سوال:-جب کسی شخص کا انتقال ہوتا ہے تو اُس کی وراثت اُس کے وارثین میں تقسیم ہوتی ہے، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ بیٹیوں کو اُن کا حصہ قبضہ میں نہیں دیا جاتا اور جب منتقلی جائیداد کے وقت بیٹے اور بیٹیوں کو سراجلاس بلا کر انتقالِ وراثت تصدیق کیا جاتاہے ۔یہاں پر بھی بیٹیاں اکثر اپنے براداران کے حق میں جائیداد سے دستبردار ہوجاتی ہیں جب کہ وہ ابھی جائیداد کی مالک ہی نہیں ہوتیں اور ’’بخش دیتے ہیں ‘‘کا جملہ استعمال کیاجاتاہے ۔ بعض اوقات بیٹیوںکویہ کہہ کرمجبور کیا جاتاہے کہ آپ کو اپنے میکے میں یعنی بھائیوں کے پاس آنا جانا ہے اگر آپ نے حصہ لے لیا تو میکے میں آمد ورفت سے دستبردار ہوناہوگا اور اسی عوامی ذہنیت کی بناء پر بیٹیاں بھی سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے حصہ لے لیا تو ہم نے میکے آنے کا راستہ بند کردیا۔
اس صورت حال کو مدنظر رکھ کر آپ سے گزارش ہے کہ منتقلی وراثت کا مسنون طریقہ کیا ہے ۔ براہ کرم تفصیلاً جواب سے آگاہ فرمائیں ۔
ایک سائل… سرینگر
وراثت میں بیٹیوں کا حصہ
قبضہ میں لینے سے پہلے ہبہ کرانا غیر درست
جواب:-والد کے فوت ہونے کے بعد جیسے بیٹے وراثت کے مستحق ہوتے ہیں اُسی طرح بیٹیاں بھی مستحق ہوتی ہیںاور یہ حق قرآن کریم نے صاف اور صریح طور پر واضح کیا ہے ۔ وراثت کا استحقاق بیان کرنے کے ساتھ قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ کا مقررکردہ فریضہ ہے ۔یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ کی قائم کردہ حدود ہیں اور جواِن حدود کی خلاف ورزی کرکے معصیت کا ارتکاب کرے اُس کے لئے دردناک عذاب ہوگا ۔تقسیم وراثت میں شرعی احکام کی خلاف ورزی کرنے پر دشمنانِ اسلام کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ بھی ہاتھ آتاہے اور یہ مسلمانوں کی غلط کاری کا نتیجہ ہوتاہے کہ وہ اپنی بدعملی سے اسلام پر اعتراضات کراتے ہیں ۔کسی شخص کے فوت ہونے پربیٹے کو دوحصے اور بیٹی کو ایک حصہ حقِ وراثت قرآن کریم نے مقرر کیا ہے ۔ بھائی کا بہن کو حصہ دینا کوئی احسان نہیں بلکہ حکم قرآنی پر عمل ہے ۔ اب اگر کوئی بہن دل کی رضامندی سے از خود اپنا حصہ اپنے بھائی کو بخش دینا چاہے تو اُس کے لئے بہتر اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے اُس کا حصہ اُس کے قبضہ میں دے دیا جائے ۔جب وہ اپنے حصہ پر قابض اور متصرف ہوجائے اُس کے بعد جب چاہے اپنے بھائی کو بطورِ ہبہ کے دے سکتی ہے ۔تقسیم سے پہلے اور قبضہ میں لینے سے پہلے ہبہ کرنا غیر منقسم اورغیر متعین مال کا ہبہ ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں ہبہ مشاع کہاجاتاہے اور یہ ہبہ مشاع درست نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- مساجد میں لوگ نماز سے پہلے صفوں میں یا اِدھر اُدھر بیٹھتے ہیں پھر مکبر تکبیر کہتاہے اور جب قدقامت الصلوٰۃ تک پہنچتاہے تو امام اور مقتدی نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح سے صفیں دُرست نہیں ہوتیں ۔ جب دوسرے مفتی صاحبان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا پہلے صفیں دُرست کرو پھر تکبیر کہی جائے لیکن جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ کہتے ہیں بیٹھنا ہی سنت ہے ۔ اس طرح کچھ لوگ کھڑے رہتے ہیں اور کچھ لوگ بیٹھے رہتے ہیں ۔ براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کیجئے ۔
محمد اشرف بٹ …پلوامہ
قدقامت الصلوٰۃ نماز کے لئے کھڑ ے ہونے کا آخری لمحہ
جواب:نمازشروع کرنے سے پہلے امام اور مقتدی کا لازمی فریضہ اور شرعی حکم صفوں کادُرست کرناہے۔ یہ حدیث وفقہ کی ہر کتاب سے صاف ظاہرہے۔ چنانچہ دورِ نبوتؐ سے لے کر آج تک پورے عالم میں یہی طریقہ رائج ہے کہ صفیں درست کرنے کا اہتمام ابتداء سے ہی کیا جاتاہے اور ایک طرف سے مکبر تکبیر پڑھتاہے دوسری طرف سے مقتدی حضرات اپنی صفیں دُرست کرتے ہیں اور تکبیر ختم کرنے پر امام پھر ایک بار متنبہ کرتاہے کہ صفیں دُرست کی جائیں، خالی جگہوں کو پُر کیا جائے ۔ اس کے باوجود صفوں کی درستگی میں نقص رہتاہے۔
اب اگر صفوں کو درست کرنے کا اہتمام شروع نہ کیا جائے تو تکبیر کے ختم پر امام کو یا تو طویل انتظار کرناپڑے گا یا صفوں کے درست ہوئے بغیر نماز شروع کرنی پڑے گی۔ حرمین شریفین میں بھی اور یہاں کشمیر میں بھی ہمیشہ سے اسی پر عمل رہاہے کہ آغازِ اقامت کے ساتھ ہی امام ومقتدی کھڑے ہوتے ہیں ۔
اگر مقتدی صفوں میں درست طرح سے بیٹھے ہوئے ہوں اور درمیان میں جگہیں خالی نہ ہوں اور امام اپنے مصلیٰ پر بیٹھا ہوا ہو تو اس صورت میں اس کی اجازت ہے کہ مقتدی حضرات بیٹھے رہیں اور قدقامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہوں ، یہ کھڑے ہونے کا آخری لمحہ ہوگا۔
اس کے بعد بیٹھنا دُرست نہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے پہلے کھڑا ہونا منع ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے بعد کوئی بیٹھا نہ رہے ۔ حضرات صحابہؓ کبھی اس طرح کھڑے ہوجاتے تھے کہ حضرت بلالؓ تکبیر پڑھتے مقتدی حضرات کھڑے ہوتے او رحضرت رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام ابھی تشریف فرما نہ ہوتے اس لئے سب کو کھڑے ہوکر انتظار کرناپڑتا تھا ۔ اس صورت حال کے متعلق آپ ؐ نے ارشاد فرمایا تب تک کھڑے مت ہواکرو جب تک مجھے آتا ہوا نہ دیکھ لو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-چند بھائی اکٹھے کاروبار کرتے ہیں اور ہرایک بھائی ماہانہ یکساں رقم خرچے کے لئے اٹھاتاہے ۔ کچھ بھائیوں کا اس رقم سے اچھی طرح گزر بسر ہوتاہے جب کہ کچھ بھائیوں کا گزارہ مشکل سے ہوجاتاہے حتیٰ کہ بیمار کے لئے دوا ئی وغیرہ خریدنے کے لئے بھی قرضہ لینا پڑتاہے اور کھانے پینے اور پہننے میں نہایت سادگی اپنانے کے بعد بھی علاج کے لئے مقروض ہوناپڑتاہے ۔ کیا شریعت میں اس چیز کا کوئی حل موجود ہے کہ مشترکہ کاروبار کے ہوتے ہوئے عیال دار بھائی کو چُھوٹ ملے جس سے وہ بھی زندگی کے دن خوشحالی سے گزار سکے ۔
عنایت اللہ …مُنہ گام،کشمیر
مشترکہ کاروبار سے خرچہ اُٹھانے کا معاملہ
جواب:-مشترکہ خاندان میں متعدد برادران ایک ساتھ رہائش پذیر ہوں تو جس بھائی کے خرچے زیادہ اور آمدنی ناکافی ہو تو دوسرے بھائیوں پریہ اسلامی فریضہ ہے کہ وہ صلہ رحمی کریں ، حق قرابت اور اخوت نسبتی ودینی کی رعایت کرتے ہوئے اُس پر کم سے کم بار ڈالیں اور جب عیال کثیر کی بناء پر اُس کومقروض ہوناپڑتاہے تو دوسرے بھائیوں پر لازم ہے کہ وہ اس صورتحال میں تعاون اور اعانت کا روّیہ اپنائیں ۔حتیٰ کہ اگراُس کے قرضہ کی ادائیگی میں اس کو صدقہ دیں تو یہ بھی درست ہے۔گھر کے خرچے کے لئے مساوی رقم لینے پر اگر کسی بھائی کو واقعتاً بارپڑتاہے تو یا تو اس سے خرچہ کم لیں اور یا اس کے انفرادی خرچے مثلاً علاج ،تعلیم،کپڑے وغیرہ کے لئے اپنی مخصوص رقم سے مدد کریں ۔ اس طرح قرآنی حکم کے مطابق ذوی القربیٰ کا حق بھی ادا ہوگا اور صلہ رحمی کا حکم بھی پوراہوگااور یہ بھائی اور اس کے عیال اُن کا احسان مند ہوکر ان کے ساتھ اخلاقی طور پر معاون ومددگاربھی ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح نصف ایمان
سوال:کیا یہ صحیح ہے کہ حدیث میں یہ بیان ہوا کہ نکاح کرنا آدھا ایمان ہے۔ اگر یہ حدیث ہے تو اس کے الفاظ کیا ہیں اور نکاح آدھا ایمان کیسے ہے اس کی وضاحت کریں؟
عابد علی…لال بازار سرینگر
جواب: یہ بات درست ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علی ہوسلم نے ارشاد فرمایا کہ نکاح نصف دین ہے۔ چنانچہ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے۔ حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ مسلمان جب نکاح کرتا ہے تو اپنے نصف دین کو مکمل و محفوظ کرلیتا ہے۔ اب اس کو چاہئے کہ بقیہ نصف دین کے بارے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے۔اس حدیث کے متعلق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انسان عموماً دو ہی وجہوں سے گناہ کرتا ہے، شرمگاہ اور پیٹ۔یعنی جنسی جذبات کی بناء پر اور کھانے پینے کی وجہ سے۔جب نکاح کر لیا تو اب زنا،بدنظری، غیر محرم سے تعلقات قائم کرنے کے جذبہ سے محفوظ رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ اب نظر کی طہارت، عفت و عصمت کی حفاظت، پاک دامنی اور حیاء، نظر اور خیالات کی یکسوئی اور غلط رُخ کے احساسات اور تخیلات سے بچائو حاصل ہونے کا سامان مل گیا تو دین کو تباہ کرنے والے ایک سوراخ کو بند کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اب بقیہ نصف یعنی کھانے پینے کی وجہ سے جو گناہ ہوتے ہیں اُس کی فکر کرے۔ اس میں حرام دولت، چوری، رشوت ، دھوکہ،فریب اور ہر طرح غیرشرعی اکل و شرب شامل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۔اسلام کو کیسے سمجھیں یا اسلام سمجھنا یااسلام کے بارے میں پڑھناکہاں سے شروع کریں؟
اسلام کو کیسے سمجھیں
ساجد ،کپوارہ
جواب:۔اسلام کو سمجھنے کے لئے عقائد ،اعمال ،اخلاق اور تمام حرام چیزوں کو جاننا ضروری ہے ،اس کے لئے پہلے ایمان ،پھر نماز ،سیکھنا ضروری ہے پھر اگر مالدار ہو تو زکوٰۃ کی تفصیل اور رمضان کے روزے کے مسائل جاننا لازم ہے۔نماز کے لئےوضو اور غسل کا طریقہ سیکھنا ہے اور جو جو کام اسلام نے حرام کئے ہیں اُن کو معلوم کرنا اور اُن سے پرہیز ضروری ہے۔اسلام پڑھنے کے لئے پہلے ایمان ،پھر نماز سیکھیں،پھر قرآن کریم پڑھیں اور ساتھ تعلیم الاسلام پڑھیں ،پھر آگے بڑھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔