روزوں کو بچانے کیلئے احتیاط لازم
سوال۱:- روزہ رکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ اب روزہ رکھ لینے کے بعد کن باتوں کی رعایت کرنا ضروری ہے اور وہ کیا احتیاط ہے جس کی وجہ سے روزہ بہتر سے بہتر بن جائے ۔
سوال :۲- رمضان شریف میں افضل عبادت کیا ہے ؟
نورالدین …بتہ مالو ،سرینگر
جواب۱:-روزہ رکھنے کے بعد یہ بات بہت لازم ہے کہ روزے دار اپنے روزے کو اُن تمام خرابیوں سے بچانے کی پوری فکر کرے جو روزہ کے تمام ثمرات ، اثرات اور فوائد کو ختم کردیتی ہیں ۔ قرآن کریم میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ روزہ لازم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے اندرتقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ وہ کیفیت ہے جس کے نتیجے میں مومن تمام فرائض کو انجام دینا ہے اور تمام اُن کاموں سے بچنے لگتاہے جو اللہ اور اُس کے رسول صلعم نے حرام کئے ہیں یعنی تمام حرام کردہ اشیاء سے بچنے کا اہتمام تقویٰ ہے ۔
اب اگر روزے دار میں وہ تقویٰ پیدا نہ ہو تو یہ علامت ہے کہ روزے کو اس طرح نہیں رکھا گیا جو اُس کا اصل مطلوب تھا ۔اس لئے روزہ دار کو اس کی سخت فکر کرنی چاہئے کہ اس کا روزہ تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ بنے ،ایسا نہ ہوکہ روزہ رکھامگر فوائد سے خالی !
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ اُن کو روزہ رکھنے سے صرف فاقہ ہاتھ آتاہے اورکچھ نہیں ۔
اور ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا جس شخص نے غلط بات منہ سے نکالنے اور غلط کام کرنے سے اپنے آپ کو نہ روکا ، اس کے روزے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ۔ یعنی اگر کوئی کھانا پینا تو بند کرکے اپنے آپ کو روز دار قرار دے مگر اس نے اپنی نگاہوں کو قابو نہ کیا ،اپنی زبان کو روکے نہ رکھا ، حرام کمائی سے پرہیز نہ کیا اور وہ دوسرے قسم قسم کے گناہوں میں مبتلا رہا اُس کا روزہ صرف کھانا پینا بند کرنے تک محدود رہااور یہ روزہ حقیقی تقویٰ پیدا نہیں کرسکتا ۔اس لئے روزہ دار پر لازم ہے کہ وہ کم از کم ان چھ چیزوں سے بچنے کی پوری کوشش کرے :
۱۔ اپنی نگاہوں کی حفاظت :عریانیت کے اس پھیلتے ہوئے ماحول میں روزہ کو تباہ کرنے والی چیز بنائو سنگار اور قسم قسم کے فیشن کے ساتھ سامنے آنے والی عورتیں ہیں،اس لئے اپنی نظروں کو اُن سے بچانے کی ہرممکن تدبیر اختیار کرنا ضروری ہے ۔
۲۔پیٹ کی حفاظت : آج حلال وحرام کی تمیز پوری طرح مٹ رہی ہے او رہر شخص اس میں سرگرم ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ آئے ۔ اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ حلال آئے یا حرام ۔ خصوصاً ملازمتوں اور تجارتوں میں حرام سے بچنے کا مزاج ختم ہورہاہے ۔ اس لئے روزہ دار حرام کمانے اور پھر حرام سے سحری و افطار کرنے سے پرہیز نہ کرے تو روزہ کے اثرات پیدا ہونا ناممکن ہیں۔
۳۔ کانوں کی حفاظت : آج کے دورمیں ایک طرف غیبت سننے کا ماحول چاروں طرف ہے اور ساتھ ہی موسیقی اور نغمے بھی عام ہیں اور موبائل فون میوزک سننے کے لئےبہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں ۔اس لئے اپنے کانوں کوکم ازکم ان دو چیزوں سے بچانا ضروری ہے ۔ایک غیبت اور دوسرے میوزک۔
۴۔زبان کی حفاظت: زبان اور اس میں بولنے کی طاقت یہ دونوں اللہ کے عظیم احسان ہیں مگر اس زبان کو غیبت ، بدگوئی ، چغلی ، گالی گلوچ ، لعن طعن ، فضول گوئی ، بکواس ،لغو بیانی ،عیب چینی ، عزت ریزی ، مخالفت ، طعنہ زنی اور اس طرح کے گناہوں میں انسان مبتلا رہتاہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جوشخص مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے کہ ان کا غلط استعمال نہ کرے تو میں اسے جنت کے اندرداخل ہونے کی ضمانت دیتاہوتا۔وہ دوچیزیں ایک زبان اور دوسری شرمگاہ ۔
اس لئے روزے دار اپنے روزے کو بچانے کے لئے اپنی زبان کو پوری طرح قابو میں رکھے ۔اس میں نامحرم کے ساتھ بات چیت بھی شامل ہے کہ اس سے پرہیز لازم ہے ورنہ روزے کے اثرات بالکل بھسم ہوجاتے ہیں اور آج بکثرت یہی ہوتاہے۔
۵۔ہاتھ کی حفاظت :ہاتھوں سے دوسرے کو تکلیف پہنچانے ، ناجائز کام کرنے ،رشوت کا پیسہ لینے ،غلط اندراج کرنے ، ناجائز کاغذات پر دستخط کرنے ، نامحرم کو غلط جذبہ سے تحفے دینے اس طرح نامحرم سے مصافحہ کرنے کے جرم میں مبتلا کیا جاتاہے ۔اس سے اپنے ہاتھوں کوبچانا ضروری ہے ۔ خصوصاً چوری ،ہیرا پھیری اور نامحرم سے ہاتھ ملانا روزے کی حالت میں روزہ کو تباہ کرتاہے ۔
۶۔دل ودماغ کی حفاظت:انسان کا دل جذبات ، احساسات ، تمنّائوں اور خواہشات کا مرکز ہے اور انسان کا دماغ سوچ بچار اور اچھے برے کے لئے غور کرنے ،سوچنے اور اس کے لئے اقدام کرنے کی تدابیر کا خزانہ ہے ۔
روزہ دار اپنے دل کو اور اپنے دماغ کو تمام طرح طرح کے جذبات ، احساسات ،خواہشات ،میلانات ، خیانت ، تصورات اور تفکرات سے پاک رکھے جو اسلام نے حرام قرار دیئے ہیں اور ظاہرہے تمام جرائم کی ابتداء دل ودماغ کی سوچ سے ہی ہوتی ہے ۔ اس لئے تطہیر قلب ودماغ بھی لازم ہے تاکہ روزہ حقیقتاً روزہ بن سکے ۔
افضل عبادات کے اہتمام کا مہینہ
جواب:۲-رمضان المبارک میں سب سے اہم عبادت روزہ ہے ۔ اس لئے اس کا اہتمام ضروری ہے ۔ دوسرے نمازوں کی پابندی خصوصاً جماعت کی نماز نہایت ضروری ہے ۔ تیسرے اُن نمازوں کا اہتمام جن کا درجہ رمضان میں بہت اُونچا ہوجاتاہے ۔ مثلاً تہجد، اشراق ، اوابین اور تحتہ المسجد وغیرہ ۔
چوتھے تراویح کا اہتمام ۔خصوصاً ایسی جگہ تراویح پڑھنا جہاں پورا قرآن کریم تروایح میں پڑھا جاتا ہے۔یہی وہ قیامِ رمضان ہے جس کی تاکید احادیث میں
ہے ۔ رمضان میں پورے عالم میں تراویح میں پورا قرآن پڑھنے کا ایک پُرنور اور بہار آفرین ماحول ہوتاہے ۔ چنانچہ دنیا کے کسی بھی شہر یا علاقہ میں جہاں مسلمان آباد ہیں تراویح کا جوش وخروش اور مساجد میںشوق وجذبہ سے قرآن سننے سنانے کا ماحول قابل رشک ہوتاہے ۔اس لئے پورا قرآن کریم جہاں تراویح میں پڑھا جائے اُس تراویح میں شرکت ہونی چاہئے ۔
پانچویں :قرآن کریم رمضان میں ہی نازل ہواہے ۔ اس لئے رمضان میں تلاوت قرآن کا خوب اہتمام کیا جائے او ر کم از کم ایک ختم اس ماہ مبارک میں لازم قراردیا جائے اور جو حافظ ہوں اُن کی تلاوت بھی زیادہ سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہو۔
چھٹے:دعائوںکاخوب اہتمام کیا جائے ۔خصوصاً گناہوں کی مغفرت ،دُنیا میں دین کے غالب آنے ، ایمانی ماحول کے عام ہونے ، اُمت مسلمہ کے تمام مسائل حل ہونے ،اُمت کو قرآن وصاحب قرآن سے مربوط ہونے اور اُمت کے ہر طبقہ کی اصلاح اور پورے عالم میں دعوتی ماحول پیدا ہونے کی خوب دعائیں کی جائیں ۔ اس کے ساتھ اپنی نجی ضروریات ومشکلات کے لئے دعاء کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۔ جناب مفتی صاحب! پچھلے جمعہ کے کالم میں لکھا گیا تھا کہ آنکھ میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ حالاں کہ بہت ساری کتابوں میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ آنکھ میں دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اس مسئلہ کی دوبارہ اچھی طرح تحقیق کی جائے۔
آنکھ میں دوائی ڈالنا اور روزہ، جدید تحقیق
محمد سلیم جان، بانڈی پورہ
جواب:۔ آنکھ میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جانے کے متعلق پوری طرح تحقیق کرنے کے بعد مسئلہ یہ ہے۔
بعض کتابوں مثلاً : “جدید فقہی مسائل” ، “روزے کے جدید فقہی مسائل” اور “رمضان اور جدید مسائل” میں لکھا ہے کہ آنکھ سے حلق تک منفذ ہے۔ یعنی آنکھ میں دوائی ڈالنے سے دوائی کی ترشی و تلخی اور ذائقہ حلق میں بھی محسوس ہوتا ہے، جو علامت ہے کہ یہ دوائی حلق تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی لیے مختلف کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور بعض میں لکھا ہے کہ احتیاطاً روزہ ٹوٹ جانے کا حکم دیا جائے گا ۔ یہی مسئلہ پہلے لکھا گیا تھا۔
اس کے بر خلاف جن کتابوں میں لکھا ہے کہ روزہ نہیں ٹوٹتا ہے ۔ اُن میں سے چند یہ ہیں: فتاو یٰ عالمگیریٰ ، فتاوی ٰتاتارخانیہ، فتاویٰ ٰشامی، بدائع الصنائع، الموسوعة الفقهية، احسن الفتاویٰ، فتاوی ٰقاسمیہ، فتاویٰ علم و حکمت، کتاب النوازل، اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ ، اسلامک فقہ اکیڈمی الہند، دار الافتاء دارالعلوم دیوبند، دارالافتاء جامعة العلوم الاسلامیة بنوری ٹاؤن کراچی اور آج کے عہد میں عالم عرب کے علماء مثلاً شیخ بن باز ؒ ، شیخ یوسف القرضاوی، شیخ صالح عثیمینؒ ، شیخ وہبہ الزُحیلی وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
دراصل اس سلسلے میں سوال یہ ہے کہ آنکھ میں دوائی ڈالنے سے حلق اور معدہ تک اس کا اثر پہنچتا ہے یا نہیں؟ اگر پہنچتا ہے تو وہ مسامات کے ذریعہ پہنچتا ہے یا نالی کے ذریعہ، پھر اثر صرف ذائقہ کی حد تک محسوس ہوتا یا پورا قطرہ، پھر وہ قطرہ معدہ تک پہنچ جاتا ہے یا صرف حلق تک رہ جاتا ہے؟
اس سلسلے میں آئی سپیشلسٹ (Eye specialist) سے تفصیلی گفتگو کے بعد فیصلہ یہ ہے کہ اوپر درج شده کتابوں کے مطابق اور ماہرینِ امراضِ چشم کی تحقیق کے مطابق آنکھوں میں دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
پہلے لکھے ہوئے مسئلہ سے اب رجوع کرتے ہوئے یہ مسئلہ لکھا گیا۔