سوال:۱- کچھ گھرانوں میں یہ رسم بھی عام ہے کہ لڑکے لڑکی کی شادی دوعیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کے درمیان کرنا ناجائز سمجھا جاتاہے ۔
سوال:۲-کچھ لوگ اسلامی کلینڈر کے حساب سے چھ تاریخیں یعنی 28،18،8،23،13،3 کو منحوس سمجھتے ہیں اور اکثر وبیشتر شادی بیاہ کی تاریخ مقرر کرتے وقت مذکورہ تاریخوں کا دھیان رکھاجاتاہے ۔
الیاس احمد …کشمیر
عیدین کے درمیان نکاح ورخصتی درست
جواب:۱- دوعیدوں کے درمیان نکاح بھی درست ہے اور رخصتی بھی درست ہے ۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مبارک نکاح جو حضرت عائشہؓ کے ساتھ ہوا تھا ، وہ نکاح بھی شوال یعنی دوعیدوں کے درمیان ہوا تھا اور رخصتی بھی دوعیدوں کے درمیان ہی ہوئی تھی ۔ اس لئے اس باطل تصور کو سختی سے ردّ بھی کرنا ضروری ہے اور سماج میں اس کی بار بار یاددہانی کرانا بھی ضروری ہے تاکہ یہ باطل خیال مٹ جائے۔
کسی مخصوص تاریخ کو منحوس سمجھنا مشرکانہ
جواب:۲- حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسلام میں طیرہ کی کوئی جگہ نہیں ۔(بخاری ومسلم)طیرہ کے معنی کسی تاریخ ،یا دن ،یا جگہ ،یا چیز کو منحوس سمجھنا ۔جب صحیح حدیث رسولؐ میں سے اس کی نفی ثابت ہے تو اس کے بعد کسی تاریخ کو منحوس سمجھنا سرار غیر شرعی ہے ۔ لہٰذا ۳، ۱۳،۲۳… یا ۸،۱۸،۲۸ کو منحوس سمجھنے اور پھر ان تاریخوں میں کسی کام مثلاً نکاح ، رخصتی یا آپریشن یا کسی خریداری سے اجتناب کرنا یہ سراسر مشرکانہ تصور ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- مساجد میں لوگ نماز سے پہلے صفوں میں یا اِدھر اُدھر بیٹھتے ہیں پھر مکبر تکبیر کہتاہے اور جب قدقامت الصلوٰۃ تک پہنچتاہے تو امام اور مقتدی نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ۔ اس طرح سے صفیں دُرست نہیں ہوتیں ۔ جب دوسرے مفتی صاحبان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا پہلے صفیں دُرست کرو پھر تکبیر کہی جائے لیکن جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ کہتے ہیں بیٹھنا ہی سنت ہے ۔ اس طرح کچھ لوگ کھڑے رہتے ہیں اور کچھ لوگ بیٹھے رہتے ہیں ۔ براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کیجئے ۔
محمد اشرف بٹ …پلوامہ
قدقامت الصلوٰۃ نماز کے لئے
کھڑ ے ہونے کا آخری لمحہ
جواب:نمازشروع کرنے سے پہلے امام اور مقتدی کا لازمی فریضہ اور شرعی حکم صفوں کادُرست کرناہے۔ یہ حدیث وفقہ کی ہر کتاب سے صاف ظاہرہے۔ چنانچہ دورِ نبوتؐ سے لے کر آج تک پورے عالم میں یہی طریقہ رائج ہے کہ صفیں درست کرنے کا اہتمام ابتداء سے ہی کیا جاتاہے اور ایک طرف سے مکبر تکبیر پڑھتاہے دوسری طرف سے مقتدی حضرات اپنی صفیں دُرست کرتے ہیں اور تکبیر ختم کرنے پر امام پھر ایک بار متنبہ کرتاہے کہ صفیں دُرست کی جائیں، خالی جگہوں کو پُر کیا جائے ۔ اس کے باوجود صفوں کی درستگی میں نقص رہتاہے۔اب اگر صفوں کو درست کرنے کا اہتمام شروع سے نہ کیا جائے تو تکبیر کے ختم پر امام کو یا تو طویل انتظار کرناپڑے گا یا صفوں کے درست ہوئے بغیر نماز شروع کرنی پڑے گی۔ حرمین شریفین میں بھی اور یہاں کشمیر میں بھی ہمیشہ سے اسی پر عمل رہاہے کہ آغازِ اقامت کے ساتھ ہی امام ومقتدی کھڑے ہوتے ہیں ۔اگر مقتدی صفوں میں درست طرح سے بیٹھے ہوئے ہوں اور درمیان میں جگہیں خالی نہ ہوں اور امام اپنے مصلیٰ پر بیٹھا ہوا ہو تو اس صورت میں اس کی اجازت ہے کہ مقتدی حضرات بیٹھے رہیں اور قدقامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہوں ، یہ کھڑے ہونے کا آخری لمحہ ہوگا۔اس کے بعد بیٹھنا دُرست نہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے پہلے کھڑا ہونا منع ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے بعد کوئی بیٹھا نہ رہے ۔ حضرات صحابہؓ کبھی اس طرح کھڑے ہوجاتے تھے کہ حضرت بلالؓ تکبیر پڑھتے مقتدی حضرات کھڑے ہوتے او رحضرت رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام ابھی تشریف فرما نہ ہوتے اس لئے سب کو کھڑے ہوکر انتظار کرناپڑتا تھا ۔ اس صورت حال کے متعلق آپ ؐ نے ارشاد فرمایا تب تک کھڑے مت ہواکرو جب تک مجھے آتا ہوا نہ دیکھ لو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-اگر کسی کے گھر میں جوان بیٹیاں ہوں ۔ اُن کی شادیوں کا مسئلہ ہو اور آپ جانتے ہیں کہ آج کل شادیوں پر کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔اب اگر کوئی شخص اپنے موجود سرمایہ کو حج پر لگائے تو اِن بیٹیوں کی شادیاں کرنامشکل ہو جائے گا اور اگر شادیوں کے لئے سرمایہ بچائے توحج نہیں کرپاتا۔ بہت سے لوگوں کا مسئلہ یہی ہے ، ایسی حالت میں شریعت کا کیا حکم ہے ۔
سیف الدین گنائی ……سرینگر
غیر شادی شدہ بیٹیوں کی موجودگی میں حج کرنا
جواب:-شادیوں پر آنے والے طویل اور کمر توڑ خرچے صرف غیر شرعی ، جاہلانہ رسمیں ہیں ۔ جب یہ رسمیں شرعی طور پر قابل ترک ہیں تو ان رسموں کو پورا کرنے کے لئے شریعت کا مال خرچ کرنے کا جواز کیسے ہوسکتاہے ۔ اسلئے وہ مسلمان جس کےپاس اتنا سرمایہ ہے کہ وہ حج کرسکتاہے ، اس پر شرعاً لازم ہے کہ وہ حج کرے اور اگر وہ یہ سرمایہ بچائے اور حج کے بجائے ان غیر شرعی رسوم پر خرچ کرے تو یہ ترک فرض کا جرم ہوگا ، غیر شرعی رسوم کی پاسداری کا جرم بھی ہوگا اور مال کو ادائیگی فریضہ کے بجائے رواج کو فروغ دینے پر صرف کرنے کا جرم بھی ہوگا ۔درحقیقت رسموں کا مقابلہ کرنے کے لئے مضبوط ارادے ، ذہنی آمادگی اور بیجا تنقیدوں کے مقابلے میں مضبوط چٹان بننے کا عزم ہو اور جب ان غیر شرعی رسموں کی فضول خرچیوں کے بھیانک نقصانات کا ادراک ہو تو پھر اس سے اجتناب مشکل نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ حدیث میں یہ بیان ہوا کہ نکاح کرنا آدھا ایمان ہے۔ اگر یہ حدیث ہے تو اس کے الفاظ کیا ہیں اور نکاح آدھا ایمان کیسے ہے اس کی وضاحت کریں؟
عابد علی… سرینگر
نکاح نصف ایمان
جواب: یہ بات درست ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علی ہوسلم نے ارشاد فرمایا کہ نکاح نصف دین ہے۔ چنانچہ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے۔ حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ مسلمان جب نکاح کرتا ہے تو اپنے نصف دین کو مکمل و محفوظ کرلیتا ہے۔ اب اس کو چاہئے کہ بقیہ نصف دین کے بارے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے۔اس حدیث کے متعلق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انسان عموماً دو ہی وجہوں سے گناہ کرتا ہے، شرمگاہ اور پیٹ۔یعنی جنسی جذبات کی بناء پر اور کھانے پینے کی وجہ سے۔جب نکاح کر لیا تو اب زنا،بدنظری، غیر محرم سے تعلقات قائم کرنے کے جذبہ سے محفوظ رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ اب نظر کی طہارت، عفت و عصمت کی حفاظت، پاک دامنی اور حیائی، نظر اور خیالات کی یکسوئی اور غلط رُخ کے احساسات اور تخیلات سے بچائو حاصل ہونے کا سامان مل گیا تو دین کو تباہ کرنے والے ایک سوراخ کو بند کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اب بقیہ نصف یعنی کھانے پینے کی وجہ سے جو گناہ ہوتے ہیں اُس کی فکر کرے۔ اس میں حرام دولت، چوری، رشوت ، دھوکہ،فریب اور ہر طرح غیرشرعی اکل و شرب شامل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۔ہمارے معاشرے میں تقسیم وراثت کے سلسلے میں بہت ظلم اور طرح طرح کی سنگین غلطیاں پائی جاتی ہیں۔کبھی ایک بھائی پوری وراثت پر قابض ہوتا ہے ،اور دوسروں کو محروم کردیتا ہے۔کبھی اولاد ساری وراثت لے کر ماں کو محروم کرتے ہیں۔کبھی بھائی اپنی بہنوں کو کوئی حصہ دینے کو تیار نہیں ہوتے،کبھی بڑا بھائی چھوٹے بھائیوں پر ظلم کرتا ہے،کبھی بہنوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے حصہ لیا تو پھر میکے سے تمہارا تعلق ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ۔کبھی غلط کاغذات اور وصیت نامے بناکر مستحق وارثوں کو محروم کرنے کا اقدام کیا جاتا ہے ۔اس لئے اس سلسلے میں شریعت اسلامیہ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
محمد یوسف َ۔ ایک سائل
حق وراثت ۔اسلامی اصول
ناجائز قبضہ کرنے والوں پر نسل در نسل ورثہ باقی
جواب:۔اسلام نے جیسے زندگی کے تمام مسائل کے احکام تفصیل سے بیان کئے ہیں ،اسی طرح کسی مسلمان کے مرنے پر اُس کی متروکہ املاک اور تمام جائیداد کی تقسیم کے متعلق بھی احکام بیان کئے ہیں۔ اس کو تقسیم وراثت کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں سخت تاکید کے ساتھ وراثت تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ قرآن مجید کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق وراثت تقسیم نہ کریں اور ہر مستحق کو اُس کا حق نہ دیں ،اُن کے لئے دنیا و آخرت میں سخت خطرناک وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔تقسیم وراثت میں والدین ،اولاد اور پھر اولاد میں بیٹوں اور بیٹیوں اور میاں بیوی کو ہر حال میں مستحق قرار دیا ہے۔اس لئے اگر والدین کی وفات ہو تو اولاد میں ہر ہر بیٹے اور ہر ہر بیٹی کو حق وراثت حاصل ہے۔ اور اگر اولاد میں سے کسی وفات ہو اور والدین زندہ ہوں تو اولاد کے ترکہ میں سے والدین کو وراثت لینے کا حق ہے ۔اسی طرح جو بھی مسلمان فوت ہوجائے ،اُس کے ورثاء وراثت کے مستحق ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کس صورت میں کس وارث کا کتنا حق ہے تو یہ بھی قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔لہٰذا ہر مسلمان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ کر بھی رکھنا ضروری ہے اور عمل بھی لازم ہے کہ جوں ہی کسی کی وفات ہوجائے تو سب سے اہم مسئلہ اُس فوت ہونے والے شخص کے ترکہ کو صحیح طور پر ورثاء میں تقسیم کرنا ہے۔کسی شخص کا اپنی بیٹی یا بہن کو یہ کہنا کہ اگر تم نے وراثت لی تو میکے سے رشتہ ختم ہوجائے گا ،یہ سراسرغیر اسلامی بلکہ کافرانہ سوچ ہے۔بیٹی کا رشتہ اپنے والدین اور بہن کا رشتہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ہر حال میں قائم رہتا ہے ،یہی اسلام ہے اور یہی اخلاق ہے۔والد کی وفات ہوجائے تو اُس کی چھوڑی ہوئی املاک جسے مال وراثت کہتے ہیں ، میںہر بیٹے کو مساوی حصہ ہے جبکہ بیٹی کو بیٹے کے حصے سے نصف لینے کا حق ہے ،نہ کہ بھائی کو حق ہے کہ وہ اپنے بہن بھائی کو محروم کرکے اور نہ اولاد کو حق ہے کہ وہ والدین میں سے کسی کو اُس حق سے محروم کرے جو قرآن نے اُن کو حصہ دیا ہے۔اگر کسی بھی ایک وارث نے پورے ترکہ پر قبضہ کرلیا اور دوسرے ورثاء چاہے وہ والدین ہوں ،اولاد ہو یا بہن بھائی ہوں، کو محروم کردیا تو اُس کے پاس جو سارا مال ، وراثت ہے ،یہ حرام ہے اور یہ ایسا ہی حرام ہے جیسے چوری یا رشوت کا مال حرام ہوتا ہے۔یا جیسے غصب اور سود کا مال حرام ہے۔اُسے صرف اتنا وہ مال استعمال کرنا اور اپنے قبضہ میں رکھنا جائز ہے جو تقسیم شرعی کے بعد اُس کا حق بنتا ہو۔بقیہ سارا اُس کے پاس حرام ہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،بلکہ اعلان فرمایا کہ اللہ نے ہر وارث کا حق اور حصہ مقرر فرمادیا ہے ،اب کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت نہیں ۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی وفات ہوگئی اور سارے ترکہ پر کوئی قابض ہوا اور دوسرے ورثاء کو محروم کردیا تو قابض اور اُس کی نسل در نسل کے ذمہ یہ حق وراثت باقی رہتا ہے۔اور اس کے معاف ہونے کی کوئی صورت نہیں۔قرآن میں وراثت کا قانون بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ترجمہَ یہ اللہ کی مقرر کردہ حد یعنی حکم ہے ،جو اس حکم میں اللہ کی اطاعت کرے گا اُس کو جنت میں داخل کرے گا اور جو اس حد میں تعدی کرے یعنی حکم پر عمل نہ کرے ،اُس کو جہنم میں داخل کرے گا ۔(سورہ النساء)