ساس بہو کا رشتہ :
محبت پانے کیلئے محبت کا روّیہ اپنانے کی ضرورت
خاندان کا تصور…ادائیگی حقوق اور اجتنابِ ظلم مُقدم
سوال:۱-بہو اور ساس کے درمیان کون سا رشتہ ہے۔ اگر بہو ساس کی خدمت نہ کرے تو کیا وہ گنہگار ہوگی ۔ شریعت کی رو سے تفصیلی رہنمائی فرمائیں۔
بہو اور سسر میں کون سا رشتہ ہے۔ اگر بہو سسر کی خدمت نہ کرے تو کیا گنہگار ہوگی او راگر ساس اور سسر بہوکوہروقت کام کے لئے ڈانٹیں او ربُرا بھلا کہیں کیا وہ گناہ گار ہوں گے۔ بہو پر ساس سسر کی خدمت فرض ہے یا نہیں ؟
ساس بہو کو طعنے دے ،بُرابھلا کہے۔ لوگوں میں اسے ذلیل کرے جبکہ اپنی بیٹی ، جب وہ سسرال آئے ،کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور جب بہو اپنے باپ کے گھرجائے تو اس کو اچھی طرح رخصت نہ دے اور نہ ہی اس سے خندہ پیشانی سے بات کرے۔
قرآن وحدیث کی رو سے اس دہرے معیار کے لئے ایسی عورت کیا واقعی اللہ کے حضورجوابدہ ہے ۔
سوال :۲-اسلام میں کنبے کا تصور کیا ہے ۔ قرآن وسنت کی روشنی سے تفصیلی روشنی فرمائیں ۔
شبیراحمد ڈار… شوپیان
جواب:۱-ساس اور کا رشتہ نازک بھی ہے اور ہمیشہ کا ہے ۔ اگر ساس بہو پر ظلم وزیاتی کرتی ہے تو بلاشبہ وہ اپنے بیٹے کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کا جرم کرتی ہے۔ جب بہو کا انتخاب کرتے وقت ساس اچھے سے اچھے اخلاق او رحسن سلوک ونرم مزاجی کا مظاہرہ کرتی ہے تو بعد میں اس کا اپنی بہو کوستانا انتہائی سنگین غلطی ہے۔
ہمارے گھریلو اور خاندانی نزاعات کا زیادہ تر حصہ اس ساس بہو کی لڑائی کا شاخسانہ ہوتاہے ۔
اگر ساس بہو کے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کرتی ہے اور بہو اپنی ساس کے ساتھ وہی روّیہ اپنائے جو وہ اپنی ماں کے ساتھ اپناتی ہے تو تمام جھگڑے ختم ہوجائیں گے مگر دونوں دوپیمانے لئے ہوئے رہتی ہیں ۔ ساس کا سلوک اپنی بیٹی کے ساتھ کچھ اور عام طور پر بہو کے ساتھ کچھ اور ہوتاہے ۔ حالانکہ اُس کو زندگی کا بیشتر حصہ بہو کے ساتھ گزارنا ہوتاہے اور بیٹی اپنی ماں کے ساتھ جیسا شفقت خدمت او رہمدردی کا سلوک کرتی ہے ویسا سلوک وہ اپنی ساس کے ساتھ نہیں کرتی۔ حالانکہ اُس کو اپنی زندگی کا زیادہ تر زمانہ ساس کے ساتھ ہی گزارنا ہوتاہے ۔
ساس بہو کو ستائے یا بہو ساس کی ناقدری کرے اس کا بالواسطہ اثر مرد پر پڑتاہے جو ایک کا بیٹا اور دوسری کا شوہرہے اور اس مرد کی ضرورت دونوں کو یکساں درجہ کی ہے ۔ ان دوقریب ترین عورتوں کی آپسی جنگ میں مرد دونوں طرف سے پستا جاتاہے ۔ اگر وہ ماں کا ساتھ دے تو زوجہ پرظلم ،اور اگر زوجہ کا ساتھ دے تو ماں کی حق تلفی اور پھر اُس کی بددعا ئیں اُس کے حصے میں آتی ہیں اور دونوں صورتوں میں وہ تباہ ہوتاہے ۔ بہو کواخلاقی طور پر اپنی ساس کی خدمت کرنی چاہئے تاکہ وہ جب آئندہ ساس بنے گی تو اُس کو بھی وہی روّیہ اُس کی بہو سے مل سکے ۔ ساس سسر کی خدمت کرنے کا حکم تو بہو کو نہیں دیا جاسکتا۔ اس لئے یہ اُس پر کوئی لازمی حق اور ناگزیر فریضہ نہیں ہے مگر بہو اگر ساس سسرکی خدمت سے مکمل دوری اختیار کرے تو اس کی وجہ سے خوداُس کے شوہر کے لئے مسائل پیدا ہوں گے اور نتیجے میں اس کے اپنے رشتہ پر اس کے منفی اثرات پڑیں گے ۔ دنیا میں انسان کی کامیابی حسن اخلاق او راچھے رویہ کے ساتھ خادمانہ سلوک پر مبنی ہے ۔ نہ کہ ہٹ دھرمی، انانیت ، اکڑبازی اورضدونفرت پر ۔
دوسرے سے محبت کا سلوک پانے کے لئے یہاں سے محبت کا روّیہ برتنا ضروری ہے جو شخص دوسرے کوستائے اور اس سے محبت کی توقع رکھے وہ نادان ہے۔ جو دوسرے پر ظلم کرے او راُس سے حسن سلوک کی آس لگائے وہ احمق ہے ۔ چاہے وہ تعلیم یافتہ ہویا اَن پڑھ، مالدار ہویا غریب ،اونچے خاندان کا ہو یا پسماندہ طبقے سے ۔
انسان اپنے آپ کو محبوب بناناچاہے تو خودمحبت کا مظاہرہ کرے اور دوسروں سے خدمت لیناچاہے تو پہلے یہاں سے خدمت کرے ۔کامیاب زندگی کے لئے یہی زریں اصول ہیں ۔ ادائیگی ٔ فریضہ زیادہ اہم ہے مطالبۂ حقوق کے مقابلے میں ۔اگر ہم اپنے فرائض ادا کریں تو دوسرے کے حقوق ادا ہوجاتے ہیں او ردوسرا جب اپنے فرائض انجام دے گا تو ہمارے حقوق ادا ہوجائیں گے۔ آج کے عہد میں حقوق کی حصولیابی کی مہم ہرطرف ہے مگر ادائیگی فرائض کی فکر کم ہی ہے ۔ظلم زبان سے ہو یا ہاتھ سے ، بُرا طرزِ عمل او رغلط رویہ جیسے بھی اپنایا جائے وہ بہرحال گناہ ہے ۔ حضرت بنی علیہ السلام نے فرمایا کامل مسلمان وہ ہے جو اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے ۔
اس لئے ساس اپنی بہو کے ساتھ وہی سلوک کرے جیسا وہ اپنی بیٹی کی ساس سے چاہتی ہے او ربہو اپنی ساس کے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ اپنی ماں کی بہو سے اُمید کرتی ہے بلکہ مطالبہ کرتی ہے ۔
—————–
جواب:۲-اسلام نے نہ تو مشرکہ خاندان کا حکم دیاہے اور نہ ہی الگ الگ ہونے کا حکم دیاہے ۔ ہاں اسلام نے والدین ،اولاد اور بہن بھائیوں کے حقوق ہرحال میں لازم کئے ہیں ۔ ان حقوق کی ادائیگی چاہے مشترکہ خاندا ن میں رہ کر کی جائے یا الگ الگ ہوکر کی جائے ۔ درست ہے لیکن اگر حق تلفی ہو ،والدین اور بہن بھائیوں پر ظلم کیا جائے اور اولاد کو ستایا جائے تو یہ جرم بھی ہے او راس سے زندگی تلخیوں بلکہ مصیبتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے چاہے خاندان مشترکہ ہویا الگ الگ ہوں ۔ اس لئے اصل حکم ادائیگی حقوق اور اجتناب ظلم ہے ۔
یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے یہ نہیں کہاہے کہ کون سا ذریعہ معاشی اختیار کیا جائے ۔ ملازمت ، تجارت ، زراعت ، صنعت ، مزدوری جوچاہیں اختیار کریں مگر جوبھی ذریعہ آمدنی ہو وہ حلال ہو، لوٹ کھسوٹ اور حرام سے محفوظ ہو چاہے وہ ملازمت ہو یا تجارت ، زراعت ہو یا مزدوری۔
اسی طرح اسلام نے یہ نہیں کہاکہ خاندان مشرکہ رکھو یا الگ الگ رہو۔
ہاں یہ حکم دیا ہے کہ ہرحال میں حقوق اداکرو ۔ظلم وناانصافی سے پرہیز کرو۔ والدین کے حقوق خدمت ،راحت رسانی ،ضروریات کی کفالت اور مشکلات میں تعاون اور شفقت وہمدردی بھی لازم ہیں اور بیوی بچوں بہن بھائیوں کے تمام حقوق ، تعلیم، پرورش ، تربیت ،ضروریات کا انتظام اور شفقت ومحبت کے ہرقسم کے جذبات ومظاہرے پیش کرنا ضروری ہے۔
چاہے ایک ساتھ ہوں تو بھی یہ سب لازم ہے اور الگ الگ ہوں تو بھی یہ بہرحال لازم ہے ۔
llll
طلاق عورت کے قبول کرنے پر موقوف نہیں
عورت رشتہ برقراررکھنے پر آمادہ نہ ہو تو خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے
سوال:۱- خاوند نے بیوی کو بیک وقت سہ طلاق بذریعہ ڈاک روانہ کی ہو لیکن بیوی بے خبر ہو ۔ تو کیا اس صورت میں طلاق جائز ہوگی اور یہ کہ مرد پر بیوی کے کیا حقوق لازم ہیں اور بچہ چار سال کا ہو تو وہ کس کے پاس رہے گا ۔والدہ کے پاس یا والد کے پاس ؟
سوال :۲-اگرشادی کے کچھ عرصہ کے اندر اندر نوبیاہتا دُلہن کو سسرال والوں کی طرف سے جہیز وغیرہ کم لانے کی وجہ سے تنگ طلبی اور طعنہ زنی کا سامنا ہو اور جس سے دلہن کی صحت اور دماغی حالت انتہائی خراب ہوجائے اوروہ سسرال خود کو غیر محفوظ سمجھ کر اپنے میکے میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہوجائے اور قریباً ایک دوسال سے دلہا یا سسرال والے اپنی بہو کو اپنے گھر لانے میں ناکام ہوئے ہوں اور یہ کہ معززین اور برادری والے اس فیصلہ پر متفق ہوگئے کہ واقعات کی روشنی میں اس شادی کو برقرار رکھنا نہ صرف دلہن پر صریح ظلم ہے بلکہ جانبین کی طرف سے جانی اور مالی خطرہ ہو اور یہ کہ دلہن اپنے سسرال یاشوہر کے پاس جانے کے لئے بالکل تیار نہ ہو اور اس شادی کو برقرار رکھنا اپنے لئے نہ صرف صریحاً ظلم قرار دیتی ہو اور اپنی زندگی کو شوہر یا سسرال والوں کی طرف سے خطرے میں جانتی ہو تو عرض ہے کہ اس صورت میں کیا عورت شوہر سے خُلع لے سکتی ہے۔یہ کہ شریعت کی رو سے اس بارے میں کیا حکم ہے ۔
سوال:۳-دلہن کی جو اپنی جائیداد یعنی زیورات ، کپڑے ودیگر سامان کس کی ملکیت ہوگی اور دلہا کس چیز کا حقدار ہے ۔
سوال:۴- جب تک بیوی اپنے میکے میں ہے اور اس کو طلاق نہیں ہوئی ہے تو کیا بیوی تب تک نانِ نفقہ اپنے شوہر سے مانگ سکتی ہے ۔
عبدالاحد …… ہارون سرینگر
جواب:۱-شوہرنے جب اپنی زوجہ کو تین طلاق تحریراً دے دیں تو وہ چاہے اس کو قبول کرے یا نہ کرے اور اُس کوطلاق کی اطلاع ہویا نہ ہو بہرصورت طلاق واقع ہوگئی ۔ ان کارشتہ آپس میںمنقطع ہوگیا ۔ اس لئے کہ شریعت اسلامیہ نے وقوع طلاق کو عورت کے باخبر ہونے یا قبول کرنے پر موقوف نہیں رکھاہے ۔اس لئے عورت اگر طلاق کو مسترد کردے مگر اُس کا رشتہ نکاح ختم ہوچکا ہوتاہے ۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیات، احادیث کی صراحت او رفقہائے اسلام کی تفصیلی بیانات سے یہی ثابت ہے۔
جواب:۲-زوجین میں اگر شقاق ہواورعورت کو اپنے شوہر سے ایسی شکایات ہوں کہ اب وہ رشتہ برقرار رکھنے پر کسی طرح بھی آمادہ نہیں ہے تو ظاہرہے کہ جبراً اس رشتہ کو باقی نہیں رکھا جاسکتا ۔ ایسی صورت حال میں زوجہ تو شوہر کو طلاق نہیں دے سکتی ۔ ہاں وہ خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے ۔چنانچہ احادیث میں اس سلسلے میںہے کہ حضرت ثابتؓ بن قیس کی زوجہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہر کی شکایات کی اور رشتہ منقطع کرنے کی خواہش ظاہر کی تو حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم اُس کا دیا ہوا باغ (جومہر میں دیا تھا)واپس کرنے کو آمادہ ہو۔ اس خاتون نے عرض کیا کہ ہاں ۔ تو حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت ؓ سے فرمایا کہ تم باغ واپس قبول کرو اور اس کو اُس کے عوض میں طلاق دے دو ۔ یہ واقعہ بخاری ،مسلم ، ترمذی ،ابودائود وغیرہ میں موجود ہے ۔
اس حدیث کی بناء پر فقہائے اسلام نے یہ اصول مستبظ کیا کہ ظلم وزیادتی اور شقاق کی وجہ اگر شوہر کی طرف سے ہو تو اُسے طلاق کے عوض میں کوئی چیز لینا ہی جائز نہیں ہے ۔ اگر کوئی بھی چیز شوہر سے لی گئی تو یہ حکم قرآن کے خلاف ہوگاجب کہ سورہ النساء رکوع ۳ میں موجود ہے ۔
اور اگر نشوز ونافرمانی عورت کی طرف سے ہو تو پھر اس کے خلع کے مطالبہ کرنے کی صورت شوہر کے لئے جائز ہے کہ وہ مہر اور دیگر زیورات کے عوض طلاق دینے پر آمادہ ہو جائے جیساکہ اوپر کے واقعہ میں ہے ۔ چنانچہ بدائع الصنائع ، فتاویٰ عالمگیری، درمختار وغیرہ تمام کتابوں میں خلع کے بیان میں یہ اصول صراحتہً موجود ہے ۔
مہر اور زیورات سے زائد شوہر کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے ۔ خصوصاً کھانے پینے پر آنے والے خرچے کی قیمت طلب کرنا۔ اسی طرح بے جار سوم پر جو رقم خرچ ہوئی ہو اُس کا مطالبہ کرنا یا رشتہ ختم کرنے پر جُرمانہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے ۔ خلاصہ یہ کہ عورت کا مطالبۂ خلع اگر مبنی برحق نہ ہو اور اس کے باوجود شوہر بادلِ ناخواستہ خلع پر تیار ہوتواُسے مہر وزیورات طلب کرنے کا حق و اختیار ہے ۔
زیورات مہر اور دیگر اشیاء
جواب:۳-رشتہ برقرار ہوتو جوزیورات مہر اور دوسری اشیاء زوجہ کو دی گئی ہو اُن کا حق زوجہ کا ہی ہے ۔ چاہے زوجہ کو اس کے والدین اور اقارب نے دیئے ہوں یا شوہر اور اُس کے اعزاء نے دیئے ہوں اور جو تحائف شوہر کو دیئے گئے وہ اُسی کے ملکیت ہوں گے ۔
نفقہ کامعاملہ
جواب:۴- زوجہ اگر میکے میں رہے اور شوہر کے ساتھ یہ طے کرکے رہے کہ میرے میکے میں رہنے کا ایام نفقہ ادا کرنا ہوگا تو اس صورت میں میکے میں رہنے کے دوران نفقہ اُس کا حق ہے اور اگر لڑائی ونزاع کی بناء پر عورت کو نکال دیا گیا یا وہ فرار ہوکر گئی یا میکے میں پناہ لینے پر مجبور کی گئی تو اس صورت میں تحقیق حال کے بعد فیصلہ ہوگاکہ نفقہ لازم ہوسکتاہے یا نہیں ۔ ll