کورونا متاثرہ میت کی تکفین و تدفین۔۔۔ چند اہم مسائل
سوال:گذشتہ جمعرات دس افراد کرونا سے موت کے منہ میں چلے گئے ۔فوت شدہ افراد کے غسل اور کفن دفن کے مسائل سامنے آئے ۔کئی فوت شدہ افراد کو بغیر غسل دیئے تابوت میں ہی قبر کے حوالے کیا گیا ۔اس صورت حال میں یہ سوالات پیدا ہورہے ہیں کہ اس وبائی بیماری میں فوت ہونے والے افراد کے بارے میں تمام وہ احکام جو ایک مسلمان میت کے ساتھ منسوب ہوتے ہیں ،اُن پر عمل کے متعلق کیا کیا رخصت اور سہولت ہے، نیز غسل ،کفن دفن و جنازہ کس طرح اہتمام کیا جائے ۔اس لئے کہ ہمارے علاقہ میں ایک میت کو بغیر غسل کے دفن کیا گیا۔
عبدالعزیز ۔شوپیان
جواب :کرونا کی وبائی بیماری سے فوت ہوئے شخص کے متعلق وہی سارے احکام ہیں جو دوسرے کسی بھی مسلمان کی میت کے لئے ہیں،البتہ اس سلسلے میں طبی ماہرین جو احتیاط برتنے کا حکم دیں، اُس کی پوری پابندی کی جائے۔اس سلسلے میں یہ امر ملحوظ رہے کہ جیسے کرونا سے متاثرہ شخص کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے اور متاثر ہونے کی بنا پر اُس کو علاج سے محروم نہیں کیا جاتا،اُسی طرح اِس مرض کا شکار ہونے والا جب فوت ہوجائے تو اُس کو اسلامی احکام کے متعلق تمام امور انجام دے کر دفن کیا جائے۔البتہ جو احتیاط علاج کے دوران برتی جاتی رہی ہے وہی غسل ،کفن و دفن میں بھی برتی جائے۔اس سلسلہ میںایسا بے جا خوف درست نہیں جو ورثاء و اقارب کو میت کے قریب آنے سے روک دے۔
۱۔ وائرس سے متاثرہ شخص کے فوت ہونے کے بعد اُس کے جسم پر جرائم کُش ادویات کا اطمینان بخش استعمال کیا جائے،اس کے بعد اس میت سے وائرس پھیلنے کا خطرہ پوری طرح ختم ہوجاتا ہے یا بہت کم رہتا ہے ۔ہاں! اُس کے جسم کے اندر سے کوئی سیال مادہ بہہ کر باہر نکلے تو اُس سے وائرس لگ سکتا ہے ۔لہٰذا میت کو ورثاء کے حوالے کرنے سے پہلے وافر مقدار میں جرائم کُش سینیٹائزر استعمال کیا جائے اور جن راستوں سے اندورونی سیال مادہ باہر آرہا ہے اُن کو پوری طرح بند کیا جائے ۔اس کے بعد غسل دینے والے افراد عمدہ ماسک اور گلاوز اور P.P.Eاستعمال کرکے میت کو غسل دیں۔اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہے کہ جیسے متاثرہ شخص کے زندہ ہونے کی صورت میں وائرس منتقل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ویسا خطرہ فوت ہونے کے بعد نہیں ہوتا ۔یاد رہے میت کا منہ ،ناک ،کان اور دوسرے فطری یا غیر فطری سوراخوں کو روئی کے پانچ فیصد کلورین والے سیال( Liquid) میں ڈبو کر بند کیا جائے ،اس کے بعد اس میت کو ورثاء کے حوالے کرنے سے پہلے یا غسل کی نیت سے اُس کے جسم پر پانی بہا یا جائے یا میت کے جسم پر پانچ فیصد کلورین ملا ہوا پانی ڈالاجائے ،پھر اس کے بعد اگر میت کو مخصوص کپڑے میں لپیٹنے کے لئے طبی ماہرین کا مقررہ کردہ کپڑا ہی استعمال کیا جائے۔یاد رہے متاثرہ شخص کے فوت ہونے کے بعد اُسے پلاسٹک کی مخصوص شیٹ سے لپیٹ دیا گیا تو اب اُس کو کھول کر غسل دینا عملاً طبی احتیاط کے خلاف ہے اور میت کو کھولنے کی اجازت بھی نہیں مل سکے گی ۔اس عمل سے پہلے کلورین کے محلول سے اتنا سپرے کیا جائے کہ میت کا پورا جسم مکمل طور پر بھیگ جائے اور یہ عمل غسل کی نیت سے کیا جائے تو اب دوبارہ غسل کے لئے کھولنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
اب کفن کا مسئلہ ہے ۔میت کے جسم پر جو پلاسٹک شیٹ لپیٹا گیا ہے، اُسی شیٹ پر کفن کی نیت سے سفید کپڑے کی چادر لپیٹ دی جائے ،یہ کافی ہے۔اس کے بعد جنازہ کا مسئلہ ہے ۔چونکہ میت پلاسٹک شیٹ میں لپٹا ہوئی ہے اس لئے اُس سے وائرس پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے، تاہم جنازہ اور تدفین کے دوران تمام لوگ مکمل احتیاط برتیں ،مردے کے ذریعہ وائرس پھیلنے کا ابھی تک کوئی ثبوت نہیں۔اس کے بعد مقبرہ میں تدفین کا مسئلہ ہے۔یاد رہے کہ اس متاثرہ میت کو مقبرہ میں دفن کرنے سے کسی کو کوئی خظرہ نہیں ،اس لئے جن مقامات پر کورونا سے متاثرہ میت کو اپنے مقبروں میں دفن کرنے سے روکا گیا ،یہ سخت ترین اور بدترین جرم کیا گیا ہے۔مقبروں میں اس میت سے مُردوں کو تو کوئی وائرس لگنے کا امکان نہیں اور نہ زندوں کو خطرہ ہے پھر کیوں روکا گیا ۔بلاشبہ یہ شرعاً اور اخلاقاً بھی غلط ہے اور انسانیت سے بھی گری ہوئی حرکت ہے۔ہر ایسی میت اُسی طرح احترام و تقدس کی مستحق ہے جیسی دوسرے اموات کی ہوتی ہیں۔
سوال:۱- خودکشی کرنا کتنا سنگین جرم ہے ؟
سوال:۲-اگرخدانخواستہ کسی نے ایسا ناپاک عمل کرلیا تو اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی کیا صورت ہوگی ؟
ایم جمال
خودکشی کرنا سخت ترین حرام
جواب:۱-خودکشی کرناسخت ترین حرام کام ہے ۔ حدیب میں ہے کہ جس شخص نے خودکشی کی وہ قیامت تک اُسی عذاب میں مبتلارہے جس سے اُس نے خودکشی کی ہو۔غزوہ خیبر میں حضرت نبی کریم علیہ السلام نے ایک شخص کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ جہنم میں جائے گا ۔ حالانکہ وہ شخص بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہاتھا۔ اس لئے صحابہؓ کو یہ سن کر بہت حیرانی ہوئی کہ اس شخص کے جہنمی ہونے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ ایک صحابیؓ نے اُس شخص کی صورتحال جاننے کے لئے اس کا پیچھا کرنا شروع کیا۔ اُس کو ایک معمولی زخم لگ گیا ۔ اس پر اُس شخص نے اپنی تلوار سے خودکشی کرلی ۔ وہ صحابیؓ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں شخص کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھاکہ وہ جہنم میں جائے گا ۔ میں گواہی دیتاہوں کہ آپؐ اللہ کے بچے رسول ہیں ۔میں نے آپ کا ارشاد سچ ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ اُس شخص نے خودکشی کرلی۔ (بخاری، خیبرکابیان)
حضرت خبّابؓ بن الارت ایک عظیم صحابی تھے ۔پیٹ کی ایک سخت تکلیف میں مبتلا تھے ۔ سالہا سال یہ تکلیف جھیلتے رہے اور باربار وہ دربارِ رسالتؐ میں حاضر ہوکر عرض کرتے تھے کہ مجھے خودکشی کی اجازت عنایت ہو۔ مگر حضرت نبی کریم علیہ السلام نے ہمیشہ سختی سے منع کیا۔ اس لئے یہ بات طے ہے کہ خودکشی حرام ہے اور خود کشی کرنے والا یقیناً جہنم میں جائے گا۔ یہ وہ بدترین جُرم ہے کہ اس کے بعد توبہ و استغفار کا موقعہ بھی نہیں رہتا۔
جواب:۲- خودکشی کرنے والے کو بغیر جنازے کے دفن کرنا جائز نہیں ہے ۔اس لئے اُس کے گھر والوں اور رشتہ داروں پر لازم ہے کہ وہ اُس کا جنازہ ضرورپڑھیں ۔
سوال: خاندان کی بنیاد اعلیٰ ہونے کی بنیاد پر رشتہ کرنے سے انکار کرنا کیسا ہے ؟ کچھ لوگ سید ہونے کی بنا پر غیر سید گھرانوں سے رشتہ کرنے سے ناکار کر دیتے ہیں کیا یہ صحیح ہے ، رہنمائی فرمائیں۔ ؟
اعجاز احمد
نکاح میں خاندانی تفاوت کا خیال کرنا؟
جواب :۔خاندانوں میں شرافت ، تقویٰ اور مختلف اوصاف کی بنا پر اعلیٰ و ادنیٰ ہونا شرعاً اور عقلاً ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ مگر خاندانوں کی بنا پر فخر و غرور کرنا بھی سراسر غیر شرعی ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنے آباء و خاندانوں پر فخر کرتے ہیں اُ ن کو اس جھوٹے تفاضہ سے رک جانا چاہئے۔ ترمذی، ابو دائود۔ مشکوۃ، خاندانی فخر و غرور کا ایک شعبہ یہ بھی ہے کہ سید خاندان کی لڑکی کا نکاح کسی غیر سید سے ناجائزہ سمجھا جاتا ہے ۔ حالانکہ والدین کو اگر یہ محسوس ہو جائے کہ فلاں غیر سید لڑکا اپنے علم، تقویٰ ، شرافت، کردار اور خوبیوں کی بنا پر ہ ہماری بیٹی کیلئے بہت مناسب ہے اور وہ رضامند ہو کر اپنی سید زادی کا نکاح اس غیر سید نوجوان کے ساتھ کریں تو شرعاً یہ نہ صرف جائز بلکہ بہتر و مستحسن ہے۔
والدین کی رضامندی کے بغیر از خود کسی خاتون کا رشتہ کرنا شرعاً اور عقلاً دونوں اعتبار سے بہت ساری خرابیوں کا سبب ہوتا ہے اس لئے اگر کسی سید زادی اپنے والدین کی اجازت کے بغیر خود کسی غیر سید سے نکاح کر لیا تو ایسا کرنا شرعی طور پر درست نہیں۔ ہاں کسی سید زای کا نکاح جب اس کے والدین کسی غیر سید سے کرنا چاہیں اور وہ اس سے رشتہ کرنے پر مطمئن ہوں اور مطلوبہ بہترین اوصاف اس میں اُن کو نظر آئیں تورشتہ کرنا جائز ہوگا۔ حدیث میں دینداری کو رشتہ میں ترجیح دینے کا حکم ہے۔
حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد بہن( زینب ؓ) کا نکاح ایک غلام ( زید ؓبن حارثہ) کے ساتھ کر دیا تھا ۔ حضرت زین العابدین ؒ نے اپنے غلام سے اپنی ہمشیرہ کا نکاح، او رخود اپنا نکاح ایک باندی کے ساتھ کیا تھا۔ بہر حال کوئی سید اپنی دختر سید زادی کا نکاح کسی غیر سید سے کرنے پر از خود رضامند ہو تو شرعاً درست ہے۔