سوال :-کفروشرک کیا ہے ۔ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کچھ اقسام ہوتی تو ان کو ضروری تفصیل وتحقیق سے تحریر کریں ۔
محمداعظم …جموں
شرک اور اس کی اقسام
جواب:-شرک یہ ہے کہ اللہ کی ذات میں یااُس کی صفات میں کسی بھی مخلوق کو اس کا شریک ، مثیل، نظیر یا مماثل مانا جائے ۔ اور کفر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا یا اُس کی کسی لازمی صفت کا سرے سے ہی انکار کردیاجائے ۔
اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور ذات کو بھی ماننا شرک فی الذات ہے ۔ اللہ کی مخصوص صفات میں سے کسی صفت کو کسی مخلوق کے حق میں تسلیم کرنا یہ شرک فی الصفات ہے ۔مثلاً کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ جیسے اللہ اپنی ذات کے اعتبارسے زندہ ہے اور جیسی غیر فانی زندگی اُسے حاصل ہے یا جیسے اس کی حیات کسی کی محتاج نہیں اسی طرح مخلوق میں سے کسی کی زندگی اور حیات بھی ایسی ہی ہے ۔تو یہ شرک فی الحیات ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ جیسے اللہ کی ذات کو اس کائنات کے ذرّہ ذرّہ کا علم ہے اور ہر آن اپنی ہر ہر قوم کی ہرہرحالت سے بغیر کسی ذریعہ علم کے وہ واقف ہے ۔ یہ ذات و کلّی صفت علم کسی اور مخلوق کو بھی حاصل تھی تو یہ شرک فی العلم ہے ۔اسی طرح اگر کوئی یہ عقیدہ اپنائے کہ جیسا اللہ تعالیٰ کو ہر ہرمخلوق کی ہر ہرحالت کو ہر وقت دیکھنے اور اس کی ہر ہر آہٹ سننے کی قوت ہے ۔ اس کو اپنی سمع وبصر میں نہ وسائل وآلات کی حاجت ہے اور نہ ہی اس کی یہ صفت کسی حد بندی یا رکاوٹ کو قبول کرتی ہے ،ایسی ہی قوت سماعت بنا قوت بصارت کسی مخلوق کو بھی حاصل ہے تو شرک فی السمع اور شرک فی البصر کہلاتاہے ۔اگرکوئی شخص یہ سمجھے کہ جیسے اللہ کو نفع ونقصان پہنچانے کی مکمل قدرت حاصل ہے او ر وہ اپنی اس قدرت میں کسی کامحتاج نہیں ہے ایسی ہی صفت قدرت یا کچھ عطا کرنے یا نہ دینے پر قادر ہونے کی صفت اللہ کے علاوہ کسی او رذات کے اندر بھی تھی یا ہے تو شرک فی القدرت ہے ۔اسی طرح اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ جیسے عبادت اللہ کے لئے ہوتی ہے اسی طرح کسی مخلوق کی بھی ہوسکتی ہے ۔اس لئے اللہ کے علاوہ کسی مخلوق کو سجدہ کرنا ، کعبۃ اللہ کے علاوہ کسی اور جگہ کا طواف کرنا ،اللہ کے علاوہ کسی اور کے تقرب کے لئے جانور ذبح کرنا ،اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے تعبد وتقرب کی نیت سے جھکنا، یہ سب شرک فی العبادۃ ہے ۔
اسی کو شرک العبودیت یا شرک فی الالوہیت بھی کہتے ہیں ۔
اسی طرح ایک شرک او ربھی ہے او ر وہ شرک فی الحکم ہے ۔ یعنی کسی مخلوق کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کو بھی یہ حق ہے کہ وہ کسی چیز کو حلال کرے یا حرام کرے یا اس کو بھی یہ اختیار ہے کہ وہ کسی چیز کو عبادت قرار دے یا کسی کام کو گناہ کے زمرے میں رکھے یعنی انسانوں کے لئے حلال وحرام ، جائز وناجائز قراردینے کا اختیار جو اللہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے وہ کسی مخلوق کی طرف منتقل کریں تو یہ شرک فی الحکم ہے ۔
قرآن کریم میں متعدد مقامات پرا رشاد ہے کہ …خبردار سن لو ۔کائنات کی ہر ہر چیز کی تخلیق صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔اسی طرح کائنات میں ہر ہر مخلوق کے لئے ہر ہر فعل او رہر ہر عمل کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق واختیار بھی صرف اسی کے لئے مخصوص ہے ۔
پھر شرک کی دوقسمیں ہیں ۔ شرک اکبر ۔ یہ وہ شرک ہے جس کے نتیجے میں انسان ایمان سے محروم ہو جاتاہے ۔ اس لئے کہ اگرچہ اللہ کی ذات کا انکار نہیںپایا جاتا مگر اللہ کی ذات کے ساتھ ایک غیر اللہ کو شریک ٹھہرایا جاتاہے اور یہ توحید کے سراسر منافی ہے ۔اس شرک میں انسان اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور کو معبود یا مسجود یا رازق وغیرہ قرار دیتاہے ۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کا غلط ہونا واضح ہواہے ۔تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی ابتداء شرک کی نفی اور توحید کی تخم ریزی سے ہوتی تھی اور خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سب سے پہلے اعلان توحید اور نفی شرک کا ہی کیا تھا ۔اس کو شرک اکبر کہاجاتاہے ۔دوسرا شرک اصغر کہلاتاہے ۔ یہ وہ شر ک ہے جو شرک تو ہے مگر وہ مومن کو ایمان سے خارج نہیں کرتا ہے جیسے حدیث میں ارشاد ہے کہ تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے ۔
یاحدیث میں ارشاد ہے جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائی اُس نے شرک کیا یا جس نے مشرکانہ تعویذ گنڈا لٹکایا اُس نے شرک کیا ۔اس قسم کے شرک کو شرکِ اصغر کہتے ہیں یعنی اس قسم کے شرک کاارتکاب بہت قبیح ہے مگر ایسا شخص خارج ازایمان نہیں ہوتا ۔امام بخاری ؒ نے ان دونوں قسموں کے متعلق اشارہ کرنے او ران کے درمیان فرق کرنے کے لئے یہ عنوان لگایا ہے ۔
کفردون کفر
اس سے ماخوذیہ جملہ بھی ہے ۔ شرک دون شرک اور اس کا مفہوم وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: ہمارے معاشرے میں بہت سارے ایسے اشخاص( مسلمان) دیکھنے کوملتے ہیں جو کبھی بھی مسجد شریف کی جانب نماز کیلئے رُخ نہیں کرتے اور نہ ہی گھروں میں نماز پڑھتے۔ ان کیلئے مذہب میں کیا حکم ہے؟
مشتاق احمد ۔ امیراکدل
دانستہ تارکِ نماز کیلئے حکم
جواب:نماز ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان اور کافر کے درمیان نماز کا فرق ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑے اس نے کفر کا کام کیا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اصحاب عین( جنت کے لوگ) جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ تم کوکس جرم کی وجہ سے سقر( جہنم کے خطرناک حصہ) میں پھینکا گیا۔ وہ جواب دیںگے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے وغیرہ ۔(سورہ المدثر )
قرآن و حدیث کے ان ارشادات سے خود وہ مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ اس کا حال کیا ہے اور آخرت میں اُس کا کیا حال ہوگا جو مسلمان محض سستی و غفلت سے نماز کا تارک ہے۔ عہد نبوت میں تو منافق بھی نماز چھوڑنے کا تصور نہیں کرتا تھا جبکہ آج کے مسلمان ان منافقوں سے بدتر حالت میں ہیں کہ وہ محض غفلت ولاپرواہی کی وجہ سے نماز چھوڑدیتے ہیں اور اس پر کوئی افسوس بھی نہیں ہوتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۔ گردوں کی بیماری کے سبب سے گردے عطیہ(Donate) کرنے کا سلسلہ تیز ہوا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
بشیر احمد ، گاندربل
گرد و ں کا عطیہ کرنے کی اہم شرائط
جواب:گردوں کا عطیہ جائزہے مگر تین شرطیں لازم ہے (۱) گردوں کی قیمت نہ لی جائے۔(۲) گردہ دینے والے کو خود ناقابل تلافی نقصان یا شدید بیماری کا خطرہ نہ ہو(۳) جسے گردہ دیا جائے اُسے فائدہ پہنچنے کا گمان غالب ہو۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ ایک سے گردہ لیا گیا اور دوسرے کو کار گر نہ ہوا۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی ٹوٹ جائے تو گردوں کا Donationدرست نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱۔ایک لڑکی شادی کے دو سال بعد فوت ہوگئی مگراپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی ۔اُس کی وراثت میں ماں ، باپ کی طرف سے دیا ہوا جہیز اور مہر کی رقم ہے۔ اس کے خاوند نے دوسری شادی کر لی ہے اب وارثان میں متوفیہ کے ماں باپ اوربھائی بہنیں ہیں ۔از روئے شریعت اس ورثے میں کس وراث کو کتنا حصہ ملے گا۔
سوال:۲۔راقم نے ایک یتیم لڑکی کی پرورش اپنی بیٹی کی طرح کی بلکہ یوں سمجھیں کہ اپنی بیٹی ہی بنا لیا۔ اچھی تعلیم تربیت کی اورتعلیم و تربیت کے دوران اپنی اصل رقم کے ساتھ ساتھ عشر و زکوٰۃ کی رقم بھی مذکورہ بچی پر خرچ کی ۔مذکورہ بچی اس گھر کو اب اپنا گھر سمجھ کر اپنی کمائی ہوئی رقم خرچ کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسکایہ رقم خرچ کرنامیرے لئے جائز ہے۔ قرآن سنت کی روشنی میں جواب … فرمائیں؟
ایک شہری،سرینگر
لاولد خاتون کی وراثت کی تقسیم
جواب:۱۔فوت ہونے والی خاتون کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ اس لئے اس کا مہر، زیورات میکے اور شوہر کی طر ف سے دیئے گئے ہدایا اور تحائف سب کو جمع کیا جائے۔ پھر اُس جمع شدہ مجموعہ میں سے نصف اُس کے شوہر کو اور تیسر احصہ اُس کی والدہ کو اور بقیہ اُس خاتون کے والد کو دیا جائے۔ قرآن کریم میں وراثت کے سہام اسی طرح بیان کئے گئے ہیں ملاحظہ ہو۔سورہ النساء رکوع(۲) جس میں شوہر اور والدین کے حصہ وارثت کا بیان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروردہ شخص کا اپنے پرورش کرنے والے پر خرچ کرنا غلط نہیں
جواب :۲۔یتیم بچی کی پرورش اپنی بیٹی کی طرح کرنے پر یقیناً اللہ کی رضا اور دنیا و آخرت میں اجر و انعام ملنے پر توقع کامل ہے۔ اب جب وہ بالغ ہوگئی ہے اور خود بھی کمانے لگی ہے تو اگر وہ اپنی رضا و خوشی سے اپنی کمائی میں سے کوئی رقم پرورش کرنے والے شفیق فرد پر خرچ کرے اور اس خرچ کرنے میں اُس پر کوئی جبر و زیادتی نہ ہو تو شرعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔البتہ اس کی کمائی کے ذرائع کیا ہیں۔ یہ دیکھنا ضروری اور لازم ہے۔ اگر بے پردگی کے ساتھ اجنبی مردوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے اختلا ط پایا جاتا ہے تو اس طرح کمائی کرنا غیر شرعی عمل ہے۔
………………………
سوال:۔ کیا داہنی کلائی پر گھڑی باندھنا سنت ہے؟
بشیر احمد ، گاندربل
داہنی کلائی میں گھڑی کا استعمال
جواب: گھڑی دونوں ہاتھوں میں پہننا جائز ہے۔ البتہ داہنے ہاتھ میں پہننا افضل ہے اسلئے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے انگوٹھی دائیں ہاتھ میں ہی پہنی ہے اور دوسرے آپ ہر اچھے کام کو دائیں ہاتھ سے کرنا پسند کرتے تھے ۔ حتیٰ کہ کنگھا کرنے اور جوتے پہننے میں بھی آپ اس کا خیال فرماتے تھے( بخاری عن عائشہؓ) اس لئے گھڑی بھی دائیں ہاتھ میں پہننا افضل ہے مگر لازم بھی نہیں۔