؎ سوال :ہمارے معاشرے میں تقسیم ِ وراثت کے سلسلے میں بہت ظلم اور طرح طرح کی سنگین غلطیاں پائی جاتی ہیں۔کبھی کبھی ایک بھائی پوری وراثت پر قابض ہوتا ہے اور دوسروںکو محروم کردیتا ہے ۔کبھی اولاد ساری وراثت لے کر ماں کو محروم کرتے ہیں ،کبھی بھائی اپنی بہنوں کو کوئی حصہ دینے کو تیار نہیں ہوتے،کبھی بڑابھائی چھوٹے بھائی پر ظلم کرتا تو کبھی بہنوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے حصہ لیا تو پھر میکے سے تمہارا تعلق ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ،کبھی غلط کاغذات اور وصیت نامے بناکر مستحق وارثوں کو محروم کرنے کا اقدام کیا جاتا ہے ۔اس لئے اس سلسلے میں شریعت اسلامیہ کی رہنمائی کی ضرورت ہے ۔
محمد یوسف ۔رفیع آباد
تقسیم ِوراثت پر حُکم ِقرآن
خلاف ورزی کرنے والے کیلئے جہنم کی وعید
جواب :اسلام نے جیسے زندگی کے تمام مسائل کے احکام تفصیل سے بیان کئے ہیں ،اُسی طرح کسی مسلمان کے مرنے پر اُس کی متروکہ املاک اور تمام جائیداد کی تقسیم کے متعلق بھی احکام بیان کئے ہیں،اس کو تقسیم ِوراثت کہتے ہیں۔قرآن کریم میں سخت تاکید کے ساتھ وراثت تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ قرآن مجید کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق وراثت تقسیم نہ کریں اور ہر مستحق کو اُس کا حق نہ دیں ،اُن کے لئے دنیا و آخرت میں سخت خطرناک وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔تقسیم وراثت میں والدین،اولاد اور پھر اولاد میں بیٹوں اور بیٹیوں اور میاں بیوی کو ہر حال میں مستحق قرا دیا گیاہے ۔اس لئے والدین کی وفات ہو تو اولاد میں ہر ہر بیٹے اور ہر ہر بیٹی کو حق ِ وراثت حاصل ہے۔اسی طرح اولاد میں سے کسی کی وفات ہو اور والدین زندہ ہوں تو اولاد کے ترکہ میں سے والدین کو وراثت لینے کا حق ہے۔اسی طرح جو بھی مسلمان فوت ہوجائے ،اُس کے ورثا ء،وراثت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کس صورت میں کس وراثت کا کتنا حق ہے ؟یہ بھی قرآن کریم میں بیا ن ہوا ہے۔لہٰذا ہر مسلمان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ کر بھی رکھنی ہے اور عمل بھی لازم ہےکہ جوں ہی کسی کی وفات ہوجائے تو سب سے اہم مسئلہ اُس فوت ہونے والے شخص کے ترکہ کو صحیح طور پر ورثاء میں تقسیم کرنا ہے۔
کسی شخص کا اپنی بیٹی یا بہن کو یہ کہنا کہ اگر تم نے وراثت لی تو میکے سے رشتہ ختم ہوجائے گا ،یہ سراسر غیر اسلامی بلکہ کافرانہ سوچ ہے ۔بیٹی کا رشتہ اپنے والدین اور بہن کا رشتہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ہر حال میں قائم رہتا ہے ،یہی اسلام ہے اور یہی اخلاق ہے۔والد کی وفات ہوجائے تو اُس کی چھوڑی ہوئی املاک جس کومال ِوراثت کہتے ہیں ،ہر بیٹے کو مساوی حصہ ہے جبکہ بیٹی کو بیٹے کے حصے سے نصف لینے کا حق ہے۔نہ کسی بھائی کو حق ہے کہ وہ اپنے بہن بھائی کو محروم کرے اور نہ اولاد کو حق ہے کہ وہ والدین میں سے کسی کو اُس حق سے محروم کرے،جو قرآن نے اُن کو حصہ دیا ہے۔
اگر کسی بھی ایک وارث نے پورے ترکہ پر قبضہ کرلیا اور دوسرے ورثا ء،چاہے وہ والدین ہوں ،اولاد ہوں یا بہن بھائی ہوں ،کو محروم کردیا تو اُس کے پاس جو سارا مال ِ وراثت ہے ،وہ حرام ہے اور یہ ایسا ہی حرام ہے جیسے چوری یا رشوت کا مال حرام ہوتا ہےیا جیسے غصب اور سود کا مال حرام ہوتا ہے۔اُسے صرف اتنا استعمال کرنا اوراپنے قبضے میں رکھنا جائز ہے جو تقسیم شرعی کے بعد اُس کا حق بنتا ہو ۔بقیعہ سارا اُس کے پاس حرام ہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا بلکہ اعلان فرمایا کہ اللہ نے ہر وارث کا حق اور حصہ مقرر فرما دیا ہے،اب کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت نہیں۔اگر کسی شخص کی وفات ہوگئی اور سارے ترکہ پر کوئی قابض ہوا ،اور دوسرے ورثاء کو محروم کردیا تو قابض اور اُس کی نسل در نسل کے ذمے یہ حق وراثت باقی رہتا ہےاور اس کے معاف ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ وراثت کا قانون بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ترجمہ۔یہ اللہ کی مقرر کردہ حد یعنی حکم ہے جو اس حکم میں اللہ کی اطاعت کرے گا ،اُس کو جنت میں داخل کرے گا اور جو اس حد میں تعدی کرے یعنی حکم پر عمل نہ کرے ،اُس کو جہنم میں داخل کرے گا ۔(سورہ النسا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-اگرکوئی شخص تجارت میں فروخت ہونے والے سامان کی خرابی اور کسی عیب کوچھپائے اور خریدار کو یہ جتلا کر فروخت کرے کہ وہ سامان اچھا ہے تو اس کے لئے قرآن وحدیث میں کیا حکم ہے ؟
سوال:۲- کئی تاجر لوگ بہت قسمیں کھاکرمال کانرخ بتاتے ہیں ۔خریدار قیمت میں کمی کرنے کا اصرار کرتاہے تو دوکاندار مزید قسمیں کھاتاہے ۔یہ قسمیں کبھی سچی ہوتی ہیں اور کبھی جھوٹی ۔اس طرح قسمیں کھاکرمال فروخت کرنا بڑی تعداد میں بازاروں اور دوکانوں میںعام ہے ۔اس بارے میں قرآن وحدیث میں کیا حکم ہے ؟
عبدالرشید …ایک دوکاندار،سرینگر
عیب دار مال کاعیب بتائے بغیر
فروخت کرنا شرعی طور پر سخت منع
جواب:۱-عیب دار اور خرابی والا سامان عیب بتائے بغیر فروخت کرنا شرعی طور پر سخت منع ہے ۔قرآ ن کریم میں ارشاد ہے ۔ ترجمہ :اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے مت کھائو ۔عیب دار چیز فروخت کرنا اور ظاہر ہے اُس کی قیمت زیادہ لی جائے گی تو وہ چیز بیچ کر جو زائد قیمت لی گئی وہ باطل طرح سے کھاناہے اور وہ حرام ہے ۔نیز حدیث میں ہے کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ خرابی اور عیب بتائے بغیر کوئی چیز فروخت کرے او رکسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے سامان کا عیب جاننے کے باوجود اُس پر پردہ ڈالے ۔ بخاری ، مستدرک حاکم، ابن ماجہ ۔ایک حدیث میں ہے ۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا جوشخص عیب دار چیزیں فروخت کرے او ر عیب کو ظاہر نہ کرے وہ اللہ کی ناراضگی اور غضب میں رہتاہے ۔اور ایک حدیث میں ہے کہ ایسا شخص ہروقت فرشتوں کی لعنت میں رہتاہے ۔
قسمیں کھا کھا کر مال بیچنے کا معاملہ
جواب:۲-قسمیں کھانے کے متعلق قرآن میں ارشاد ہے ۔ ترجمہ: تم اللہ کو اپنی قسموں کا نشانہ مت بنائو۔یعنی ضرورت بے ضرورت قسمیں مت کھائو اور اس میں غلط قسمیں کھانا بھی شامل ہے۔
حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تین شخصوں پر نظر رحم نہیں کرتاہے ۔ ان میں سے ایک وہ شخص جو قسمیں کھاکھاکر اپنا مال بیچتاہے ۔ یہ حدیث ترمذی ،ابودائود، نسائی میں ہے۔
دوسری حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے تاجرو! تم مال بیچنے میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو۔نسائی ۔ ایک حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے تاجرو! تجارت میں غیر ضروری اور لغو باتیں کرنی پڑتی ہیں اور قسمیں کھائی جاتی ہیں ۔ اس لئے تم کثرت سے صدقہ کرو ۔یہ حدیث ترمذی وغیرہ میں ہے ۔اللہ کی ذات کے علاوہ ہرچیز کی قسم کھانا منع ہے ۔ حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم کھائی اُس نے شرک کیا ۔ اس پر غیر اللہ کی قسم کھانے سے پرہیز کرناضروری ہے اور سخت مجبوری میں جب قسم کھانے کی ضرورت پڑے تو سچی بات پر قسم کھائی جائے اور صرف اللہ کی قسم کھائی جائے اور جھوٹی قسم کھانے سے پرہیز کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:اگر کوئی آدمی کہیں پر پڑی ہوئی کوئی رقم یا کوئی چیز اٹھائے،اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟راقم نے پڑھا ہے کہ اگر اس کا مالک نہ ملے تو اس کو اصلی مالک کے نام پر صدقہ دے۔مالک معلوم نہ ہو تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا مالک غیر مسلم بھی ہو سکتا ہے ۔کیا ایسے مالک کو صدقہ کا کچھ فائیدہ ہوگا ،اگر نہیں تو ایسی رقم یا چیز کا مصرف کیا ہے؟
ابو عقیل ۔ سرینگر
کہیں پر گری پڑی کوئی رقم یا چیز
اٹھانےکے متعلق شریعت کا حکم
جواب:جب کوئی شخص کسی جگہ سے کوئی گری پڑی چیز اٹھائے یا کوئی رقم اٹھائے تو شریعت میں اس چیز کو لُقط کہتے ہیں۔اس لُقطہ کا حکم یہ ہے کہ اٹھاتے وقت مالک تک پہونچانے کی نیت سے اٹھائے ،اگر اُس نے خوش ہوکر اپنے استعمال کی نیت سے اُسے اٹھالیا تو اس نیت کی وجہ سے وہ گنہگارر ہوگا اور پھر وہ شخص اس چیز کا ضامن بن جائے گا پھر ضمان کے احکام اس پر جاری ہوں گے جو الگ سے سمجھنے ضروری ہیں ۔اگر اٹھاتے وقت اس کی نیت درست تھی تو یعنی مالک تک پہنچانے کی نیت تھی تو امید ہے اُسے اِس دیانت داری پر اجر ملے گا ۔اب چیز اٹھانے کے بعد وہ اعلان کرے کہ میں نے فلاں چیز اٹھائی ہے جس شخص کی ہو وہ علامت بتاکر وصول کرے۔یہ اعلان تحریری بھی ہو اور تقریری بھی یعنی زبان سے بھی۔اعلان کی مدت کم سے کم دس دن ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال۔اگر یہ چیز یا رقم ایک مرغی کی قیمت کے بقدر ہو تو اعلان دس دن ،اگر ایک بھیڑ بکری کے قیمت کے بقدر ہو تو اعلان چھ ماہ یا سال بھر تک کرنے کا حکم ہے۔
اب اگر مالک آگیا اور چیز اٹھانے والے شخص کو یقین ہوگیا کہ واقعتاً مالک یہی ہے تو پھر دو اشخاص کو گواہ رکھ کر یہ چیز اُس کے حوالے کردے ،اگر اس چیز کی حفاظت میں کوئی رقم خرچ ہوئی ہے مثلاً جو چیز لُقطہ تھی وہ کوئی جانور تھا ،اُس کی حفاظت اور گھاس وغیرہ میں کوئی رقم خرچ ہوئی ہے تو مالک سے وہ رقم وصول کرے اور مالک خوشی خوشی وہ رقم ادا کرے۔اس لئے کہ اس طرح کا خرچہ تو خود مالک کو بھی کرنا تھا اگر جانور اُسی کے پاس ہوتا ۔اگر مالک اس عرصہ میں نہ آیا تو پھر یہ لُقطہ اٹھانے والا شخص اگر خود مستحق زکوٰۃ و صدقات ہے تو صدقہ کی نیت سے یہ چیز خود رکھ لے ،اگر بعد میں مالک آگیا تو وہ چیز اُس کے حوالے کردے اور وہ مالک کو یہ بھی کہہ سکتا ہے یہ چیز مدت ِ اعلان گذرنے کے بعد اُس نے اپنے استعمال میں صدقہ کی نیت سے لائی ہے۔اگر مالک نے اس صدقہ کو برقرار رکھا تو بہتر ،اگر اُس نے چیز کا مطالبہ کیا تو وہ چیز اُس کے حوالے کردے وہ خودبری ہوگا۔اور اگر یہ چیز کسی مالدار مسلمان نے اٹھائی ہے تو پھر مدت اعلان کے بعد وہ شخص دو آدمیوں کو گواہ بناکر غریبوں میں سے کسی زیادہ غریب و مفلس کو صدقہ کی نیت سے دے دے۔اگر اُس کے بعد مالک آگیا تو گواہوں کے بیانات سُناکر اُس کو صدقہ کرنے کی اطلاع دے دے۔یہ لُقطہ اگر کسی مسلمان کا تھا تو یہ یہ اُس کی طرف سے صدقہ ہوگا اور اس صدقہ کا اجراُسے آخرت میں ملے گااور اگر بالفرض یہ کسی غیر مسلم کا تھا تو بھی۔