سوال:کشمیر میں شہرودیہات کی بہت ساری مسجدوں میں لاوڈ سپیکر پر اذان کے علاوہ نماز،وعظ ،نعت وغیرہ بھی جاری رہتی ہے۔جہری نمازوں میں امام کی قرأت محلے ،گلیوں ،گھروں،دکانوں میں گونجتی ہے۔مگر جن لوگوں تک یہ آواز پہنچتی ہے ،وہ اپنے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت کوئی نہیں سُنتا حالانکہ ہم نے سُنا ہے کہ قرآن سُننا واجب ہےاور جب تلاوت کی آواز آرہی ہو تو دوسرا کوئی کام کرنا درست نہیں۔اب یہ گناہ لاوڈ سپیکر پر جہری کرنے والے امام کا ہے یا مسجد کی منتظمہ کا ہے،یا مسجد کے باہر کے اُن لوگوں پر اس کا گناہ ہے جو اس تلاوت کے سُننے سے اعراض کررہے ہیں،مگر اُن اعراض کرنے والوں کو اپنے کاموں میں مشغول رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
محمد حبیب اللہ ۔بمنہ سرینگر
مساجد میں لاوڈ اسپیکر کا استعمال ۔مختلف مسائل
جواب:قرآن کریم کی تلاوت جہراً وہاں کرنا جہاں لوگ اپنے کاموں میںمشغول ہوں،شرعاً اس لئے منع ہے کہ تلاوت نہ سُننے سے جو گناہ ہورہا ہےاُس کا سبب یہ اونچی تلاوت کرنے والا ہے۔اس لئے مائیک پر صرف اذان دینا جائز ہے۔اذان کے علاوہ نماز ،وعظ وغیرہ کے لئے مسجد کا وہ مائیِک جس کی آواز باہر جارہی ہو،استعمال کرنا ہی جائز نہیں ہے اور اس ناجائز ہونے کی وجوہات متعدد ہیں۔اُن میں سے ایک یہی ہے کہ وہ اُن لوگوں تک قرآن کریم کی آواز پہنچا رہا ہے جو قرآن نہیںسُن پاتے ہیں۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاویٰ ہند یہ،جو سلطان اورنگ زیب عالمگیر کے حکم سے اُس عہد کے عظیم فقہاء و مفتیان ِ کرام نے مرتب کی تھی اوراس لئے اس کو فتاویٰ عالمگیر ی بھی کہتے ہیں،میں ہےکہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ قرأت کا احترام کرے اوربازاروں میں یا ایسی جگہوں پر قرآن کریم کی تلاوت نہ کرے جہاں لوگ اپنے اپنے کاموںمیں مصروف ہوں اور قرآن سُننے سے اعراض کرنے پر مجبور ہوں۔دکانوں ،گھروں،بازاروں میں لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوتے ہیںاور اُن کے کانوں میں جہری نمازوں کی تلاوت کی آواز پہنچ رہی ہوتی ہے،مگر وہ نہ تو قرآن کریم کی طرف توجہ کرپاتے ہیںاور نہ ہی سُن پاتے ہیں۔اس کا گناہ اس شخص پر ہے جو اس عظمت ِ قرآن کے ضائع ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔لہٰذا اس کا گناہ اُسی پر ہوگانہ کہ اُن لوگوں پر جو قرآن سُننے سے اعراض کررہے ہیں۔فقہ حنفی کی دوسری مشہور کتاب شامی میں بھی یہی ہے۔جب تلاوت کرنے والا کسی جگہ تلاوت کرے کہ لوگ نہ سُن سکیں تو یہ حقِ قرآن کو ضائع کرنا ہےاور اس ضائع کرنے کا سبب یہ پڑھنے والا ہے۔لہٰذا گناہ بھی اسی کے سَر پر ہے۔اس لئے مساجد کے اماموں اور انتظامیہ پر لازم ہے کہ وہ مسجد کے دو مائیِک رکھیں ۔ایک مسجد کے اندر کے لئے ،اس اندر کے مائیِک پر نماز ،وعظ اور اوراد وغیرہ پڑھے جائیں،وہ بھی اُسی وقت جب مسجد کے تمام نمازیوں تک مائیک کے بغیر آواز نہ پہنچ سکے۔دوسرا مائیک باہر کے لئے رکھا جائے اور اُس میں صرف اذان نشر کی جائے ۔اذان کے بغیر باہر کا مائیک ہرگز کسی دوسرے کام مثلاً نماز،وعظ،کلمات ،نعت خوانی وغیرہ کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مساجد میں مایِک کے استعمال کے لئے یہ پانچ اصول اپنائے جائیں:
(۱) مساجد میں مائیک ضرور لگایا جائے۔(۲) مساجد کے باہر صرف اذان کی آواز پہونچانے کا لاوڈ اسپیکر لگایا جائے۔(۳)نماز ،وعظ ،کلمات ،تسبیحات اور اوراد کے لئے صرف مسجد کے اندر کے سپیکر استعمال کئے جائیں۔(۴)مسجد میں اگر نمازی کم ہوں اور بغیر مائیک کے بھی نماز یا واعظ کی آواز اُن تک پہنچ جائے تو پھر مسجد کے اندر کا مائیک بھی استعمال نہ کیا جائے۔(۵)رمضان المبارک میں صبح کی تسبیحا ت و اوراد اور شام کو تراویح مائیک پر پڑھنے سے مسجد کے باہر کے لوگ سخت اذیت محسوس کرتے ہیں مگر کہہ نہیں پاتے۔اس غلط طرزِ عمل کو ترک کرکے مائیک کا استعمال صرف اندر کے لئے کیا جائے،ورنہ قرأت قرآن کے سماع سے اعراض کا سبب بننے والےگناہ گار ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ہمارا سوال یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے شخص کا جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں۔کیا بغیر جنازے کے ایسے شخص کو دفن کرنے کا حکم ہے۔اس بارے میں وضاحت مطلوب ہے۔
محمد قاسم ۔کپوارہ
کیا خود کشی کرنے والے کا جنازہ پڑھا جاسکتا ہے؟
جواب :خود کشی نہایت ہی خطرناک اور بدتر گناہ ہے۔یہ عقل اور فطرت ِ انسانی کے بھی خلاف ہے۔حدیث میں ہے کہ انسان نےجس اوزار یا جس چیز کے ذریعہ خود کشی کی ہو ،اُسی کی اذیت میں وہ قیامت تک مبتلا رہے گا۔خود کشی کرنے والے شخص کی میت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی گئی تو آپ علیہ السلام نے اُس کا جنازہ نہیں پڑھا۔اس حدیث کی بناپر بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ خود کشی کرنے والے کا جنازہ نہ پڑھا جائے۔لیکن جمہورِامت کا مؤقف یہ ہے کہ خود کشی کرنے والا اگرچہ بدترین گناہ ِ کبیرہ کا مرتکب ہےمگر چونکہ وہ اسلام سے خارج نہیں ہواہےاُس کو فاسق اور فاجر کہہ سکتے ہیں،کافر نہیں۔لہٰذا اُس کا جنازہ اُسی طرح سے پڑھنا صحیح ہے جیسے دوسرے کسی گناہ کبیرہ میں مبتلا شخص کا جنازہ پڑھا جاتا ہے۔مثلاً کوئی شخص سود خور ہو،زناکار ہویاقاتل ہو،اُس کا جنازہ پڑھا جاتاہے۔
حضرت نبی کریم علیہ السلام نے خود جنازہ نہیں پڑھا مگر صحابہ کرام کو جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا اور آپ ؐکا جنازہ نہ پڑھنا تنبیہ کے لئے تھا ،نہ کہ عدم جواز بیان کرنے کے لئے۔
ہر گناہِ کبیرہ کا مبتلا انسان دعائے مغفرت کا مستحق ہے۔اسی طرح یہ خود کشی کرنے والا بھی مستحق ہے۔لہٰذا بہتر یہ ہے کہ معاشرے کے اہم اور سرکردہ حضرات خود کشی کرنے والے کا جنازہ نہ پڑھیںاور میت کے قریب ترین رشتہ دار ضرور جنازہ پڑھیں۔معاشرے میں سرکردہ حضرات یہ ہیں: امیر المومنین ،قاضی ،علماء،فقہاء،اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز افراداوربستی کے معزز افراد۔خود کشی کرنے والے شخص کے اہلِ خانہ اور اُس کے رشتہ دار،احباب اور پڑوسی اُسی کا جنازہ پڑھیں۔یہی شریعت اسلامیہ کا منشاء ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال ۔۲۔جس گھر میں موت واقع ہو ان کے لئے کھانے کا انتظام کرنا کیساہے ، جب کہ اب کمیٹیوں کا رواج چل پڑاہے ۔
ایک سائیل ۔۔ کولگام
سوگواروں کوکھانا کھلانا جائز
جواب:۲-جب کسی شخص کی موت ہوجائے تو اس کے پڑوسیوں کے لئے مستحب ہے کہ میت کے پسماندگان کو میت کے غم کی وجہ سے بھوکا نہ رہنے دیں اور اُن کو اپنے کھانے میں شریک کریں ۔ یہ کھانا کھلانا کوئی دعوت نہیں ہے ۔ اس لئے اس کے لئے پُرتکلف اور اہتمام سے مرغن کھانوں کے بجائے معمول کا کھانا کھلاناہی مستحب ہے ۔ چنانچہ حضرت جعفرؓبن ابی
طالب کے شہید ہونے پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جعفرؓ کی بیوی بچوں کے لئے کھانے کا انتظام کرو۔ اس لئے کہ ان کو حادثۂ شدید کا سامناہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :۔اگر کوئی مسلمان اپنی زندگی میں اپنی زمین ،جائیداد ،مکان وغیرہ کے متعلق کوئی وصیت کرتا ہے اور اُس وصیت نامہ کو عدالت سے رجسٹر بھی کرادیتا ہے تو کیا شریعت میں اس وصیت نامہ کی کوئی حیثیت ہے یا وہ کالعدم ہے۔اگر اسلام اس وصیت کو نہ مانے تو اس کی وجہ کیا ہے؟
اویس مشتاق ۔بانڈی پورہ
وارث کے حق میں وصیت کرنا درست نہیں
جواب:۔اللہ جل شانہٗ نے وراثت کی تقسیم کے متعلق مفصل و مکمل ضابطہ قرآن بیان کردیا ہے ۔اُس میں ہر وارث کو کتنا حصہ وراثت لینے کا حق ہے یہ بھی بیان کردیا ہے۔اب کسی شخص کو یہ
حق نہیں ہے کہ وراثت کے اس ضابطہ ٔشرعی میں بذریعہ وصیت تغیر و تبدل کرے۔اسی لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف اور واضح اعلان فرمایا ہے کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی وارث کے حق میںوصیت کرے ۔اس لئے کہ اللہ نے ہر وارث کے لئے وراثت کا حصہ مقرر کردیا ہے۔اگر کوئی مسلمان کسی ایسے شخص کے حق میں وصیت کرے جو قرآنی ضابطہ کے مطابق مستحق ِ وارث نہ ہو تو اُس کے حق میں وصیت کرنا درست ہےمگر اس میں بھی حد بندی کی گئی ہے اور وہ یہ کہ اپنی پراپرٹی کے صرف تہائی کے بقدر وصیت درست ہے۔دراصل اس کے لئے وصیت کا اسلامی قانون جاننا ضروری ہے اور وہ فقہ اسلامی میں موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ہسپتالوں میں مریضوں کو خون چڑھایا جاتا ہے ۔یہ خون کسی دوسرے انسان کا ہوتا ہے ،اس میں مرد و عورت اور مسلم غیر مسلم کا بھی کوئی فرق نہیں ہوتا اور کبھی اس کا معاوضہ بھی دینا ہوتا ،چاہے خون ہی معاوضہ میں دیا جائے اور چاہے رقم۔کیا اسلام میں یہ جائز ہے۔جب قرآن و حدیث میں اس کی اجازت کہیں نہیں تو پھر یہ جائز کیسے ہے؟
ڈاکٹر فیروز احمد ۔سرینگر
عطیہ خون جائز ،اصول اجتہاد کو اپنانے کا نتیجہ
جواب:اسلام میں احکام کی بہت بڑی تعداد ان مسائل کی ہے جو اسلامی اصول ِ اجتہاد سے فیصل ہوتے ہیں۔چنانچہ بہت ساری چیزیں حرام ہیں اور اجتہادی فیصلوں سے حرام ہوئی ہیں۔مثلا شراب کے علاوہ جتنی منشیات حرام ہیںوہ بذریعہ شرعی اجتہاد ۔اسی طرح بھینس کا گوشت اور دودھ حلال ہے ۔حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کے حلال ہونے کا کہیں تذکرہ نہیں۔اسی طرح خون کا عطیہ جائز ہے اور اس پر پوری امت اور علماء کا اتفاق ہے اور وہ اصولِ اجتہاد کو اپنانے کا نتیجہ ہے۔انسان یعنی عورت کے جسم سے خون کی طرح دودھ پیدا ہوتا ہے تو خواتین کا دودھ ایک اہم ترین نعمت ہے ،یہ دوسرے بچے کو پلانا جائز ہے ۔خود رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حلیمہ کا دودھ پیا تھا ۔جیسے عورت کا دودھ دوسرے بچے کے لئے حلال ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اسی پر عطیۂ خون کا مسئلہ کہاگیا ہے۔