وکالتاََ قربانی کرانے کا نظام شرعاََ درست
اداروں پر امانت اور دیانت لازم
سوال: قربانی کے سلسلے میں ہمارے کشمیر میں چند سال سے کچھ ادارے ، کچھ مدارس اور کچھ رفاہی و سماجی فورم اجتماعی قربانی کرتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف ضرورت مند افراد سے قربانی کی مناسب قیمت لیتے ہیں، پھر ان کی طرف سے قربانی کرتے ہیں۔ اس میں ان کو بہت محنت و مشکلات کا سامنا بھی رہتا ہے۔ بہرحال اس طرح کی قربانی سے بہت سارے افراد کو بڑی سہولت مل جاتی ہے۔ لیکن اس طرح قربانی پر بہت سارے ہمارے بھائیوں کو تحفظات اور اشکالات بھی ہیں۔ اس لئے برائے مہربانی اس قربانی کے متعلق صاف واضح بیان تحریر فرمادیں۔ ۔۔فقط
شبیر احمد
رعناواری سرینگر
جواب: قربانی خود کرنا یقیناً افضل ہے مگر دوسرے کے ذریعہ قربانی کرانا بھی شرعا درست ہے۔ خود حضرت نبی کریم علیہ السلام نے حجۃ الوداع میں سو اونٹ قربان کئے، جن میں تریسٹھ (63 )اپنے دست مبارک سے ذبح فرمائے اور بقیہ حضرت علیؓ سے ذبح کروائے۔ یہی وکالۃً قربانی ہے۔ آج بھی حج کے موقعہ پر لاکھوں قربانیاں وکالۃً ہی ہوتی ہیں اور یہاں بر صغیر میں ہر ہر خطہ میں وکالۃً قربانیاں کرنے کا سلسلہ ہمیشہ سے قائم ہے۔ زکوٰۃ اور صدقہ فطر اور خیرات کی رقوم میں بھی مدارس اور رفاہی ادارے مستحقین تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں یہ بھی وکالۃً زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی ہے۔
بخاری شریف میں بابِ قائم ہے جس میں یہی بیان کیا ہے کہ دوسرے کی قربانی کرنا درست ہے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کی طرف سے گائے کی قربانی کی لہذا جو حضرات اس وکالۃً قربانی کے متعلق کوئی اعتراض کرتے ہیں ان کا اعتراض درست نہیں۔ اس وکالۃً قربانی کے نظام سے بے شمار لوگ قربانی کا فریضہ ادا کر پاتے ہیں ورنہ ان کا خود قربانی کرنا مشکل ہے بلکہ بعضوں کے لئے ممکن ہی نہیں۔ اگر وکالۃً قربانی کا یہ سلسلہ نہ ہو تو وہ فرض ادا کرنے سے محروم رہیں گے۔
کشمیر کے بے شمار لوگ باہر کے ملکوںاور شہروں میں ہیں۔ کچھ اپنی تعلیم کے لئے اور کچھ روز گار کے لئے ۔وہ وہاں قربانی کرنے کی کوئی سبیل نہیں پاتے لہذا وہ یہاں یا تو اپنے گھر والوں سے قربانیاں کرواتے ہیں یا پھر اداروں کے ذریعہ۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس فرض کی ادائیگی سے محروم رہتے ہیں۔ خود یہاں بہت سارے لوگ چھوٹے جانور کی قربانی اس لئے نہیں کرتے کیونکہ وہ مہنگا ہوتا ہے اور بڑے جانور کے لئے دوسرے افراد کو جوڑنا ان کے لئے الجھن کا کام ہوتا ہے لہذا وہ اپنے فریضہ کی ادائیگی کسی ادارے میں رقم جمع کراکے کرتے ہیں۔ بہت سارے افراد ایسے ہیں جن پر قربانی فرض نہیں مگر فضیلت پانے کے لئے وہ قربانی کرنا چاہتے ہیںمگر چھوٹا جانور دس پندرہ ہزار کا ہوتا ہے جو ان کی مالی وسعت سے زائد ہوتا ۔ اس لئے وہ کسی بڑے جانور میں سے ایک حصہ لیتے ہیں اور اس طرح وہ قربانی کا اجر پاتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ وکالۃً قربانی کرنے کا یہ نظام شرعاً درست ہے اور اس طرح کی اہم وجوہات کی بنا پر یہ مفید سلسلہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ قربانی کا انتظام کرنے والے ادارے امانت و دیانت کے ساتھ قربانی کی رقوم خرچ کریں۔ جانوروں کو لانے میں، ان کی عمر اور نقائص و عیوب سے محفوظ ہونے میں، اسی طرح گوشت مستحقین تک پہونچانے میں جو جو احتیاط برتنا ضروری ہے اس میں کوتاہی ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔
قربانی کی کھالوں کو شرعی اصولوں کے مطابق خرچ کرنا چاہیے۔
کھال ضائع کرنا، تعفن پھیلانا، ناقص جانور قربان کرنا، حساب کتاب میں کوتاہی کرنا وغیرہ امور کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ وبائی دور
قربانی کے جانوروں کی فراہمی، ذبح اور گوشت کی تقسیم کا انتظام
پڑوسیوں و غرباء کا حق اور چرمِ قربانی کے متعلق شرعی ضوابط
سوال : موجودہ حالت میں قربانی کے متعلق کیا حکم ہے ۔ دراصل قربانی کا جانور لانا، ذبح کرانا، پھر گوشت تقسیم کرنا، احباب، اقارب تک گوشت پہونچانا، کھال کسی مناسب جگہ پہنچانا کتنا مشکل ہے یہ سب پر واضح ہے۔ اب اس کے بارے میں ایک واضح اور مفصل لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ بس اسی گذارش کے ساتھ یہ چند سطور پیش خدمت ہیں۔
عنایت احمد بٹ
لعل بازار سرینگر
جواب: قربانی دین کے ان احکام میں سے ہے جو شعار کا درجہ رکھتے ہیں، اس کی ادائیگی کا حکم قرآن کریم اور احادیث سے واضح ہے۔ اس لئے ہر صاحب نصاب مسلمان پر قربانی کرنا واجب ہے۔ اگر ایک ہی گھر میں متعدد افراد پر مستقلاً واجب ہو تو ہر ایک پر اس وجوب کی ادائیگی لازم ہوگی۔ مثلا میاں بیوی پر الگ الگ صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے یا مشترکہ گھر میں والدین کی بالغ اولاد پر صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے قربانی لازم ہوگئی ہو تو سب کو الگ الگ یہ حکم پورا کرنا ضروری ہوگا۔ صرف ایک قربانی سب کی طرف سے ہرگز کافی نہیںہوگی۔
موجودہ حالات میں اگر چہ وبائی بیماری کے نتیجے میں جانور مہیا کرنا ذبح کا انتظام کرنا، اور پھر گوشت کے تقسیم میں مشکلات کی وجہ سے خدشات ہیں۔ اس لئے قربانی کا عمل ان خدشات کی وجہ سے ہرگز موقوف نہیں ہو سکتا۔ نہ ان خدشات کی وجہ سے قربانی ترک کرنے اور رقوم صدقہ کرنے سے قربانی کا فریضہ ادا ہوگا۔
قربانی کرنے کے لئے تمام ضروری احتیاطوں کے ساتھ یا تو خود قربانی کی جائے یا کسی دوسرے قابل اعماد شخص یا ادارے کے ذریعہ قربانی کی جائے۔
قربانی کا یہ عظیم عمل چونکہ امت مسلمہ کے لئے شعار ہے۔ اس لئے بے دلی، تکدر یا بوجھ سمجھ کر اس عمل کو انجام دینے کے بجائے ایمانی جذبہ، شوق اور اجر آخرت کے حاصل ہونے کے یقین کے ساتھ یہ فریضہ ادا کیا جائے۔
اگر موجودہ وبائی بیماری کے خدشہ سے قربانی نہ کر پائیں اور عید الاضحی سے پہلے ہی اس کا یقین ہو کہ خود قربانی نہیں کر سکیں گے تو پہلے ہی کسی معتمد شخص یا کسی مستند ادارے کے ذریعہ قربانی کرنے کا انتظام کر سکتے ہیں۔اگر خود قربانی کرنے کا ارادہ تھا، مگر کسی بھی وجہ سے قربانی نہ کر سکے، یہاں تک کہ قربانی کے تین دن گذر گئے تو اب قربانی کے جانور کی رقم صدقہ کرنا لازم ہے۔
قربانی کا گوشت خود بھی کھانا، احباب و اقارب میں تقسیم کرنا اور پڑوسیوں یا عام غریبوں میں بانٹ دینا درست ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے سارا گوشت خود کے لئے رکھ لیا گیا اور پھر اپنے ہی اہل خانہ کو کھلایا جائے تو یہ بھی درست ہے اور موجودہ بیماری کے خطرات کی وجہ سے اگر تقسیم کرنا مشکل ہو تو سارا گوشت خود کے لئے رکھنا ہی بہتر ہے یا کسی پسماندہ علاقہ میں قربانی کرائی جائے اور گوشت وہاں تقسیم کیا جائے۔
قربانی کی کھال اپنے استعمال میں لانا درست ہے اور کسی قابل اعتماد ادارے، جو چرمِ قربانی کے متعلق شریعت کے ضوابط کے مطابق عمل کرتے ہوں، کو دینا بھی درست ہے۔
قربانی عیدالاضحی کی نماز کے بعد کی جائے اور آج کے حالات میں طلوع آفتاب کے تقریبا نصف گھنٹہ کے بعد نماز عید ادا کر کے قربانی کرنا بہتر ہوگا۔
قربانی کے ان تین ایام میں کسی بھی وقت قربانی کرنا کافی ہے البتہ پہلے دن افضل ہے۔ قربانی کے مسائل اپنے مستند علماء سے پوچھے جائیں اور ہر ہر مسئلہ میں خود کی رائے ، اپنی سوچ، اور خیال یا غلط رسوم کے بجائے شریعت پر عمل کیا جائے۔
جو ادارے وکالۃً قربانی کرنے کا انتظام کرتے ہیں وہ اخلاص نیت کے ساتھ فریضہ کی ادائیگی کا جذبہ کے ساتھ، شریعت کے احکام کی پوری پابندی کا اہتمام کریں اور جانوروں کے خریدنے، ذبح کرنے، گوشت تقسیم کرنے اور مستحق افراد تک پہنچانے اور پھر چرمِ قربانی کو شرعی اصولوں کے مطابق صرف کرنے کا اہتمام کریں۔ فقط
بہت ادب اور محبت آمیز اصرار کے ساتھ گذارش ہے کہ اس سوال کا جواب شائع کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکانوں کے لئے مشترکہ راستے اور عبور و مرور کی شرائط
سوال: شہر و قصبات کی نئی آبادیوں میں لوگوں کو بار بار یہ صورت حال پیش آتی ہے جو اکثر نزاع کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک شخص مکان بناتا ہے اور اپنے اس نئے مکان کے لئے راستہ یا تو وہ اپنی موجود زمین میں سے نکالتا ہے یا پھر راستے کے لئے زمین خرید لیتا ہے۔ پھر اسی مکان کے آس پاس یا اس مکان کے آگے کوئی دوسرا شخص اپنا مکان بناتا ہے اور اس کو راستہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ شخص پہلے مکان والے سے راستہ دینے کی گذارش کرتا ہے پہلا شخص اس دوسرے شخص سے راستہ دینے کے معاوضہ میں زمین لیتا ہے اور کبھی زیادہ ہی زمین لیتا ہے۔ زمین بطور معاوضہ لینے کے بعد وہ پہلا شخص اس دوسرے شخص سے اسی راستہ کو خود کے استعمال کے لئے شرط بھی رکھتا ہے۔
پہلا شخص راستہ فروخت کرنے کے بعد اور زیادہ زمین لینے کے باوجود پھر اسی راستہ کو بطور شرط استعمال کرنے کا حق سودا کرنے کے دوران طے کرتا ہے۔ اب ہماراسوال یہ ہے کہ
۱۔ یہ زائد زمین لینا جائز اور درست ہے یا نہیں؟
۲۔ راستہ کو فروخت کر کے اس کے بدلے میں زائد زمین لینے کے بعد اسی راستہ کو استعمال کرنے کی شرط لگانا، کیا یہ درست ہے؟
۳۔ اگر یہ ناجائز ہے تو اس کے جائز ہونے کی صورت کیا ہوگی۔
عبد الحمید
بارہمولہ کشمیر
جواب: راستہ دینے کے لئے زمین بطور معاوضہ لینے کے بعد راستہ کا مالک وہ شخص ہے جس نے زمین دی اور راستہ خرید لیا۔ اس خرید و فروخت کے بعد اس راستہ پر مالکانہ حق راستہ خریدنے والے کا ہوگا۔
اگر راستہ فروخت کرنے والے نے یہ شرط لگائی ہو کہ وہ بھی اس راستہ کو استعمال کرے گا تو شریعت میں یہ شرط فاسد ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی کو گائے فروخت کرے اور شرط لگائے کہ دودھ لینے کا حق میرا بھی ہوگا۔ یا کوئی شخص بیل فروخت کرے اور یہ شرط لگائے کہ ہل جوتنے کا حق مجھے بھی ہوگا یا کوئی شخص کتاب فروخت کرے اور یہ شرط لگائے کہ کتاب پڑھنے کا حق مجھے بھی ہوگا۔ یہ شرط فاسد ہے اور ایسی شرط رد ہو جاتی ہے۔ لہذا راستہ فروخت کر کے اس کے عوض زمین لینے کے بعد اس راستہ کو استعمال کرنے کی شرط لگانا شرط فاسد ہے اور یہ شرط شرعاََ مسترد ہے۔ اس لئے اس طرح یہ معاملہ ناجائز ہے اور اگر کسی شخص نے ا س طرح کا معاملہ کیا ہو کہ معاوضہ میں زمین لے چکا ہو تو اس راستہ کو فروخت کرنے کے بعد راستے سے گذرنے کا اُسکا حق فوت کر چکا ہے۔ راستہ خریدنے والے کو حق ہے کہ وہ اس کو وہی بات کہے جو پہلا شخص کہتا تھا کہ پہلے یہ راستہ تمہاری ملکیت تھا اور مجھے چلنے کا حق نہ تھا۔ اب یہ راستہ میں خرید چکا ہوں یہ میری ملکیت ہے اور مجھے حق ہے کہ تم کو اس راستہ کے عبور و مرور سے روک دوں۔ایسی صورت میں برتر اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ اس پہلے شخص کو راستہ استعمال کرنے کی اجازت دے۔ اس معاملہ کے جائز ہونے کی صورت یہ ہے کہ راستہ کا اصل مالک راستہ اپنے لئے رکھے، اپنے مالکانہ حقوق برقرار رکھے اور عبور و مرور کا حق دینے کے عوض کچھ رقم لے سکتا ہے۔ اس صورت میں راستہ کا مالک وہی بر قرار رہے گا اور گذر گاہ کے طلب گار سے صرف گذرنے راستہ استعمال کرنے کا حق دینے کے عوض رقم لینا جائز ہوگا۔ اور رقم دے کر اس دوسرے شخص کو اس راستہ سے عبور و مرور اور آمد و رفت کا حق ہوگا۔