سوال : ہمارے بہت سارے اصاغر علماء اپنے آج کے اکابر علماء کے متعلق بہت اونچے درجے کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔اُن الفاظ کو پڑھ کر بہت سارے اپنے بھی اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کیا واقعتاً آج کی یہ شخصیات اپنے بڑے پن کے باوجود ان صفات کی حامل ہوسکتی ہیں؟ مثلاً ’’علامہ،محقق العصر،عارف باللہ،علامہ الدھر،عارف کامل ،روشن ضمیر ‘‘جیسے کلمات آج کی کسی شخصیت کے متعلق لکھنے اور استعمال کرنے کا رواج چل پڑا ہے اور جلسوں کے اشتہارات میں تو مبالغہ آرائی زیادہ ہی ہوتی ہے۔اسی طرح بہت سارے اپنے امام کو ’مولوی صاحب‘ کہہ دیتے ہیں ۔بہت سارے لوگ باقاعدہ علوم ِ دینیہ پڑھے ہوئے نہیں ،پھر بھی لوگ اُنہیں ’مولانا صاحب‘ لکھتے ہیں ۔کچھ علاقوں میں ایسے افراد جو ڈاکٹر نہیں مگر اُن کو ’ڈاکٹر صاحب‘ کہتے ہیں۔بعض جگہ لوگ آج کی شخصیات کے ناموں کے ساتھ ’’محققِ کشمیر ، ،محدثِ کشمیر ،نمونۂ اسلاف ،قدوۃ العارفین ‘‘وغیرہ لکھتے ہیں ۔
براہ، مہربانی اس بارے میں صحیح موقف واضح فرمائیں تاکہ اگر یہ روش قابلِ اصلاح ہو تو اصلاح ہوسکے۔
شکیل احمد عرفانی ۔مقیم حال جموں
القاب و آداب اور مدح سرائی میں غلّو کا رجحان
علامہ انور شاہ کشمیری کا مثالی کردار
جواب :غلو اور افراط و تفریط بہر حال شریعت اسلامیہ میں بھی ناپسند اور بعض امور میں سخت منع ہے اور یہ غلو عقل و علم کی روشنی میں بھی غیر مستحسن ہے۔حدیث میں ہے کہ حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’غلو سے بچو‘‘۔شخصیات کا تعارف اور ان کے کام اور کام کی عظمت کا بیان یقیناً محمود ہے مگر یہ تعارف جب مبالغہ آرائی اور غلو کی حدود میں داخل ہوجائے تو پھر تعریف و مدح سرائی کا غیر محمود عمل بن جاتا ہے۔حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ علوم و معارف کے کس بلند مقام پر تھے وہ اہل ِ علم سے مخفی نہیں۔علامہ اقبالؒ نے جن کی وفات پر جلسۂ تعزیت میں فرمایا تھا کہ اسلام کی پچھلی پانچ سو سال کی تاریخ شاہ صاحب کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔انہی علامہ کشمیری نے یہاں کشمیر میں طلاق کے ایک اُلجھے ہوئے مسئلہ پر جو جواب دیا تھا ،اُس میں یہ بھی فرمایا تھا کہ جس کتاب کا حوالہ میں نے دیا ہے اس کا مطالعہ میں نے پچیس سال پہلے کیا تھا ۔پھر اپنے شاگرد خاص کو مفصل جواب لکھنے کا حکم دیا ۔یہ شاگرد ِ خاص مولانا محمد یوسف بنوری تھے ۔انہوں نے نہایت اونچے القاب لکھے جو یقیناً حضرت شاہ صاحب کی شانِ علم کے مطابق تھے۔اس میں علامہ ،فہّامہ وغیرہ نہایت ارفع کلمات حضرت کے نام کے ساتھ لکھے۔جب حضرت مولانا انور شاہ صاحب نے یہ بلند القاب دیکھے توتعریفی کلمات حذف کرتے ہوئے فرمایا : صرف ’’مولوی انور شاہ صاحب ‘‘لکھو۔ہمارے تمام ہی اکابرین نہایت متواضع اور اپنے کو حقیر سمجھنے کا مزاج رکھتے تھے،اسی لئے وہ اپنے نام اور تعارف کے ساتھ کبھی بندہ،کبھی کمترین ِ خلائق ،کبھی ننگ اسلاف اور کبھی حقیر و فقیر لکھا کرتے تھے۔تواضع و کسر نفسی کا یہی مزاج ان ا کابرین کا امتیاز ہے۔یہ حضرات اپنے لئے ہرگز پسند نہیں فرماتے تھے کہ لوگ ،حتیٰ کہ ان کے اپنے متعلقین و تلامذہ، ان کی مدح سرائی و تعریف میں مبالغہ آرائی کریں۔بس یہی مزاج اور متواضعانہ ذہنیت بعد کے حضرات کے لئے بھی اختیار کرنے اور اپنانے کی چیز ہے۔
کسی بھی شخصیت کی عظمت اگر ہمارے دل میں ہے تو یقیناً ہم کو ان کا احترام ،ان سے محبت اور ان کے کمالات و اوصاف کا اعتراف کرنے کا حق ہے مگر ان اوصاف کو بیان کرتے ہوئے جو کلمات ان کے متعلق لکھے جائیں ان کے متعلق پہلے غور کرنا چاہئے کہ ان کے معنی کیا ہیں اور ان معانی کی وسعت کیا ہے۔پھر غور کرنا چاہئے کہ ہماری ممدوح شخصیت ہماری نظر میں اگر عظمتوں کی حامل ہے تو کیا فی الواقع بھی وہ ایسی ہی شخصیت ہے؟ اور جو القاب میں ان کے متعلق لکھ رہا ہوں اور جن عظمتوں کا حامل میں ان کو باور کرارہا ہوں، کیا وہ اُن میں پائی جارہی ہیں؟مثلاً علامہ کا لفظ حضرت شاہ صاحب کشمیری ؒ اور شاعر مشرق اقبالؒ کے لئے زبان زد ہے اور یقیناً وہ علامہ تھے،یا شبلی و سلیمان ندویؒ کو علامہ لکھا جاتا ہے ،وہ بجا طور پر علامہ تھے۔اب یہی بلند ترین لقب ہماشا کے لئے لکھا جائے تو یہ تعارف نہیں ،بے جا تعریف ہے ۔آخر ہم میں سے ایسا شخص علامہ کیسے ہوگا جس کی املاء و انشاء بھی قابل اصلاح ہو ۔
خلاصہ یہ کہ علم و فن کے کسی بھی میدان کی کوئی بھی ممتاز شخصیت یقیناً اس کی مستحق ہے کہ اس کی عظمت کا اعتراف ہو اور اُس کے نام و کام کا تعارف بھی ہو ،مگر غلو کے ساتھ مدح سرائی نہ ہو اور ایسے بلند القاب جو ان کے بلند قد سے بھی اونچے ہوں ،اُن پر منطبق کرنا خود ان کی نظر میں پسندیدہ نہیںاور ان القاب کا بھی یہ بے جا استعمال ہے۔کسی بڑی شخصیت کی بے جا مدح سرائی اور غلو آمیز القاب لگانے کا عمل ناپسندیدہ ہے ۔اس سلسلے میں یہ واقعہ ہم سب کے لئے چشم کُشا ہے۔
بخاری شریف کتاب المغازی میں ہے: حضرت عبداللہ بن رواح، جو عظیم صحابی اور غزوہ مُوتہ میں کمانڈر کی حیثیت سے شہید ہوئے ،یہ ایک مرتبہ بیمار ہوئے اور بیماری کی شدت میں اُن پر بے ہوشی طاری ہوئی اوراس بے ہوشی کو دیکھ کر ان کی بہن بے قرار ہوکر رونے لگیں۔روتے ہوئے انہوں نے اپنے بھائی کے متعلق بین کرتے ہوئے کہا : وا جبلاہ۔۔واکذا۔۔۔واکذا۔۔۔’’ہائے میرے پہاڑجیسے بھیا ۔۔۔ہائے اتنی بہادری کی اونچی بلندی پر فائز میرے بھیا ۔۔۔۔ہائے شیروں اور ہاتھیوں سے زیادہ طاقت ور بھیا ۔۔۔۔۔‘‘وغیرہ۔اس طرح کے بہادی اور شجاعت ظاہر کرنے والے القاب بیان کر کرکے بہن نے خوب رویا ۔پھر جب عبداللہ بن رواح کو بے ہوشی سے افاقہ ہوا تو انہوں نے بہن سے کہا کہ تم نے میرے متعلق جو مدح کے القاب بولے اُس پر فرشتے مجھ سے کہتے جارہے تھے کہ کیا تُوواقعتاً ایسا ہی ہے؟ جیسا تیری بہن کہہ رہی ہے۔کیا تیرے اندر یہ تمام صفات ہیں،جو تیری ہمشیرہ شمار کررہی ہیں؟۔یہ کہہ کر حضرت عبداللہ نے اپنی بہن عمرہ کو رونے سے منع کردیا ۔پھر جب یہی عبداللہ غزوۂ مُوتہ میں شہید ہوئے تو اُن کی بہن نے پورا صبر کیا اور ہرگز نہیں روئی۔۔۔۔۔یہ واقعہ غزوۂ موتہ کا بیان کتاب الملغازی میں ہے۔
یہاں ایک عظیم صحابی جو واقعتہً بہت شجاع اور بہادر تھے ،اُن پر رونے کی وجہ سے اور بہادری کو مبالغہ آرائی کے ساتھ بیان کرنے پر فرشتے ناگواری ظاہر فرما رہے ہیں ۔اس سے یہ سبق ہم کو لینا چاہئے کہ ہم نے اپنے اگر کسی ممدوح کو وہ القاب دیئے جن کا وہ مستحق نہ تھا تو اُس سے اگر پوچھ لیا گیا ،کیا آپ ان عظیم صفات کے حامل ہیں جو آپ کے متعلق بیان ہورہی ہیں تو یقیناً اُن اکابر کو اپنے اصاغر کے اس طرز ِ عمل سے ناراضگی اور ناگواری ہوگی۔
خلاصہ یہ کہ اس بارے میں بہت محتاط ہونا ضروری ہے اور اعتدال کا رویہ بھی اختیار کرنا چاہئے۔
سوال :- تسبیح (Beads)کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ حاجی حضرات سالانہ بے حساب تسبیحاں لاکر تبرکاً اپنے عزیز و اقارب میں تقسیم کرتے ہیں۔ کیا یہ سنت سے ثابت ہے۔ اس سلسلے میں عامی جانکاری کیلئے واقفیت سے مستفید فرمائیں۔
نثار نائری (نائرہ لولاب)
تسبیح کا استعمال
جواب: قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ صبح و شام اللہ کی تسبیح کرو۔ احادیث میں ہر فرض نماز کے بعد تسبیح پڑھنے کی ترغیب ہے۔ فرض نماز کے بعد یہ مقدار بخاری شریف کی ایک حدیث میں 33مرتبہ سبحان اللہ، 33مرتبہ الحمداللہ اور 34مرتبہ اللہ اکبر ہے۔ اور ایک حدیث میں دس دس مرتبہ ہے۔ اس کے علاوہ تیسرا کلمہ، چوتھا کلمہ، دورد شریف ، کلمہ استغفار وغیرہ پڑھنے کی مقدار اہل علم اور عبادات کا ذوق رکھنے والے اپنے لئے مقرر کرکے رکھتے ہیں۔ اس مقدار کو پورا کرنے کے لئے گنتی کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دانوں والی تسبیح بھی استعمال ہوئی اور آج دیجیٹل تسبیح بھی استعمال ہوتی ہے۔جیسے اوقات نماز جاننے کے لئے گھڑی ، حج کرنے کے لئے گاڑی و جہاز اور اوقات سحر و افطار کے لئے کلینڈر استعمال ہوتے ہیں۔ اسی طرح مقدار اور گنتی کو صحیح طور پر پورا کرنے کے لئے دانوں والی یہ تسبیح استعمال کی جاتی ہے اور کچھ حضرات آج ڈیجیٹل تسبیح بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ نہ فرض اور نہ حرام ہے۔ نہ لازم نہ ممنوع ہے۔ یہ ایک عبادت کو صحیح تعداد اور درست مقدار کے ساتھ پورا کرانے کا ایک مفید آلہ ہے۔ اور اس کی مزید بڑی خوبی یہ ہے یہ جب ہاتھ میں ہوتی تو عموماً زبان پر ذکر اللہ، درود، استغفار کے جاری ہونے کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے اس کو مذکرہ بھی کہا جاتا ہے یہ یاد دہانی کا ایک مفید ذریعہ ہے۔