سوال:- بعض لوگ کہتے ہیں کہ آج کل قرآن کریم جو حفظ کیا جارہاہے اور بلاترجمہ پڑھا جارہاہے اور بلا سمجھے اس کو رٹتے ہیں ۔ یہ سب منتر کے برابر ہے کیونکہ قرآن کا سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا قرآن بلا سمجھے پڑھنا اور حفظ کرنابیکارہے ؟
جاوید احمد بٹ
تلاوت یا حفظ قرآن کا منکر
قرآن کی حقیقت سے ناواقف
جواب :-قرآن کریم اللہ کی نازل کردہ وہ واحد کتاب ہے جو اپنے الفاظ وکلمات کے ساتھ محفوظ ہے۔اس کے الفاظ وکلمات کو بغیر سمجھے بھی اگرتلاوت کیا جائے تو اس پر عظیم اجربھی ملتا ہے اور صرف پابندی سے یہ تلاوت بھی انسان کی ہدایت کا سبب ہوتی ہے۔ خود قرآن کریم میں بھی تلاوت کرنے کا حکم ہے ۔قرآن حفظ کرنا قرآن کا امتیاز ہے۔ اس کا پہلا حافظ خود اللہ کی ذات اقدس پھر حضرت حضرت نبی کریم علیہ السلام ۔اُس کے بعد ہزاروں صحابہ ولاکھوں تابعین اور پھر یہ تعداد کروڑوں میں ہوگی۔
الحمد للہ آج بھی پورے عالم میں ہزار وں نہیں کروڑوں مسلمان حافظ قران اور کروڑوں مسلمان بچے حفظ قرآن کی دولت حاصل کرنے کے لئے مصروف سعی ہیں ۔ جو شخص تلاوت یا حفظ قران کا منکرہے وہ خود قرآن کی حقیت سے واقف نہیں ہے اور اگر کوئی اس کو منتر کہے تو ایمان ہی خطرے میں ہے ۔ یہ شخص فاسق سے بڑھ کر ہے اور خطرہ ہے کہ زندیق نہ ہو ۔
اس لئے کہ جو یہ کہے بغیر سمجھے قرآن پڑھنا غلط ہے وہ دراصل قرآن سے امت کو محروم اور تلاوت کی نعمت سے دور کرنے کی بات کہہ رہاہے۔ ساتھ ہی یہ ان تمام احادیث کا انکار ہے جن میں قرآن کریم کے بغیر سمجھے پڑھنے میں بھی عظیم اجرکی بشارت ہے ۔ ایک حدیث میں ہے چنانچہ حافظ قرآن کے باپ کو قیامت میں پہنایا جائے گا ۔ایک حدیث میں حافظ قرآن سے کہاجائے گا قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں میں چڑھتا جا ۔
ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کریم کے ہر ہر حرف کے پڑھنے پر دس نیکیاں ہیں ۔الم ایک حرف نہیں بلکہ الف ایک حرف ،لام ایک حرف ،میم ایک حرف ہے ۔
ظاہرہے الف لاز میم کو کوئی سمجھ کر نہیں پڑھتا ۔ نہ ہی یہ حروف مقطعات پڑھنے کے لئے سمجھنے کی شرط ہے ۔
دراصل قرآن کریم کے پانچ حقوق ہیں :
تعلیم قرآن:یعنی قرآن کریم معریّٰ پڑھنا آجائے۔ یہ قرآن کا لازمی وہ حق ہے جو ہر ہر مسلمان پر فرداً فرداً لازم ہے۔
تلاوت قرآن: یہ بھی ہر ہر مسلمان پر لازم ہے اور چار ماہ میں ایک ختم کرنا قرآن کا حق ہے ۔
فہم قرآن : یہ بھی اُن کا حق ہے ۔ مستند اہل علم سے ترجمہ وتفسیر سننا ،مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنا اور سب سے بہتریہ ہے کہ عربی زبان کی اتنی صلاحیت پیدا کرنا جوفہم قرآن کے لئے لازم ہے ۔
عمل قرآن : قرآن کے فرائض پر عمل ، اُسی کی حرام کردہ اشیاء سے اجتناب اور اس کا احکام کی پیرو ی۔
دعوت ِ قرآن: مسلمانوں کو قرآن پر عمل پیرا ہونے کی دعوت اور غیر مسلم اقوام تک دعوت قرآن پہنچانے کی عظیم محنت ۔ یہ قرآن کے حقوق ہیں ۔
اس لئے جو شخص امت کے بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھاتاہے ۔پھر کچھ کو کچھ سورتیں یاد کرتاہے اور کچھ کو پورا قرآن حفظ کراتاہے اور پھر اُن میں کچھ کو معانی قرآن سکھاتاہے ، عربی گرائمر صرف ونحو کی تعلیم دے اس کا کام فہم قرآن کا صحیح ومستند سلسلہ قائم کرناہے۔
یہ عظیم محنت میں لگا ہواہے اس لئے سب سے بڑی بشارت خود حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے ۔آپ نے فرمایا ’’تم سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے او رسکھائے ۔‘‘( بخاری )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال-آج کل ہر محلے کالونی میں جامع مسجد بنائی گئی ہے ۔ کیا جامع مسجد بنانے کے لئے اسلام نے کوئی اصول متعین کیا ہے ؟
محمد اکبر
شریعت قیامِ جمعہ میں اجتماعیت کی متقاضی
جواب:-بربنائے ضرورت متعدد جگہ جمعہ قائم کرنادرست ہے لیکن بلا ضرورت محلہ محلہ میں جمعہ قائم کرنا جس میں مسجدیں بھی بھر نہ سکیں اور نمازِ جمعہ اور نمازِ پنجگانہ ایک جیسی ہوجائے یہ روح اسلام کے خلاف ہے۔شریعت جمعہ میں اجتماعیت چاہتی ہے اور جتنی زیادہ اجتماعیت ہوگی اتنا ہی بہتر ہے ۔
اس لئے گائوں گائوں محلہ محلہ اور ہر ہر مسجد میں جمعہ قائم کرنے کا سلسلہ ہرگز پسندیدہ نہیں ہے ۔ جہاں واقعی ضرورت ہو اور ضرورت کا تعین بھی شریعت ہی کرتی ہے ۔ وہاں جمعہ قائم کرنادرست ہے ۔ll
میکے اوربیٹی کا رشتہ…
وراثت کا نہیں نسب کا
سوال:کشمیر کے مروجہ طریقہ اصول وراثت سے آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ یہاں لڑکیوں (بیٹیوں)کو اس طریقے سے وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے کہ شادی کے بعد وہ میکے تب ہی خوشی خوشی جاسکتی ہیں یا بھائی اُن کو(یا اُس کو) تب ہی دعوت پر اپنے گھر(یعنی اُن کے میکے) بلاتا ہے یا بلائے گا جب وہ (بہنیں یا لڑکیاں) باپ کے ترکہ میں سے یا باپ کی زندگی ہی میں ملنے والا پنا حق بھائیوں کو بخش دیں۔
کیا بہن اپنے باپ کے ترکہ میں سے ملنے والا حق اپنے بھائی کو بخش سکتی ہے یا نہیں؟ کیا ایسی کوئی حالت ہے کہ بہن اپنے بھائی کو اپنا حق بخش سکتی ہے؟ اگر بہن نے اپنا حق بخوشی یا ایسی ہی کوئی مجبوری کے تحت جو اوپر بیان کی گئی، بھائی کو بخش دیا ہو تو کیا وہ بھائی کے لئے حرام کی حیثیت رکھتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کے تحت جتنے بھی نکتے وضاحت طلب ہوں اُمید ہے کہ آپ اُن سمیت جواب تحریر فرمائیں گے۔
شوکت احمد بٹ
جواب: قرآن نے فوت ہونے والے شخص چاہے مرد ہو یا عورت کے فوت ہونے پر جیسے اُس کے بیٹے کو مستحق وراثت قرار دیا ہے اُسی طرح اُس کی بیٹی کو بھی وراثت کا حقدار قرار دیا ہے چنانچہ قرآن نے اس کو اللہ کا لازم کردہ فریضہ قرار دیا ہے۔اب کسی بھائی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی بہن کو وراثت سے محروم کر دے۔
میکے کے ساتھ بیٹی کا تعلق وراثت کی بناپر نہیں بلکہ نسب کے محکم اصولوں پر قائم ہے۔بیٹی بہرحال میںبیٹی، اور بہن ہر حال میں بہن ہے اور ان کیساتھ حسن سلوک وصلہ رحمی کرنا فرض ہے اور قطع رحمی حرام ہے اور بہرحال یہی شرعی ضابطہ ہے۔ بہن کے ساتھ حسن سلوک اگر وراثت نہ لینے سے مشروط کر دی جائے او ربھائی کا رویہ بہن کے ساتھ ایسا ہو کہ اگر اُس نے اپنا حق وراثت طلب کرلیا تو پھر اُسے میکے سے قطع تعلق کا خدشہ ہو اور وہ اگر اپنے حق وراثت کے متعلق مجبوراً چپ اختیار کرے تو پھر اُس کو بھائی کی طرف سے آئو بھگت ہو تو اس طرز کا یہ تعلق نہ شرعی طور پر قابل تحسین ہے نہ اخلاقی طور پر اور نہ ہی یہ کوئی اخلاص و حقیقی محبت کی بنیاد پر قائم ہے۔
اس لئے شرعی حکم یہ ہے کہ بھائی اپنی بہن کو اُس کا پورا پورا حق وراثت فریضہ جان کر ادا کرے اور پھر اُس کے ساتھ ہر طرح سے حسن سلوک وصلہ رحمی کامعاملہ بھی اپنائے رکھے۔اگر بہن اپنے بھائی کو اپنا حق وراثت اس لئے بخش دے تاکہ وہ اپنے میکے آنے جانے کا دروازہ کھلا رکھ سکے ورنہ اُس کو بے رخی اورقطع تعلق کا خطرہ ہو تو بھائی کے لئے محض اس طرح بخشا ہوا حق وراثت ہرگز بھی حلال نہیں ہے۔ کیونکہ یہ استحصال ہے لیکن اگر بہن نے بغیر کسی شرط کے بلا کسی خارجی دبائو یا خطرہ کے اور اپنی دلی رضامندی سے حق وراثت اپنے قبضہ میں کر لینے کے بعد اور پنے بھائی کا حسن تعلق ملاحظہ کرنے کے بعد محبت کی بناء پر اصرار سے اپنا حصہ اپنے بھائی کو بخش دیا تو پھر یہ جائز ہوگا اور اس صورت میں بھائی کے لئے یہ حصہ بھی غیر مشکوک ہوگا۔lll
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-ہماری وادی میں یہ رسم عام ہے کہ دلہا یا دلہن کو دعا کرنے کی تلقین کی جاتی ہے جبکہ بعض اوقات نماز کے پابند بھی نہیں ہوتے ، عام لوگوں کا ماننا ہے کہ اس وقت ان کی مانگی ہوئی ہر دعاپوری ہوتی ہے ۔
سوال:۲-کچھ لوگ اسلامی کلینڈر کے حساب سے چھ تاریخیں یعنی 28،18،8،23،13،3 کو منحوس سمجھتے ہیں اور اکثر وبیشتر شادی بیاہ کی تاریخ مقرر کرتے وقت مذکورہ تاریخوں کا دھیان رکھاجاتاہے ۔
سوال نمبر :۳- جسم پر چوٹ لگ جائے تو زخم پر مرہم کے طور پرپٹی (Plastic Bandage) لگائی جاتی ہے ۔ اب دوبارہ وضو یا غسل کی حاجت آن پڑی تو یہ پٹی ہٹائے بغیر وضویا غسل ہوجائے گا جبکہ پٹی ہٹانے سے خون بہنے کا احتمال رہتاہے ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں ان مسائل کا حل فرمائیں ۔
الیاس احمد عباسی
صالح اور متقی دلہادلہن سے دعاء کرانا درست
جواب:۱- دلہا اور دلہن اگر نیک ، صالح ، پاکباز ، صوم وصلوٰۃ کے پابند ہوں تو اُن سے دعا کی درخواست کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور یہ دعا کی درخواست دلہا دلہن بننے سے پہلے بھی درست ہے ۔ اُس کے بعد بھی ،لیکن اگر وہ صالح نہ ہوں ، صوم وصلوٰۃ کے پابند نہ ہوں۔متقی وپرہیزگار نہ ہوں تو صرف دولہا یا دلہن بننا کوئی ایسا شرف نہیں کہ وہ مستجاب الدعوات بن جائیں اور ان سے دعائوں کی التماس کی جائے ،ایسی صورت میں ان سے دعائیں کرانا صرف ایک توہماتی رسم ہے ۔
کسی مخصوص تاریخ کو منحوس سمجھنا مشرکانہ
جواب:۲- حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسلام میں طیرہ کی کوئی جگہ نہیں ۔(بخاری ومسلم)طیرہ کے معنی کسی تاریخ ،یا دن ،یا جگہ ،یا چیز کو منحوس سمجھنا ۔جب صحیح حدیث رسولؐ میں سے اس کی نفی ثابت ہے تو اس کے بعد کسی تاریخ کو منحوس سمجھنا سرار غیر شرعی ہے ۔ لہٰذا ۳، ۱۳،۲۳… یا ۸،۱۸،۲۸ کو منحوس سمجھنے اور پھر ان تاریخوں میں کسی کام مثلاً نکاح ، رخصتی یا آپریشن یا کسی خریداری سے اجتناب کرنا یہ سراسر مشرکانہ تصور ہے ۔
مرہم کی پٹی پر مسح کرنا ضروری
جواب:۳- جب کسی زخم یا پھوڑے پر مرہم کی پٹی لگائی جائے تو اب وضو وغسل میں اس پٹی کے اوپر صرف مسح کرنا کافی ہے اور صرف اس مسح کرنے سے شرعی وضو بھی مکمل ہوجائے گا اور غسل بھی درست ہوگا ۔
ہر وضو اور غسل میں اس پٹی کا کھولانا لازم نہیں ہے ۔ ہاں جب زخم ٹھیک ہوجائے تو پھر بلا ضرورت پٹی رکھنا جائز نہیں ہے ۔
�����������������