سوال : انسان کا رزق تو پہلے سے لکھا ہوتا ہے ،اب کس کام سے انسان کمائے گا ،وہ بھی لکھا ہوتا ہے اور رزق میں کمی یا زیادتی کن وجوہات سے ہوتی ہیں؟
شیخ عامر ۔۔۔ سرینگر
عطائے رزق:اللہ سبب ساز مگر
بندے پر مطلوبہ محنت کی انجام دہی لازمی
جواب : یہ بات بالکل برحق ہے کہ رزا ق اللہ جل شانہٗ ہےاور ہر مخلوق کا رزق لکھا ہوا ہے مگر لکھا ہوا ہونے کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ انسان چپ چاپ بیٹھ جائے اور لکھا ہوا رزق اُسے خود بخود ملتا رہے گا ،بلکہ اُس لکھے ہوئے رزق کو پانے کے لئے جو محنت مطلوب ہے وہ انجام دینا ضروری ہے ۔اُس کے بعد ہی لکھا ہوا رزق ملے گا ۔اس کے لئے چند مثالیں پیش ہیں۔
بیماری میں شفا بھی ملتی ہے اور موت بھی آسکتی ہے۔اگر شفا لکھی ہوئی ہے تو وہ شفا بغیر علاج و معالجہ کے اللہ عطا کرسکتے ہیں مگر اللہ کی مشیت اور سُنت یہ ہے کہ علاج و معالجہ بھی ہو اور ضروری پرہیز بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کے بعد لکھی ہوئی شفا عطا فرمادیتے ہیں۔لہٰذا علاج بھی ضروری ہے اور پرہیز بھی ۔دودھ پیتے بچے کے لئے ماں کی چھاتی اور پستان میں دودھ اللہ پیدا کرتے ہیں مگر دودھ پلانے کا عمل ماں کی ذمہ داری ہے اور پینے کا عمل بچہ خود فطری اور وجدانی طور پر سر انجام دیتا ہے ۔زمین سے ہر قسم کا اناج ،سبزیاں اور قسم قسم کے نباتات اللہ سبحان تعالیٰ اُگاتے ہیں مگر کاشت کارکو محنت کرنا بھی لازم ہے۔انسان کو زندگی میں طرح طرح کی کامیابیاں ملتی ہیں ،وہ سب کامیابیاں انسان کے لئے لکھی ہوتی ہیں مگر وہ لکھی ہوئی کامیابی انسان کو مطلوبہ محنت کے بعد ہی ملتی ہےاور یہ بھی لکھی ہوئی بات ہے ۔لہٰذا ہر کام کے لئے مطلوب محنت کرنا لازم ہے۔
رزق کے لکھے ہوئے ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان نہ تو یہ سمجھے کہ مجھے کچھ بھی نہیں کرنا ہے ،جو لکھا ہوا ہے وہ خود ملے گااور نہ ہی انسان یہ سمجھے کہ میں جو کچھ بھی کروں گا ،اُس کے نتیجے میں وہ چیز مجھ کو لازماً ملے گی ،جس کے لئے میں نے محنت کی ہے ،چاہے اللہ نے لکھا ہو یا نہ لکھا ہو ۔انسان کو ہر کام کے لئے ضروری اور مطلوبہ محنت ،جدوجہد اور کوشش کرنی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھنا ہے کہ اللہ کی مشیت اور مرضی ہوگی تو یہ کام حسنِ انجام کو پہنچے گا اور اللہ کی منشاء و رضا نہ ہو تو پھر نتیجہ ہماری چاہت و کوشش کے خلاف نکلے گا اور یہ بھی لکھا ہوا ہوگا ۔رزق کے لئے بھی یہی ضابطہ ہے۔اس کی مزید تفصیلات بڑی کتابوں میں مل سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-میں نے ایک حدیث پڑھی ۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ایسا وقت آنے والاہے کہ کوئی بھی مسلمان سود سے نہیں بچ سکے گا ۔ اگر کوئی خود سودکھانے سے بچ بھی جائے تب بھی سود کا بخار اُس تک ضرور پہنچے گا ۔ اب میراسوال یہ ہے کہ یہ صحیح حدیث ہے اور سود کا بخار کیسا ہوتاہے۔اس کی تشریح کیاہے اور کیا وہ وقت آچکاہے یا ابھی نہیں ۔ ان تینوں سوال کا جواب ضرور لکھیں ۔
محمد اختر…سرینگر
سودکے بخار کی تشریح
جواب:۔ یہ حدیث ابودائود ، نسائی ،ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ لوگوں پر ایسا وقت ضرور آنے والاہے کہ سود کھانے سے کوئی ایک بھی پرہیز کرنے والا نہ ہوگا اور اگر کوئی سود سے بچنے میں کامیاب ہوبھی جائے تو سودکابخار اُسے ضرور پہنچے گا۔ ایک حدیث میں بخار کے بجائے غبار کا لفظ ہے ۔
یہ حدیث صحیح ہےاور یہ حوالہ اوپر آچکاہے کہ کن کن کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے ۔ اس کے راوی حضرت ابوہریرہؓ ہیں۔ حدیث کے مشہورشرح کرنے والے ملاعلی حنفی القاری نے لکھا ہے کہ سود کے تحائف قبول کرنااورسود کی رقموں کی دعوت کھانا سود کا بخارہے یا سود کاغبارہے ۔ یعنی کسی شخص کو کوئی چیز بطور تحفہ دی جائے حالانکہ وہ سود کی رقم سے مہیا کی گئی ہے ۔ چنانچہ بنکوں کی ڈائریاں ،قلم ، کیلنڈر اور اس قبیل کی دوسری چیزیں کبھی وہ حضرات بھی بڑے شوق،اصرار اور خوشدلی سے قبول کرتے ہیں ، جو اپنی زندگی میں سود سے بچنے کی سعی کرتے رہتے ہیں مگر وہ یہ تحائف جوسودی رقوم سے حاصل کئے گئے ہیں ،قبول کرکے سودی بخار یا غبار سے اپنے آ پ کو آلودہ کرتے ہیں۔پچھلے کئی برسوں سے ساری دنیا ،خصوصاً برصغیر اور خود یہاں کشمیر کے حاجی صاحبان کو بنکوں کی طرف سے تھیلے دیئے جاتے ہیں۔ حجاج شوق سے خوش ہوکرقبول کرتے ہیں اور پورے حج میں کندھوں میں وہی بیگ لٹکائے پھرتے ہیں اور خیال بھی نہیں کہ ہم سود ی تحفہ لئے کعبہ میں پہنچ گئے ۔یا رمضان میں روزے داروں کو سودی رقوم سے خود بنک کی طرف سے افطار کرانا ،جس کا مشاہدہ باربار کیا گیا یا افطار پوائنٹ بناکر اُن میں فیرنی ،شربت کا اہتمام کسی بنک کی طرف سے ہو تو یہ وہی سودی بخار ہے ۔
یا کسی شخص نے سودی رقوم سے اپنے گھر میں کسی دعوت کا اہتمام کیا ، چاہے یہ کسی بھی عنوان سے ہو ، بہرحال اس دعوت میں شرکت کرنے والے اکثر اس سے واقف ہی نہیں ہوتے کہ ہم کو سودی رقوم سے پُرتکلف دعوتیں کھلائی جارہی ہیں ۔ یہ وہی سود کا بخاریا سود کا غبار ہے ،جس کے متعلق رسول رحمت حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی ارشاد فرمایاہے۔
اسی طرح ملازمین کو جب تنخواہیں بنکوں سے لینے کا مکلف بنایا گیا تو بے شمار دیندار اورسود سے مکمل نفرت کرنے والے حضرات مجبوراً بنکوں سے تنخواہ لے کر گویا اُسی بخار کا شکارہورہے ہیں او روہ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں پاتے ۔ اس طرح یہ پیشینگوئی اس وقت بڑے پیمانے پر پوری ہورہی ہے ۔ اب ہر صاحب ایمان خودفیصلہ کرے کہ اُس کیلئے سود سے بچنے کے لئے کتنا محتاط وچوکنارہناضروری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال۔نکاح اور ولیمہ کا شرعی حکم کیا ہے جبکہ ولیمہ سنت اور پردہ فرض ہے ۔ہمارے یہاں ولیمے کی تقاریب میں کوئی تمیز نہیںکی جاتی ۔اس کا حکم تفصیل سے بیان فرمائیں۔
(مشتاق احمد ۔۔ ۔کشتواڑ)
ولیمہ میں فضول خرچی سے بچنا لازم
جواب۔ولیمہ سنت ہے مگر اس میں تمام غیر شرعی امور سے بچنا لازم ہے ۔مثلاً فضول خرچی ،ریا ،نام و نوا ،بے پردگی ،اختلاط مردو زن وغیرہ ہے ،اگر کسی ولیمہ میں یہ سب کچھ ہوا تو سنت کی ادائیگی ہوگی مگر غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوا جو یقیناً گناہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : چار رکعت والی نماز میں اگر غلطی سے پہلی یا تیسری رکعت میں قعدہ(التحیات) کے لئے بیٹھ گئے تو نماز کا کیا حکم ہے۔ کیاسجدہ سہَو کرنا لازم ہے؟
ابو الیاس ۔بارہمولہ
غلطی سے قعدہ کیلئے بیٹھنے کا مسئلہ
جواب :نماز کی پہلی یا تیسری رکعت میں اگر بھول کر کوئی شخص بیٹھ جائے ،تو یہ بیٹھنا اگر بہت کم ہو ،جیسے جلسۂ استراحت ہوتا ہے ،تو اس میں کوئی حرج نہیںاور اگر تین تسبیح کے بقدر ہو تو پھر سجدۂ سہَو لازم ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- کسی حاجت کو پورا کرنے کے لئے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے کو نذر کہتے ہیں ۔ نذر کرنے کا شرعی طریقہ کیاہے ؟ کیا نذرکی رقم یا چیز مسجد کی تعمیر یا مدرسہ کودی جاسکتی ہے ۔ اگر نذر کوئی جانور ہو تو اس گوشت کو کن لوگوں میں بانٹاجائے ۔
ابوعقیل … سوپور
نذراداکرنے کا شرعی طریقہ
جواب:-نذرکاشرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنے کسی مشکل مرحلے کے لئے یا کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس طرح زبان سے نیت کی جائے ۔
اگر میرا یہ معاملہ حل ہوگیا یا میری یہ ضرورت پوری ہوگئی یا ہمارا فلاںبیمار تندرست ہوگیا تو میں اللہ کی راہ میں اتنی رقم صدقہ کروں گا یا جانور قربان کروں گا یا یہ مجھ پر لازم ہے ۔ پھر جب وہ معاملہ حل ہوجائے یا وہ مشکل حل ہوجائے گا ۔تواتنی رقم صرف غریبوں میں تقسیم کی جائے ۔ یہ رقم مسجد میں خرچ کرنا درست نہیں ہے ، ہاں جس مدرسہ میں غریب بچوں پر کھانے پینے میں یہ رقم خرچ ہوسکتی ہواُس مدرسہ میں نذر کی یہ رقم دینا درست ہے جیسے زکوٰۃ وصدقہ فطر کی رقم اُن مدارس میں دینا درست ہے ۔اگر قربانی کی نذر مانی تو اس جانور کا گوشت سارے کاساراغرباء میں تقسیم کرنا ضروری ہے ۔نذرکے لئے ضروری ہے کہ جس کام کو انسان اپنے اوپر لازم کرے اُس کی کوئی قسم شریعت سے پہلے ہی لازم کی ہو ۔
مثلاً نماز، روز ہ، صدقہ ، حج ، قربانی ، خیرات انہی کاموں کو جب کوئی شخص اپنے اوپر لازم کرے گا تو وہ شرعی نذر بن جائے گی۔اگر کسی ایسے کام کو اپنے اوپر لازم کیا گیا جو شریعت نے بھی لازم نہ کیا ہوتو وہ نذر نہیں بنے گی۔ اس لئے وہ عبادت نہ ہوگی اور نذر عبادت کے قبیل سے ہے چاہے بدنی عبادت ہویا مالی عبادت ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :-مسلمانوں کا ایمان ہے کہ موت برحق ہے اور موت اپنے وقت پر آتی ہے اور چونکہ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد آخرت میں سرخروئی ہے تو پھر ہم لوگ کسی کی موت پر کیوں روتے اور ماتم کرتے پھرتے ہیں۔کہیں یہ ہم شریعت کے خلاف تو نہیں کرتے ؟
شوکت حسین ،سرینگر
کسی کی وفات پر غمزدہ اور اشکبار ہونا
اسلام، عقل اورفطرت کے منافی نہیں
جواب:۲-ہرشخص کی موت طے ہے اور وہ وقت مقررہ پر آنابھی طے ہے ۔ اُس میں نہ تاخیر ہوسکتی ہے نہ تقدیم لیکن انسان فطرتاً جدائیگی پر غم زدہ ہوتاہے ۔ چنانچہ حضرت سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صاحب زادۂ گرامی حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی جب کہ وہ ابھی شیر خوارگی کی عمر میں تھے توحضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں سے بے اختیار آنسو گرنے لگے ۔
ایک صحابی حضرت عبدالرحمٰنؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا آپ بھی رو پڑے۔ارشاد ہوا یہ وہ محبت ہے جو اللہ نے ہر دل میں رکھی ہے ۔ گویا غم زدہ ہونا ، اشکبار ہونا عمل رسولؐ سے ثابت ہے۔ لہٰذا کسی کی وفات پر غمزدہ ہونا ، بے اختیار آہیں بھرنا اور اشکبار ہونا نہ اسلام کے خلاف ہے نہ عقل انسانی کے خلاف ہے اور نہ فطرت انسانی کے منافی ہے ۔ ہاں بناوٹی انداز میں چیخ وپکار کرنا ، چہرہ پیٹنا ، کپڑے پھاڑنا ،بال نوچنا اور واویلا کرنا حدیث کی رُو سے منع ہے۔ چنانچہ ارشاد نبویؐ ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چہرا پیٹے ، کپڑے پھاڑے اور جاہلانہ انداز کی چیخ و پکار کرے ۔(بخاری ومسلم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔