محترم مفتی صاحب،مندرجہ ذیل اہم سوالوں کےمفصل و مدلّل جواب مطلوب ہیں۔
سوال(۱) :خواب چونکہ شرعی حجت نہیںہےلیکن کیا خواب کا تعلق باہری دنیا سے نہیں ہوسکتا ؟ مثلاً کبھی خواب میں بشارتیں اور خوش خبریاں دی جاتی ہیں تو کیا اس طرح کے اچھے خوابوں کو نیک فال تصور نہیں کیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح کبھی خواب میں تنبیہ کی جاتی ہے یا بُرے حالات دکھائے جاتے ہیں،تو کیا ان کو تنبیہ مان سکتے ہیں؟
سوال(۲) :کیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کرنا بر حق ہے؟ اس کے متعلقق کوئی حدیث ہو تو با حوالہ مع تشریح تحریر فرما دیجئے۔
سوال(۳) :کیا کسی شخص کو یہ حق حاصل ہ کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے والے کسی نیک شخص کےخواب کو جھٹلائے اور اسے جھوٹا قرار دے؟ کیا اس طرح زیارت ِ رسول ؐ کے خواب کو جھٹلانا بڑی جسارت نہیں ہوگی؟ مفصل جواب عنایت فرمادیجئے۔
محمد عامر احمد خان۔بارہمولہ کشمیر
خواب کی اقسام
مُبشرات،تخٔیلات اور شیطانی اَثرات
جواب(۱) : سوال پیش کرنے والا سائل یقیناًبہت تحسین کا مستحق ہے کہ ایک اہم علمی سوال اُبھارا،جس سے یقیناً سبھی قارئین کو صحیح علم کی روشنی ملے گی اور پھر سوال بھی بہت سنجیدہ متین انداز میں سلیقہ کے ساتھ پیش کیا ۔اب جواب ملاحظہ ہو۔
خواب اگر کسی نبی کا ہو تو وحی ہوتا ہے ۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قربانی کا حکم خواب میں ہی ہوا تھا اور یہ قرآن کریم میں ہے اور احادیث سے بھی ثابت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک خواب وحی ہوتے تھے،اور خواب اگر کسی اُمتی کا ہو اور نبی علیہ السلام نے اُس کی تصدیق فرمائی تو وہ خواب بھی حُجت شرعی ہے۔چنانچہ حضرت عبداللہ ابن زید ،جو صحابی تھے ،کو پوری اذان کے کلمات خواب میں سُنائے گئے اور جب انہوں نےاس کا تذکرہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ ؐ نے فرمایا ،یہ سچا خواب ہے۔پھر حضرت بلال ؓکو بُلوایا اور اُن کو اذان کے کلمات سکھائے اور اذان پڑھنے کا حکم دیا،تو صحابی کا یہ خواب تائید نبوی سے حجت شرعی بن گیا ۔اذان بذریعہ خواب کا یہ واقعہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔(ترمذی باب الاذان)
عام انسان کے خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: مبشرات ،تخٔیلات اور شیطانی اثرات۔ ان میں سے مبشرات تو اللہ جل شانہٗ کی طرف سے ہوتے ہیں۔تخیلات سونے کی حالت میں دل و دماغ کے وہ خیالات ہیں جو کسی بھی شکل میں متشکل ہوکر نظر آئیںاورتیسرے شیطانی اثرات ، وہ دراصل انسان کے ساتھ شیاطین کے کھیل تماشے کرنے کا نام ہے اور اس میں شیاطین انسان کو پریشان کرتے ہیں۔
مبشرات میں یقیناً کبھی خوش خبریاں بھی ہوتی ہیں ،کبھی انتباہ اور کبھی تکوینی راہنمائی بھی ہوتی ہے۔بخاری شریف میں متعدد حدیثیں ہیں بلکہ پوری تفصیل سے ایک کتاب ہے جو خوابوں کے متعلق ہے جو بخاری کا حصہ ہے۔
حضرت نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ،نبوت میں کچھ نہیں باقی ہے مگر ہاںمبشرات یعنی خوشخبریاں ہیں۔عرض کیا گیا کہ وہ خوشخبریاں کیا ہیں؟ جواب میں ارشاد فرمایا : اچھے خواب۔(بخاری حدیث ۔6990)
دوسری حدیث میں ہے ۔رویائے صالحہ یعنی سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔تیسری حدیث میں ہے،جب تم میں سے کوئی اچھا خواب دیکھے تو وہ خواب اللہ کی طرف سے ہے،اس پر وہ اللہ کی حمد وثنا کرے یعنی شُکر کرےاور جب ایسا خواب دیکھے جو اُسے بُرا لگے تو وہ شیطان کی طرف سے ہے۔پس اُس کو اللہ سے حفاظت مانگنی چاہئےاور اُس خواب کا کسی سے تذکرہ نہ کرے۔(بخاری حدیث۔1984)ایک حدیث میں ہے : اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے اور بُرا خواب شیٰطین کی طرف سے ہے۔(بخاری حدیث ۔4984)
ترمذی میں ہے۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(ترجمہ) خواب تین طرح کا ہوتا ہے ۔پہلی قسم رویائے صالحہ یعنی عمدہ اور صالح خواب۔یہ اللہ کی طرف سے بشارت ہوتی ہے۔دوسری قسم وہ خواب جو شیٰطین کے طرف سے ہےاور صرف پریشان کرنے کے لئے ہوتا ہے۔تیسری قسم وہ خواب جو انسان اپنے نفس سے باتیں کرتا ہے یعنی وہ صرف دماغی تصورات و خیالات ہوتے ہیں۔(ترمذی ۔خوابوں کا بیان)
حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنی معرکتہ الآراء کتاب حجتہ اللہ البالغہ میں فرمایا ،خواب کبھی بشارتی ہوتا ہے ،کبھی ملکوتی ،کبھی شیطانی۔
بشارتی خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں ۔اُن میں خوشخبریاں ہوتی ہیں۔کبھی کسی چیز کی اطلاع ہوتی ہے اور کبھی کسی خطرے ،پریشانی یا حادثہ کے متعلق انتباہ ہوتا ہے۔اس کی مثال قرآن کریم میں بیان شدہ دو خواب ہیں۔حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں تھے۔ایک جوان قیدی نے خواب دیکھا کہ اُس کے سَر پر روٹیوں کا ٹوکرا ہے اور پرندے اُس ٹوکرے کی روٹی کھا رہے ہیں۔دوسرے نے خواب دیکھا کہ وہ شراب نچوڑ رہا ہے ۔حضرت یوسف علیہ السلام نےایک کو تعبیر دی کہ اُس کو سولی دی جائے گی اور پھر پرندے اُس کے سَر کو کھائیں گے۔دوسرے کو تعبیر دی کہ وہ بادشاہ کو شراب پلائے گا ۔اسی طرح بادشاہ عزیز مصر نے خواب میں سات لاغر گائیں دیکھیں جو سات موٹی گایوں کو کھا رہی تھیںاور سات بالیاں یعنی خوشے سَر سبز اور سات خوشے خشک دیکھے۔حضرت یوسف علیہ السلام نے تعبیر دی کہ سات سال خوشحالی اور سات سال قحط سالی کے ہونگے۔غرض کہ خواب کے ذریعہ پورے ملکِ مصر کے متعلق یہ انتباہ دیا گیا کہ آگے کیا ہوگااور قحط سے بچنے کے لئے کیا قدم اُٹھانا چاہئے۔ان دونوں خوابوں کا وہی نتیجہ نکلا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے تعبیر میں فرمایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب میں نبی پاکؐ کی زیارت ہونا برحق
جواب(۲) : خواب میں حضرت نبی کریم علیہ السلام کی زیارت ہونا برحق ہے۔چنانچہ بخاری باب۲۱میں ہے ،حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھے خواب میں دیکھا ،اُس نے مجھے ہی دیکھا اس لئے کہ شیطان میری شکل و شباہت اختیار نہیں کرسکتا۔وجہ یہ ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہدایتِ خالص اور سراسر نورانی ہیںاور شیاطین ضلالت محض اور خالص ظلمت ہے۔یہ ضلالت ِ خالص ہدایتِ خالص کی شبیہ اختیار نہیں کرسکتا ۔خواب میں حضرت رسول اکرم علیہ السلام کی زیا رت ہونا ایک کامل سچی حقیقت ہے اور ہر ہر دور میں لاکھوں کو یہ عظیم نعمتیں نصیب ہوتی رہی ہیں۔آج کے عہد میں بھی بے شمار خوش قسمت اس سے بہرہ ور ہیں۔ حتیٰ کہ بعض ایمان سے محروم لوگوں کو زیارت ہوئی ہے اور پھر اُن کو دولتِ ایمان نصیب ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیارت کے دعوے کو جھٹلانا کسی کا حق نہیں
جواب(۳) : کسی نیک شخص نے اگر اس کا اظہار کیا کہ مجھے خواب میں زیارت ہوئی ہے تو اس کی دوصورتیں ہیں ۔ایک یہ کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ،اگر ایسا ہے تو اُس کے لئے حدیث میں سخت تنبیہ ہے اور اگر اُس نے واقعتاً خواب میں زیارت کی ہے تو ہم کو یا کسی کو بھی حق نہیں ہے کہ وہ اس کو جھٹلائے اور اگر کوئی جھٹلاتا ہے تو یہ یا تو جہالت کی وجہ سے ہوگا یا عناد کی وجہ سے یا پھر تعصب اور کج فکری کی وجہ سے۔اور یہ سارے و ہ نقائص ہیں جن کی وجہ سے وہ شخص خود قابل اصلاح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :موجودہ دور میں مستورات کی دینی تربیت کی کوئی خاص تجویز بتائیں۔کیونکہ موجودہ دور میں وہ مسجد نہیں جاسکتیں ،گھروں میں ہی تربیت کا کوئی خاس انتظام نہیں اور مدرسہ بھیجنا ہر کسی کی بات نہیں،اور ہمارے یہاں درسگاہ تو ہے لیکن کوئی مقامی معلمہ نہیں ہے،
محمد شفیع خواجہ ،سوپور
خواتین اوربچوں کی دینی تربیت والدین اور سماج کی اہم ذمہ داری
اصول احتیاط اور مناسب طریقۂ کار
جواب:۔خواتین کی دینی تربیت و تعلیم اُمت کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اس میں غفلت برتنے کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں،اور آئندہ بھی زیادہ بُرے نتائج سامنے آنا ممکن ہیں۔بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کی پہلی ذمہ داری والدین کی ہے۔وہ جس طرح اپنی بچیوں کی عصری تعلیم کے لئےسخت فکر مند ہوتے ہیں اور اچھے سے اچھے سکول میں پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں،اُسی طرح جب دینی تعلیم و تربیت کے لئے فکر مند ہونگے،تو ضرور اس اہم ضرورت کا حل بھی نکلے گا ۔پہلا کام یہ ہے کہ اپنے گھر میں دین کی بنیادی تعلیم کا انتظام کریں،چاہے گھر کی کوئی خاتون پڑھائے یا پڑھانے والا باہر سے آئے،مگر محرم ہو وہ جوآئے۔دوسرے ہر محلہ میں مکتب قائم کئے جائیںاور یہ محلے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے دو مکاتب قائم کریں۔طلبا کے لئے الگ اور طالبات کے لئے الگ۔پھر طالبات کے لئے معلمات کا انتظام کرنا پورے محلے والوں کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسجد کی انتظامیہ ہی مکتب کا انتظام سنبھالے،یا محلے میںالگ سے مکتب کی انتظامیہ کھڑی کی جائے۔وہ جگہ ،معلم اور معلمہ کا انتظام کرے۔معلم اور معلمہ کا تقرر ،تنخواہ اور معائنہ اس کی ذمہ داری ہوگی۔اگر یہ نہ ہو تو ہر باپ اپنی بیٹی ،ہر بھائی اپنی بہن اور ہر شوہر اپنی زوجہ کے لئے کسی دیندار ،قابل اور تجربہ کار خاتون سے آن لائن پڑھانے کا انتظام کرے۔اور ویب سائٹوں پر جو معتبر ،مستند اور مکمل دیندار خواتین بچیوں کے پڑھانے کا کام کرتی ہیں ،اُن سے استفادہ کیا جائے۔ایسی ویب سائٹس جن کے ذریعے درست قرأت ،ضروری مسائل اور خواتین کی تربیت سے متعلق امورتفصیل سے بتائے جاتے ہیں اور دینی ذہن بنایا جاتا ہے،اُن سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ساتھ ہی بچیوں کی تربیت کے متعلق ضروری ہے کہ کم از کم تین چیزوں سے سخت پرہیز کرائیں،ہر نامحرم لڑکے سے دوری قائم رکھنا چاہئے ،وہ ماموں زاد ،خالہ زاد ،پھوپھی زاد ،چاچا زاد ہی کیوں نہ ہو۔دوسرے موبائیل کے غلط استعمال سے دور رکھنا ،تیسرے فلموں ،ڈاموں سے دور رکھنا اور بے دین خواتین سے دور رکھنا ۔ان امور کے اپنانے سے امید ہی نہیں یقین ہے کہ خواتین خصوصاً بچیوں کی تعلیم و تربیت کا کام مفید ہوگا ۔