سوال: بچہ کے پیدا ہونے پر کیا کیا حکم ہے؟ نمبروار درج فرمائیں۔
قرۃ العین حمیدہ…سرینگر
بچے کوکلمہ طیبہ سکھانا والدین پر شرعی اور ناگزیر فرض
جواب: بچہ پیدا ہونے پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ پھر جتنا جلد ہو سکے، بچے کو نہلا دیں، اس کے بعد بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھیں، پھر تحنیک کریں یعنی کوئی میٹھی چیز مثلاً کھجورچبا کر اس کا لعاب بچے کے منہ میں ڈالیں یا شہد کے ایک دو قطرے بچے کے منہ میں ٹپکائیں۔اس کے بعد ایک ہفتہ کے اندر اندر، اور زیادہ بہتر ہے کہ تین دن کے اندر اندر ،بچے کا نام مقرر کریں۔ نام رکھنے میں خالص اسلامی نام رکھنے کا اہتمام کریں۔ ایسا نیا اور انوکھا یا منفرد نام رکھنے کا کام ہرگز درست نہیں ہے جس سے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ بچہ مسلمان ہے یا غیر مسلم، جیسے بلال نام ہو تو ہر شخص یہ سمجھے کہ یہ مسلمان ہے لیکن اگر بلائول رکھا جائے تو یہ اسلامی نام نہیں ہے یا انصار نام رکھیں تو یہ اسلامی نام ہے مگر رخسار رکھیں تو یہ خالص اسلامی نہیں۔اس کے بعد جب بچے کا سرپختہ ہو جائے تو سر کے بال مونڈھ کر ان بالوں کے وزن کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کر دیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ دس گرام ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد اگر مالی گنجائش ہو تو عقیقہ کریں یعنی بیٹے کے پیدا ہونے پر دو بھیڑ یا بکرے اور بیٹی کے پیدا ہونے پر ایک ذبح کیا جائے اور قربانی کے گوشت کی طرح استعمال کریں۔
یہ عقیقہ ساتویں دن کریں مثلاً بچہ اگر جمعہ کے دن پیدا ہوا ہے تو جمعرات کے دن اور اگر منگل کو مثلاً پیدا ہوا ہے تو پیر کے دن عقیقہ کریں یہ ساتواں دن ہوگا۔
پھر جونہی بچہ بولنا شروع کر دے مثلاً وہ بابا، ماما کہنے لگے اور عموماً بچہ کی زبان پر ازخود یہی الفاظ جاری ہوتے ہیں اور وہ فکر اور تسلسل سے لگاتار یہی بولتا رہتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کے اندر بولنے کی صلاحیت پیدا ہونا شروع ہوگئی بس اس وقت سب سے پہلے اللہ اللہ سکھانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ یہاں تک کہ اس کی زبان پر یہی جاری رہے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد جب وہ باقاعدہ الفاظ بولنے لگے تو سب سے پہلے کلمہ لا الٰہ الا اللہ ،سکھانا والدین پر لازم ہے او ریہ بچے کا والدین پر ایک شرعی اور ناگزیر حق ہے۔ یہ اسلامی فرض ہے۔ اس لئے اس میں ہرگز کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-بہت سارے نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ اُنہیں بہت بُرے بُرے خیالات آتے ہیں ۔ میرا حال بھی ایسا ہی ہے۔ یہ خیالات اللہ کی ذات کے بارے میں ،حضرت نبی علیہ السلام کے متعلق ، ازواج مطہراتؓ کے متعلق ،قرآن کے متعلق ہوتے ہیں۔اُن خیالات کوزبان پر لانا بھی مشکل ہے ،اُن خیالات کو دفع کرنے کی جتنی بھی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی وہ دل میں ،دماغ میں مسلط ہوتے ہیں ۔اب کیا یا جائے ؟
کامران شوکت … سرینگر
بُرے خیالات:شیطان وہیں حملہ کرتاہے
جہاں ایمان کی دولت ہو
جواب:۱-بُرے خیالات آنا دراصل شیطان کا حملہ ہے۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابیؒ نے یہی صورتحال عرض کرکے کہاکہ یا رسول اللہ ؐ میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ اگر میں اُن کو ظاہر کروں تو آپؐ ہم کو کافر یا منافق قرار دیں گے ۔
اس پر حضرت ؐ نے ارشاد فرمایا کہ واقعتاً تمہارے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ ہاں ایسے خیالات آتے ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ایمان کی علامت ہے ۔ عرض کیا گیا کیسے ؟تو ارشاد فرمایاچور وہاں ہی آتاہے کہ جہاں مال ہوتاہے ۔
جب ایسےبُرے خیال آئیں تو باربار استغفار اور لاحول پڑھنے کا اہتمام کریں اور اپنے آپ کو مطمئن رکھیں کہ یہ آپ کا اپنا خیال ہے ہی نہیں ۔ آپ کاخیال تو وہ ہے جو آپ کی پسند کے مطابق ہو ۔ یہ خیال آپ کو نہ پسند ہے نہ قبول ہے تو اس کا وبال بھی آپ کے سر پر نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱- خاوند نے بیوی کو بیک وقت سہ طلاق بذریعہ ڈاک روانہ کی ہو لیکن بیوی بے خبر ہو تو کیا اس صورت میں طلاق جائز ہوگی اور یہ کہ مرد پر بیوی کے کیا حقوق لازم ہیں اور بچہ چار سال کا ہو تو وہ کس کے پاس رہے گا ۔والدہ کے پاس یا والد کے پاس ؟
سوال :۲-اگرشادی کے کچھ عرصہ کے اندر اندر نوبیاہتا دُلہن کو سسرال والوں کی طرف سے جہیز وغیرہ کم لانے کی وجہ سے تنگ طلبی اور طعنہ زنی کا سامنا ہو اور جس سے دلہن کی صحت اور دماغی حالت انتہائی خراب ہوجائے اوروہ سسرال میں خود کو غیر محفوظ سمجھ کر اپنے میکے میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہوجائے اور قریباً ایک دوسال سے دلہا یا سسرال والے اپنی بہو کو اپنے گھر لانے میں ناکام ہوئے ہوں اور یہ کہ معززین اور برادری والے اس فیصلہ پر متفق ہوگئے کہ واقعات کی روشنی میں اس شادی کو برقرار رکھنا نہ صرف دلہن پر صریح ظلم ہے بلکہ جانبین کی طرف سے جانی اور مالی خطرہ ہو اور یہ کہ دلہن اپنے سسرال یاشوہر کے پاس جانے کے لئے بالکل تیار نہ ہو اور اس شادی کو برقرار رکھنا اپنے لئے نہ صرف صریحاً ظلم قرار دیتی ہو اور اپنی زندگی کو شوہر یا سسرال والوں کی طرف سے خطرے میں جانتی ہو تو عرض ہے کہ اس صورت میں کیا عورت شوہر سے خُلع لے سکتی ہے۔یہ کہ شریعت کی رو سے اس بارے میں کیا حکم ہے ۔
سوال:۳-دلہن کی جو اپنی جائیداد یعنی زیورات ، کپڑے ودیگر سامان کس کی ملکیت ہوگی اور دلہا کس چیز کا حقدار ہے ۔
سوال:۴- جب تک بیوی اپنے میکے میں ہے اور اس کو طلاق نہیں ہوئی ہے تو کیا بیوی تب تک نانِ نفقہ اپنے شوہر سے مانگ سکتی ہے ۔
عبدالاحد …… ہارون سرینگر
طلاق عورت کے قبول کرنے پر موقوف نہیں
عورت رشتہ برقراررکھنے پر آمادہ نہ ہو تو خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے
جواب:۱-شوہرنے جب اپنی زوجہ کو تین طلاق تحریراًً دے دیں تو وہ چاہے اس کو قبول کرے یا نہ کرے اور اُس کوطلاق کی اطلاع ہویا نہ ہو بہرصورت طلاق واقع ہوگئی ۔ ان کارشتہ آپس میںمنقطع ہوگیا ۔ اس لئے کہ شریعت اسلامیہ نے وقوع طلاق کو عورت کے باخبر ہونے یا قبول کرنے پر موقوف نہیں رکھاہے ۔اس لئے عورت اگر طلاق کو مسترد کردے مگر اُس کا رشتہ نکاح ختم ہوچکا ہوتاہے ۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیات، احادیث کی صراحت او رفقہائے اسلام کی تفصیلی بیانات سے یہی ثابت ہے
جواب:۲-زوجین میں اگر شقاق ہواورعورت کو اپنے شوہر سے ایسی شکایات ہوں کہ اب وہ رشتہ برقرار رکھنے پر کسی طرح بھی آمادہ نہیں ہے تو ظاہرہے کہ جبراًًاس رشتہ کو باقی نہیں رکھا جاسکتا ۔ ایسی صورت حال میں زوجہ تو شوہر کو طلاق نہیں دے سکتی ۔ ہاں وہ خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے ۔چنانچہ احادیث میں اس سلسلے میںہے کہ حضرت ثابتؓ بن قیس کی زوجہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہر کی شکایات کی اور رشتہ منقطع کرنے کی خواہش ظاہر کی تو حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم اُس کا دیا ہوا باغ (جومہر میں دیا تھا)واپس کرنے کو آمادہ ہو۔ اس خاتون نے عرض کیا کہ ہاں ۔ تو حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت ؓ سے فرمایا کہ تم باغ واپس قبول کرو اور اس کو اُس کے عوض میں طلاق دے دو ۔ یہ واقعہ بخاری ،مسلم ، ترمذی ،ابودائود وغیرہ میں موجود ہے ۔
اس حدیث کی بناء پر فقہائے اسلام نے یہ اصول مستنبط کیا کہ ظلم وزیادتی اور شقاق کی وجہ اگر شوہر کی طرف سے ہو تو اُسے طلاق کے عوض میں کوئی چیز لینا ہی جائز نہیں ہے ۔ اگر کوئی بھی چیز شوہر سے لی گئی تو یہ حکم قرآن کے خلاف ہوگاجو کہ سورہ النساء رکوع ۳ میں موجود ہے ۔
اور اگر نشوز ونافرمانی عورت کی طرف سے ہو تو پھر اس کے خلع کے مطالبہ کرنے کی صورت شوہر کے لئے جائز ہے کہ وہ مہر اور دیگر زیورات کے عوض طلاق دینے پر آمادہ ہو جائے جیساکہ اوپر کے واقعہ میں ہے ۔ چنانچہ بدائع الصنائع ، فتاویٰ عالمگیری، درمختار وغیرہ تمام کتابوں میں خلع کے بیان میں یہ اصول صراحتہً موجود ہے ۔
مہر اور زیورات سے زائید شوہر کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے ۔ خصوصاً کھانے پینے پر آنے والے خرچے کی قیمت طلب کرنا۔ اسی طرح بے جار سوم پر جو رقم خرچ ہوئی ہو اُس کا مطالبہ کرنا یا رشتہ ختم کرنے پر جُرمانہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے ۔ خلاصہ یہ کہ عورت کا مطالبۂ خلع اگر مبنی برحق نہ ہو اور اس کے باوجود شوہر بادلِ ناخواستہ خلع پر تیار ہوتواُسے مہر وزیورات طلب کرنے کا حق و اختیار ہے ۔
زیورات مہر اور دیگر اشیاء
جواب:۳-رشتہ برقرار ہوتو جوزیورات مہر اور دوسری اشیاء زوجہ کو دی گئی ہو اُن کا حق زوجہ کا ہی ہے ۔ چاہے زوجہ کو اس کے والدین اور اقارب نے دیئے ہوں یا شوہر اور اُس کے اعزاء نے دیئے ہوں اور جو تحائف شوہر کو دیئے گئے وہ اُسی کے ملکیت ہوں گے ۔
نفقہ کامعاملہ
جواب:۴- زوجہ اگر میکے میں رہے اور شوہر کے ساتھ یہ طے کرکے رہے کہ میرے میکے میں رہنے کا ایام نفقہ ادا کرنا ہوگا تو اس صورت میں میکے میں رہنے کے دوران نفقہ اُس کا حق ہے اور اگر لڑائی ونزاع کی بناء پر عورت کو نکال دیا گیا یا وہ فرار ہوکر گئی یا میکے میں پناہ لینے پر مجبور کی گئی تو اس صورت میں تحقیق حال کے بعد فیصلہ ہوگاکہ نفقہ لازم ہوسکتاہے یا نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:کیا ایک مسلمان کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنا خون کسی خون کے ضرورت مند بیمار کو چڑھانے کے لئے نکلوا دے اور اس خون کو بغیر کسی معاوضہ کے پیش کرے، کیا ایک مسلمان کو اپنا خون صرف اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو ہی دینا ہوتا ہے یا خون دینے میں رشتہ داری کی کوئی قید نہیں ہے،یعنی ہر ایک حاجت مند بیمار کو خون دینا جائزہے؟
عطیہ خون … شرعی احکام
محمدحافظ…چھتہ بل سرینگر
جواب: خون دینا نہ صرف جائز ہے بلکہ خدمت انسانی اور مجبور انسان کو تعاون دینے ، ہمدردی اور باعث اجر و ثواب عمل ہے۔
خون مسلمان غیر مسلم، مرد عورت، اقارب و اجانب کو دینا بھی جائز ہے اور ان سے خون لینا بھی جائز ہے۔
خون دینا جب ضرورت مند کی ضرورت پورا کرنے کا کام ہے تو یہ ہر ضرورت مند کے لئے جائز ہے۔ اس میں کوئی قید یا شرط نہیں، ہاں خون فروخت کرنا حرام ہے لیکن اگر کسی ضرورت مند کو بطور عطیہ خون نہ ملے تو خون خرید کر ضرورت پورا کرنا شرعاً جائز ہے۔