سوال:جیساکہ معلوم ہے کہ جدید تہذیب میں کھانے پینے کا ایک سسٹم بوفے کہلاتا ہے۔اگرچہ مسلمان معاشرے میں اس کا رواج نسبتاً کم ہے مگر پھر بھی بہت ساری تقریبات خصوصاً شادیوں میں کہیں کہیں اس کا نظارہ ہوتا ہے،بوفے میں اپنی مرضی سے اپنی اپنی پسند کے کھانے خود لینے ہوتے ہیں پھر کہیں بیٹھنے کا انتظام ہوتا ہے اور کہیں کھڑے کھڑے ہی لوگ کھاتے ہیں۔اس سلسلے میں اسلامی تعلیم کیا ہے اور اگر کہیں ایسی نوبت آگئی تو ہم کو کیا کرنا چاہئے۔ہمارا تجارتی سلسلہ کشمیر سے باہر بڑے بڑے شہروں میں ہے ،وہاں مختلف فنکشن ہوتے ہیں جن میں ہمیں شریک ہونا پڑتا ہےتو ہمارے لئے کیا حکم ہے؟
امین اسلم ۔مقیم حال دہلی
کھڑے ہوکر کھانااور پینا ،خلافِ سنت عمل
سائنسی تحقیقات کے مطابق بھی بدن کے لئے نقصان دہ
جواب:اسلام میں کھانے پینے کے متعلق مفصل احکام بیان کئے گئے ہیں۔ان میں سے چند یہ ہیں۔ہاتھ دھوکر کھانا کھایا جائے۔دسترخواں بچھاکر کھانا کھایا جائے۔ٹیک لگائےبغیر کھانا کھایا جائے۔ہاں ! اگر بیماری یا بُڑھاپے کا عذر ہو تو ٹیک لگاکر کھانے کی اجازت ہے۔زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا جائے۔بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایاجائے،دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے کھایا جائے۔کھانا کھاکر الحمد اللہ پڑھی جائےاور کھانے کے بعد ہاتھ بھی دھوئے جائیںاور کُلّی بھی کی جائے۔کھانے کے مزید آداب اور سنتیں فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔حفظان ِ صحت کے اصولوں اور طبی تحقیقات کے مطابق ان تمام سنتوں میں بے شمار فائیدے اور ان کے ترک کرنے کے نقصانات ہیں۔کھڑے ہوکر کھانے پینے میں کئی ارشادات رسولؐ کی خلاف ورزی یقینی ہے۔چند احادیث یہ ہیں:
بخاری شریف میں حدیث ہے کہ اللہ کے نبی علیہ السلام نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا۔مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا ،تو ہم نے پوچھا کہ کھانے کے متعلق کیا حکم ہے یعنی کیا کھڑے ہوکر کھانا بھی منع ہے ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،یہ اور بھی زیادہ بُرا ہے۔بخاری شریف میں حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تکیہ لگاکر نہیں کھاتا بلکہ اُس طرح کھاتا ہوں جس طرح بندہ کھاتا ہے۔غرض کہ کھڑے ہوکر کھانا پینا سراسر خلاف ِ سنت اور نبوی تہذیب کے منافی ہے۔لہٰذا جب کسی ایسی تقریب میں شریک ہونا پڑے جہاں فرش یا کرسیوں پر بیٹھ کر کھانے کا انتظام نہ ہو ،وہاں یا تو جانے سے معذرت کی جائے یا دعوت کرنے والوں سے کہہ دیا جائے کہ اگر بیٹھ کر کھانے کا انتظام ہو تو ہم کھانے میں شریک ہوں گے ورنہ ہماری طرف سے معذرت ہے۔اب کھڑے ہوکر کھانے پینے کے جسمانی نقصانات کا مختصر بیان دیکھئے۔غذائیات کے ایک عالمی ماہر کا کہنا ہے کہ کھڑے ہوکر کھانے پینے سے جسم کے رطوبتی نظام میں خلل ہوتا ہے ۔سیال مادّے کی روانی عدم توازن کا شکار ہوجاتی ہے،جسم میں زہریلے مادوں کی زیادتی ہونے لگتی ہے اور اس سے ہضم کا نظام متاثر ہوتا ہے۔جوڑوں میں سیال مادے جمع ہونے لگتے ہیں ،اُس سے جوڑوں میں سوزش ،درد اور اکڑ ن پیدا ہوتی ہے۔کھڑے ہوکر کھانے پینے سے گردوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے ۔اس سے گردوں ،مثانے اور پیشاب کی نالی میں انفکشن پیدا ہوتا ہے۔ غذائی امور کے ایک دوسرے ماہر کا کہنا ہے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے کی عادت سے پرہیز کرنا چاہئے۔اس سے نظام ہضم درہم برہم ہوتا ہے ۔جب کھڑے ہوکر پانی پیتے ہیں تو یہ پانی سیدھے معدے کے نچلے حصہ میں تیز رفتاری سے پہنچ جاتا ہے جو معدے کے لئے انتہائی ضرر رساں ہے۔ ایک تیسرے ماہر کا کہنا ہے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے سے جوڑوں میں سوزش ،ورم اور درد پیدا ہوتا ہے اور جوڑوں کی کمزوری ہونے لگتی ہے۔ایک ماہر کا یہ بھی کہنا ہےکہ کھڑے ہوکر پانی پینے سے دل،پھیپھڑے معطل ہوسکتے ہیں،اس سے گردوں کو بھی نقصان ہوسکتا ہے۔غرض کہ کھڑے ہوکر کھانا پینا بہر حال مضر صحت کام ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں طے ہے کھڑے ہوکر کھانا کھانے کے مضر اثرات کے متعلق بہت زیادہ مواد نیٹ پر بھی موجود ہے اور حفظانِ صحت کی کتابوں میں بھی ہے۔ایک محقق نے لکھا : جب انسان کھڑا ہوتا ہے تو جسم کے مرکزی مقامات کا اعصابی نظام انتہائی طور پر فعال ہوتا ہے تاکہ جسم کے تمام عضلات پر کنٹرول رہے اور جسم توازن سے کھڑا رہ سکے۔یہ ایک نازک عمل ہے جس میں اعصابی اور عضلاتی نظام ایک ہی وقت میں کام کرتے ہیں۔اب اگر کھڑے ہوکر کھانا کھایا جائے تو انسانی اعضاء کو جو سکون کھانے کے دوران مطلوب ہوتا ،وہ برقرار نہیں رہتا ۔اس سے سارا نظام ِ ہضم درہم برہم ہوتا ہے۔کھڑا ہوکر کھانے سےمعدہ کے اندرونی حصہ پر شدید عصبی اثرات پڑتے ہیں ۔اس سے دل پر مہلک دھچکے بھی لگ سکتے ہیں۔خلاصہ یہ کہ کھڑا ہوکر کھانا یا پینا اسلامی اصولوں کے بھی خلاف ہے اور طبی اصول و ضوابط کے بھی۔اس کے لئے اسلام کی تعلیمات اس کی سچائی کی دلیل ہیں،کہ یہ اصول اللہ کے نبی علیہ السلام نے اُس وقت بیان فرمائے جب سائنسی تحقیقات نہ تھیںاور جو کچھ تحقیقات سامنے آرہی ہیں وہ سب سنت ِنبوی کی تائید کرتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:اسلام میں کنبے کا تصور کیا ہے ۔ قرآن وسنت کی روشنی سے تفصیلی روشنی فرمائیں ۔
شبیراحمد۔ شوپیان
خاندان کا تصور…!
ادائیگی حقوق اور اجتنابِ ظلم مُقدم
جواب:اسلام نے نہ تو مشترکہ خاندان کا حکم دیاہے اور نہ ہی الگ الگ ہونے کا حکم دیاہے ۔ ہاں اسلام نے والدین ،اولاد اور بہن بھائیوں کے حقوق ہرحال میں لازم کئے ہیں ۔ ان حقوق کی ادائیگی چاہے مشترکہ خاندا ن میں رہ کر کی جائے یا الگ الگ ہوکر کی جائے ، درست ہے۔ لیکن اگر حق تلفی ہو ،والدین اور بہن بھائیوں پر ظلم کیا جائے اور اولاد کو ستایا جائے تو یہ جرم بھی ہے او راس سے زندگی تلخیوں بلکہ مصیبتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے، چاہے خاندان مشترکہ ہویا الگ الگ ہوں ۔ اس لئے اصل حکم ادائیگی حقوق اور اجتنابِ ظلم ہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اسلام نے یہ نہیں کہاہے کہ کون سا ذریعہ معاش اختیار کیا جائے ۔ ملازمت ، تجارت ، زراعت ، صنعت ، مزدوری جوچاہیں اختیار کریں مگر جوبھی ذریعہ آمدنی ہو وہ حلال ہو، لوٹ کھسوٹ اور حرام سے محفوظ ہو، چاہے وہ ملازمت ہو یا تجارت ، زراعت ہو یا مزدوری۔
اسی طرح اسلام نے یہ نہیں کہاکہ خاندان مشترکہ رکھو یا الگ الگ رہو۔
ہاں یہ حکم دیا ہے کہ ہرحال میں حقوق اداکرو ،ظلم وناانصافی سے پرہیز کرو، والدین کے حقوق خدمت ،راحت رسانی ،ضروریات کی کفالت اور مشکلات میں تعاون اور شفقت وہمدردی بھی لازم ہیں اور بیوی بچوں، بہن بھائیوں کے تمام حقوق ، تعلیم، پرورش ، تربیت ،ضروریات کا انتظام اور شفقت ومحبت کے ہرقسم کے جذبات ومظاہرے پیش کرنا ضروری ہے۔چاہے ایک ساتھ ہوں تو بھی یہ سب لازم ہے اور الگ الگ ہوں تو بھی یہ بہرحال لازم ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱حاملہ خاتون کی خبرگیری،اُس پر دورانِ حمل آنے والے اخراجات اورو ضع حمل یا سرجری (Surgery) کا خرچہ کس کے ذمہ ہے ۔ سسرال والوں کے ذمہ یا میکے والوں کے ؟
سوال:۲-کشمیر میں یہ رواج ہے کہ وضع حمل کے بعد بچہ جننے والی خاتون ایک طویل عرصہ ، جو مہینوں پر اور بعض اوقات ایک سال پر مشتمل ہوتاہے ، میکے میں گزارتی ہے۔ شوہر چاہتاہے کہ اس کی بیوی اور بچہ گھرآئیں مگر میکے والے نہیں مانتے ۔ کبھی زوجہ بھی چاہتی ہے کہ وہ اپنے سسرال جائے مگر اُس کے والدین ہمدردی کے جذبہ میں اُس کے جذبات واحساسات کی پروا نہیں کرتے اوربعض صورتوں میں میکے والے زچہ بچہ کو اپنے سسرال بھیجنے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں مگر سسرال والے ٹس سے مس نہیں ہوتے اور وہ خوش اور مطمئن ہوتے ہیں کہ ان کی بہو اور بچہ مفت میں پل رہا ہے ۔
اس صورتحال میں اسلام کا نظام کیا ہے ؟ کیا کرناچاہئے اور کیا بہتر ہے؟
سوال:۳ خواتین کوماہانہ عذراور وضع حمل کے بعد جو عذر کے ایام ہوتے ہیں ، اُن ایام کے متعلق اسلامی حکم کیا ہے ؟نماز ، تلاوت قرآن ،تسبیحات اوراد ، وظائف ، دعا ،درودشریف ۔دینی کتابوں کا مطالعہ ان میں سے کیا کیا کام اسلامی شریعت میں جائز ہیں۔
محمد ہلال : جموں
حاملہ اور زچہ پر آنے والےاخراجات
ذمہ داری کس کی؟
جواب:۱شریعت اسلامیہ کے اصولی احکام میں سے ایک ضابطہ یہ ہے :الخراج بالضمان ۔اس کامفہوم یہ ہے کہ جو پھل کھائے وہی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ۔ اس اصول سے سینکڑوں مسائل حل ہوتے ہیں ۔ یہ دراصل ایک حدیث کاحصہ ہے او ربعد میں اسی کوفقہی ضابطہ کے طور پر بے شمار مسائل حل کرنے کی اساس بنایا گیا ۔ اس کی روشنی میں غورکیجئے۔ نکاح کے نتیجے میں شوہر اپنی زوجہ سے کیا کیا فائدہ اٹھاتاہے ۔ اس کی طرف سے خدمت ، گھرکی حفاظت ،فطری ضرورت کی جائز اور شرعی دائرے میں تکمیل اور تسکین اور عصمت کی حفاظت کے بعد اولادجیسی عظیم نعمت کا حصول ! یہ سب زوجہ کے ذریعہ سے ملنے والی نعمتیں ہیں ۔اب جس ذات سے اتنے فائدے اٹھائے جارہے ہیں اُس کے تمام ضروری تقاضے او رضرورتیں پورا کرنا بھی لازم ہوںگے ۔شریعت میں اس کونفقہ کہتے ہیں ۔شریعت اسلامیہ نے جس طرح اولاد کا نفقہ وپرورش باپ پر لازم کیا ہے اسی طرح زوجہ کا نفقہ بھی شوہر پرلازم کیاہے ۔لہٰذا حمل کے دوران اور وضع حمل کا خرچہ بھی شوہر پر ہی لازم ہے ۔ زوجہ کے میکے والے اپنی خوشی سے اگر اپنی بیٹی پر کچھ خرچ کریں تو وہ اُن کی طرف سے صلہ رحمی اور احسان ہے لیکن اصل ذمہ داری بہرحال شوہر کی ہے ۔ اخلاقی طور پر یہ غیرت اورعزتِ نفس کے بھی خلاف ہے کہ کوئی انسان یہ خواہش رکھے کہ میری بیوی کے حمل اور بچے کی پیدائش کا خرچہ کوئی اور اٹھائے اور میں صرف نفع اٹھائوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:۲وضع حمل کے وقت اگرخاتون اپنے میکے میں ہو تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے ۔اس لئے عام طورپر زچہ (وہ عورت جو ڈیلیوری سے گذری ہو)کومیکے میں نسبتاً زیادہ راحت اور خدمت ملتی ہے اور وہ ہمارے معاشرے میں بھی اس کو بہتر سمجھاتاہے لیکن یہ وقفہ اتنا طویل نہ ہوناچاہئے کہ شوہر کو ناگواری ہونے لگے ۔ اس لئے ایامِ نفاس، جو عام طور پر مہینہ بھر اور زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہوتے ہیں، جونہی گذرجائیں تو عورت کو اپنے سسرال جانے کے لئے ذہناًتیاررہناچاہئے ۔ ہاں اگر دونوں طرف یعنی عورت کے میکے اور سسرال والے خوشی سے میکے میں رکھنے پر مزید رضامند ہوں تو حرج نہیں ۔ دراصل اس معاملے میں شوہر کی رضامندی مقدم ہے لیکن نہ تو شوہر کی یہ خواہش پسندیدہ ہے کہ یہ سارا بوجھ عورت کے میکے والوں پر رہے اور نہ چاہتے ہوئے اس بوجھ کو اٹھانے پر وہ مجبور کئے جائیں اور وہ زبان سے بھی اس کا اظہار نہ کرپائیں اور نہ ہی میکے والوں کے لئے یہ بہتر ہے کہ وہ اصرار سے زچہ بچہ کو روکے رکھیں اور شوہر کے مطالبہ واصرار کے باوجود شوہرکے گھر بھیجنے میں رکاوٹ ڈالیں ۔ اس کے لئے وسعت ظرفی دوسرے کے حقوق کی رعایت اور اپنی چاہت سے زیادہ دوسرے کی دل آزاری سے بچنے کا مزاج اپنانا چاہئے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ زچہ بچہ کی صحت اور راحت کا ویسا ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ خیال کرناضروری ہے ، جتنا میکے میں ہوتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:۳خواتین کو ماہانہ پیش آنے والے عذر کو حیض اور وضع حمل کے بعد پیش آنے والے عذر کو نفاس کہتے ہیں ۔ یہ دونوں حالتیں یکساں طورپر ناپاک ہونے کی حالتیں ہیں ۔ ان دونوں قسم کے اعذار میں نماز تو معاف ہے اور اِن نمازوں کی قضا بھی لازم نہیں ۔ روزے تو اس عذر کی حالت میں رکھنادُرست نہیں البتہ ان روزوں کی بعد میں قضالازم ہے ۔ تلاوت بھی جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تسبیح ، درودشریف ، دعائیں ، وظائف ، دینی کتابوں کا مطالعہ حتیٰ کہ تفسیر اور حدیث کا مطالعہ کرنے کی اجازت ہے بلکہ شوق کے ساتھ اس پر عمل کرنا چاہئے ۔یعنی نمازوں کی عادت کو برقرار رکھنے کے لئے اور مزاج میں عبادت کا ذوق زندہ رکھنے کے لئے بہتر ہے کہ نماز کے اوقات میں تازہ وضو کرکے جائے نماز پر بیٹھ کرتسبیح ،تہلیل ،استغفاراور درودشریف اور دعائیں کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
حیض ونفاس کی حالت میں شوہر سے ہمبسترہوکر جماع کرنا سخت حرام ہے ۔اس سے بھی اجتناب کرنے کا پورا اہتمام کرنا چاہئے ۔