Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

Mir Ajaz
Last updated: July 7, 2023 1:02 am
Mir Ajaz
Share
16 Min Read
SHARE

سوال : ہمارے بہت سارے اصاغر علماء اپنے آج کے اکابر علماء کے متعلق بہت اونچے درجے کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔اُن الفاظ کو پڑھ کر بہت سارے اپنے بھی اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کیا واقعتاً آج کی یہ شخصیات اپنے بڑے پن کے باوجود ان صفات کے حامل ہوسکتے ہیں؟ مثلاً ’’علامہ،محقق العصر،عارف باللہ،علامہ الدھر،عارف کامل ،روشن ضمیر ‘‘جیسے کلمات آج کی کسی شخصیت کے متعلق لکھنے اور استعمال کرنے کا رواج چل پڑا ہے اور جلسوں کے اشتہارات میں تو مبالغہ آرائی زیادہ ہی ہوتی ہے۔اسی طرح بہت سارے اپنے امام کو ’مولوی صاحب‘ کہہ دیتے ہیں ۔بہت سارے لوگ باقاعدہ علوم ِ دینیہ پڑھے ہوئے نہیں ،پھر بھی لوگ اُنہیں ’مولانا صاحب‘ لکھتے ہیں ۔کچھ علاقوں میں ایسے افراد جو ڈاکٹر نہیں مگر اُن کو ’ڈاکٹر صاحب‘ کہتے ہیں۔بعض جگہ لوگ آج کی شخصیات کے ناموں کے ساتھ ’’محققِ کشمیر ،فخر کشمیر ،محدثِ کشمیر ،نمونۂ اسلاف ،قدوۃ العارفین ‘‘وغیرہ لکھتے ہیں ۔
براہ، مہربانی اس بارے میں صحیح موقف ضرور واضح فرمائیں تاکہ اگر یہ روش قابلِ اصلاح ہو تو اصلاح ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکیل احمد عرفانی ۔مقیم حال جموں

غلو اور افراط و تفریط شریعت میں ناپسند ومنع ،اور عقل و علم کی روشنی میں بھی غیر مستحسن
جواب :غلو اور افراط و تفریط بہر حال شریعت اسلامیہ میں بھی ناپسند اور بعض امور میں سخت منع ہے اور یہ غلو عقل و علم کی روشنی میں بھی غیر مستحسن ہے۔حدیث میں ہے کہ حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’غلو سے بچو‘‘۔شخصیات کا تعارف اور ان کے کام اور کام کی عظمت کا بیان یقیناً محمود ہے مگر یہ تعارف جب مبالغہ آرائی اور غلو کی حدود میں داخل ہوجائے تو پھر تعریف و مدح سرائی کا غیر محمود عمل بن جاتا ہے۔حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ علوم و معارف کے کس بلند مقام پر تھے وہ اہل ِ علم سے مخفی نہیں۔علامہ اقبالؒ نے جن کی وفات پر جلسۂ تعزیت میں فرمایا تھا کہ اسلام کی پچھلی پانچ سو سال کی تاریخ شاہ صاحب کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔انہی علامہ کشمیری نے یہاں کشمیر میں طلاق کے ایک اُلجھے ہوئے مسئلہ پر جو جواب دیا تھا ،اُس میں یہ بھی فرمایا تھا کہ جس کتاب کا حوالہ میں نے دیا ہے ،اس کا مطالعہ میں نے پچیس سال پہلے کیا تھا ۔پھر اپنے شاگرد خاص کو مفصل جواب لکھنے کا حکم دیا ۔یہ شاگرد ِ خاص مولانا محمد یوسف بنوری تھے ۔انہوں نے نہایت اونچے القاب لکھے جو یقیناً حضرت شاہ صاحب کی شانِ علم کے مطابق تھے ،اس میں علامہ ،فہّامہ وغیرہ نہایت ارفع کلمات حضرت کے نام کے ساتھ حذف کرتے ہوئے فرمایا : صرف ’’مولوی انور شاہ صاحب ‘‘لکھو۔ہمارے تمام ہی اکبرین نہایت متواضع اور اپنے کو حقیر سمجھنے کا مزاج رکھتے تھے،اسی لئے وہ اپنے نام اور تعارف کے ساتھ کبھی بندہ،کبھی کمترین ِ خلائق ،کبھی ننگ اسلاف اور کبھی حقیر و فقیر لکھا کرتے تھے۔تواضع و کسر نفسی کا یہی مزاج ان کابرین کا امتیاز ہے۔یہ حضرات اپنے لئے ہرگز پسند نہیں فرماتے تھے کہ : لوگ ،حتیٰ کہ ان کے اپنے متعلقین و تلامذہ ان کی مدح سرائی و تعریف میں مبالغہ آرائی کریں۔بس یہی مزاج اور متواضعانہ ذہنیت بعد کے حضرات کے لئے بھی اختیار کرنے اور اپنانے کی چیز ہے۔
کسی بھی شخصیت کی عظمت اگر ہمارے دل میں ہے تو یقیناً ہم کو ان کا احترام ،ان سے محبت اور ان کے کمالات و اوصاف کا اعتراف کرنے کا حق ہے مگر ان اوصاف کو بیان کرتے ہوئے جو کلمات ان کے متعلق لکھے جائیں، ان کے متعلق پہلے غور کرنا چاہئے کہ ان کے معنی کیا ہیں اور ان معانی کی وسعت کیا ہے۔پھر غور کرنا چاہئے کہ ہماری ممدوح شخصیت ہماری نظر میں اگر عظمتوں کی حامل ہے تو کیا فی الواقع بھی وہ ایسی ہی شخصیت ہے؟ اور جو القاب میں ان کے متعلق لکھ رہا ہوں اور جن عظمتوں کا حامل میں ان کو باور کرارہا ہوں، کیا وہ اُن میں پائی جارہی ہیں؟مثلاً علامہ کا لفظ حضرت شاہ صاحب کشمیری ؒ اور شاعر مشرق اقبالؒ کے لئے زبان زد ہے۔اور یقیناً وہ علامہ تھے،یا شبلی و سلیمان ندویؒ کو علامہ لکھا جاتا ہے ،وہ بجا طور پر علامہ تھے۔اب یہی بلند ترین لقب ہماشا کے لئے لکھا جائے تو یہ تعارف نہیں ،بے جا تعریف ہے ۔آخر ہم میں کا یہ ایسا شخص علامہ کیسے ہوگا جس کی املاء و انشاء بھی قابل اصلاح ہو ۔
خلاصہ یہ کہ علم و فن کے کسی بھی میدان کی کوئی بھی ممتاز شخصیت یقیناً اس کی مستحق ہے کہ اس کی عظمت کا اعتراف ہو اور اُس کے نام و کام کا تعارف بھی ہو ،مگر غلو کے ساتھ مدح سرائی نہ ہو اور ایسے بلند القاب جو ان کے بلند قد سے بھی اونچے ہوں ،اُن پر منطبق کرنا خود ان کی نظر میں پسندیدہ نہیںاور ان القاب کا بھی یہ بے جا استعمال ہے۔کسی بڑی شخصیت کی بے جا مدح سرائی اور غلو آمیز القاب لگانے کا عمل ناپسندیدہ ہے ۔اس سلسلے میں یہ واقعہ ہم سب کے لئے چشم کُشا ہے۔
بخاری شریف کتاب المغازی میں ہے: حضرت عبداللہ بن رواح، جو عظیم صحابی اور غزوہ مُوتہ میں کمانڈر کی حیثیت سے شہید ہوئے ۔یہ ایک مرتبہ بیمار ہوئے اور بیماری کی شدت میں بے ہوشی طاری ہوئی،اس بے ہوشی کو دیکھ کر ان کی بہن بے قرار ہوکر رونے لگیں۔روتے ہوئے انہوں نے اپنے بھائی کے متعلق بین کرتے ہوئے کہا : وا جبلاہ۔۔واکذا۔۔۔واکذا۔۔۔’’ہائے میرے پہاڑجیسے بھیا ۔۔۔ہائے اتنی بہادری کے اونچے بلندی پر فائز میرے بھیا ۔۔۔۔ہائے شیروں اور ہاتھیوں سے زیادہ طاقت ور بھیا ۔۔۔۔۔‘‘وغیرہ۔اس طرح کے بہادی اور شجاعت ظاہر کرنے والے القاب بیان کر کرکے بہن نے خوب رویا ۔پھر جب عبداللہ بن رواح کو بے ہوشی سے افاقہ ہوا تو انہوں نے بہن سے کہا کہ تم نے میرے متعلق جو مدح کے القاب بولے ،اُس پر فرشتے مجھ سے کہتے جارہے تھے کہ کیا تُوواقعتاً ایسا ہی ہے؟ جیسا تیری بہن کہہ رہی ہے ،کیا تیرے اندر یہ تمام صفات ہیں،جو تیری ہمشیرہ شمار کررہی ہیں؟یہ کہہ کر حضرت عبداللہ نے اپنی بہن عمرہ کو رونے سے منع کردیا ۔پھر جب یہی عبداللہ غزوہ مُوتہ میں شہید ہوئے تو اُن کی بہن نے پورا صبر کیا اور ہرگز نہیں روئی۔۔۔۔۔یہ واقعہ غزوہ موتہ کا بیان کتاب الملغازی میں ہے۔
یہاں ایک عظیم صحابی جو واقعتہً بہت شجاع اور بہادر تھے ،اُن پر رونے کی وجہ سے اور بہادری کو مبالغہ آرائی کے ساتھ بیان کرنے پر فرشتے ناگواری ظاہر فرما رہے ہیں ۔اس سے یہ سبق ہم کو لینا چاہئے کہ ہم نے اپنے اگر کسی ممدوح کو وہ القاب دیئے جن کا وہ مستحق نہ تھا تو اُس سے اگر پوچھ لیا گیا ،کیا آپ ان عظیم صفات کے حامل ہیں جو آپ کے متعلق بیان ہورہی ہیں تو یقیناً اُن اکابر کو اپنے اصاغر کے اس طرز ِ عمل سے ناراضگی اور ناگواری ہوگی۔
خلاصہ یہ کہ اس بارے میں بہت محتاط ہونا ضروری ہے اور اعتدال کا رویہ بھی اختیار کرنا چاہئے۔
�������������������������
سوال : یہاں کشمیر میں بہت سارے لوگ گفتگو میں یہ جملہ بولتے ہیں’’الکذاب لا امتی‘‘پھر ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہے۔ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث ہے؟اسی طرح بہت ساری مجالس میں ہم کو یہ سُننے کا موقع ملا ’’قولُہٗ ایمانُہٗ ‘ اس جملے کا مطلب کیا ہے ۔یہ قول کس کا ہے ،اس کی نسبت کسی شخصیت کی طرف ہے ؟ اسی طرح یہ جملہ بھی سُننے میں آتا ہے ’’الصحبتہ من التاثیر‘‘
اس جملے کی حقیقت بھی بیان کیجئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد سلطان بٹ ۔رعناواری سرینگر

کذب بیانی گناہ۔قرآن کریم میںجھوٹوں پر لعنت فرمائی گئی ہے
جواب:جھوٹ بولنا ،کذب بیانی کرنا یقیناً گناہ ہے ۔قرآن کریم میں بھی اور احادیث شریفہ میں بھی کذب بیانی کی سخت مذمت آئی ہے ۔کذب بیانی یہ ہے جو کام نہ کیا ہو یا جو واقعہ نہ ہوا ہو ،اُس کے متعلق کوئی شخص یہ بولے کہ یہ کام ہوا ہے یا کوئی کام نہ ہوا ہو اور کوئی بولنے والا یہ بولے کہ یہ کام ہوا ہے ۔مثلاً نماز نہیں پڑھی ہے اور کوئی شخص بولے کہ پڑھ لی ہے تو یہ کذب بیانی ہے یا کسی شخص نے نشہ کیا ہے مگر بات کرتے ہوئے کہے کہ نشہ نہیں کیا ہے ۔یہ جھوٹ بولنا ہے۔بلا شبہ یہ گناہ ہے اور قرآن کریم میں کذب بیانی کرنے والوں پر لعنت فرمائی گئی ہے۔
اس کذب بیانی کی مذمت کے لئے یہ جملہ بولنا کہ الکذّاب لا اُمتی،یہ جملہ عربی ادب و اسلوب کے اعتبار سے غیر فصیح بلکہ غلط ہے اور پھر اُس کو حدیث کہنا سخت منع ہے۔چنانچہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری طرف کوئی ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی ہو ،اُس کاٹھکانہ جہنم ہے ۔(بخاری و مسلم)
خلاصہ یہ کہ یہ جملہ عربی کے اعتبار سے بھی درست نہیں اور ہرگز ہرگز حدیث نہیں ہے۔(۲) قولہ ایمانہ۔عوام میں رائج ایک جملہ ہے جس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ وہ اپنی بات کا پکّا اور وعدہ کا پانبد ہے۔اسی طرح صحبت کے اچھے یا بُرے اثرات کو بیان کرنے کے لئے یہ جملہ زبانِ عوام میں رائج ہے ،الصحبتہ من التاثیر۔عربی کے اسلوب کلام کے اعتبار سے یہ جملہ غلط ہے ۔صحبت کی تاثیر ضرور ہوتی ہے مگر یہ جملہ صحیح نہیں ہے۔
�����������������������
سوال : ایک علاقہ میں اونٹ کا گوشت دستیاب تھا ،چنانچہ یہ گوشت لایا گیا اور پکاکر کھایا بھی گیا ،پھر اس بارے میں پتہ چلا کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور یہ بھی سُنا کہ یہ حدیث میں بھی ہے۔عرض ہے کہ کیا واقعتاً اس بارے میں کوئی حدیث ہے،اگر ہے تو وہ کیا ہے اور کہاں کس کتاب میں ہے؟ نیز اب حکمِ شرعی کیا ہے ۔اگر کسی باوضو نے اونٹ کا گوشت کھایا ہو تو کیا اس شخص کا وضو باقی ہے یا نیا وضو کرنا لازم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔لطیف احمد گوجر۔نروال جموں

اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کا مسئلہ
جواب :اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کے متعلق حدیث مسلم،ترمذی ،مسند احمد ،طبرانی میں ہے۔حدیث یہ ہے: حضرت براء ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھا گیا کہ کیا اونٹ کا گوشت کھانے کی وجہ سے وضو کرنا ہوگا ۔آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ’’ ہاں! وضو کرو‘‘۔پھر سوال کیا گیا کہ کیا بکری کا گوشت کھانے سے وضو کرنا پڑے گا ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’نہیں!اس وجہ سے وضو نہ کرو‘‘
اسی طرح کی حدیث حضرت جابر بن سمرہؓ اور حضرت اُسید بن حفیرؓ سے بھی مروی ہے۔اس حدیث کی بنا پر حضرت امام احمد حنبلؒ اور حضرت اسحٰقؒ کی رائے یہی ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے کی وجہ سے وضو کرنا ضروری ہے ۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے اس پر تفصیلی بحث نقل کرکے لکھا ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے کی وجہ سے وضو کرنا ضروری ہے۔
اس رائے کے برخلاف امام ابو حنیفہ ؒ،امام مالکؒ،امام شافعیؒ اور دیگر تمام فقہاء و محدیثین کی رائے یہ ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے کی بِنا پر وضو نہیں ٹوٹتا ہے ،اس لئے کہ وضو تو جسم سے کسی نجاست کے نکلنے کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے اور اونٹ کھانے سے کوئی بھی نجس چیز مثلاً پیشاب یا پاخانہ جسم سے خارج نہیں ہوتا ،اس لئے وضو نہیں ٹوٹے گا اور حدیث میں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔رہا یہ کہ حدیث میں تو حکم دیا گیا کہ وضو کروتو اس بارے میں ان تمام فقہاء و مجتہدین نے فرمایا کہ یہاں وضو سے مراد شرعی وضو نہیں ہے بلکہ ہاتھ دھونا اور کلی کرانا ہے تاکہ گوشت کے چربی کی صفائی ہوجائے۔چنانچہ طبرانی میں علامہ ضیاء الدین مقدسی کی المختارہ میں ایک حدیث اس طرح ہے:
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص باوضو ہو پھر اُس نے کوئی کھانا کھایا تو وہ وضو نہ کرے۔ہاں! اگر اونٹ کا دودھ پیا تو پھر پانی سے کلی کرو ۔مختلف موقعوں پر بہت ساری احادیث میں وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر وہاں وضو سے مراد وضو شرعی نہیںبلکہ صرف وضو لغوی ہے اور وضو لغوی صرف ہاتھوں کو اور منہ کو دھونا ہوتا ہے۔چنانچہ ترمذی میں حدیث ہے کہ حضرت رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ کھانے کی برکت اس میں ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی وضو کیا جائے ۔اس حدیث میں وضو سے مراد ہاتھ دھونا اور کلی کرنا ہے ۔خلاصہ یہ کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے اور جس حدیث میں وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اُس میں وضو سے مراد ہاتھ دھونا اور کلی کرنا ہے۔چناچہ اونٹ کے گوشت میں چکناہٹ اور چربی کی زیادتی اس کے بغیر دور نہیں ہوتی۔

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
خصوصی درجے کیلئے آخری دم تک لڑتے رہیں گے: ڈاکٹر فاروق عبداللہ
تازہ ترین
اونتی پورہ میں منشیات فروش گرفتار، ممنوعہ مواد بر آمد:پولیس
تازہ ترین
حج 2026 کے لیے درخواستیں شروع
برصغیر
کشمیر کی سیاحت میں بے مثال اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے: منوج سنہا
تازہ ترین

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?