سوال :ہمارے دینی طبقوںمیں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے کہتے ایک دوسرے کو کافر بھی قرار دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بات بات پر دوسروںکو مشرک ،کافر ،بدعتی ،گمراہ اور اس طرح کے دوسرے الفاظ بول دیئے جاتے ہیں۔اس صورت حال کو آپ بھی سمجھتے ہونگے ۔براہ کرم اس بارے میں شرعی اصول تکفیر آسان لفظوں میں ضرور بیان کیا جائے۔
عبدالرشید خان۔سرینگر
کسی مسلمان کو کافر قرار دینا۔۔۔معاملے کی وضاحت
شرعی اصولِ تکفیر ۔۔۔
جواب :کسی مسلمان کو کافر قرار دینے کا معاملہ نہایت سنگین اور خطرناک معاملہ ہے ۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،جو شخص کسی مسلمان بھائی کو کافر کہہ دے تو یا تو وہ شخص کافر ہوگا جس کو کافر کہا گیا اور یا وہ کافر کہنے والا خود کافر ہوجائے گا ۔یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے ۔خود قرآن کریم میں بھی ارشاد ہے :(ترجمہ)اے ایمان والو !جس شخص نے تم کو سلام کیا اُس کو مت کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو ،(النسا)اس کے علاوہ بھی احادیث ہیں،مثلاًایک جہاد میں دورانِ جنگ ایک شخص نے مسلمانوں سے خوف زدہ ہوکر پہلے اُن کو سلام کیا پھر کلمہ پڑھا ،اُس کے کلمہ پڑھنے کے بعد ایک مسلمان نے یہ سوچ کر اُس کو قتل کردیا کہ اس شخص نے محض جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا ہے،بلا شبہ بظاہر صورت حال یہی تھی اور اس کےگمان کرنے کی وجہ موجود تھی ،اس لئے کہ جنگی حالت تھی اورہوسکتا ہے کہ اس شخص کے دل میں ایمان تھا ہی نہیں ،صرف جان بچانے کے لئے اُس نے کلمہ پڑھا ہو اوریہ کلمہ اُس نے اپنے بچائو کے لئے بغرض ڈھال استعمال کیا ہو ۔مگر جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا کہ ایسا ہوا ہے تو آپؐ نہ صرف ناراض بلکہ سخت غضب ناک ہوگئے اور فرمایا کہ کیا تم نے کلمہ پڑھنے کے باوجود اُس کو قتل کردیا ؟عرض کیا گیا کہ اُس نے جا ن بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا ،دِل سے کہاں پڑھا ہوگا ۔آپ ؐ نے فرمایا :کیا تم نے اُس کا دل چیر کر دیکھا تھا ،اس کا مطلب بالکل واضح ہے۔
دراصل یہ حقیقت اللہ ہی کے علم میں ہے کہ کون شخص مومن ہے اور کون نہیں۔ہر مسلمان اس کا ذمہ دار ہے کہ کلمہ پڑھنے والے مسلمان، جو تمام ضروریات دین کی تصدیق کرتا ہو، کو مومن تصور کرےاور اُس کی طرف کفر کی نسبت نہ کرے۔یہی وجہ ہے کہ محتاط اہل ِ علم کافرانہ خیالات کے حامل شخص کو کافر کہنے میں احتیاط برتتے ہیں ۔ہاں! صرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ خیالات کافرانہ و ملحدانہ ہیں۔وہ اپنے فرض ِ منصبی کی بنا پر مشرکانہ خیالات کو شرک ،کافرانہ خیالات کو کفر ،ضلالت کو ضلالت کہنے میں کوئی جھجھک نہیں برتتے مگر اُس شخص کو کافر یا مشرک کہنے کی جرأت نہیں کرتے ،جب تک اُس کے کافر ہونے کا پورا یقین نہ ہو۔خدا ترس اور خوف خدا وندی سے لرزنے والے علماء اس خیال سے ہی گھبرا جاتے ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کی طرف کوئی کفر کی نسبت کریں جو حقیقت میں صاحب ایمان ہواور وہ کفر واپس اُنہی پر آجائے۔اگر کسی شخص کے عقائد و خیالات میں کفر و شرک کی آمیزش محسوس ہو تو اُس کو کافر قرار دینے کے بجائے امت کو بچانے کے لئے اُن خیالات کو کفر، باطل، شرک اور ضلالت قرار دینے پر اکتفا کرتے تھےاور جب تک کسی شخص سے صریح کفر مثلاً ختم نبوت کا انکار یا کسی عقیدہ ٔمسلمہ کا انکار نہ ہو اور اُس کی کوئی تاویل کی گنجائش نہ ہو ،اُس وقت تک اُس کو کافر قرار نہیں دیتے۔۔۔مثلاً جو شخص قرآن کو کتاب اللہ تسلیم کرتا ہو پھر بھی اُس کو زبردستی منکر قرآن قرار دیا جائے۔اسلام کے وہ بنیادی اصول جو مدار ایمان ہیں،اُن میں اللہ کی وحدانیت ،اللہ کی صفات ،رسالت و ختم نبوت پر ایمان ،کتب سماویہ اور انبیا علیہم السلام کی تصدیق ،آخرت پر ایمان اور وہ عقائد جو دلائل قطعیہ احادیث متواتر ہ سے ثابت ہوں ،اُن عقائد کا انکار کرنا مؤجب کفر ہےمگر جو شخص اُن عقائد کو تسلیم کرتا ہو اُس کودائرہ ٔ ایمان سے خارج کرنا سخت خطرناک اور خود اسلام کے اصول ِ تکفیر کے خلاف ہے۔جو شخص راہ حق سے ہٹا ہوا ہو، اُس سے دلائل کے ساتھ اختلاف کرنا درست ہے مگر کسی باطل خیال کی تردید الگ چیز ہے اور کسی مسلمان کی تکفیر جداگانہ مسئلہ ہے۔بہر حال کسی کو کافر کہنا نہایت پُر خطر اور کئی طرح سے سنگین مسئلہ ہے۔اس میں حد درجہ احتیاط بھی ضروری ہے اور جہاں واقعتاً کفر ثابت اور واضح ہو وہاں اس کا اظہار بھی ضروری ہے مگر اظہار میں فرد پر حکم لگانے کے بجائے اُس کے اظہار باطل پرتنقیدکی جائےاور اُس کے کفر ہونے کے اظہار پر اکتفا کرنے کو ترجیح دی جائے، الا یہ کہ کوئی محرک ہو توشخص پر بھی حکم لگے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-بہت سارے نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ اُنہیں بہت بُرے بُرے خیالات آتے ہیں ۔ میرا حال بھی ایسا ہی ہے۔ یہ خیالات اللہ کی ذات کے بارے میں ،حضرت نبی علیہ السلام کے متعلق ، ازواج مطہراتؓ کے متعلق ،قرآن کے متعلق ہوتے ہیں۔اُن خیالات کوزبان پر لانا بھی مشکل ہے ،اُن خیالات کو دفع کرنے کے جتنی بھی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی وہ دل میں ،دماغ میں مسلط ہوتے ہیں ۔اب کیا یا جائے ؟
کامران شوکت … سرینگر
بُرے خیالات:۔
شیطان وہیں حملہ کرتاہے جہاں ایمان کی دولت ہو
جواب:-بُرے خیالات آنا دراصل شیطان کا حملہ ہے۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابیؒ نے یہی صورتحال عرض کرکے کہاکہ یا رسول اللہ ؐ میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ اگر میں اُن کو ظاہر کروں تو آپؐ ہم کو کافر یا منافق قرار دیں گے ۔
اس پر حضرت ؐ نے ارشاد فرمایا کہ واقعتاً تمہارے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ ہاں ایسے خیالات آتے ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ایمان کی علامت ہے ۔ عرض کیا گیا کیسے ؟تو ارشاد فرمایاچور وہاں ہی آتاہے کہ جہاں مال ہوتاہے ۔ جب ایسابُرے خیال آئیں تو باربار استغفار اور لاحول پڑھنے کا اہتمام کریں اور اپنے آپ کو مطمئن رکھیں کہ یہ آپ کا اپنا خیال ہے ہی نہیں ۔ آپ کاخیال تو وہ ہے جو آپ کی پسند کے مطابق ہو ۔ یہ خیال آپ کو نہ پسند ہے نہ قبول ہے تو اس کا وبال بھی آپ کے سر پر نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :بہت سارے مسلمان موقعہ بموقعہ قسمیں کھاتے ہیں ۔اس میں کبھی سچ کبھی جھوٹ ،کبھی کسی چیز کی قسم کھاتے اورکبھی کسی چیزکی۔اس بارے میں تفصیل سے بتایا جائے کہ کون سی قسم جائز اور کون سی ناجائزہےاور کس قسم کے متعلق شریعت کا حکم کیا ہے۔
ارشاد احمد میر ۔بانڈی پورہ
قسم کھانے کا معاملہ
جھوٹی قسم کھانا گناۂ کبیرہ کا ارتکاب
غیر اللہ کی قسم کھانا شرک کرنے کے برابر
جواب : قسم کھانے کے متعلق چند شرعی احکام یہ ہیں۔
۱۔بے ضرورت بات بات پر اللہ کی قسمیں کھانا شرعی طور پر سخت ناپسندیدہ ہے۔اس لئےکہ اس میں اللہ جل شانہٗ کی شان عظمت کی بے حرمتی ہوتی ہے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ِ اقدس کے سوا کسی بھی چیز کی قسمیں کھانا سخت منع ہے ،لہٰذا اس سے مکمل اجتناب کیا جائے۔اس سلسلے میں یہ حکم جو حدیث سے ثابت ہے ،ملحوظ رکھا جائے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے :جو شخص اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائے ،اُس نےشرک کیا ۔اس لئے غیر اللہ کی قسم کھانے سے مکمل پرہیز کیا جائے۔
۳۔ اگر کسی نے اللہ کی ذات یا اُس کی صفات میں سے کسی صفت ِ عالی کی قسم کھائی اور قسم کھاکر کہا کہ فلاں کام کروں گا یا فلاں کام نہ کروں گا تو شرعاً یہ قسم ہوگئی۔اب اگر اس کی خلاف ورزی ہوگئی تو قسم ٹوٹ گئی اور اب اُس شخص پر کفارہ لازم ہوگیا۔کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلایا جائےیا دو وقت کے کھانے کی قیمت ادا کرے۔
۴۔ اللہ کی ذاتِ عالی کے علاوہ جو قسمیں کھائی جاتی ہیں ،اُن سے مکمل پرہیز لازم ہے۔مثلاً باپ کی قسم ،ماں کی قسم ،جوانی کی قسم،بیٹے کی قسم، آستان کی قسم ،فلاں بزرگ کی قسم ،آنکھوں کی قسم وغیرہ وٖغیرہ۔
۵۔اگر کسی شخص نے گزرے ہوئے واقعہ کے متعلق اللہ کی قسم جھوٹی کھائی ،مثلاًیوں کہا ،اللہ کی قسم میں نے نماز پڑھی حالانکہ اُس نے نماز نہیں پڑھی تھی۔یا مثلاً کسی نے یوں کہا ’’اللہ کی قسم میں فلاں کے گھر نہیں گیا ہوں حالانکہ وہ اُس کے گھر گیا ہے،تو یہ جھوٹی قسم ہوگئی ۔ان دونوں جھوٹی قسموںپر یہ شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا قرار پائے گا ۔اس پر توبہ لازم ہے۔
۶۔ اگر کسی نے اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور ذات کی قسم کھائی تو شرعاًیہ قسم منعقدہوئی ہی نہیں،لہٰذا خلاف ورزی پرکفارہ بھی لازم نہ ہوگا ۔مگر غیر اللہ کی قسم کھانے کا گناہ رہے گا ۔اس پر توبہ و استغفار لازم ہے۔
۷۔اگر کسی شخص نے گناہ کرنے کی قسم کھائی ،مثلاًیوں کہا اللہ کی قسم میں نماز نہیں پڑھو گا ،یا قسم خدا کی میں فلاں شخص سے بات نہیں کروں گا یا یوں کہا ماں باپ سے نہیں بولوں گا تو اس طرح کے کسی گناہ کے کام کرنے کے متعلق قسم کھانا گناہ ہے۔پھر اس قسم کے قسم کو توڑنا ضروری ہے اور قسم توڑ کر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔
۸۔ اگر کسی نے قسم کھائی کہ فلاں چیز نہیں کھائوں گا یا فلاں چیز نہیں پیوں گا پھر بھول کر وہ چیز کھالی یا کسی نے قسم کھائی کہ فلاں کے گھر نہ جائوں گا پھر اس کے گھر چلا گیا تو قسم ٹوٹ گئی اور کفارہ لازم ہوگیا ۔یعنی کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھالی پھر اُس کے خلاف کیا ۔
۹۔اگر کسی دوسرے شخص نے قسم دلائی ، مثلاًکسی اور نے کہا کہ تم کو اللہ کی قسم ،تو یہ قسم ہوئی ہی نہیںہے۔اس طرح اگر کسی نے دوسرے سے کہا تم کو نبی علیہ السلام کی قسم ،کعبہ شریف کی قسم ،مسجد کی قسم ،میری قسم ،ماں باپ کی قسم وغیرہ، تو یہ قسم بھی شرعی قسم نہیں ہوگی،مگر اس طرح کی قسم دوسرے کو دلانا گناہ ہے۔اس لئےکہ غیر اللہ کی قسم کھانا اور کھلانا سخت منع ہے ،جیساکہ اوپر حدیث لکھی گئی۔
۱۰۔تجارت کرتے ہوئے یا کوئی بھی چیز فروخت کرنے کے لئے عموماً طرح طرح کی جھوٹی قسمیں کھائی جاتی ہیں،خصوصاً قیمتوں پر جب رسہ کشی ہوتی ہےتوخرید ار قیمت کم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور بیچنے والا قسمیں کھا کھا نرخ صحیح ہونے کی بات کرتا ہے۔بکثرت دکاندار حلف کاذب (جھوٹی قسمیں)کھا کر بز نس کرتے ہیں ۔یہ طرز عمل سخت نا مناسب اور گناہ ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جھوٹی قسم کھاکر مال بیچنا ،ظاہر میں تجارت ہے مگر حقیقت میںبرکت کو مٹا دیتا ہے (بخاری)اور بھی کئی احادیث میں جھوٹی قسمیں کھا کر مال بیچنے کو سخت ناپسند کیا گیا ۔در حقیقت جھوٹی قسم کھاکر خریدار کو مال خریدنے پر آمادہ کرنا ایک قسم کا دھوکہ ہے ،اس لئے اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :۔ایک عام مسلمان پر کتنا علم ِ دین سیکھنافرض ہے؟
راشد سوپور
علم دین حاصل کرنے کا فریضہ
جواب:۔ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اتنا دین جانتا ہو جس سے تمام فرائض ادا کرے اور تمام حرام چیزوں سے بچ جائے ۔اس میں وضو ،غسل ،نماز ،روزہ ،زکوٰۃ اور حج بھی ہےکہ وہ ان اعمال کے فرض ہونے اور ان کو انجام دینے کے طریقوں سے واقف ہو۔اسی طرح اخلاقی ،معاشی اور گھریلو زندگی میں جو احکام اسلام نے ہر مسلمان پر فرض کئے ہیں ،وہ اُن کو جانتا ہو اور جو چیز یںحرام کی ہیں اُن سے بھی واقف ہو،مثلاً شرک ،بدعت ،والدین کی نافرمانی ،جھوٹ ،غیبت ،چوری ،رشوت ،سود ،زنا ،شراب ،ناحق قتل ،کسی کو ایذا پہنچانا ،ملازمت میں کام چوری ،وعدہ خلافی،تجارت میں ملاوٹ ،کمائی میںحرام ذرائع اختیا رکرنا ،غرض کہ تمام حرام چیزوں کو جاننا ضروری ہے ۔یہ عمل مستند کتابوں سے پڑھ کر یا معتبرعلما سے پوچھ پوچھ کرہو ۔غرض کہ اتنا علمِ دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ مسلمان بن کر زندگی گذار سکے۔