وحی،الہام اور کشف کی تصریح۔قرآن و حدیث کی روشنی میں
سوال :وحی کیا ہوتی ہے؟ اس کے کیا طریقے تھے؟ الہام کیا ہوتا ہے، کس کو ہوتا ہے؟ اور کشف کسے کہتے ہیں؟ یہ اگرچہ علمی سوالات ہیں مگر بہرحال دین کا حصہ ہیں کہ جن کا تعلق عوام اور خواص دونوں کے ساتھ ہے۔ اس لئےان کی مختصر مگر واضح تشریح فرمائیں۔
عبد الکبیر قاسمی سرینگر
جواب: وحی وہ خاص ذریعہ علم ہے جو صرف کسی نبی یا رسول کو ہوتا ہے ۔جس وقت یہ وحی آتی ہے اُس وقت وہ شخصیت جس پر وحی کا نزول ہوتا ہے، اوصاف بشری سے بالاتر ہو کر صفات ملکویت سے آراستہ ہوتی ہے یعنی اُس وقت وہ ملائکہ کے اوصاف سے متصف ہوتا ہے۔ جب نزول وحی کی کیفیت اختتام کو پہونچتی ہے تو وہ نبی اپنی انسانی صفات کی حالت میں واپس آجاتا ہے۔
چنانچہ احادیث میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کے نزول کے وقت کی کیفیات منقول ہیں کہ سخت سردی کے وقت پسینہ آنا، کپکپی طاری ہونا، تیز سانس آنا، جسم اطہر بھاری ہو جانا اور اس دنیا سے بے تعلق ہو جانا وغیرہ۔ حضرات صحابہ ؓ نزول وحی کے وقت کی حالت بکثرت دیکھتے رہتے تھے۔ اس لئے جب بھی وحی شروع ہو جاتی تھی تووہ سمجھ جاتے تھے کہ وحی کا نزول ہو رہا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ سخت سردی کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبین ِمبارک پر پسینہ کے قطرے آتے تھے (بخاری ۔وحی کا بیان)
دوسری حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہے کہ وحی کے نزول کے وقت آپ ؐ پر کپکپی طاری ہوتی تھی ۔ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ وحی کے وقت آپ ؐ اونٹنی پر سوار تھے تو وحی کی بوجھ کی وجہ سے اونٹنی فوراً نیچے بیٹھ گئی۔ غرض وحی وہ ذریعۂ علم ہے جو قطعی ہے ،نبیوں ؑکے ساتھ خاص ہے اور نبی کو بشریت کے اوصاف سے بالاتر لے جا کر ملکوتی صفات سے متصف کر کے اُس پر وحی کا نزول ہوتا ہے۔ اس وحی کے آنے کی مختلف صورتیں ہوتی تھیں۔
۱۔کسی وقت ایک آواز سنائی دیتی تھی، اس کو حدیث میں صلصلۃ الجرس کہا گیا ہے۔ یعنی گھنٹی کی جیسی آواز شروع ہو جاتی۔ اس کے بعد وحی نازل ہوتی تھی۔ (بخاری)
۲۔کسی وقت فرشتہ اپنی اصلی صورت میں آتا اور کلام سنا کر چلا جاتا۔ (بخاری)
۳۔کسی وقت فرشتہ انسانی شکل میں آتا اور آپؐ سے ہم کلام ہوتا۔ (فتح الباری)
۴۔کبھی براہ راست اللہ کا کلام آپؐ پر نازل ہوتا اور یہ بلا واسطہ مکالمہ ہوتا۔ (القرآن)
۵۔کبھی مکالمہ الٰہی کسی حجاب کے ساتھ ہوتا۔ مثلا ً آواز کسی مخلوق کے اندر سے آتی۔جیسے حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر تھے اور درخت کے اندر آگ تھی اور اس سے آواز آئی کہ( ترجمہ(: میں ہی تمہارا رب ہوں۔ (القرآن سورہ طہ)
۶۔کبھی وحی خواب کی صورت میں آتی ہے۔ اس لئے نبی اپنی نیند میں بھی مکمل بیدار مغز ہوا کرتے ہیں تاکہ اگر ان پر خواب میں کوئی وحی آئے تو وہ پوری طرح محفوظ رہے۔ (بخاری)
قرآن کریم اور احادیث شریفہ کے بیانات سے وحی کی یہ صورتیں معلوم ہوتی ہیں جو اختصار سے نقل کی گئی۔ مزید تفصیل متعلقہ مفصل کتابوں میں پڑھی جا سکتی ہیں۔ یہ وحی حضرات انبیاء علیھم السلام کے ساتھ خاص ہے۔ غیر انبیاء پر وحی نہیں آتی۔
� الہام وہ علم ہے جو براہ راست دل میں القاء کیا جاتا ہے۔پھر یہ القاء قلبی اگر کسی نبی یا رسول پر ہو تو وہ وحی ہوتا ہے اور وہ قطعی بھی ہوتا ہے، اس میں کوئی شک یا تذبذب نہیں ہوتا اور اگر کسی غیر نبی کو ہو تو وہ قطعی نہیں ہوتا۔ اس لئے غیر نبی کا الہام حجت شرعی نہیں ہے اور نبی کا الہام وحی ہے۔
الہام انبیاء علیم السلام کے علاوہ دیگر انسانوں کو بھی ہوتا ہے۔ جس کا دل جس درجہ نورانی اوصاف سے مزین ہوگا ، اسی درجہ اُس پر الہامات ہوتے ہیں۔ مگر ان الہامات سے شریعت کے احکام پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔
انبیاء کا الہام اوامر اور نواہی کے متعلق بھی ہو سکتا ہے جب کہ غیر انبیاء کا الہام صرف بشارتیں اور تفہیمات اور پیشین گوئی کے قبیل سے ہوتا ہے۔ یعنی جو کچھ ہو چکا ،اُس کے متعلق یا جو ہونے والا ہو، اُس کے متعلق الہامات ہوسکتے ہیں۔ جن سے احکام شرعیہ پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ یہ الہام کا مختصر بیان ہے۔ اب کشف کی حقیقت ملاحظہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کسی نبی یا ولی پر کوئی مخفی امر کھول دیتے ہیں یا نظروں سےاوجھل کسی حقیقت کا مشاہدہ کرا دیتے ہیں یا مستقل میں پیش آنے والے کسی بھی خیر یا شَرکے معاملے کو پہلے منکشف کر دیتے ہیں، اس انکشاف کو کشف کہا جاتا ہے۔یہ کشف کبھی غیر انسان کو بھی ہوتا ہے، اس کو وجدانی علم کہتے ہیں۔ چنانچہ جانوروں کو بھی کشف ہو سکتا ہے۔ مثلاً کسی خطہ میں سیلاب یا زلزلہ آنے والا ہو اور کچھ جانور اس خطہ سے پہلے نکل جاتے ہیں تو یہ ان جانوروں پر کشف ہوا یا کسی جگہ کسی حادثہ کے آنے سے پہلے وہاں کے جنگلی یا گھریلوں جانور غیر طبعی چیخ و پکار کرنے لگے تو یہ دراصل ان جانوروں پر کشف ہوتا ہے۔ اسی طرح مثلا کوئی انسان دن میں سوچتا ہے کہ کاش مجھے فلاں صاحب سے ملاقات ہوتی یا کھانے پینے کی چیز ملتی اور اسی وقت یا تو وہی چیز اس کو مل جائے یا اسی شخص سے اس کی ملاقات ہو جائے تو حیرت زدہ ہو کر کہتا ہے کہ میرے دل میں تو یہی خیال آرہا تھا۔ یہ بھی کشف کی ایک قسم ہے یا مثلاً کسی شخص کے آنے کا بظاہر کوئی امکان نہ ہو مگر دوسرے آدمی کے دل میں آگیا کہ وہ ضرور آئے گا اور وہ واقعی آگیا تو یہ کشف ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ،علم الکلام از مولانا ادریس کاندھلوی وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: بہت سارے لوگ مختلف بیماریوں میں یا جنات کے اثرات ختم کرنے یا نظر بد کا اثر زائل کرنے لئے کچھ آیات اور کلمات پڑھ کر پھونک مارتے ہیں۔اسی طرح کچھ حضرات قرآنی آیات یا احادیث کی دعائیں لکھ کر تعویز بنا کر جسم کے کسی حصہ میں باندھتے ہیں ۔ مثلاً وضع حمل کا تعویز لکھ کر حاملہ عورت کے پیٹ پر باندھتے ہیں تاکہ وضع حمل آسانی سے ہو۔
اس سب کا ثبوت کیا ہے؟کیونکہ بہت سارے لوگ اس میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ مثلاًکچھ لوگ شرکیہ تعویز بھی لٹکاتے ہیں اور کچھ لوگ قرآنی تعویزوں کو بھی شرک قرار دیتے ہیں۔ اگر معوذ تین پڑھ کر دم کیا جائے تو وہ شرک نہیں ہوتا یہی معوذ تین لکھ کر اگر گلے میں باندھا جائے تو وہ شرک کس طرح ہوگا؟ اسی کا جواب مطلوب ہے۔
معراج الدین ۔بانڈی پورہ
قرآنی آیات یا احادیث کی دعائیں لکھ کر تعویز بناکےجسم پر باندھنے کا مسئلہ
جواب: بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ حضرات صحابہ سفر میں تھے تو وہاں کسی قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا تھا پھر صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری نے ان کو سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور وہ صحت یاب ہوگیا۔نیز بخاری و مسلم میں ہی روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فلق اور سورہ الناس جن کو معوذ تین کہا جاتا ہے، پڑھ کر اپنے جسم پر دم کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی تکلیف ہوتی تھی تو آپ معوذات پڑھ کر اپنے بدن اطہر پر پھونک مارتے تھے۔( بخاری)
بخار ی میں ہی روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وصال کے موقعہ پر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے معوذ تین پڑھ کر حضور نبی علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں پر دَم کیا اور وہ مبارک ہاتھ آپ ؐ کے چہرے اور جسم پر پھیرے۔
ابو داؤد میں حدیث ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف ،ڈر وغیرہ کے لئے یہ دعا سکھائی تھی۔ حضرت عبد اللہ یہ دعا اپنے بچوں کو سکھاتے تھے اور جو بچے ابھی چھوٹے ہوتے تھے اور یاد نہیں کر پاتے تھے۔ ان بچوں کے لئے یہ دعا لکھ کر ان کے گلے میں لٹکاتے تھے۔ وہ دعا یہ ہے:اعوذ بکلمات… تا آخر۔
ابو داؤد کی شرح بذل امجہود میں ہے کہ اس سے قرآنی تعویز لکھنے اور گلے میں لٹکانے کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے۔
زمانہ جاہلیت میں شرکیہ تعویز اور شرکیہ چیزیں بھی گلے میں لٹکائے جانے کا کام ہوتا تھا اور آج بھی دنیا کی مشرک قومیں شرکیہ کے تصور کی بنا پر گلے میں طرح طرح کی چیزیں مثلا جنگلی لکڑی، جڑی بوٹی، ناخون، جانور کا سینگ، کسی جانور کے چمڑے کا ٹکڑا، مخصوص قسم کا دھاگہ وغیرہ لٹکاتے ہیں۔ اس کو تمیمہ یا رقیہ شرکیہ کہا جاتا۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب شرکیہ اعمال کو حرام قرار دیا اور اس کے لئے صاف صریح حدیثیں موجود ہیں۔ اب تعویز کی دو قسمیں ہوئیں۔ مشرکانہ تعویز پڑھنا ، پھونکنا ، لٹکانا اور ان سے شفا کی امید رکھنا سب حرام ہے اور دوسرے قرآنی تعویز یا احادیث کی دعائیں ۔ یہ سب پڑھ کر دم کیا جائےیا پانی پر دم کر کے متاثرہ شخص کو پلایا جائے یا کسی پلیٹ یا کٹورے پر آیات یا آحادیث کی دعائیں زعفران وغیرہ سے لکھ کر پھر ان میں پانی ڈالا جائے اور وہ پانی بغرض شفا پیا جائے یا آیات قرآنی کے مستند نقش لکھ کر جسم پر باندھے جائیں یا پانی میں ڈال کر پئے جائیں تو یہ جائز ہے، یہ شرک نہیں ہے۔ اس لئے کہ آیات اور مسنون دعائیں شرک کیسے ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ بیشمار اکابرِ اُمت جن میں محدثیں اور فقہاء بھی اولیاء اور صلحا بھی قرآنی عملیات کے ذریعہ علاج کرتے اور کراتے تھے بلکہ بعض بڑے اکابرین نے اس کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں جیسے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور بعد کی شخصیات میں حضرت علامہ انور شاہ صاحب اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ہمارے عہد میں حضرت اقدس مفتی محمود حسن گنگوہی اور حضرت مولانا قاری سید محمد صدیق صاحب باندوی ؒ کی تعویزوں کی بیاض موجود ہے۔
اس سب کے ساتھ یہ عقیدہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ شفاء اللہ کے ہاتھ میں ہے نہ دوا میں، نہ تعویز میں، نہ ڈاکٹر کے ہاتھ میں، نہ طبیب کے بس میں اور نہ کسی کی پھونک میں، نہ کسی کی تحریر میں۔ البتہ عمل کے لئے جائز اور ناجائز ہونا ضروری ہے جیسے جسمانی بیماری میں حرام اور نجس چیز سے علاج کرانا منع ہے،اسی طرح کسی جسمانی یا ذہنی یا نفسیاتی بیماری میں یا کسی خوف اور ڈر میں یا آسیب اور سحر میں یا جنات کے بُرے اثرات ختم کرنے کے لئے شرکیہ کلام غیر شرعی تعویز سے علاج کرانا شرعا ًمنع ہے۔ یاد رکھیں کہ مشرکانہ تعویز لکھنے والوں کے پاس جانا بھی منع ہے، وہ تعویز لینا بھی منع ہے اور استعمال کرنا تو حرام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:اگر کسی شخص نے صرف ڈرانے دھمکانے کے لئے بیوی کو کہا کہ ’’ میں تم کو چھوڑ رہا ہوں ‘‘ یا بیوی سے لڑتے جھگڑتے کے وقت کہے’’ مجھے تم سے رشتہ نہیں رکھنا ہے‘‘ یا ’’ میں یہ رشتہ ہی ختم کروں گا‘‘ جبکہ اسطرح کے جملے کہنے کے وقت طلاق کی نیت بھی نہ تھی اور جملہ یہی بولا کہ چھوڑ رہا ہوں۔تو کیا ا ن جملوں سے طلاق واقع ہو جائے گی؟ جواب عنایت فرمائیں۔
محمد یوسف ۔سوپور
میاںبیوی کے جھگڑوں اور شوہر کی جُملہ بازیوں سے طلاق نہیں ہوتی!
جواب :جب شوہر نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تم کو چھوڑ رہا ہوں اور یہ بھی کہے کہ میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی۔ جب طلاق دینے کی نیت نہیں تھی تو پھر اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اگر کسی شخص کی زوجہ شوہر سے کہتی ہے کہ آپ نے بہت دفعہ کہا کہ مجھے آپ کے ساتھ رشتہ نہیں رکھنا ہے تو اس سے بھی طلاق واقع نہ ہوگی۔ اسی طرح جب شوہر یہ کہتا ہے کہ مجھے رشتہ ختم کرنا یا تم کو نہیں رکھوں گا تو اس سے بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ در حقیقت یہ مستقبل میں رشتہ کو ختم کرنے کا ارادہ ہے، ظاہر کرنے والے جملے ہیں جبکہ طلاق دینے کے لئے ماضی کا جملہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ان جملوں میں آئندہ کا ارادہ کیا جا رہا ہے۔ جب آئندہ اپنے ارادے کے مطابق قدم اٹھایا جائے تب یہ رشتہ ختم ہوگا۔