سوال :آدابِ دعا ،اوقات ِ دعا ،مقاماتِ دعا اور دعا کے قبول ہونے کی شرائط اور دعا قبول نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟برائے مہربانی تفصیل کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں۔
جہانگیر احمد ۔نشاط سرینگر
دعاء کے آداب و اوقات اور قبولیت کی شرائط
جواب :دعا بجائے خود عبادت ہےاور قبول ہونے یا نہ ہونے کے مسئلہ سے قطع نظر صرف دعا کرنے کے بے شمار فائدے ہیں اور یہ خود بھی باعث اَجر ہے۔دعا مانگنا اللہ جل شانہُٗ کا ایک حکم پورا کرنا ہے ۔اس سے بندہ کا تعلق اللہ کی ذات سے قائم بھی ہوتا ہے اور مضبوط بھی ہوتا ہے۔قرآن و حدیث میں دعا کے متعلق تمام تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔مختصراً کچھ امور درجِ ذیل ہیں۔
دُعا کی قبولیت کے آداب و شرائط یہ ہیں: کھانا،پینا ،لباس وغیرہ حرام کمائی سے نہ ہو ۔اخلاص ،الحاح ،تفرع اور پوری عاجزی کے ساتھ دعا کرنا۔یہ یقین رکھنا کہ اللہ کی ذات ہی وہ ذات ہے جو ہمارا مقصد پورا ،ہماری مصیبت دور اور ہماری مشکل حل کرسکتی ہے۔دعا سے پہلے کوئی نیک عمل کرنا اور پھر دعا میں اس عمل کا حوالہ دے کر یہ عرض کرنا کہ آپ کی رضا کے لئے یہ عمل کیا ہے ،اس عمل کو قبول فرماکر میری دعا بھی قبول فرمادیں۔پاک و صاف ہوکر با وضو قبلہ کی طرف رخ کرکے دعا کرنا ،دوزانوں ہوکر اور اگر یہ نہ ہوسکے تو جس طرح بیٹھ سکیں ،اُس طرح بیٹھ کر دعا کرنا۔دعا سے پہلے اور آخر میں اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنا۔دعا کے اول آخر میں درودِ شریف پڑھنا، دعا کے لئے دونوں ہاتھ عاجزی کے ساتھ سینہ کے مقابل پھیلانا ،اپنی محتاجی ،بے بسی اور عاجزی کا بار بار ذکر کرنا ۔دعا کے وقت سرنگوں ہوکر بیٹھنا ۔آسمان کی طرف نگاہ نہ اُٹھانا ۔اللہ کے اسمائے حُسنیٰ اور صفاتِ عالیہ پڑھ کر دعا کرنا ۔دعا میں عبارت آرائی ،قافیہ بندی کے تکلف سے بچنا ۔دعا میں انبیاء علیہم اور اولیاء عظام کی منقول دعائوں کا اہتمام کرنا ۔دعا میں چیخ و پکار سے بچ کر آہستہ آواز سے رونے کی شکل بناکر دعا کرنا ۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دعائوں کے کلمات سے دعا کرنا ۔دعا میں اپنے لئے ،اپنے والدین کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دعا کرنا ۔عزم کے ساتھ دعا کرنا ،یعنی یہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر آپ چاہیں تو عطا کردیں ،یہ مصیبت دور کردیں اور مشکل حل کردیں۔دعا میں تکرار کرنا،کم از کم تین تین مرتبہ دعا کرنا اورکسی سے قطع رحمی یا کسی کو نقصان پہنچانے کی دعا نہ کرنا ۔ہاں یہ کہہ سکتا ہے کہ فلاں کے شَر سے ہم کو بچا دیجئے۔کوئی قوم ظالم ہو تو اُن کے ظلم سے بچنے اور اُن کو ظلم سے روک دینے کی دعا کرسکتے ہیںاوراُن کی ہلاکت کی دعا کرنا بھی احادیث سے ثابت ہے۔اللہ کی رحمت اپنے لئے مخصوص کرنے کی دعا نہ کرے۔محال چیز کی دعا نہ کرے۔کسی کی جان ،مال ،رشتہ ،عزت وغیرہ کی بر بادی کی دعانہ کرے۔دعا کرنے والا خود بھی اور سُننے والا بھی آخر میں آمین کہے۔دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو تو مایوس و نااُمید نہ ہو ۔جلد قبولیت کی غرض سے یہ ہرگز نہ کہے میں نے یہ دعائیں کی تھیں،اب تک قبول کیوں نہیں ہوئیں۔
یہ چند آداب و شرائط ہیں۔اب دعائوں کے قبول ہونے کے اوقات ملاحظہ ہوں۔شبِ قدر ،عرفہ کے دن،رمضان المبارک میں ہر وقت ،خاص کر تہجد کے وقت اور تراویح کے بعد شبِ جمعہ میں،جمعہ کے دن ،خاص کر اذان جمعہ کے بعد سے لے کر نماز کے اختتام تک۔جمعہ کے دن ایک وقت ایسا ہے کہ اُس وقت جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔مشہور اور رائج قول یہ ہے کہ یہ اُس وقت ہے جب امام خطبہ کے لئے بیٹھےاور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ عصر کے بعد سے غروب ِآفتاب تک ہے۔رات کی ابتدا میں ،وسط شب میں،اخیر شب میں۔یہ تینوں احادیث سے ثابت ہیں۔یہ اوقات کا بیان ہوا ۔اب وہ مخصوص حالات جن میں دعا قبول ہونے کی زیادہ امید ہے وہ یہ ہیں۔اذان کے وقت،اذان و اقامت کے درمیان ،فرض نمازوں کے بعد، سجدہ کی حالت میںمگر یہ سجدہ نماز کے علاوہ ہو۔ہاں نفل نماز کا سجدہ ہو تو اُس میں دعا کرنا درست ہےمگر وہ صرف عربی میں ہو۔نماز کے علاوہ سجدہ کی حالت میں ہر زبان میں دعا کر سکتے ہیں۔ تلاوت قرآن کے بعد،آب زم زم پیتے وقت،ختم قرآن کے وقت ،میت کے پاس جبکہ وہ نیک ہو اور نزع کی حالت میں ہو۔مرغ کی اذان کےوقت ،مسلمانوں کے دینی اجتماع کے وقت ،ذکر درود اور استغفار کی مجالس میں،بارش کے وقت ،بیت اللہ شریف پر نظر پڑتے وقت،طواف کے دوران ملتزم پر،حطیم میں، میزاب رحمت کے نیچے،صفا مروہ پر جمرات پر رمی کرنے کے وقت ،روضہ اقدس پر سلام پیش کرنے کے بعد۔یہ دعا کے قبول ہونے اور پختہ ایمان والے کو ایمانی کیفیت عطا ہونے کا سب سے عجیب وقت و مقام ، مقدس ہےجس کے متبرک و رحمت کے نزول کا اندازہ کرنا ہم جیسوں کی قوت ادراک سے باہر ہے۔اخیر میں خاص اُن افراد کا تذکرہ مناسب ہے جن کی دعائیں قبول ہونے کا بیان احادیث میں ہے۔
مظلوم کی دعا،مضطر کی دعا کی۔والد کی دعا اولاد کے حق میں،دیندار عادل خلیفہ کی دعا ،صالح متقی کی دعا ،اولاد جو والدین کی فرمان بردار ہو،اُن کی دعا والدین کے حق میں ،مسافر کی دعا ،روزے دار کی دعا ،غائبانہ دعا ،یعنی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی غیر حاضری میں اُس کے لئے دعا کرے۔حاجی جب حج سے واپس آئے تو اُس کی آمد پر اُس کی دعا ،یہ سب احادیث میں ہے۔
اخیر میں یہ بات ملحوظ رہے کہ دعا یقیناً قبول ہوتی ہے اور دعا خود بھی ایک عبادت ہے مگر قبولیت کے نتائج کبھی دنیا میں ہی ظاہر ہوں گے ،ورنہ آخرت میں یقیناً عظیم اَجر ملے گا۔اُس اَجر کو دیکھ کر مؤمن تمنا کرے گا کہ کاش دنیا میں میری ہر دعا کو آخرت کے لئے ہی ذخیرہ رکھا گیا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔دوسرا اہم امر یہ ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ دعا کو اس لئے جلد قبول نہیں فرماتے تاکہ بندہ زیادہ عرصہ تک اللہ سے مانگتا رہے۔اسی طرح اُس کا تعلق مع اللہ طویل بھی ہوگا اور مضبوط بھی۔تیسرا اہم امر یہ ہے کہ اگر کوئی مقصد حل نہ ہو ،مثلاً مریض شفا یاب نہ ہوا تو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہم نے اتنی دعائیں مانگیں مگر اللہ نے نہیں سُنیں۔دراصل اللہ نے اُس مریض کے لئے جو تقدیر بنائی تھی وہ پوری ہوگی اور دعائوں کا فائیدہ آخرت میں ملے گا اور کبھی دعا اس لئے قبول نہیں ہوتی کہ بندہ نے اللہ کو ناراض کررکھا ہے اور معصیت والی زندگی چھوڑ کرا طاعت والی زندگی اپنانے کو تیار نہیں ،اس لئے اُس کی دعا قبول نہیںہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱- کیا فرض نماز کے بعد جب کہ ابھی سنتیں باقی ہوں تو لمبی دعایا تسبیح فاطمہ اور درودِ پاک وغیرہ پڑھنا جائزہے ؟
نظام الدین ناظم…
فرض نماز کے بعد تسبیح
فاطمی پڑھنے کی فضیلت
جواب:۱-ہر فرض نما ز کے بعد تسبیح فاطمہ پڑھنے کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے ۔ یہ احادیث بخاری ومسلم وغیرہ میں موجود ہیں۔جن نمازوں کے بعد سنتیں نہ ہوں اُن نمازوں میں سلام پھیرنے کے بعد یہ تسبیح پڑھی جائے اور جن نمازوں کے بعد سنت پڑھنی ہوتی ہیں مثلاًظہر ، مغرب اور عشاء کی نمازمیں فرض کے بعد سنتیں ہیں تو ان نمازوں میں فرض کے بعد مختصر دعا کرکے پہلے سنتیں پڑھی جائیں اور پھر تسبیح فاطمہ پڑھی جائے اس لئے کہ نماز کا درجہ مقدم ہے
۔ تسبیح فاطمہ یہ ہے ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ، ۳۳ مرتبہ الحمد للہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر ۔ بعض احادیث میں ہے کہ ۳۳ مرتبہ اللہ اکبر پڑھ کر ایک مرتبہ چوتھا کلمہ یعنی کلمہ توحید پڑھا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :۲- آج کل کمپنیاں قسطوں پر گاڑیاں وغیرہ کو فروخت کرتی ہیں ۔بعد میں یہ قسط مہینہ وار اداکرناپڑتی ہے لیکن اس پر کمپنی سود لیتی ہے ۔کیا یہ زائد رقم جو قسط کے ساتھ ادا کرنی پڑتی ہے شرعی سود میں داخل ہے جس کی سخت ممانعت ہے جب کہ کمپنی کی گاڑی وغیرہ خریداراستعمال کررہاہے ۔
قسطوں پر خریداری اورا دائیگی
جواب:۲-اگرکمپنی سے خرید کر گاڑی پر اپنا نفع رکھ کر پھر کسی کو گاڑی فروخت کی جائے او رپھر قیمت قسطوں میں ادا ہوتو یہ صورت جائز ہے ۔مثلاً دو لاکھ کی گاڑی کمپنی سے خرید کر اڑھائی لاکھ کی فروخت کی گئی اور یہ قیمت قسطوں میں وصول کی جائے تو یہ جائز ہے اور اگر یہ گاڑی دو لاکھ کی خرید کر دو لاکھ کی ہی فروخت کی جائے ،مگر اس دو لاکھ پرفیصد کے اعتبار سے سودی رقم کا اضافہ کیا جائے تو یہ زائد رقم سود قرار پائے گی۔ اس میں سود دینے کاجرم ہے جیساکہ حدیث میں سود لینے او ردینے والے دونوں کے لئے لعنت آئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :۳-کیا ایسے اما م کے پیچھے نماز ادا کرنا درست ہے جس کی داڑھی ایک مشت سے کم ہو ۔ فقہ حنفیہ میں کیا اس کی کوئی جوازیت ہے ؟
امام کیلئے داڑھی کی شرعی مقدار
جواب:۳-ایک مٹھی سے کم داڑھی رکھنے والے کو امام بنانا ہی درست نہیں تاہم جو نمازیں اسکی اقتداء میں پڑھی گئیں وہ ادا ہوجاتی ہیں ۔اس لئے حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر نیک اور فاجر کی اقتداء میں نماز پڑھنی پڑے تو نماز پڑھ لینا ۔ اس کا گناہ اس امام پر ہوگا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے چوری کے کھجوروں سے روزہ افطار کیا جائے تو افطار ہوجائے گا مگر چوری کرنا گناہِ کبیرہ ہے او راس کا جرم برقرار رہے گا ۔ اسی طرح داڑھی منڈھے کے پیچھے نماز ادا ہوجائے گی مگر گناہ امام پر ہوگا ۔