عہدِ جدید میں سڑکوں پر بڑھتے ٹریفک کے مسائل
اسلام میں سڑک کے غلط استعمال کی گنجائش نہیں
دوسروں کو ضرر پہنچانے والا اللہ کے ضرر کا مستحق
سوال : کیا اسلام میں ٹریفک قوانین کے متعلق کچھ احکام ہیں؟ اُن قوانین کی بنیاد قرآن و حدیث میں کہاں ہے؟جبکہ اُس دور میں آج جیسا ٹریفک کا مسئلہ بھی نہ تھا ۔ہمارے پیارے نبی ؐ نے اس بارے میں جو ہدایات دی ہیں،اُن کی تفصیل کیا ہے؟ کتاب و سُنت کی روشنی میں واضح حکم جوعہدِ حاضر سے منسلک ہو ،تحریر فرمایئے۔
وسیم حُسین۔باغِ مہتاب ،سرینگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب : دین ِ حق میں جس طرح انسان کی زندگی تمام شعبوں کے متعلق مفصل اور فطرت انسانی سے ہم آہنگ اور انسان کی شخصی و اجتماعی زندگی کے متعلق واضح احکام موجود ہیں ،ٹھیک اُسی طرح ٹریفک کے متعلق بھی اصولی احکام بیان کئے گئے ہیں۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار! راستوں میں بیٹھے رہنے سے پرہیز کرو (بخاری و مسلم)
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ راستوں میں ہرگز نہ بیٹھو ۔اگر تم کوراستوں میں بیٹھنے کی مجبوری ہی ہو تو راستوں کا حق ادا کرو۔آپ ؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ راستوں کا حق کیا ہے؟جواب میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:راستہ چلنے والوں کے لئے رُکاوٹ نہ بنو ،راستہ پوچھنے والوں کو صحیح رہنمائی کرواور ہر گزرنے والے کو خیر کی بات کہو ۔حضرت رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کو ہٹانا صدقہ ہے۔آپؐ نے فرمایا :روئے زمین ساری کی ساری مسجد ہے یعنی ہر جگہ نماز پڑھنا درست ہے مگر سات جگہیں ایسی ہیں جہاں نماز مت پڑھو۔اُن سات جگہوں میں سے ایک اہم جگہ ،راستوں کے بیچ میں اس طرح نماز پڑھنا کہ راہ چلنے والوں کے لئے رکاوٹ کھڑی ہوجائے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دوسرے کسی کو ضرر پہنچایا ،اللہ بھی اُس کو بدلے میں ضرر پہنچاسکتے ہیں۔اس اصولی حدیث ِ مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ زندگی کے دوسرے بے شمار معاملات میں دوسروں کو ضرر پہنچانے کی وجہ سے اللہ اُس ضررپہنچانے والے کو ضرر پہنچا سکتے ہیں۔اسی طرح سڑکوں کے غلط استعمال سے اگر دوسروں کو ضرر پہنچے تو یہ اشخاص بھی اللہ کے ضرر کا مستحق بن سکتے ہیں۔
اوپر درج شُدہ ان احادیث ِ رسول اللہ ؐ سے اچھی طرح واضح ہوا کہ پیغمبر اسلام راستوں کے غلط استعمال سے بچنے کی کس طرح تلقین فرمائی ہے۔اس لئے ہر مسلمان کے لئے ان تعلیمات ِ نبوی پر عمل کرنا ضروری ہے اور یہی تفصیل واضح تعلیمات ٹریفک قوانین کی روح اور بنیاد ہیں۔سڑکوں کے غیر شرعی استعمال ،چاہے مکانات اور دکانات کے مالک کریں ،گاڑیاں چلانے والے کریں،ذاتی ٹرانسپورٹ والے کریں ،سڑکوں اور چوراہوں پر بیٹھنے والے چھاپڑی فروش کریںیا پھر ٹریفک پولیس کے افراد کریں۔سب حضرات کے لئے اوپر درج شدہ احکام ہیں۔
اسلام میں لباس متعین لیکن مخصوص نہیں
سوال:۱- اسلام میں لباس متعین ہے یا نہیں ؟
رفیق الحسن، بارہمولہ
جواب:-اسلام میں لباس ضرورمتعین ہے ۔ مگر اس متعین ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کوئی لباس مخصوص کرکے دیگرلباسوں کو حرام کر دیا گیا ہوبلکہ متعین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ چند چیزوں سے بچنے کا حکم دے کر بقیہ ہرلباس کو جائز قرار دیا گیا ۔ چنانچہ وہ یہ ہیں :(۱)-ہروہ لباس ممنوع ہے جس سے پردہ کی ضرورت پوری نہ ہو ۔ چنانچہ آج کے عہدمیں تنگ وچست لباس جس میں بدن کے چھپائے جانے والے اعضاء کا حجم نمایاں طورپر دوسروں کو محسوس ہو سراسر غیر اسلامی لباس ہے ۔ چاہے مرد ایسا لباس استعمال کریں یا عورتیں……گویا اسلام ڈھیلا اور اعضاء کے نشیب وفراز اور حجم کو ظاہر نہ کرنے والے لباس کو پہننے کا حکم دیتاہے ۔
لباس کے لئے یہ شرط قرآن کریم سے ثابت ہے۔ (اعراف)۔ لہٰذا تنگ و چشت پتلون جسےSKIN TIGHT کہتے ہیں یا بدن سے چپکا ہوا پاجامہ ، دونوں غیر شرعی زمرے میں آئیں گے ۔اسی طرح عورتوں کے لئے تنگ وچست فراک اور مردوں کے لئے ایسی قمیص یا شرٹ ممنوع ہوگی جو بہت تنگ ہو۔دوسری شرط یہ ہے کہ ہر ایسا لباس جو دوسری اقوام کی مذہبی یا تمدنی علامت ہو وہ بھی ممنوع ہوگا۔ چنانچہ دھوتی ، غیر مسلم اقوام جیسی پگڑی اور مغربی اقوام کے تمام وہ لباس جوفیشن اور فحش مزاج کی ترویج کے لئے رائج کئے جارہے ہیں وہ سب غیر اسلامی ہوں گے۔ یہ حدیث سے ثابت ہے ۔ چنانچہ ابودائود میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔
تیسری شرط یہ ہے کہ مرد عورتوں جیسا لباس نہ پہنیںاور عورتیں مردوں جیسا لباس نہ پہنیں ۔ اس پر حدیث میں لعنت کی گئی ۔ یہ حدیث بخاری مسلم وغیرہ میں ہے کہ اُن مردوں پر لعنت جو عورتوں جیسا لباس پہنیں اور اس عورتوں پر لعنت جو مردوں جیسا لباس پہنیں ۔
دراصل اسلام دونوں صنفوں کے طبعی فرق اور فطری انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے دونوں کے لباس میں بھی فرق قائم رکھنے کا حکم دیتاہے تاکہ دونوں کا امتیاز برقرار رہے ۔ جبکہ آج کا فیشن زدہ تمدن دونوں کو مخلوط کرکے معاشرہ کو اباحیت پسند آوارگی کا شکار بنانے اور جنسی بے راہ روی کے دلدل میں ڈبونے کا علمبردار ہے اور اس کو حسین عنوان کے ساتھ ترویج دینے پر گامزن ہے جبکہ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے ۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ فاسقوں ،فاجروں جیسا لباس استعمال نہ کیا جائے ۔ چنانچہ جوطبقے جنسی کشش پیدا کرنے والے لباس استعمال کرتے ہیں اور زناکاری یا فحش کاری ،جن کے یہاں کوئی جرم نہیں، اُن کے مخصوص لباس کو اسلام ہرگز قبول نہیں کرتا ۔ چنانچہ حدیث میں ہے سادگی ایمان کا مقتضیٰ ہے ۔ اس کے معنیٰ یہ نہیں اسلام نفاست کاقائل نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے صفائی ستھرائی او رسلیقہ وتہذیب کا جس طرح اسلام علمبردار ہے اُس طرح کوئی مہذب اور دوسرا کوئی ازم نہیں۔ طہارت، نظامت اور نفاست تو اسلام کی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ مرد نہ ریشم کا لباس پہنیں ، نہ تیز سرخ لباس پہنیں اور نہ ٹخنوں کے نیچے کپڑا لٹکائیں۔اس کی مزید تفصیل درس ترمذی نیز تکملہ فتح الملہم شرح مسلم کے کتاب اللباس میں ملاحظہ کریں ۔
حاملہ اور زچہ پر آنے والے اخراجات کس کی ذمہ داری؟
سوال:۱- حاملہ خاتون کی خبرگیری،اُس پر دورانِ حمل آنے والے اخراجات،وضع حمل یا سرجری (Surgery) کا خرچہ کس کے ذمہ ہے ۔ سسرال والوں کے ذمہ یا میکے والوں کے ؟۔
سوال:۲-کشمیر میں یہ رواج ہے کہ وضع حمل کے بعد بچہ جننے والی خاتون ایک طویل عرصہ ، جو مہینوں پر اور بعض اوقات ایک سال پر مشتمل ہوتاہے ، میکے میں گزارتی ہے۔ شوہر چاہتاہے کہ اس کی بیوی اور بچہ گھرآئیں مگر میکے والے نہیں مانتے ۔ کبھی زوجہ بھی چاہتی ہے کہ وہ اپنے سسرال جائے مگر اُس کے والدین ہمدردی کے جذبہ میں اُس کے جذبات واحساسات کی پروا نہیں کرتے اوربعض صورتوں میں میکے والے زچہ بچہ کو اپنی سسرال بھیجنے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں مگر سسرال والے ٹس سے مس نہیں ہوتے اور وہ خوش اور مطمئن ہوتے ہیں کہ ان کی بہو اور بچہ مفت میں پل رہا ہے ۔اس صورتحال میں اسلام کا نظام کیا ہے ؟ کیا کرناچاہئے اور کیا بہتر ہے؟۔
سید محمد ہلال ہاشمی
جواب:۱-شریعت اسلامیہ کے اصولی احکام میں سے ایک ضابطہ یہ ہے :الخراج بالضمان ۔اس کامفہوم یہ ہے کہ جو پھل کھائے وہی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ۔ اس اصول سے سینکڑوں مسائل حل ہوتے ہیں ۔ یہ دراصل ایک حدیث کاحصہ ہے او ربعد میں اسی کوفقہی ضابطہ کے طور پر بے شمار مسائل حل کرنے کی اساس بنایا گیا ۔ اس کی روشنی میں غورکیجئے۔ نکاح کے نتیجے میں شوہر اپنی زوجہ سے کیا کیا فائدہ اٹھاتاہے ۔ اس کی طرف سے خدمت ، گھرکی حفاظت ،فطری ضرورت کی جائز اور شرعی دائرے میں تکمیل اور تسکین اور عصمت کی حفاظت کے بعد اولاجیسی عظیم نعمت کا حصول ! یہ سب زوجہ کے ذریعہ سے ملنے والی نعمتیں ہیں ۔
اب جس ذات سے اتنے فائدے اٹھائے جارہے ہیں ۔ اُس کے تمام ضروری تقاضے او رضرورتیں پورا کرنا بھی لازم ہوںگے ۔شریعت میں اس کونفقہ کہتے ہیں ۔شریعت اسلامیہ نے جس طرح اولاد کا نفقہ وپرورش باپ پر لازم کیا ہے اسی طرح زوجہ کا نفقہ بھی شوہر پرلازم کیاہے ۔لہٰذا حمل کے دوران اور وضع حمل کا خرچہ بھی شوہر پر ہی لازم ہے ۔ زوجہ کے میکے والے اپنی خوشی سے اگر اپنی بیٹی پر کچھ خرچ کریں تو وہ اُن کی طرف سے صلہ رحمی اور احسان ہے لیکن اصل ذمہ داری بہرحال شوہر کی ہے ۔ اخلاقی طور پر یہ غیرت اور غزت نفس کے بھی خلاف ہے کہ کوئی انسان یہ خواہش رکھے کہ میری بیوی کے حمل اور بچے کی پیدائش کا خرچہ کوئی اور اٹھائے اور میں صرف نفع اٹھائوں ۔
جواب:۲-وضع حمل کے وقت اگرخاتون اپنے میکے میں ہو تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے ۔اس لئے عام طور میں زچہ (وہ عورت جو ڈیلیوری سے گذری ہو)کومیکے میں نسبتاً زیادہ راحت اور خدمت ملتی ہے اور وہ ہمارے معاشرے میں بھی اس کو بہتر سمجھاتاہے لیکن یہ وقفہ اتنا طویل نہ ہوناچاہئے کہ شوہر کو ناگواری ہونے لگے ۔ اس لئے ایامِ نفاس جو عام طور پر مہینہ بھر اور زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہوتے ہیں جونہی یہ ایامِ گذرجائیں تو عورت کو اپنے سسرال جانے کے لئے ذہناً تیار رہنا چاہئے۔ ہاں اگر دونوں طرف یعنی عورت کے میکے اور سسرال والے خوشی سے میکے میں رکھنے پر مزید رضامند ہوں تو حرج نہیں ۔ دراصل اس معاملے میں شوہر کی رضامندی مقدم ہے لیکن نہ تو شوہر کی یہ خواہش پسندیدہ ہے کہ یہ سارا بوجھ عورت کے میکے والوں پر رہے اور نہ چاہتے ہوئے اس بوجھ کو اٹھانے پر وہ مجبور کئے جائیں اور وہ زبان سے بھی اس کا اظہار نہ کرپائیں اور نہ ہی میکے والوں کے لئے یہ بہتر ہے کہ وہ اصرار سے زچہ بچہ کو روکے رکھیں اور شوہر کے مطالبہ واصرار کے باوجود شوہر خانہ بھیجنے میں رکاوٹ ڈالیں ۔ اس کے لئے وسعت ظرفی دوسرے کے حقوق کی رعایت اور اپنی چاہت سے زیادہ دوسرے کی دل آزاری سے بچنے کا مزاج اپنانا چاہئے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ زچہ بچہ کی صحت اور راحت کا ویسا ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ خیال کرناضروری ہے ، جتنا میکے میں ہوتاہے۔