کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

س:-برائے مہربانی طواف کا طریقہ بتائیے اور اس میں کن باتوں سے بچنا چاہئے اور کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے ، وہ سب تحریر کریں ۔
محمد صادق آخون
طواف کرنے کا طریقہ

ج:-کعبۃ اللہ کے چاروں طرف سات چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں ۔ ایک چکر ایک شوط کہلاتا ہے۔ جب سات چکر پورے ہوجائیں تو یہ ایک طواف بنتاہے جب طواف کرنے کا ارادہ ہو تو حجر اسود کی سیدھ میں فرش میں نظر آنے والی سیاہ پٹی کے پاس کھڑے ہوں ۔ پھر طواف کرنے کی نیت یوں کریں ۔ یااللہ میں طواف کرنے کی نیت کرتاہوں ۔ یہ قبول فرمائیے۔ پھر اس سیاہ پٹی پر آجائے اور حجر اسود کی طرف رُخ کرکے کھڑے ہو جائیں ۔ دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیے ۔ بسم اللہ اللہ اکبر وللہ الحمد پڑھئے ۔ پھر دونوں ہاتھ چھوڑ دیجئے ، اب دوبارہ دونوں ہاتھ سینے تک اٹھائیے ۔ ہتھیلیاں حجر اسود کی طرف کرکے ان دونوں ہتھیلیوں کو آواز نکالے بغیر بوسہ دیجئے ۔اب دائیں طرف مڑکر چلنا شروع کردیں اور کوئی بھی دعا پڑھتے رہیں ۔ رُکن یمانی پر صرف ہاتھ سے کونے کو چھوسکیں تو کافی ہے ۔ اس سے آگے چلیں تو یہ پڑھیں ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار یا عزیز یا غفار برحمتک یا ارحم الراحمین ۔
اب حجراسود کے سامنے کی پٹی پر پہنچیں تو یہ ایک شوط (چکر) ہوگیا ۔ اب اس پٹی پر آکر صرف اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے بائیں کندھے کی طرف سے حجر اسود کی طرف کریں اور پھر استیلام کریں ۔ یاد رہے اب سینہ حجر اسود کی طرف نہیں ہونا چاہئے ، اسی طرح سات چکر پورے کریں اور آخر میں پھر حجر اسود کا استیلام کریں ۔ پھر دورکعت نماز کسی بھی جگہ اداکریں البتہ یہ نماز مکروہ اوقات مثلاً بعد فجر اور بعد عصر میں نہ پڑھیں ۔مقام ابراہیم پر بھیڑ نہ ہو تو وہاں پر پڑھنا بہت ہی افضل ہے ۔ طواف کے دوران جو دعائیں چاہیں مانگ سکتے ہیں ۔ ہاتھ میں کتاب لے کر دعائیں پڑھیں تواس کی بھی اجازت ہے۔ مگر زبانی خشوع وخضوع اور اللہ جل شانہٗ کے پاک گھر میں اسی کی طرف دل ودماغ کی پوری توجہات کے ساتھ متوجہ ہوکر دعائیں کرنا زیادہ بہترہے۔
اگر کسی کوکتاب میں پڑھنے سے خشوع و خضوع زیادہ ہو تو اسکے لئے کتاب سے پڑھنا بہترہے ۔ نیز تلاوت ، درود شریف ، ذکراذکار، وظائف ، استغفار جو بھی چاہیں پڑھ سکتے ہیں اور اگر مصلحتاً خاموش رہیں تو بھی طواف ادا ہو جائے گا۔ لیکن پسندیدہ نہیں۔
طواف کے دوران نہ تو کعبہ شریف کی طرف سینہ ہو۔ نہ نگاہوں کو اس کی طرف اٹھایا جائے ۔ نہ کنکھیوں سے کعبہ کو دیکھا جائے ۔ نہ کعبہ کی طرف پیٹھ کی جائے ، طواف کے دوران کسی کو دھکا دینا یا خواتین کے کپڑوں یا جسم سے مَس کرنے سے پوری طرح بچنے کی کوشش کرنا لازم ہے ۔
طواف کے دوران اتنی آواز سے دعائیں مانگنا یا رونا کہ دوسرے طواف کرنے والوں کو حرج ہو بہتر نہیں ۔ پورے طواف میں با وضو رہنا شرط ہے ۔ اگر وضو ٹوٹ جائے تو تجدید وضو کرنا لازم ہے ۔
جماعت کی نمازکھڑی ہو جائے تو طواف روک دینا لازم ہے۔ طواف کے دوران محرم عورت کا ہاتھ پکڑ کر رکھا جائے یا محرم عورت محرم مرد کا کپڑا یا کندھا یا انگلی پکڑ کر طواف کرے تاکہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اگر طواف کرنے والا حالت احرام میں ہے تو پھر اسے طواف کے ابتدائی تین چکروں میں رمل کرنا بھی مسنون ہے یعنی کندھے کو سخت کرکے اکڑ کر چلنا اور اسی طرح اسے اضطباع بھی کرناہوگا یعنی احرام کی چادر دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا ۔
طواف کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں لہٰذا ہر وقت طواف کیا جاسکتاہے ۔ ہاں البتہ جماعت کی نماز کھڑی ہو جائے تو پھر طواف مکروہ ہے لہٰذا اس وقت طواف نہ کیا جائے ۔ اس لئے کہ نمازیوںکے آگے سے گزرنے کا گناہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س:-بعض لوگوں کو گیس خارج ہونے کی بیماری ہوتی ہے اور وضو کوبرقرار رکھنا مشکل ہوتاہے ۔ حج کرنے کے دوران سنا ہے کہ طواف میں وضو کرنا ضروری ہے ۔ تو وضو کیسے برقرار رہے گا؟اس کے لئے حل کیا ہے ؟
غلام حسن خان

دورانِ طواف گیس کی شکایت
ج:-جب کسی شخص کو وضوتوڑنے والا کوئی عذرمثلاً گیس وغیرہ کثرت سے لاحق ہو جائے اوروہ وضو کرکے نماز کے اختتام تک اپنا وضو برقرار نہ رکھ پائے توایسا شخص شریعت کی اصطلاح میں معذور قرار پاتاہے ۔ ایسے شخص کو شرعاً اجازت ہے کہ وہ نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کرے اور نماز شروع کردے ۔ یہ وضو اس نماز کے وقت اختتام تک برقرار سمجھا جائے گا ۔ چاہے اس دوران وہ عذر بار بار کیوں نہ پیش آجائے ۔ مثلاًغروب آفتاب کے بعد وضو کیا گیا تو یہ وضو شروع عشاء تک برقرار دیا جائے گا۔ پھر شروع عشاء پر اسے عشاء کے لئے دوسرا وضو کرنا ہوگا ۔ بس اسی طر ح یہ شخص طواف کے لئے وضو کرے ۔ اب طواف کے ختم تک یہ باوضو سمجھا جائے گا ۔ چاہے اس دوران اسے وضو توڑنے والا وہ عذر بار بار کیوں نہ لاحق ہو جائے ۔ کیونکہ یہ شخص شریعت کی نظر میں معذورہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س:- جب احرام کھولنے کا وقت آتاہے تو سرکے بال صاف کرنے ضروری ہیں ۔ کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سرکے کسی ایک طرف چند بال قینچی سے کاٹ دیتے ہیں اور بس ۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایسا کرنا شریعت میں جائز ہے یا نہیں تو انہوں نے کہا کہ ہاں ایسا کرنا جائزہے اور ساتھ ہی وجہ یہ بتائی کہ ہم نے مکہ شریف میں بہت سے لوگوں کو یہی کرتے دیکھاہے۔ آپ شرعی طور پر صاف حکم لکھیں ۔
محمد سرفراز …سرینگر

احرام کھولنے پر بال کاٹنا ضروری
ج:-احرام چاہے عمرہ کا ہو یا حج کا ہو ، اس میں سرکے بال صاف کرنا بھی ایک لازمی حکم ہے ۔ اس کوحلق کہتے ہیں ۔ اس حکم کی بناء پر بال مونڈھ دینے چاہئیں تو یہ افضل ہے ۔ اگر بال نہ مونڈھے جائیں بلکہ بالوں کی
صرف کٹائی کی جائے تو کٹائی میں ایک چوتھائی حصہ بال کٹ جانےچاہئیں ۔یعنی اتنی کٹائی ہو کہ پورے سر کے ہر بال سے چوتھائی حصہ کٹ جائے ۔ یہ ضروری ہے ۔ اس کوقصر کہتے ہیں جو لوگ سر کے کسی کنارے سے چند بال کاٹ لیں، انکی دیکھا دیکھی میں ہم کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئے، اس لئے احرام کھولنے کے شرعی طورپر حلق کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی احرام کی پابندیاں ختم ہونگی ۔ اور صرف چند بال کاٹ دینے سے ہم پر احرام کی وجہ سے لگی ہوئی پابندیاں ختم نہ ہونگی ۔ مثلاشوہر پر زوجہ حلال نہ ہوگی ۔ سلا ہوا کپڑا پہننا بھی جائز نہ ہوگا ، وغیرہ۔لہٰذاحلق یا قصر کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س:- حج میں شیطان کو پتھرمارنے ہوتے ہیں ، یہ کب مارنے ہوتے ہیں ۔ اس کی تفصیل بتائیں، یہ کیوں مارنے ہوتے ہیں ، اسکی وجہ بتائیے اور چونکہ بہت زیادہ بھیڑ ہوتی ہے بلکہ لوگ کچلے جاتے ہیں ۔
اس لئے اگر اپنی طرف سے کسی اور شخص کویہ ذمہ داری رکھی جائے کہ وہ اپنی کنکریوں کے ساتھ ہماری طرف سے بھی کنکریاں مار کر آئے تو کیا شریعت میں اسکی اجازت ہے یا نہیں ہم نے سنا کچھ لوگ ایسا ہی کرتے ہیں ۔
حاجی عبدالاحد …بانڈی پورہ

شیطان پر کنکریاں مارنے کی اہمیت
ج:-حج کا ایک حکم جمرات میں کنکرمارنا بھی ہے۔کنکر مارنے کو شریعت میں رمی کرنا کہتے ہیں ۔ رمی تین دن تو لازم ہے۔ دسویں تاریخ کی صبح کو صرف ایک جمرہ پر سات کنکرپھینکنے کا حکم ہے وہ جمرہ عقبہ کہلاتاہے۔ گیارہ او ربارہ تاریخ کو تینوں جمرات پر سات سات کنکرمارنے ہوتے ہیں ۔ دسویں تاریخ کو صبح صادق سے غروب آفتاب تک جس وقت چاہیں رمی کرسکتے ہیں اور اگر بھیڑکی وجہ سے رات کو کسی بھی وقت رمی کی جائے تو یہ بھی درست ہوگی ۔ گیارہ اور بارہ تاریخ کو زوال کے بعد اگلی صبح تک جس وقت چاہیں رمی کرسکتے ہیں ۔
رمی خود کرنا واجب ہے ، جو شخص دوسرے سے رمی کرائے اس پر ایک قربانی کرنا بطور جرمانہ کے لازم ہے۔ جو لوگ بھیڑ کا عذر کرتے ہیں ان کے لئے شریعت نے رات کو اجازت دے رکھی ہے ۔ پھر یہ عذر کیسے درست ہوگا ۔ رات کو دیر سے رمی کی جائے تو درست ہے۔ لیکن دوسرے سے کرائی جائے تو یہ جرم ہے اوردم یعنی قربانی کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ رمی حضرت ابراہیم ؑ کے شیطان کو کنکرمارنے کے عظیم عمل کی یاد گار ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س:- حجراسود کو بوسہ دینے میں بوڑھے اور ضعیف لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ بوسہ دینا ضروری ہے ۔ اگر بھیڑ کے خطرے کی وجہ سے کوئی بوسہ نہ دے سکے تو اس کے لئے شریعت کا حکم کیاہے ، کیا عورت کو مردوں کے بیچ میں جاکر بوسہ دینے کی اجازت ہے ؟
ایک مسلمان خاتون…سرینگر

حجراسود کو بوسہ دینا: ضعیف لوگ کیا کریں؟
ج:-حجراسود کو بوسہ دینااستیلام کہلاتاہے ۔ یہ سنت ہے ۔ بلا کسی عذرکے اس کو چھوڑنا ترکِ سنت قرار پائے گا۔ اگر کسی نے یہ استیلام نہ کیا تو بھی اس کا حج اور عمرہ دونوں درست ہیں ، ایسی بھیڑ میں کہ جس میں عورت کا جسم اجنبی مردوں سے ٹکراجائے ، استیلام کے لئے جانا ہی جائزنہیں ہے اور اگر کوئی معمر ہو اور حجر اسود کے قریب بھی جانے کی ہمت نہ کرے یا وہاں لگنے والے دھکے سے گرنے یا چوٹ لگنے کا خطرہ ہو ۔اس لئے اس نے حجر اسود کا استیلام نہ کیا تو بھی حج درست ہے اور کوئی گناہ نہ ہوگا۔
یاد رہے کہ حجر اسود کے مقابل ہوکر دور سے اگر دونوں ہتھیلیاں حجر اسودکی طرف کرنے کے بعد ان ہتھیلیوں کو ہی چوم لیا جائے تو حجر اسود کا استیلام قرار پائے گا ۔ اسلئے مایوس ہونے کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : بہت سارے فکر مند والدین مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں تو اپنے ساتھ بچوں کو بھی لاتے ہیں۔اُن کا تصور یہ ہے کہ اس طرح بچے نماز کے عادی بن جائیں گے۔یہ بچے باشعور بھی ہوتے ہیںاور بعض دفعہ بہت چھوٹے بھی ہوتے ہیںجو صفوں میں کھیلتے رہتے ہیں،شور و شعب کرتے ہیں۔اب اس ضمن میں ہمارے تین سوال ہیں:
۱) کس عمر کے بچوں کو مسجد میں لانا چاہئے؟
۲) بچوں کو بالغ مردوں کی صف میں کھڑا کرنا چاہئے یا الگ صف میں؟
۳) اگر بچے بہت چھوٹے ہوں تو کیا ایسے بچوں کو مسجد میں لانے والے بھائیوں کو منع کرنا درست ہوگا ،کہیں یہ دل شکنی تو نہ ہوگی ۔اِدھر یہ بچے مسجد میں ایک جگہ نہیں بیٹھتےاور بعض لوگ اُن کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔پھر بعض دفعہ تلخیاں بھی ہوتی ہیں۔براہِ کرم تفصیل سے اس میں رہنمائی فرمائیں۔
بلال احمد ۔حیدر پورہ سرینگر

سات سالہ بچوں کو مسجد میں لانا فائیدہ مند۔صف بندی کے لئے شرعی ہدایت
ج : حضرت نبی کریم علیہ السلام کا مبارک ارشاد ہے ۔اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو ،جب وہ سات سال کی عمر کے ہوںاور اُن کو تنبیہ کرو جب وہ دس سال کی عمر کے ہوں۔دوسری حدیث میں ارشاد ِ نبوی ؐ ہے کہ اپنی مساجد کو بچوں اور مجنوں افراد سے محفوظ رکھو۔ان دونوں احادیث کو ملحوظ رکھ کر فقہا ء کرام نے جو توضیحات کی ہیں ،وہ یہ کہ اگر بچہ سمجھ دار ،باشعور اور باادب ہو تو ایسے بچے کو مسجد میں لانا درست بلکہ بہت پسندیدہ ہے اور یہ اس لئے تاکہ بچپن سے ہی اُن کا مزاج نمازی بن جائے۔اگر کم فہم ،چھوٹی عمر کے اور مسجد میں شور و شعب کرنے والے ہوں تو ایسے بچوں کو مسجد میں لانا شرعاً مکروہ ہے ،اوپردرج شدہ حدیث اسی طرح کے بچوں کے متعلق ہے۔
کم عمر بچوں کا مسجد میں لانے کے متعلق اکثر حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے اُن کی تربیت ہوگی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قبل از وقت ہے۔جب بچہ سات سال کا ہوجاتا ہے اُس وقت اُس کو مسجد میں لانے کا فائدہ متوقع ہے۔اس سے پہلے وہ بچہ نمازی نہیں بن پاتا۔پھر باشعور بچہ اگر ایک ہو تو اُسے صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے اور اگر متعدد بچے ہوں تو پھر بالغ مردوں کے پیچھے اُن کی صف بنائی جائے۔صف بندی کے لئے جو شرعی اصول ہے وہ یہی ہےکہ پہلے بالغ مردوں کی صف ہوگی ،پھر بچوں کی اور اگر مسجد میں خواتین ہوں تو پھر اخیر میں اُن کی صف ہوگی۔صف بندی کرنے کے لئے امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا اہتمام کرے اور شرعی ضوابط کےمطابق صف قائم کرئے،اُس کے بعد نماز شرع کرے۔