سوال : سردیوں کے موسم میں لوگ گرم ٹوپیاں پہننے پر مجبور ہوتے ہیں ،ان گرم ٹوپیوں کو پہن کر نماز یںپڑھی جاتی ہیں۔یہ گرم ٹوپیاں کبھی پیشانی پر بھی ہوتی ہیں اور اُسی طرح سجدہ بھی کیا جاتا ہے ۔کبھی انسان کی پیشانی زمین پر نہیں ہوتی۔سجدہ ٹوپیوں پر ہوتا ہے ۔ہمارا مطلب یہ ہے کہ کہ جب نمازی اپنا سَر زمین پر رکھتا ہے توپیشانی کے بجائے زمین پر ٹوپی ٹک جاتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ اس سے نماز میں کوئی کراہت تو نہیں آتی ۔آج کل اس مسئلہ کی شدت سے ضرورت ہے اور بعض جگہ اس پر بحث و گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے۔
عبدالعزیز لون۔گریز،بانڈی پورہ
موسم سرما میں سردی سے بچنے کا اہتمام
سجدے میں ماتھے کے بجائے ٹوپی زمین سے لگے تو کوئی کراہت نہیں
جواب : سَر پر اس طرح ٹوپی ہو کہ نمازی کی پیشانی بھی اس میں ڈھک چکی ہو اور اسی طرح نماز پڑھی جائے اور زمین پر پیشانی نہیں بلکہ ٹوپی چھونے لگے تو اس سے نماز میں کوئی کراہت نہیں ہوتی۔ایسی ضرورت عموماً تین صورتوں میں پیش آتی ہے۔سجدہ کرنے کی جگہ سخت سرد ہو اور پیشانی کو اُس پر ٹیکنا سخت مشکل ہو ،جیسے یہاں پہاڑی مقامات پر لوگ زمینوں ،ندی نالوں ،پہاڑی چٹانوں پر نمازیں پڑھتے ہیں تو وہ چٹانیں سخت ٹھنڈی ہوتی ہیں ۔دوسرے سخت گرم علاقوں میں سجدہ گاہ سخت گرم ہوتا ہے،خصوصاً جب مسجد کے نیچے ماربل یا دوسرے پتھر ہوں ،جیسے مغل دور کی بے شمار بڑی مساجد مثلاً جامع مسجد دہلی ،تاج المساجد بھوپال ،شاہی مسجد لاہور ،کہ اُن میں فرش سنگِ سرخ کا ہے۔یہ گرمیوں میں سخت گرم ہوتا ،اس پر سجدہ کرنا بہت دشوار ہوتا ہے ۔اسی طرح ریگستانوں میں گرم ریت پر نماز پڑھتے ہوئے گرم ریت پر سجدہ کرنا ایسا ہوتا ہے جیسے چنگاری پر سر رکھ دی ہو۔تیسرے جب موسم سخت سرد بلکہ منفی درجہ حرارت ہو اور پیشانی کھُلا رکھنے پر سر درد یا زکام کا خدشہ ہو توایسی حالت میں پیشانی پر ٹوپی رکھ کر نماز پڑھنی پڑتی ہے ،اس سے نماز میں کوئی کراہت نہیں آتی۔حضرات صحابہ ؓ تو گرم زمین پر سجدہ کرتے ہوئے اپنی آستیں پیشانی کے نیچے رکھ لیتے تھے تاکہ پیشانی کو گرمی کی شدت سے بچائیں۔اسی طرح یہاں کشمیر میں سردی کی شدت سے پیشانی ڈھکنے کی جس کو ضرورت ہو وہ اگر ٹوپی پیشانی پر رکھے تو کوئی کراہت نہ ہوگی۔فقہ حنفی کی معروف کتاب مراقی الفلاح میں یہ مسئلہ اسی طرح ہے تاہم مساجد میں عموماً فرش گرم ہوتا ہے ،کارپٹ کی صفیں ہوتی ہیں نہ کہ ٹھنڈی چٹائیاں یا خالص ماربل ،اس لئے پیشانی ڈھکنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال : موسم سرما میں سردی سے بچنے اور گرم پانی کی فراہمی کے لئے کشمیر کی اکثر مساجد میں حمام ہوتا ہے اور بعض گھروں میں بھی۔اب کبھی اُن حماموں میں نماز پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن کچھ حضرات حمام میں نماز پڑھنے پر خدشات کا اظہار کرتے ہیں ۔اُن کا کہنا ہوتا ہے کہ حدیث میں حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہوتی ہے ۔اس لئے اس میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت احادیث سے ثابت ہے اور کیا نیچے آگ ہونے کی وجہ سے حمام میں نماز ادا کرنے میں کوئی کراہت یا ممانعت ہے ،ان دونوں سوالوں کے جواب میں صریح اور صاف تحریر فرمائیں کہ حمام میں نماز پڑھی جائے یا نہیں؟
محمد امین ۔باغِ مہتاب سرینگر
حمام کا مسئلہ
مسجد کے صوفہ پر نماز پڑھنے میں کوئی ممانعت نہیں
جواب : کشمیر میں مساجد یا گھروں میں جو حمام ہوتے ہیں ،اُن کے متعلق یہ بات طے ہے کہ یہ وہ حمام ہرگز نہیں ہیں جن کے متعلق احادیث میں نماز کی ممانعت وارد ہوئی ہیں۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پوری روئے زمین مسجد ہے مگر سات جگہیں ایسی ہیں کہ اُن جگہوں میں نماز نہ پڑھی جائے ۔اُن سات جگہوں میں سے ایک جگہ حمام بھی ہے۔یہ حدیث ترمذی میں ہے ۔اس حدیث میں جس حمام کا تذکرہ ہے وہ گرم پانی سے غسل کرنے کا ایک ایسا کمرہ ہوتا ہے جس میں کئی کئی آدمی بیک وقت غسل کیا کرتے تھے ۔یہاں کشمیر میں بھی پہلے اس طرح کے حمام ہوا کرتے تھے ،جن کو نائید حمام کہتے تھے۔
آج کل مسجدوں میں جو حمام ہوا کرتے ہیں وہ در حقیقت صوفہ ہوتے ہیں جو صفہ کی تبدیل شدہ لفظی شکل ہے ،اس صوفہ پر نماز نہ پڑھنے کے متعلق وہ حدیث ہرگز نہیں ۔اس لئے کہ یہ صوفہ اُس کا مصداق ہے ہی نہیں۔اس صوفہ پر نہانے والے افراد برہنہ ہوکر نہیں بیٹھتے ،جبکہ اُس نہانے والے حمام میں لوگ کبھی گرم پانی کے ٹب میں اور کبھی گرم پتھروں پر کافی دیر بیٹھا کرتے ہیں،جو در حقیقت ایک قسم کا علاج تھا ۔چنانچہ اطباء بھی مریضوں کو حمام کرنے کی ہدایت دیا کرتے تھے تاکہ جوڑوں اور اعصابی بیماریوں کا علاج ہوسکے۔جبکہ آج کے حمام میں یہ سب نہیں ہوتا ۔
رہا یہ کہنا کہ آج کل کے حمام میں نیچے آگ اور اوپر پتھر ہوتے ہیں ،اس لئے ان پر نماز پڑھنا نادرست یا مکرہ ہے تو یہ بھی کوئی ایسی وجہ نہیں جو شریعت کی بیان کردہ ہو۔یہ صرف عوام میں پھیلی ہوئی ایک غلط رائے ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ سخت سردیوں میں خواتین اور معمر حضرات گھروں میں بنے ہوئے ان حماموں میں بڑی بشاشت اور آرام سے نمازیں پڑھتے ہیں اور یہ بلا شبہ درست ہے۔اسی طرح جمعہ کی نمازوں میںجب مسجد بھر جاتی ہے تو بہت سارے لوگ حمام میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔اُن کی نماز ِ جمعہ کو غلط یا مکروہ قرار نہیں دیا جاسکتا ،نہ ہی کوئی شرعی وجہ ممانعت ہے۔
سوال : میں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ کچھ لوگ اپنے مقررہ وقت پر نماز ادا نہیں کرپاتے ہیں،کسی مصروفیات کی وجہ سے۔پھر وہ شام کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ نمازیں ادا کرتے ہیں ۔کیا یہ صحیح ہے؟اور میں نے یہ سُنا ہے کہ اگر کبھی کسی وجہ سے کوئی نماز اپنے وقت پہ ادا نہیں کرپائے تو کیا وہ نماز اگلے دن اُسی وقت پہ ادا کرسکتے ہیں؟
شوکت احمد ریشی ،بانڈی پورہ
نماز قضاء کرنا تباہی کی وعید
جواب : نماز کی ادائیگی وقت ِ مقررہ پر لازم ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ نماز افضل ایمان پر وقت مقرر کے مطابق لازم ہے۔دنیا کا کوئی بھی کام نماز کے وقت نماز سے زیادہ اہم اور لازم نہیں۔حدیث میں ہے کہ جس شخص نے عمداً نماز ترک کردی ،وہ کفر کے قریب پہنچ گیا ۔وقت ہوجانے کے بعد اب نماز پڑھیں اور بعد میں نماز قضا پڑھیں تو قرآن کریم نے ایسے نمازیوں کے لئے بربادی اور تباہی کی وعید سُنائی ہے۔چنانچہ ارشاد ہے :ترجمہ۔ ویَل یعنی بُربادی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو نمازوں میں سُستی اور تساہل برتتے ہیں ۔(الماعون ۔۴) اگر سوئے رہ گئے یا بھول گئے یا ایسے سخت مشکل حالات تھے کہ نماز نہ پڑھ سکے ،اور تمام کوشش کے باوجود نماز قضا ہوگئی تو پھر اس نماز کی قضا اولین فرصت میں کرنا لازم ہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غزوہ خندق کے موقعہ پر نماز عصر قضا ہوگئی،آپؐ نے مغرب کے وقت پہلے یہ عصر کی قضا پڑھی،پھر مغرب پڑھی،اور ایک حدیث میں ہے کہ خندق کے موقعہ پر ظہر ،عصر ،مغرب قضا ہوگئیں،آپ ؐ نے عشا سے پہلے یہ تین نمازیں قضا پڑھیں۔اس لئے جو نماز وقت پر نہ پڑھی گئی اُس کو جتنا جلد ہوسکے پڑھیں،جلد سے جلد پڑھیں اُتنا بہتر اور جتنا دیر کریں اُتنا بُرا ہے۔
بخار ی شریف تیمم کے باب میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز فجر قضا ہونے اور دوپہر سے پہلے پہلے ادا کرنے کابیان موجود ہے۔لہٰذااولاً تو صاحب ایمان اس کی پوری کوشش کرے گا کہ نماز اپنے وقت مقررہ پر ادا کرے،اگر کوشش کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہوسکا تو نماز قضا ہونے کا غم اور شر کا احساس ہوا ،پھررکاوٹ دور ہونے کے بعد سب سے پہلے فوت شدہ نماز کی ادائیگی کرے گا اور ساتھ ہی نماز کے قضا پڑھنے پر استغفار بھی کرے گا ۔
سوال : (۱) امام صاحب کا وضو ٹوٹ گیا،اگر وہ جہری نماز پڑھا رہا ہے اور وہ سورت پڑھ رہا تھا ،اب جو مقتدی اس کی جگہ آئے گا ،اگر وہ سورت اُس کو یاد نہیں ہوگی تو وہ کیا کرےگا،اسی طرح اگر امام صاحب سری نماز پڑھا رہا ہو تو وہ کیا کرےگا؟
سوال : (۲) موجودہ دور میں مستورات کی دینی تربیت کی کوئی خاص تجویز بتائیں۔کیونکہ موجودہ دور میں وہ مسجد نہیں جاسکتیں،گھروں میں بھی تربیت کا کوئی خاص نظام نہیں،اور مدرسہ بھیجنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں،اور ہمارے یہاں درسگاہ تو ہے لیکن کوئی مقامی معلمہ نہیں ہے۔
محمد شفیع خواجہ۔سوپور
دوران ِ نماز امام کا وضو ٹوٹنے کا مسئلہ
جواب : امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ مقتدی حضرات میں جو مناسب تر شخص ہو ،اُسی کو اپنا نائب بنائیں،پھر یہ نائب آگے کی نماز پڑھائے۔اگر سورہ فاتحہ کے بعد اتنی قرأت ہوچکی ہو ،جس سے نماز درست ہوجاتی ہے ،جس میں تین چھوٹی آیات ہوں تو اب یہ نائب آگے رکوع کرے،اگر اتنی قرأت نہ ہوئی ہو تو پھر اس کو اختیار ہے کہ جو سورت پڑھنا چاہے اُسے اختیار ہے۔کوئی مقررہ سورت لازم نہیں،اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ جو سورت امام صاحب پڑھ رہے تھے،وہی سورت یہ بھی پڑھے۔