Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: September 11, 2020 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE

 امام کے مقام کا احترام لازم 

سوال:۔ ائمہ مساجد کے محلہ والوں پر کیا حقوق ہیں؟کیا ائمہ مساجد بھی نائب رسول کے زمرے میں آتے ہیں یا صرف علمائے کرام ، وضاحت فرمائیں؟۔ائمہ مساجد کی کیا حیثیت ہے اور امام مسجد کیسا ہونا چاہئے؟۔
محمد سلطان بٹ
 
جواب:۔ مقتدی حضرات پر امام کے حقوق یہ ہیں ۔ امام کا احترام کرنا ۔ اس سے محبت کرنا اس کو معقول اور ضروریات پورا کرنے کی مقدار کے برابرتنخواہ دینا۔ اس کے رہنے سہنے کا مناسب اور آرام دہ انتظام کرنا۔ اس پر بے جا حکم نہ چلانا۔ غیر ضروری کاموں کا اُسے مکلف نہ بنانا۔ آپسی رسہ کشی میں امام کو طرف داری کرنے پر مجبور کرنے سے پرہیز کرنا، امام میں جس بات کی صلاحیت نہ ہو اُس بات کے پورا کرنے کا اُسے حکم نہ دینا ، امام کو کوئی ناگہانی ضرورت پڑے تو محلے والے اجتماعی طور پر اس ضرورت کو پرا کرنے پر سرگرم ہو جائیں۔ امام سے غلطی کوتاہی ہو جائے تو عفو و درگذر کرنا۔ اور معمول بات پر امام کو معزول کرنے پر نہ تُل جاناو غیرہ۔
قران کریم اور احادیث میں امام کا مقام و مرتبہ بہت اونچا بیان کیا گیا ہے ہے اسلئے جو لوگ یہ کہیں۔ امامت ایک پرائیوٹ نوکری ہے اور مالک جب چاہئے برخواست کرسکتا ہے۔ اور اسی طرح جو لوگ یہ کہیں کہ امام کی حیثیت ہمارے گھر یا دکان کے ملازم کی طرح ہے تو یقیناً ایسے لوگ امام کے مرتبہ سے ناواقف ہیں، اور امام کی اس طرح کی توہین آگے اماموں سے محروم ہونے کا سبب بنے گا۔مگر کوئی نماز پڑھانے والا نہ ملے گا۔
اس ایسے دور کے آنے کاسب یہی ہوگا کہ امام حضرات ان اوصاف سے محروم ہونگے جو امام میں ہونا ضروری ہیں اور مقتدی اماموں کی قدر و منزلت اور عزت وعظمت کا وہ رویہ ترک کریں گے جس کے امام مستحق ہیں۔ اور جب اماموں کو گھر کے نوکر کا درجہ دیاجائے یا اُن کو مزدوروں کی حیثیت دی جائے۔ معمولی بات کو انہیں معزول کرنے کا ذریعہ بنایا جائے۔ اُن کی ضروریات پورا کرنے پر توجہ نہ دی جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے معاشرے میں چپراسی کی تنخواہ زیادہ ہے۔ اور مزدور ی کرنے والے ہم سے زیادہ کمالیتے ہیں۔ لہٰذا ہم بھی امامت چھوڑ کر کہیں سبزیاں اور پھل بیچنے کا بزنس کریںگے۔ یا مزدوری کریںگے تو پھر اماموں کی قلت ہوگی۔ چنانچہ یہ صورتحال سامنے آرہی ہے کہ اخباروں میں اماموں کی ضرورت کے اشتہارات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مگر امام دستیاب نہیں۔ اور جو دستیاب ہوتے ہیں وہ عموماً اوصاف امامت سے عاری ہوتے ہیں ۔ (الا ما شاء اللہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:آج کل بہت سارے لوگ ، جن کے سر سے بال گر گئے ہوں، نقلی بال سر پر لگاتے ہیں ۔ س کی ایک صورت "WIG" ہے۔ یہ بالوںکی ایک ٹوپی نما کیپ ہوتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ مصنوعی بال لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ اور اگر لگائے گئے ہوں تو ان پر مسح کرنا صحیح ہوگا یا نہیں؟ اور اسی طرح غسل میں اگر اس ٹوپی یا مصنوعی بالوں کو ہٹائے بغیر غسل کیا جائے تو وہ غسل ادا ہوگا یا نہیں ؟
شوکت احمد 

مصنوعی بال لگانا حرام 

جواب:-مصنوعی بال چاہے انسان کے بال ہوں یا جانوروں کے بال ہوں ۔ یہ ہر قسم کے بال لگانا سخت منع ہے ۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بال جوڑنے والے اور بال لگوانے والوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ (بخاری ومسلم)۔ ایک خاتون دربارِ رسالتؐ میں غرص کیا کہ میری بیٹی کے سر کے بال جھڑ گئے ہیں ۔ اگر اُس کو نقلی بال نہ لگائوں تو ہوسکتاہے کہ اُس کا ہونے والا شوہر اُس سے نفرت کرے۔ تو کیا یہ نقلی بال لگانے کی اجازت ہے ؟ اس پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا کہ اس کی اجازت نہیں ہے ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے دوسرے انسان یا حیوان (مثلاً گھوڑے) کے بال اپنے بالوں میں ملانا حرام ہے ۔بہرحال حدیث میں جس کام کی صریح اور صاف ممانعت موجود ہواُس کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ دورِ نبوتؐ میں تو عورتیں ہی یہ کام کرتی تھیں ۔ اس لئے ممانعت کا حکم اُن کے لئے ہی ارشاد ہوا۔ 
عورتوں کے لئے لمبے بال یقیناً مستحسن اور پسندیدہ ہیں لیکن اس کے باوجود جب اُن کو خارجی بال لگانے کی اجازت نہیں دی گئی تو مَردوں کے لئے کیسے اس کی اجازت ہوسکتی ہے ۔ 
بہرحال حدیث کی رو سے ’وگ‘ لگانے کی ہرگز اجازت نہیں ۔ جس شخص نے ’وگ‘ لگائی ہو اس کو نہ مسح درست ہے نہ غسل صحیح ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱- کسی شخص کے فوت ہونے پر بیوہ کا اس کے جائیداد میں کتنا حصہ شرعی دینا لازمی ہے۔ عموماً مشاہدے میں آیا ہے کہ بیوہ کو جوحصہ اداکیاجاتاہے وہ اس شرط پر اداکیاجاتاہے کہ اگر اس نے دوسری شادی کی تو وہ اس حق سے محروم ہوجائے گی۔ اس لئے عوام میں بھی اس کو تاحیات سمجھا جاتاہے۔ محکمہ مال میں بھی بیوہ کے نام کے ساتھ لفظ ’’تاحیات تانکاح ثانی‘‘ اندراج کیاجاتاہے ، یہ کس حد تک درست ہے ؟
سوال:۲-دوئم یہ کہ منتقلی جائیداد کے وقت بیٹے اور بیٹیوں کو سراجلاس بلا کر انتقالِ وراثت تصدیق کیا جاتاہے۔یہاں پر بھی بیٹیاں اکثر اپنے براداران کے حق میں جائیداد سے دستبردار ہوجاتی ہیں جب کہ وہ ابھی جائیداد کی مالک ہی نہیں ہوتی اور ’’بخش دیتے ہیں ‘‘کا جملہ استعمال کیاجاتاہے۔ بعض اوقات بیٹیوںکویہ کہہ کرمجبور کیا جاتاہے کہ آپ کو اپنے میکے میں یعنی بھائیوں کے پاس آنا جانا ہے اگر آپ نے حصہ لے لیا تو میکے میں آمد ورفت سے دستبردار ہوناہوگا اور اسی عوامی ذہنی کی بناء پر بیٹیاں بھی سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے حصہ لے لیا تو ہم نے میکے آنے کا راستہ بند کردیا۔
اس صورت حال کو مدنظر رکھ کر آپ سے گذارش ہے کہ منتقلی وراثت کا مسنون طریقہ کیا ہے۔ براہ کرم تفصیلاً جواب سے آگاہ فرمائیں؟
ایک  سائل…واتھورہ 

بیوہ کے حق وراثت اور نکاح ثانی کا کوئی تعلق نہیں 

جواب:-شریعت اسلامیہ نے تقسیمِ وراثت میں فوت ہوئے شخص کی زوجہ کو ہرحال میں مستحق وراثت قرار دیاہے اور یہ قرآن میں صاف صاف موجود ہے کہ فوت ہونے والے شوہر کے ترکہ میراث میں سے زوجہ کو چوتھا (1/4)حصہ ملے گا ،اگر فوت ہونے والے شخص کی اولاد نہ ہو اور اگر اس کی اولادہوئی تو پھر زوجہ (بیوہ)کو کل ترکہ کا آٹھواں (1/8) حصہ دیا جائے۔ اس سے واضح ہواکہ بیوہ کو یہ حصہ قرآن نے دیا ہے۔یعنی اللہ نے یہ حصہ مقرر کیا ہے۔ اس لئے اس حصہ کے متعلق یہ کہنا کہ ’’یہ تاحیات یا نکاح ثانی ‘‘ ہے غلط ہے۔ نہ محکمہ مال کے اندراج کنندگان حضرات کے لئے ، نہ بیوہ کے لئے ، نہ بیوہ کے بھائیوں یا اولاد کے لئے یہ درست ہے کہ شریعت کے مقرر کردہ حصہ کو وقتی قرار دیں۔جیسے ہر وارث کو شریعت نے حصہ دیاہے اور اس کو مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ جیسے چاہے اس میں تصرف کرے۔ چاہے فروخت کرے یا صدقہ کرے۔ یا کسی کو ہبہ کرے یا اْس کے متعلق شرعی طور پروصیت کرے۔ یا چاہیں جو کرے ہروارث کی طرح بیوہ کو بھی یہ حق ہے۔ اسلئے تاحیات یا نکاح ثانی کہنا ، یاسمجھنا ،لکھ کر رکھنا ہرگز درست نہیں ہے۔بہرحال شریعت اسلامیہ کی رو سے بیوہ کو ملنے والی وارثت اْس کا ایسا ہی حق ہے جیسے دوسرے وارثوں مثلاً بیٹوں کوملنے والی وراثت ہوتی ہے۔

قبضہ میں لینے سے پہلے ہبہ کرانا غیر درست 

جواب:۲-والد کے فوت ہونے کے بعد جیسے بیٹے وراثت کے مستحق ہوتے ہیں اْسی طرح بیٹیاں بھی مستحق ہوتی ہیں۔اور یہ حق قرآن کریم نے صاف اور صریح طور پر واضح کیا ہے۔ وراثت کا استحقاق بیان کرنے کے ساتھ قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ کا مقررکردہ فریضہ ہے۔یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ کی قائم کردہ حدود ہیں اور جواِن حدود کی خلاف ورزی کرکے معصیت کا ارتکاب کرے اْس کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔تقسیم وراثت میں شرعی احکام کی خلاف ورزی کرنے پر دشمنانِ اسلام کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ بھی ہاتھ آتاہے اور یہ مسلمانوں کی غلط کاری کا نتیجہ ہوتاہے کہ وہ اپنی بدعملی سے اسلام پر اعتراضات کراتے ہیں۔کسی شخص کے فوت ہونے پربیٹے کو دوحصے اور بیٹی کو ایک حصہ حقِ وراثت قرآن کریم نے مقرر کیا ہے۔ بھائی کا بہن کو حصہ دینا کوئی احسان نہیں بلکہ حکم قرآنی پر عمل ہے۔ اب اگر کوئی بہن دل کی رضامندی سے از خود اپنا حصہ اپنے بھائی کو بخش دینا چاہے تو اْس کے لئے بہتر اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے اْس کا حصہ اْس کے قبضہ میں دے دیا جائے۔جب وہ اپنے حصہ پر قابض اور متصرف ہوجائے اْس کے بعد جب چاہے اپنے بھائی کو بطورِ ہبہ کے دے سکتی ہے۔تقسیم سے پہلے اور قبضہ میں لینے سے پہلے ہبہ کرنا غیر منقسم اور متعین مال کا ہبہ ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں ہبہ مشاع کہاجاتاہے اور یہ ہبہ مشاع درست نہیں ہے۔
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

سید محمد الطاف بخاری نے مزار شہداء پر حاضری نہ دینے پر حکمران جماعت کے لیڈروں کو لتاڑا کہا، وزیراعلیٰ کو مزار شہدا پر جانے سے کون روک سکتا تھا؟ وہ جان بوجھ کر آج دلی چلے گئے
تازہ ترین
دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کو اب انصاف ملے گا: منوج سنہا
تازہ ترین
کولگام میں امرناتھ یاترا قافلے کی تین گاڑیاں متصادم: 10 سے زائد یاتری زخمی
تازہ ترین
امرناتھ یاترا:بھگوتی نگر بیس کیمپ سے 7 ہزار 49 یاتریوں کا بارہواں قافلہ روانہ
تازہ ترین

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?