سوال :کشمیر میں بے شمار مقامات پر وقف ِ عام کے مقبروں پر، کہیں پر کچھ خاندان والے اور کہیں کچھ محلے والے اور کہیں پرپہلے سے رہائش کرنے والے باشندے اس طرح اپنے کو قابض مانتے ہیں کہ اس جگہ کسی ایسے مسلمان کو دفن کرنے کا حق دینے سے انکار کرتے ہیں جو نیا باشندہ ہو ۔بعض جگہ کشمیر سے باہر کا کوئی مسلمان فوت ہوا، یا کسی دیہاتی علاقے کا کوئی مسلمان قصبہ یا شہر میں رہائش پذیر ہو تو حق ِ تدفین سے محروم کرنے پر کچھ لوگ تلے رہتے ہیں۔اس میں محلوں ،گائوں میں جھگڑے بھی ہوتے رہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
محمد اختر شاہ ۔حضرت بل سرینگر
وقفِ عام قبرستان میں ہر مسلمان کی تدفیق کا حق
جواب:جو مقبرہ وقف ِعام ہو،اُس میں ہر مسلمان کو دفن ہونے کا حق ہے اور کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ کسی دوسرے مسلمان ،چاہے وہ مقامی ہو یا دوسری جگہ کا رہنے والا ہو،کو دفن سے روکے۔اس کے ساتھ یہ بھی ضروری کہ جب کوئی مسلمان کسی دوسری جگہ رہائش اختیا ر کرے تو اُس کو وہاں اپنی حیات میں ہی اپنے مقبرے کے لئے فکر مند ہونا چاہئےاور کوئی نہ کوئی انتظام کرکے رکھنا چاہئےاور پُرانے مقبرے کے منتظمین پر لازم ہے کہ وہ مقبرے میں دفن کی اجازت دینے یا منع کرنے سے پہلے شرعی احکام معلوم کریںکہ اجازت دینے یا منع کرنے کےاصول کیا ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کشمیر میں باہر سے جو ذبح شدہ گوشت یا گوشت کے کباب ،کوفتے،رِستے فروخت کے لئے آتے ہیں ،اُن کے متعلق اتنا کنفیوژن ہے جو بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے،اس سلسلے میں عوامی حلقوں میں بھی اور سوشل میڈیا میں جو صورت حال ہے وہ آپ سے مخفی نہیں ہوگی۔اس بارے میں شرعی رہنمائی مطلوب ہے۔
محمد سعید خان۔ بمنہ سرینگر
ذبح شدہ گوشت کی دستیابی ۔مختلف مسائل کا شرعی حل
جواب :مسلمان ہر معاملے میں اور خاص کر کھانے پینے کے معاملے میں نہایت محتاط رہتا ہےتاکہ کوئی حرام لقمہ اس کے پیٹ میں نہ جائے۔یہ حرام لقمہ کیا کیا ہےاس کی تفصیلات الگ الگ ہیں۔اُن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر وہ گوشت کھانا چاہتا ہے تواس کا حلال شرعی ہونا ضروری ہےاور وہ حلال جانور ہو،اور وہ یہ ہیں:مرغی ،مچھلی،بھیڑ،بکری ،گائے ،بھینس ،اونٹ ،ہرن،نیل گائے ،پہاڑی بکرا اور اُڑنے والے پرندوں میں حلال پرندے ہوں،پھر یہ شرعی طریقے پر ذبح ہوئے ہوں۔ یہ دونوں باتیں جب یقینی ہوں گی تو اب وہ گوشت کھانا جائز ہوگا۔کشمیر میں باہر سے آنے والا چکن اور گوشت ذبح شدہ اگر حلال جانور کا ہے ،حلال طریقے سے ذبح شدہ ہے تو اس کا کھانا جائز ہوگا ۔مچھلی بغیر ذبح کے حلال ہے مگر اگر وہ سَڑگئی ہو،بدبو دار ہو تو پھر پرہیز کریں۔
کشمیر میں جو جانور زندہ پہنچتےہیں ،پھر کشمیر کے قصائی اُسے ذبح کرتے ہیں اور پھر یہاں کے مسلمانوں کو گوشت مہیا کرتے ہیں،اُس کے حلال ہونے میں کوئی شک نہیںکیونکہ ذبح کرنے والے مسلمان ہیںاور چونکہ مسلمان کے متعلق یہ بد ظنی نہیں کرسکتے کہ وہ ذبح کرتے وقت اسلام کے اصولوں سے غفلت کرے گا ،تاہم اگر کسی ذبح کرنے والے کے متعلق یہ بات یقینی طور پر معلوم اور مشاہدہ ہو کہ وہ یا تو مرے ہوئے جانور کا ٹ کر ،پھر اُن کا گوشت بیچتا ہو کہ پیسہ کمائے،یا بغیر بسم اللہ کے ذبح کرتا ہے تو ایسے قصائی کے گوشت لینے اور کھانے سے احتراز کیا جائے۔
لشمیر میں باہر سے آنے والے ذبح شدہ گوشت یا چکن کے متعلق جب یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ شرعی اصولوں کے مطابق ذبح شدہ نہیں ہے تو وہ کھانا حرام ہے اور جب یقینی طور پر معلوم ہو وہ شرعی اصولوں کے مطابق ذبح شد ہے اور یقینی طور پر حلال ہے تو اس کا کھانا جائز ہےاوراگر یقینی طور پرنہ یہ معلوم ہو کہ وہ حلال ہےاور نہ یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ حرام ہے تو ایسی صورت میں یہ مشکوک ہےاور مشکوک چیز سے بھی پرہیز کیا جائے۔بخاری و مسلم کی حدیث سے ہے،حلا ل اور حرام کے درمیان بہت ساری چیزیں مشتبہ ہیں۔جو مشتبہات سے بچے گا، وہ اپنے دن کو محفوظ کرے گا ۔تمام مسلمان سبزی ،دال بلکہ چٹنی چاول پر اکتفا کریں لیکن مشکوک اور مشتبہ چیزیں کھانے سے پرہیز کریںیا مقامی طور پر مہیا شدہ حلال گوشت سے ضرورت پوری کریں تاآنکہ باہر سے آنے والے گوشت کے متعلق قطعی فیصلہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے،اُس کے لئے کیا حکم ہے ۔کیا شوہر کا غم دور کرنے کے لئے وہ رشتہ داروں یا سیاحتی مقامات پر جا سکتی ہے۔عیادت کے لئے رشتہ داروں میں کسی تقریب مثلاً شادی یا تعزیت میں جا سکتی ہےیا وہ بیمار ہوجائے تو کیا معالج کے پاس جانے کی اجازت ہوگی؟
نسرین عباس ،رعنا واری سرینگر
شوہر کی وفات کے بعد
عورت کو ایامِ عدت میں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے؟
جواب :وہ خاتون جس کا شوہر وفات پاچکا ہے ۔اُس کے لئے شریعت نے دو اہم احکام رکھے ہیں ۔ایک عدت ،دوسرے ترکِ زینت۔عدت چار ماہ دس دن ہیں۔ ان ایام میں اس بیوہ کو گھر سے باہر نکلنے کی ہرگز اجازت نہیں،لہٰذا تقریبات میں ،عیادت میں ،تعزیت میںجانے کی بھی اجازت نہیں۔ہاں ! اگر معالج کے پاس جائے بغیر چارہ نہ ہو تو دن میں جاکر جلد سے جلد واپس اُسی گھر میں آئے جہاںوہ عورت گذار کررہی ہو۔لباس میں رنگین ،پُر کشش کپڑے اور زیورات پہننے سے پرہیز کرے۔میک اَپ کی تمام اشیاء سے پرہیز کرے ،دوائی استعمال کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :گھروں میں تقسیم جائیداد کے جھگڑے ہمارے معاشرے کا بہت سنگین مسئلہ ہے اور اس کے مضر اثرات بہت دور تک پہنچتے ہیں۔اس بارے میں شرعی اصو ل و ضوابط سے روشناس کرائیں۔
غلام محی الدین میر ،سوپور
حیاتی میں اولاد کے درمیان تقسیم ِجائیدادکا معاملہ
جواب:کسی بھی مسلمان پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی املاک ،زمین و جائیداد وغیرہ تقسیم کرے۔تاہم اگر کوئی مسلمان تقسیم کرنا چاہتا ہےتو شرعاً ممانعت بھی نہیں ہے۔اب جب وہ یہ ارادہ کرے تو پہلے چند امور پر غور کرے۔کیا سارے بچے شادی شدہ اوربرسرروزگار ہیں۔کیا کسی ایک کے لئے کسی بھی اہم معقول وجہ کی بنا پر کچھ زیادہ رکھنے کی اس کو ضرورت محسوس ہوتی ہے،نیز یہ بھی سوچے کہ کیا خود اُس کو اپنے لئے کچھ جائیداد و رہائش کے لئے کچھ کمرے مخصوص رکھنے کی ضرورت ہےیا نہیں؟ان امور کے ساتھ وہ یہ بھی دیکھے کہ اُس کے ذمہ زکوٰۃ یا حج کا فریضہ باقی تو نہیں ہے۔اگر باقی ہے تو اُس کی ادائیگی کی صورت کیا ہوگی۔یہ تمام امور جب طے ہوجائیں تو پھر جائیداد تقسیم کرنے سے پہلے یہ دیکھیں کہ کسی بیٹے کی کمائی اس گھر میں بصورت رقم یا بصورت ِ اثاث البیت موجود ہے یا نہیں۔اگر ہے تو اس کے متعلق کوئی نہ کوئی فیصلہ کرکے رکھےاور ساری اولاد کو اعتماد میں بھی لےاور مطمئن بھی کرے۔پھر بقیہ جائیداد اولاد میںتقسیم کرکے دےاور یا تو ہبہ کرے یا عاریت پر دےاور جو بھی شکل اختیار کرے ،اس کے لئے کسی شریعت جاننے والے سے رہنمائی لے۔پھر بطور ھبہ دے یا بطور رعایت کے دے،دونوں کی تحریری دستاویز بنائے اور سب کو اس سے باخبر رکھے،اور اپنے لئے جو حصہ رکھا ہے ،اُس کے متعلق شرعی ضوابط کے مطابق تحریر بنا کے رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ہمارے معاشرے کا ایک سنگین مسئلہ ہے جو اگرچہ نسبتاً کم ہوتا ہے،مگر جس گھر میں یہ مسئلہ ہوتا ہے بہت دور تک اس کے اثرات پھیلتے ہیں اوربعض ناواقف اسلام پر ہی اعتراض کرتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے ،ایک شادی شدہ صاحب ِ اولاد اپنے والد کے ساتھ رہائش پزیر ہے۔کمائی اپنے باپ کے حوالے کرتا ہے اور اسی حال میں اس کی وفات ہوجاتی ہے کہ اُس کے بچے چھوٹے ہوتے ہیں،پھر یہ یتیم بچے اپنے دادا یعنی فوت شدہ شخص کے والد اور اپنے چاچائوں کے حوالے ہوتے ہیں۔پھر ان بچوں کو کبھی دادا اور کبھی چاچائوں سے بہت پیار اور شفقت ملتی ہے اور کبھی کوئی سخت ظلم و زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،حتیٰ کہ دادا کے مرنے پر اُن بچوں کو پراپرٹی سے محروم بھی کردیا جاتا ہےاور پھر حوالہ یہ دیا جاتا ہے کہ ان کو اسلام نے وراثت سے محروم کردیا ہے۔ اس صورت حال میں شریعت کی کیا رہنمائی ہے؟
محمد انعام پیر، لعل بازار سرینگر
یتیم بچوں کی کفالت ۔دادا اور چاچا کیا ذمہ داری؟
جواب: جب کسی گھر میں وہ حادثہ پیش آئے جو اوپر سوال میں لکھا گیا ہے تو ان یتیم بچوں کے دادا جو فوت شدہ شخص کا باپ ہے اور اب وہ یتیم بچے اس کی کفالت میں ہیں۔اُس دادا کے کندھوں پر ان یتیم بچوں کی تمام زمہ داری ہے۔اگر اس دادا کی اولادمیں اب کو ئی اور بیٹا نہیں ہے،صرف بیٹیاں ہیں تو اس صورت میں دادا کے مرنے کے بعد ان یتیم بچوں کو خود بخود وراثت مل جائے گی لیکن اگر اس داداکی اولاد میں فوت شدہ بیٹے کے علاوہ دیگر کوئی بیٹا ہے تو اب اس دادا پر لازم ہے کہ وہ ان یتیم بچوں کے لئے کوئی وصیت نامہ یا ہبہ نامہ بنائے ،اور ہِبہ یا وصیت نامہ بنانے سے پہلے شریعت کے کسی ماہر عالم اور کسی مستند وکیل سے بھی رہنمائی لے۔پھر دادا کے فوت کے بعد اُسی ہبہ نامہ یا وصیت نامہ کے مطابق عمل کیا جائے۔اگر دادا یہ اقدام نہ کرے یا صرف آج کل کرتے رہنے کی روش اپنالے تو اُس کو نصیحت کی جائے،ترغیب دی جائے اور یہ قدم اٹھانے پر آمادہ کیا جائے ۔اس کے باوجود اگر دادا نےیہ قدم نہیں اٹھایا اور وہ مرگیا تو ان یتیم بچوں کے چاچائوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے بھتیجوں کو اس زمین جائیداد میں سے اتنا حصہ دیں جو ان بچوں کے والد کو ،اگر وہ زندہ ہوتا ،ملنےوالا تھا۔جب یتیم بچوں کے چاچا یہ قدم اٹھائیں گے تو ان یتیم بچوں کو جائیداد مل جائے گی۔خلاصہ یہ کہ اس سنگین مسئلہ کا حل دادا کے کندھے یا چاچائوں کے کندھوں پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: بہت سے گھروں میں اپنے ہمسایوں کے ساتھ جھگڑے ہوتے ہیں۔یہ گھروں ،دکانوں ،باغوں ،کھیتوں اور گھریلو پارکوں اور صحنوں میں بھی ہوتے ہیں۔اس میں ایک شخص دوسرے کی زمین پر قبضہ جماکر بیٹھا ہے،یہ زمین چند فُٹ بھی ہوسکتی ہے اور اس سے زیادہ بھی۔کبھی تو کنال اور ایکڑ بھی ہوتی ہےاور کبھی باغ اور پورا فارم بھی ہے۔غرض کہ بھائی اپنے بھائی یا بہن سے،ہمسایہ اپنے پڑوسی سے ،دوسرے کی زمین پر جابرانہ قبضہ پر ہوتا ہے ،مقدمہ بازی بھی کرتا ہےاور بعض دفعہ نسلوں تک یہ نزاع چلتا ہے ۔اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے،تٖحریر فرمائیں۔
غلام حسن۔اپَر صورہ سرینگر
دوسرے کی زمین ہڑپنے والا۔سات گنا سزا کا مستحق
جواب: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ایک بالشت کے برابر کسی دوسرے کی زمین اپنے قبضے میں کی ،اللہ تعالیٰ اُس کے گلے میںقیامت کے دن سات زمین بطور طوق کے ڈالے گا۔یعنی قیامت کے دن سات زمینیں سزا کے طور پر اُس کی گردن میں لٹکائی جائیں گی۔اب جو شخص زمینوں کے سلسلے میں کسی اپنے یا بیگانے ،قریبی یا دور کے رشتہ دار کے ساتھ نزاع کررہا ہےتو اُس میں اگر کسی نے ناحق دوسرے کی زمین پر قبضہ جمایا ہے اور وہ اُس زمین کا مالک نہیں ہے تو اس شخص کو آخرت میں جو سزا لگے گی وہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادی ہے۔اور وہ یہ ہے ،سات زمینوں کے وزن کے بقدر طوق !اور دُنیا میں وہ ظالم ،حرام خور اور دوسروں کا حق مارنے والا فاسق مجرم ہےاور اس کی وجہ سے وہ اُن لوگوں کی نگاہوں میں قابل مذمت اور مستحق نفرت ہے جو اس حقیقت سے واقف ہوں گے۔حقیقت یہ ہے کہ دوسرے کی زمین پر قابض شخص دنیا و آخرت دونوں جگہ خسارے میں ہےاور خالق و مخلوق دونوں کی نظر وںمیںبڑا مجرم ،گنہگار اور فاسق و فاجرہے۔