سوال :آج کل بہت سارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آپس میںتعلقات رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔تعلقات کا یہ سلسلہ یہاں تک پہنچ رہا ہے کہ اب غیر مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ تعلقات جوڑنے میں بھی کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی ہےاور اب نوبت یہاں تک پہنچ رہی ہے کہ ایک جگہ تعلقات ختم کرکے دوسرے سے شروع کرتے ہیںاور پہلے کا نام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ میرا X. boy friendہےیا وہ میری X,gril friendہے۔بعض لڑکوں اور لڑکیوںکے کئی کئی تعلقات پہلے رہ چکے ہیںاور وہ ختم کرکے نئے تعلقات میں چل رہے ہیں۔اس سلسلے کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟
محمد عمران شیخ۔راجباغ سرینگر
جواب :کسی بھی نوجوان لڑکے کا کسی غیر محرم نوجوان لڑکی کے ساتھ تعلقات جوڑنا اسلامی احکام اور اخلاقی اقدار اور عقلی تقاضوں تینوں اعتبار سے نہایت غلط روش ہے۔یہ تعلقات ابتداء میں بہت محدود ہوتے ہیں لیکن یہی تعلقات آگے چل کر اُن حدود تک پہنچ جاتے ہیں جو ان کا آخری مرحلہ ہوتا ہے۔نفس اور شیطانی اثرات کا اکثرنتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ زنا کاری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ان تعلقات کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،یہ سراسر غلط خیال ہے۔یہ تعلقات جونہی شروع ہوجاتے ہیں تو ان کی آنکھ ،کان ،زبان اور دماغ یہ چاروں گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔آنکھ سے ایک دوسرے کو دیکھنا ،کان سے ایک دوسرے کی بات سُننا اور زبان سے گفتگوکرنا اور دماغ میں ایک دوسرے کو بسانا اور ایک دوسرے کے متعلق سوچ سوچ کر لطف اندوز ہونا ،ان چاروں اعضاء کا وہ گناہ ہے جو ان تعلقات کے نتیجے میں شروع سے صادر ہونے لگتا ہے۔پھر اگر ہاتھ سے ایک دوسرے کا جسم چھونے کا سلسلہ شروع ہوجائے تو یہ ہاتھ کا گناہ ہوگااور جب ایک دوسرے سے ملاقات کے لئے چلنا پھرنا ہوجائے تو یہ پائوںکا گناہ ہوگا ۔۔۔ یہاں تک پہنچتے ہوئے اگر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا اور ہمارے تعلقات پاک و صاف ہیں تو یقیناً یہ سوچ سراسر غلط ہے۔اس لئے کہ حدیث میں ہے : حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور اُن کا زنا دیکھنا ہے۔کان بھی گناہ کرتے ہیںاُن کا زنا گناہ کا سُننا ہے۔ہاتھ زنا کرتے ہیں ،اُن کا زنا چھونا ہے۔پائوں زنا کرتے ہیں اور اُن کا زنا چلنا ہے۔یہاں تک پہنچتے ہوئےگویا یہ سارے اعضاء وہ گناہ کرگئےجو ان اعضاء سے ہوسکتا تھااور پھر آہستہ آہستہ یہی تعلقات اُس خطرناک اور بدترین انجام تک پہنچ جاتے ہیں جس کے متعلق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زنا کرنے والے مرد وعورت کی شرمگاہوں سے ایسی بدبو آئے گی کہ جہنم کے لوگ، جہنم کی آگ سے اتنے تنگ اور پریشان نہ ہوں گے جتنے ان زناکاروں کی شرم گاہوں سے نکلنے والی بد بو سے۔۔۔۔ اس لئے ہر مسلمان لڑکے اور لڑکی کو یہ سمجھنا لازم ہے کہ وہ اس طرح کے تعلقات کو حرام سمجھیں ،اس لئے کہ ہمارے دین نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور جس چیز کو اسلام نے حرام قرار دیا، اُسے کوئی شخص اپنے نفسانی ،شیطانی اور شہوانی خیال اور استدلال سے حلال نہیں کرسکتا ۔پھر اگر یہ تعلقات دوسرے کسی مذہب والے سے ہوں تو یہ اور بھی حرام ہے۔ مسلمان اگر کسی غیر مسلم سے نکاح بھی کرے تو بھی وہ حلال میاں بیوی نہیں بن سکتے تو نکاح کے بغیر ایمانی غیرت ہوتے ہوئے اس کو سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔والدین پر بھی یہ اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو اس حرام میں مبتلا ہونے سے بچانے کی فکر کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : ہمارا سوال نہایت اہم اور بہت نازک ہے کہ یہاں کشمیر میں کچھ ادارے لاوارث بچوں کو لیتے ہیں ، ان کو پالتے پوستے ہیںاور پھر ان کو کسی بھی بے اولاد شادی شدہ جوڑے کو دے دیتے ہیں۔لاوارث بچےکو کسی ایسے جوڑے کو بھی دیا جاتا ہے جو مسلمان نہیں ہوتے ۔اس صورت ِ حال کے متعلق شریعت ِ اسلامیہ کا موقف کیا ہے؟ میں نے بذات ِ خود دیکھا ہے کہ یہ ادارے لاوارث بچہ ایک غیر ریاستی غیر مسلم جوڑے کو دے گئے۔
عبدالعزیز شاہ ۔بانڈی پورہ
بچے کو لاوارث کرنے کا گناہ ماں باپ کے سَر
جواب :لاوارث بچہ اگر زنا کاری کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے اور اس لئے اس کو چھوڑدیا گیا ہو ،پھر یہ بچہ اس جگہ پہنچ گیا جہاں ایسے بچے پہنچائے جاتے ہیں ۔پھر یہاں سے یہ بچہ کسی غیر مسلم جوڑے کو دیا گیا تو یقیناً یہ بچہ آگے چل کر ایمان سے محروم ہو گا۔اس لئے کہ وہ اُسی طرح کے ماحول میں پہنچ گیا ہے ۔اب جن افراد کی زنا کاری سے یہ بچہ وجود میں آیا ہے،اُن کے سَر پر دو گناہ ہوگئے ۔ایک زنا کاری کرکے حرام بچہ پیدا کرنا ،دوسرا اس بچہ کو اُس جگہ پہونچانا جہاں پہنچ کر وہ ایمان سے محروم ہوگیا اور اگریہ بچہ کسی شرعی میاں بیوی نے لاوارث کی طرح چھوڑ دیا تو اس حلال بچے کو یقیناً کفر تک پہنچانے کا یہ ذریعہ بن گئے ہیں۔اس لئے اس بچے کے کافر بننے کا گناہ ساری زندگی اِن ماں باپ پر ہوگاجن کے ہاتھوں یہ جرم سرزَد ہواکہ ایک ایمان والا بچہ کفر کے گھر پہنچ کر کافر بن گیا ۔لاوارث بچوں کا ادارہ چلانے والوں پر بھی لازم ہے کہ وہ مسلمان بچہ کو کسی غیر مسلم جوڑے کے حوالے نہ کریں۔اس لئے کہ مسلمان بچہ جب آگے چل کر یقیناً ایمان سے محروم ہوگیا تو اس کا ذریعہ یہی ادارہ چلانے والے افراد ہوں گےاور اس گناہ کا وبال اُن افراد پر دنیا و آخرت دونوں جگہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :اگر کسی انسان کو نزلہ ،زکام اور چھاتی میں بلغم ہوجائے اور وہ بلغم کھانسی سے نکلتا رہے تو اس سے ہر انسان کو طبعی طور پر بہت ناگواری ہوتی ہے،اسی لئے یہ بلغم اگر کپڑوں یا جسم پر لگ جائے تو انسان اس کو صاف کرنے کی جلد سے جلد کوشش کرتا ہے۔اب ہمارا سوال یہ ہے کہ بلغم پاک ہے یا ناپاک ۔اب بلغم کسی جگہ لگا رہ گیا تو کیا اُسی حالت میں نماز درست ہے یا نہیں؟
محمد اسلم ۔ڈوڈہ
بلغم کپڑے پر لگنے سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا
جواب :بلغم ناپاک نہیں بلکہ پاک ہے ۔انسان طبعی طور پر اس سے تکدّر محسوس کرتا ہے مگر بلغم کو جب شریعت نے ناپاک قرار نہیں دیا تو اس کو ناپاک نہیں کہہ سکتے۔پھر اگر بلغم کو ناپاک قرار دیا گیا ہوتا تو جس منہ سے وہ نکلتا ہے وہ منہ بھی ناپاک ہوجائے گا ،حالانکہ ایسا نہیں ۔خلاصہ یہ کہ بلغم کپڑے میں لگا ہو یا جسم پر اس کے لگے رہنے سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-نیم آستین والے قمیص میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں اور آ ج کل کے نوجوانوں میں کڑھے پہننے کا فیشن ہے ، کیا اسے پہنے ہوئے نماز پڑھنادرست ہے ؟
ایک سائیل
شرعی لباس میں نماز پڑھنا افضل
جواب:- افضل اور شرعی طور پرپسندیدہ یہ ہے کہ شرعی لباس میں نماز ادا کی جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حکم ہے کہ ہر سجدہ کے وقت اچھی زیب وزینت کرو ۔ (سورہ الاعراف )۔ظاہرہے یہاں شرعی زیب وزینت ہی مراد ہے۔ شرعی لباس یہ ہے کہ پوری آستین والی قمیص جو رانوں تک ستر کرنے والی ہو اور ایسا پاجامہ یا پتلون جو ٹخنوں سے اوپر اور رانوں اور سر ینو کے مقام پر ڈھیلی ڈھالی ہو تاکہ ستر کے حصے کا حجم ظاہرنہ ہو اور سرپر عمامہ یا ٹوپی ہو ۔بس اس طرح کے لباس میں نماز پڑھناشریعت کا مطلوب ہے۔ مجبوری میں جب نصف آستین میں نماز پڑھی گئی تو وہ ادا ہوجاتی ہے اور جب کوئی ایسی حالت میں ہوکہ یا تو نماز چھوڑ دینی پڑے یا نصف آستین والی شرٹ میں نماز پڑھنی پڑے تو ایسی حالت میں اُسی شرٹ میں نماز پڑھیں مگر نماز ترک نہ کی جائے ۔
ہاتھوں پر کڑھا یا دھاگا باندھنا اہل کفر کا شعار ہے ۔اس سے سختی سے پرہیز کرنا لازم ہے اس لئے کہ اس سے ایمان کو خطرہ ہوتا ہے۔اہل کفر کا کوئی شعار مثلاً قشقہ کھینچنا ،ماتھے پر ٹیکہ کرنا،صلیب لٹکانا ، زنار باندھنا ،ہاتھوں میں کڑے ڈالنایا کلائی میں لال یا سیاہ رنگ کے دھاگے باندھنا یا منکوں یعنی لکڑی کے دانوں کے ربن باندھنا یہ سب مختلف غیر مسلم اقوام کے مذہبی شعار ہیں ۔ مسلمانوں کو ان سے ایسے دور رہناضروری ہے جیسے کسی زہریلی چیز سے انسان دور رہتاہے ۔ زہرجان کے لئے خطرہ ہے او رکفر کا شعار اختیار کرنا ایمان کے لئے خطرہ ہے ۔