سوال :یہاں کشمیر میں بہت سارے لوگ گفتگو میں یہ جملہ بولتے ہیں’’الکذاب لا امتی‘‘پھر ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہے۔ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث ہے؟اسی طرح بہت ساری مجالس میں ہم کو یہ سُننے کا موقع ملا ’’قولُہٗ ایمانُہٗ ‘ اس جملے کا مطلب کیا ہے ۔یہ قول کس کا ہے ،اس کی نسبت کسی شخصیت کی طرف ہے ؟ اسی طرح یہ جملہ بھی سُننے میں آتا ہے ’’الصحبتہ من التاثیر‘‘
اس جملے کی حقیقت بھی بیان کیجئے۔
محمد سلطان ۔رعناواری سرینگر
کذب بیانی گناہ۔قرآن کریم میںجھوٹوں پر لعنت فرمائی گئی ہے
جواب:جھوٹ بولنا ،کذب بیانی کرنا یقیناً گناہ ہے ۔قرآن کریم میں بھی اور احادیث شریفہ میں بھی کذب بیانی کی سخت مذمت آئی ہے ۔کذب بیانی یہ ہے جو کام نہ کیا ہو یا جو واقعہ نہ ہوا ہو ،اُس کے متعلق کوئی شخص یہ بولے کہ یہ کام ہوا ہے یا کوئی کام نہ ہوا ہو اور کوئی بولنے والا یہ بولے کہ یہ کام ہوا ہے ۔مثلاً نماز نہیں پڑھی ہے اور کوئی شخص بولے کہ پڑھ لی ہے تو یہ کذب بیانی ہے یا کسی شخص نے نشہ کیا ہے مگر بات کرتے ہوئے کہے کہ نشہ نہیں کیا ہے ۔یہ جھوٹ بولنا ہے۔بلا شبہ یہ گناہ ہے اور قرآن کریم میں کذب بیانی کرنے والوں پر لعنت فرمائی گئی ہے۔
اس کذب بیانی کی مذمت کے لئے یہ جملہ بولنا کہ الکذّاب لا اُمتی،یہ جملہ عربی ادب و اسلوب کے اعتبار سے غیر فصیح بلکہ غلط ہے اور پھر اُس کو حدیث کہنا سخت منع ہے۔چنانچہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری طرف کوئی ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی ہو ،اُس کاٹھکانہ جہنم ہے ۔(بخاری و مسلم)
خلاصہ یہ کہ یہ جملہ عربی کے اعتبار سے بھی درست نہیں اور ہرگز ہرگز حدیث نہیں ہے۔(۲) قولہ ایمانہ۔عوام میں رائج ایک جملہ ہے جس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ وہ اپنی بات کا پکّا اور وعدہ کا پانبد ہے۔اسی طرح صحبت کے اچھے یا بُرے اثرات کو بیان کرنے کے لئے یہ جملہ زبانِ عوام میں رائج ہے ،الصحبتہ من التاثیر۔عربی کے اسلوب کلام کے اعتبار سے یہ جملہ غلط ہے ۔صحبت کی تاثیر ضرور ہوتی ہے مگر یہ جملہ صحیح نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ایک علاقہ میں اونٹ کا گوشت دستیاب تھا ،چنانچہ یہ گوشت لایا گیا اور پکاکر کھایا بھی گیا ،پھر اس بارے میں پتہ چلا کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور یہ بھی سُنا کہ یہ حدیث میں بھی ہے۔عرض ہے کہ کیا واقعتاً اس بارے میں کوئی حدیث ہے،اگر ہے تو وہ کیا ہے اور کہاں کس کتاب میں ہے؟ نیز اب حکمِ شرعی کیا ہے ۔اگر کسی باوضو نے اونٹ کا گوشت کھایا ہو تو کیا اس شخص کا وضو باقی ہے یا نیا وضو کرنا لازم ہے؟
لطیف احمد گوجر۔نروال جموں
اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کا مسئلہ
جواب :اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کے متعلق حدیث مسلم،ترمذی ،مسند احمد ،طبرانی میں ہے۔حدیث یہ ہے: حضرت براء ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھا گیا کہ کیا اونٹ کا گوشت کھانے کی وجہ سے وضو کرنا ہوگا ۔آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ’’ ہاں! وضو کرو‘‘۔پھر سوال کیا گیا کہ کیا بکری کا گوشت کھانے سے وضو کرنا پڑے گا ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’نہیں!اس وجہ سے وضو نہ کرو‘‘
اسی طرح کی حدیث حضرت جابر بن سمرہؓ اور حضرت اُسید بن حفیرؓ سے بھی مروی ہے۔اس حدیث کی بنا پر حضرت امام احمد حنبلؒ اور حضرت اسحٰقؒ کی رائے یہی ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے کی وجہ سے وضو کرنا ضروری ہے ۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے اس پر تفصیلی بحث نقل کرکے لکھا ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے کی وجہ سے وضو کرنا ضروری ہے۔
اس رائے کے برخلاف امام ابو حنیفہ ؒ،امام مالکؒ،امام شافعیؒ اور دیگر تمام فقہاء و محدیثین کی رائے یہ ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے کی بِنا پر وضو نہیں ٹوٹتا ہے ،اس لئے کہ وضو تو جسم سے کسی نجاست کے نکلنے کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے اور اونٹ کھانے سے کوئی بھی نجس چیز مثلاً پیشاب یا پاخانہ جسم سے خارج نہیں ہوتا ،اس لئے وضو نہیں ٹوٹے گا اور حدیث میں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔رہا یہ کہ حدیث میں تو حکم دیا گیا کہ وضو کروتو اس بارے میں ان تمام فقہاء و مجتہدین نے فرمایا کہ یہاں وضو سے مراد شرعی وضو نہیں ہے بلکہ ہاتھ دھونا اور کلی کرنا ہے تاکہ گوشت کے چربی کی صفائی ہوجائے۔چنانچہ طبرانی میں علامہ ضیاء الدین مقدسی کی المختارہ میں ایک حدیث اس طرح ہے:
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص باوضو ہو پھر اُس نے کوئی کھانا کھایا تو وہ وضو نہ کرے۔ہاں! اگر اونٹ کا دودھ پیا تو پھر پانی سے کلی کرو ۔مختلف موقعوں پر بہت ساری احادیث میں وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر وہاں وضو سے مراد وضو شرعی نہیںبلکہ صرف وضو لغوی ہے اور وضو لغوی صرف ہاتھوں کو اور منہ کو دھونا ہوتا ہے۔چنانچہ ترمذی میں حدیث ہے کہ حضرت رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ کھانے کی برکت اس میں ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی وضو کیا جائے ۔اس حدیث میں وضو سے مراد ہاتھ دھونا اور کلی کرنا ہے ۔خلاصہ یہ کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے اور جس حدیث میں وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اُس میں وضو سے مراد ہاتھ دھونا اور کلی کرنا ہے۔چناچہ اونٹ کے گوشت میں چکناہٹ اور چربی کی زیادتی اس کے بغیر دور نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال نمبر:۱۔جب کہیں پر کسی کی موت واقع ہوتی ہے تو لازماً لوگ جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں ،وہاں جمع ہوجاتی ہیں ۔کبھی کچھ لوگ وقتِ جنازہ عورتوں کو دائیں بائیں بٹھا دیتے ہیں ۔کیا خواتین کو جنازہ کی آخری صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے؟
سوال نمبر:۲۔مسجد شریف کی پرانی تعمیراتی لکڑی کیا مکانوں کی مرمت میں استعمال کی جاسکتی ہے؟
حبیب اللہ خان ۔ کھاگ
عورتوں کو جنازہ کے ساتھ چلنے کی اجازت نہیں
جواب نمبر:۱۔جنازہ میں عورتوں کو شریک ہونے سے منع کیا گیا ۔یہ ممانعت جنازہ کے نماز میں شریک ہونے کے لئے بھی ہے،اور جنازہ کے ساتھ چلنے میں بھی ممانعت ہے۔چنانچہ حدیث مبارک کے مبارک کلمات کا ترجمہ یہ ہے: ہم کو یعنی عورتوں کو منع کیا گیا ہے کہ ہم جنازہ کے ساتھ چلیں ،اس لئے جب گھر سے جنازہ روانہ ہوجائے تو عورتوں کو اُسی وقت گھر کے دروازے سے رخصت کردینا چاہئے اور عورتوں کے لئے بھی یہی شرعی حکم ہے کہ وہ جنازے کے ساتھ چلنے کا اصرار نہ کریں،نہ ہی گھر سے باہر نکل کر رونا پیٹنا شروع کریں۔
مسجد شریف کی متروک چیزوں کا استعمال
جواب نمبر:۲۔مسجد شریف کی پرانی لکڑی ،ٹین وغیرہ اگر مسجد شریف میں استعمال نہ ہوسکے اور آئندہ بھی مسجد شریف میں اس کے استعمال ہونے کے امکانات نہ ہوں تو یہ لکڑی ،ٹین ،فرش وغیرہ جو کچھ بھی ہو ،اُسے فروخت کرکے اُس کی قیمت مسجد شریف میں خرچ کی جائے۔خریدنے والا یہ احتیاط کرے کہ ناپاک یا بے ادبی کی جگہ یہ لکڑی ،ٹین وغیرہ استعمال نہ کرے۔مثلاً بیت الخلا میں یہ لکڑی نہ لگائے ۔اگر یہ لکڑی ،ٹین،فرش اسی طرح رکھا رہ جائے تو آہستہ آہستہ یہ خراب ہوکر ناقابل استعمال ہوجائے ،اس لئے فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ مسجد کی املاک ضائع ہونے سے بچ جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ہم بہت سارے دوست عمومی تعلیم سے وابستہ ہیں او رساتھ ہی دینی علوم کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کہ ہم کن کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ ہماری دینی فکر درست بھی اور پختہ بھی ہو ۔
ندیم احمد ۔ طبی طالب علم
پختہ دینی فکر کے لئے حصولِ علم کی ضرورت
جواب : دینی علم دراصل بہت سارے علوم کا مجموعہ ہے اور جب تک باقاعدہ اُن تمام علوم کو کسی مستند ادارے میں حاصل نہ کیا جائے اُس وقت تک مکمل رسوخ واعتماد حاصل نہیں ہوپاتا ۔تاہم دینی فکر کو پختہ کرنے اور اسے تمام طرح کے افراط وتفریط سے محفوظ رکھ کر مضبوط بنانے کے لئے ایسے افراد جو عصری علوم سے وابستہ ہو ، درج ذیل کتابیں یک گونہ ضرور فائدہ ہوں گی ۔
تفسیر میں آسان ترجمہ قرآن اُردو وانگریزی از مولانا محمد تقی عثمانی ۔ پھر تفسیر معارف القرآن از مولانا مفتی محمد شفیع ؒ (اردو انگریزی علوم القرآن از مولانا تقی عثمانی ، معارف الحدیث (اردو انگریز) از مولانا منظور نعمانی ۔ الادب المفرد از امام بخاریؒ،ریاض الصالحین (اردو وانگریزی ) از امام نوریؒ۔ محاضرات حدیث از ڈاکٹر محمود احمد ۔عقائد میں عقیدۃ الطحاویؒ اور عقائداسلام از مولانا محمدادریس کاندھلویؒ۔
سیرت طیبہ میں سیرت النبی ؐاز علامہ شبلی ؒ وعلامہ سید سلمان ندوی اور الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن نیز رحمتہ اللعالمینؐ۔ تاریخ اسلا م میں مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی تاریخ اور تاریخ ملت حیات الصحابہ از مولانا محمد یوسف کاندھلوی ۔
مواعظ میں ، اصلاحی خطبات ، خطبات فقیر، خطباب حکیم الاسلام ، مواعظ فقیہ الامت نیز پیر ذوالفقار احمد کی تمام کتابیں ۔
متفرقات میں اختلافات امت اور صراط مستقیم ، سنت نبوی اور جدید سائنس ، مغربی میڈیا ، جہانِ دیدہ ،آپ کے مسائل اور ان کا حل ۔ ثبوت حاضرہیں ۔
فتاویٰ محمودیہ اور مولانا محمد رفعت قاسمی کی تمام کتابیں۔ان کے بعد کسی مستند عالم سے رہنمائی لی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: ہمارے معاشرے میں بہت سارے ایسے اشخاص( مسلمان) دیکھنے کوملتے ہیں جو کبھی بھی مسجد شریف کی جانب نماز کیلئے رُخ نہیں کرتے اور نہ ہی گھروں میں نماز پڑھتے۔ ان کیلئے مذہب میں کیا حکم ہے؟
مشتاق احمد ۔ امیراکدل
دانستہ تارکِ نماز کیلئے حکم
جواب:نماز ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان اور کافر کے درمیان نماز کا فرق ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑے اس نے کفر کا کام کیا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اصحاب عین( جنت کے لوگ) جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ تم کوکس جرم کی وجہ سے سقر( جہنم کے خطرناک حصہ) میں پھینکا گیا۔ وہ جواب دیںگے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے وغیرہ ۔(سورہ المدثر )
قرآن و حدیث کے ان ارشادات سے خود وہ مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ اس کا حال کیا ہے اور آخرت میں اُس کا کیا حال ہوگا جو مسلمان محض سستی و غفلت سے نماز کا تارک ہے۔ عہد نبوت میں تو منافق بھی نماز چھوڑنے کا تصور نہیں کرتا تھا جبکہ آج کے مسلمان ان منافقوں سے بدتر حالت میں ہیں کہ وہ محض غفلت ولاپرواہی کی وجہ سے نماز چھوڑدیتے ہیں اور اس پر کوئی افسوس بھی نہیں ہوتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۔ گردوں کی بیماری کے سبب سے گردے عطیہ(Donate) کرنے کا سلسلہ تیز ہوا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
بشیر احمد ، گاندربل
گرد و ں کا عطیہ کرنے کی اہم شرائط
جواب:گردوں کا عطیہ جائزہے مگر تین شرطیں لازم ہے (۱) گردوں کی قیمت نہ لی جائے۔(۲) گردہ دینے والے کو خود ناقابل تلافی نقصان یا شدید بیماری کا خطرہ نہ ہو(۳) جسے گردہ دیا جائے اُسے فائدہ پہنچنے کا گمان غالب ہو۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ ایک سے گردہ لیا گیا اور دوسرے کو کار گر نہ ہوا۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی ٹوٹ جائے تو گردوں کا Donationدرست نہیں ہوگا۔