہیں۔ اگر موبائل فونوں کا استعمال صحیح انداز میں بھی کیا جائے تب بھی وہ کتابوں کی جگہ نہیں لے سکتے ہیں۔ آج کل ہمارے نوجوان پڑھنے میں بھی جلد بازی کرتے ہیں اور کتب بینی کے بجائے موبائل یا مختصر نوٹس کا استعمال کرکے علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ اس سے ہمارے نوجوانوں کے مستقبل پر بہت ہی برا اثر مرتب ہوسکتا ہے۔ آج کل نہ صرف ہمارے طلبہ بلکہ اساتذہ حضرات بھی کتب بینی کی اعلیٰ عادت سے بیزار نظر آتے ہیں۔ جو استاد خود ہی کتب بینی کے فائدوں سے بے خبر ہوں، وہ کس طرح سے اپنے طلاب کو اس رحمت کے بارے میں آگاہ کرسکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کتب بینی آج کل لوگوں کو اس اہمیت کی حامل نظر نہیں آتی ،جیسے یہ ایک وقت میں تصور کی جاتی تھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی قوموں نے سائنس اور ادب کی بہترین کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی عظمت کے بلند مقام حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جن اقوام کے نوجوانوں نے بر وقت کتب بینی کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا اور اسے اپنایا آج ان کامعیار زندگی باقی سب اقوام سے بالاتر ہے، وہ لگاتار ترقی کے راستے پر گامزن ہیں۔ جب کہ وہ اقوام جنہوں نے کتب بینی سے راہ فرار اختیار کرنا مناسب جانا، آج کل کے زمانے میں بھی دقیانوسی تصورات کے چنگل سے آزاد ہونے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔
وقت کا یہ تقاضا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو نہ صرف کتب بینی کی اہمیت کے آگاہ کیا جائے بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم انکو بہترین کتب کے انتخاب کرنے میں بھی رہنمائی کریں۔
حیرت اس بات سے ہوتی ہے کہ آجکل لوگوں کو مذہبی کتابوں سے علم حاصل کرنے کی بھی فرصت نہیں۔ کچھ لوگ اگر چہ قرآن، بایبل یا گیتا جیسی مذہبی کتب کا مطالعہ کرتے بھی ہیں تو وہ انکو منتر کی طرح صرف یاد کرتے ہیں جبکہ وہ انکے اصلی مطلب سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں تاکہ وہ کتب بینی کی عادت اپنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ آمادہ ہوں۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہماری ترقی اور بہتری کا راز کتب بینی کے ساتھ بہت حد تک وابستہ ہے۔ دنیا کی بہترین سائنسی، ادبی اور مذہبی کتابوں کا مطالعہ کرکے ہی ہم اس حقیقت سے آشنا ہوسکتے ہیں جس میں ہماری بہترین اور پرسکون زندگی کا راز پنہاں ہے۔