ایام تعزیت میں روزہ نہ رکھنا…… شریعت میں رخصت کی گنجائش نہیں
سوال: رمضان شریف کے حوالے سے تین سوالات کا جواب عنایت فرمائیں۔
۱۔ کشمیر میں بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس گھر میں کسی کی موت ہوگئی ہو ان کو تعزیت کے تین دن تک روزہ نہیں رکھنا ہے۔ پچھلے جمعہ کو سمبل سونا واری کے ایک مضافاتی گاوں میں ایک تعزیتی تقریب باقاعدہ جمعہ کے وقت کھلم کھلا دسترخوان بچھا کر کھانا کھلایا گیا اور بہانہ یہی تھا کہ تعزیت میں روزہ نہیں۔
۲۔ افطار کے وقت لوگ جلدی سے جلدی مغرب کی نماز کھڑی کرتے ہیں کیا چند منٹ وقفہ کر سکتے ہیں تاکہ اطمینان سے افطار ہو سکے۔
۳۔ کیا تراویح کی نماز گھر میں ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد میں کووڈ کی وجہ سے اگر جانا مشکل ہو تو گھروں میں تراویح پڑھنے کی گنجائش ہے۔فقط
خورشید احمد سونا واری
جواب: روزہ فرض ہے اور صرف بیماری کے واقعی عذر یا سفر کی مشقت والی صورت میں روزہ چھوڑنے اور بعد میں قضا کرنے کی اجازت ہے۔
گھر میں کسی کی وفات ہو جائے تو میت کے پسماندگان مستحق تعزیت ہوتے ہیں اور وہ غم زدہ ہوتے ہیں۔مگر اس وجہ سے اگر وہ روزہ چھوڑ دیں تو بلا شبہ یہ بدترین جرم سنگین معصیت اور ایک ایسا گناہ ہے جس میں ایمان کو بھی خطرہ ہے۔
شریعت اسلامیہ نے جہاں کوئی رخصت نہ دی ہو وہاں خود ہی رخصت اور گنجائش پیدا کی جائے تو یہ دین میں تحریف ہے اور تحریف کی بنا پر ایمان کو بھی خطرہ ہوتا ہے جو لوگ تعزیت کے مستحق ہیں ان کے غم زدہ ہونے کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ سرے سے کچھ بھی نہ کھائیں اس لئے کہ غم بھوک اور نیند مٹا دیتا ہے۔
چنانچہ حضرت علی ؓ کے بھائی حضرت جعفرؓ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے تو ان کے اہل و عیال اس درجہ غم زدہ تھے کہ ان کے بھوکے پیاسے رہ جانے کا خطرہ تھا۔ اس لئے حضرت نبی علیہ السلام نے فرمایا جعفر کے اہل و عیال کے لئے کچھ نہ کچھ کھانے کا انتظام کرو۔ اس لئے کہ ان پر مصیبت کا جو پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے وہ معلوم ہے۔ اسی ارشاد کی بنا پر اہل میت کو کھلانا پلانا مستحب ہے۔ گویا حادثہ موت بھوک مٹا دیتا ہے۔
پورے عالم میں کسی جگہ کے مسلمان اور پوری اسلامی تاریخ میں کسی بھی دور میں کہیں بھی اہل میت رمضان میں اس طرح ترک صوم کا گناہ نہیں کرتے ہیں ۔ جس طرح یہاں کے کچھ لوگ یہ جرم کرتے ہیں اور بہت بڑا لمیہ ہے کہ اس کو شریعت کی دی ہوئی تخفیف سمجھتے ہیں۔
اہل میت بوجہ تعزیت روزہ چھوڑ دیں ظاہر ہے یا تو یہ شریعت کا حکم یا شریعت کی دی ہوئی رخصت سمجھ کر کیا جائے تو یہ اپنی طرف سے دین میں اضافہ ہے۔ اب یہ تصور اور عمل یا تو بدعت ہوگی یا دین کے حکم کو بدل دینا ہے اور وہ یہ کہ روزہ فرض ہے مگر خود سمجھ لیا کہ ان کو فرض چھوڑنے کی اجازت ہے۔ یہ تحریف دین ہے اور یہ دونوں حرام ہیں یا یہ روزہ چھوڑنا مجبوری ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی مجبوری نہیں ۔ اگر واقعۃً مجبوری ہوتی تو شریعت نے خود ہی اس کی اجازت دی ہوتی۔ اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ہوتی جب کہ ایسا ہرگز نہیں۔ حدیث شریعت اور فقہ اسلامی کی کتابوں میں جہاں روزوں کے مسائل تفصیل سے درج ہوتے ہیں وہاں کہیں نہیں لکھا ہے کہ اہل میت کو روزہ کی قضا کرنے کی اجازت ہے۔ یہ نفس پرستی اور شکم پروری کی بنا پر پیدا ہونے والا ایک نفسانی جذبہ ہے جس کو تعزیت کے نام پر اپنے لئے حلال اور جائز ہونے کا بہانہ بنایا گیا ہے۔
تعزیت کی مجلس میں کھانے پینے اور کھلانے پلانے کا جو طریقہ یہاں کشمیر میں چل رہا ہے اور اب اس کے لئے باقاعدہ کمیٹیاں بھی بنائی جاتی ہیں یہ سب غیر اسلامی ہے۔ اسلامی لٹریچر میں کہیں بھی کفن دفن کے مسائل کے ذیل میں اس طرح منظم طریقے سے کمیٹیاں بنا کر کھلانے پلانے کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اسی لئے پوری دنیا میں کہیں کے مسلمان اس طرح تعزیت کے نام پر دعوتوں کا یہ سلسلہ نہیں چلاتے ۔ یہ صرف یہاں وادی کشمیر میں ہے۔ اور اس کی بنیاد کسی شرعی حکم یا شریعت کے کسی امر کی اتباع نہیں ہے۔ صرف اپنے ذوق اکل و شرب کی تکمیل ہے۔
تعزیت کے نام پر رمضان المبارک میں علی الاعلان روزوں کو ختم کر کے اہل میت ان کے پڑوسی تعزیت کے لئے آنے والے قسم قسم کے کھانے کھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے میت کو ثواب ملے گا۔ اور یا یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شریعت کا حکم ہے یا از خود یہ خیال پھیل گیا کہ یہ شریعت کی دی ہوئی رخصت اور گنجائش ہے بلکہ بعض لوگ تو کھلم کھلا کہتے ہیں کہ شرع نے چھوٹ (Concession)دی ہے۔کہ ہم روزہ نہ رکھیں یہ صریح جھوٹ اور تحریف و اتہام ہے۔ خوب سمجھ لیا جائے کہ اہل میت کو اور ان کے تعزیت کے لئے آنے والوں کو روزہ چھوڑن ا صریحا حرام ہے۔
اس لئے یہ طے ہے کہ بلا شبہ وہ اہل میت، ان کی تعزیت کرنے والے اور ان کے لئے کھانے تیار کرنے والے کمیٹی کے ارکان جو تعزیت یا رسم چہارم کے نام پر روزے چھوڑ دیں۔سب کے سب وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہیں۔
اور اگر وہ اس گناہ اور معصیت کو گناہ نہ سمجھیں اور غلطی کو غلطی باور نہ کریں تو یہ مزید سنگین معاملہ ہے۔
تعزیت کے نام کی وہ مجلس جس میں روزہ چھوڑ کر کھانے، چائے اور حقہ استعمال ہوتے ہیں ان مجالس پر لعنت برستی ہے۔ وہ مردوں کے لئے عذاب کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں حدیث ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ مردوں کو بعض اہل خانہ کے رونے چلانے سے عذاب ہوتی ہے۔ اسی قسم کی یہ حرکات میت کے لئے عذاب کا سبب بنتی ہیں۔
اس غیر شرعی عمل کو روکنے کے لئے مساجد کے ائمہ اور خطباء حضرات پر لازم ہے کہ وہ جمعہ کے خطابات میں اسی کے متعلق تفصیل سے نکیر کریں۔ جس تعزیت کی مجلس میں کھلم کھلا روزہ چھوڑ کر دن میں کھانا پینا ہوتا ہو اس مجلس میں شرکت بھی غیر شرعی ہے۔ اس لئے کہ شریعت میں رضا بالمعصیت بھی جرم ہے اور یہ اسی قبیل سے ہے جو لوگ تعزیت کی ان مجالس میں شرکت کریں اور نماز روزہ دونوں چھوڑ کر سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی دین کا کام کر رہے ہیں تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ نفس و شیطان کے دھوکے میں ہیں تارک صوم و صلاۃ تو فاسق ہوتا ہے اور اس شخص کے ایمان کا باقی رہنا بھی خطرہ میں ہوتا جس کی یہ حالت ہو۔ وہ اپنے ایمان اپن اعمال اور آخرت میں پکڑ کی فکر کریں۔
افطار کے بعد نماز مغرب کے لئے وقت کا تعین
۲۔ افطار کے وقت اتنا وقفہ کہ لوگ اطمینان سے افطار کر کے نماز مغرب میں شامل ہوں ضروری ہے۔ اذان کے فورا بعد جماعت کھڑی کرنے سے مسجد میں بھی افراتفری مچ جاتی ہے۔ لوگوں کے منہ میں کھجور اور روٹی کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ گھروں سے لوگ پہونچ نہیں پاتے۔ اس لئے اس عجلت پسندی سے پرہیز کیا جائے۔ کہ اطمینان سے افطار کر کے نمازی مغرب کی جماعت میں شریک ہو سکیں۔
حرمین شریفین میں اذان ختم ہونے کے بارہ منٹ کے بعد مغرب کی جماعت کھڑی ہوتی ہے اور یہی صحیح اور مناسب طرز عمل ہے کہ اذان کے بعد اتنا وقفہ دیا جائے کہ اکثر نمازی جماعت میں شامل ہو جائیں۔
موجودہ وبائی صورتحال میں نماز تراویح گھر میں پڑھنے کی اجازت
۳۔ تراویح کی نماز سنت موکدہ ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عہد مبارک سے آج تک پوری امت اس پر عمل کرتی آئی ہے ۔ خود جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری رات نماز تراویح پڑھائی۔ اس کے بعد حضرات صحابہ کرام نے اجماعی فیصلہ فرمایا اور جماعت کے ساتھ نماز شروع کر دی گئی۔ چاروں فقہاء تمام محدثیں تمام اولیاء اور پوری امت متفق ہے کہ یہ سنت موکدہ ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان میں قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ بخاری و مسلم
تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہی سنت ہے اسی لئے حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حضرت عمر کی قبر کو منور کرے انہوں نے ہماری مساجد کو منور کیا۔ یہ وجہ ہے کہ تراویح ہمیشہ جماعت سے دو دو رکعت پڑھنا امت کا اجماعی عمل ہے۔
اگر کوئی شخص کسی معقول عذر کی وجہ سے تراویح کی نماز کے لئے جماعت میں شامل نہ ہو سکے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہی تراویح ادا کرے۔
آج کے ماحول میں جب کہ وبائی بیماری کے خطرات ہیں اگر اس وجہ سے یا اسی طرح کی کسی اور وجہ سے مسجد میں نہ پہونچ پائے تو اپنے گھروں میں تراویح کی نماز ادا کریں اور اگر گھروں میں اپنی مستورات کے ساتھ جماعت کریں تو زیادہ افضل ہے۔ اس لئے مساجد کے منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ جیسے وہ امام کا انتظام کرتے ہیں ایسے ہی رمضان میں قرآنی تراویح کا بھی انتظام کریں۔ اور اگر مسجد میں یہ انتظام نہ ہو سکے تو اپنے گھروں میں حفاظ سے تراویح میں پورا قرآن پڑھنے اور سننے کا معمول بنایا جائے اس سے گھروں میں دینی ماحول بھی پیدا ہوگا رحمتوں اور برکتوں کا نزول بھی ہوگا اور رمضان کی راتوں کا قیام جس کی احادیث میں ترغیب آئی ہے اس پر بھی عمل ہوگا۔
اگر کوئی بیماری کی وجہ سے کھڑے ہو کر تراویح نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر بھی پڑھ سکتا ہے۔ اگر درمیان میں وقفہ کرنا پڑے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
تراویح میں پورا قرآن پڑھنا اور سننا بھی سنت ہے اسی لئے ہمیشہ تراویح میں پورا قرآن سنایا جاتا ہے۔