سوال: آج کل نکاح اور شادیوں کا موسم ہے۔
۱۔نکاح کی مجلس میں کئی معاملات درپیش ہوتے ہیں،جن میں شرعی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ان میں ایک یہ بھی ہے کہ نکاح پڑھنے والےخطیب صاحب یا امام صاحب کو جو ہدیہ دیا جاتا ہے،وہ دینا یا نکاح خواں کا لینا درست ہے یا نہیں؟برائے مہربانی اس کو تفصیل سے لکھیں۔اس میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔
وارث بخاری۔رئیس تنظیم الائمہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح خوانی عبادت کا عمل
جواب : نکاح پڑھانے والے شخص ،چاہےوہ مقامی ہو یا کوئی اور شخص،اُس کو اپنی خوشی سے نکاح خوانی پر ہدیہ دینا بالکل درست ہے ۔لیکن کوئی نہ دے اور دینے کا ارادہ بھی نہ ہو تو پھر نکاح خواں کا یہ مطالبہ کرنا درست نہیں کہ نکاح خوانی کی اُجرت دے دو۔
دراصل نکاح خوانی ایک عبادت کا عمل ہے اور اس پر نہ اُجرت مقرر کرنے کا حق ہے اورنہ اُجرت طلب کرنے کا حق۔لہٰذا مسئلہ شرعی یہ ہےکہ اگر نکاح خوان کو اُس کے مطالبہ کے بغیر لڑکے والے یا لڑکی والےاپنی خوشی اور رضامندی سے ہدیہ کی نیت سے کچھ دیں تو درست ہے بلکہ بہتر ہے کہ خوشی سے دیں اور زیادہ سے زیادہ دیںاور اگر کچھ بھی دینے کا نہ ارادہ ہو اور نہ طے ہوا ہو، تو پھر نکاح خواں کا مطالبہ کرنا،اصرار کرنا، چاہے اُجرت یا ہدیہ کہیں صحیح نہیں۔اس مسئلہ کی مکمل تفصیلات امداد الفتاوی از کلیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی مین الصراح فی اجرۃ النکاح میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : شادیوں میں جو تھان کے نام سے زیورات لینے دینے کا رواج ہے ،وہ کبھی نکاح مجلس میں اور کبھی بعد کی ازدواجی زندگی خصوصاً جب زوجین میں کبھی نزاع ہوتا ہے تو یہ سنگین اختلافات کا سبب بنتا ہے ۔پھر کبھی برادری والے ،کبھی عدالت اور کبھی مفتی صاحبان اس اُلجھن کو حل کرنے میں پریشان ہوجاتے ہیںکہ یہ تھان کس کا حق ہے۔یہ دینے والوں کو ملنا چاہئے یا لینے والی دلہن کا حق ہے۔؟ یہ تھان کیا ہے،اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کے لئے شرعی اصول کیا ہیں ؟ اس کا جواب آج کی اہم ضرورت ہے۔
محمد عُبید وگے ۔حاجن بانڈی پورہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھان دینا شرعی طور پر
لازم بھی نہیں اور منع بھی نہیں
جواب :شادیوں میں تھان کے نام سے جو زیورات دینے کا رواج ہے، اُس میںنکاح کی مجلس میں یا آئندہ زندگی میں جو اختلاف ِرائے پیدا ہوتا ہے اور کبھی شدید نزاع بھی بن جاتاہے ،اس کو ختم کرنے کے لئے یہ چند اصول اگر ابتدا میں ہی اپنائے جائیں تو پھر نہ کوئی اختلاف ہوگا نہ نزاع اور فیصلہ بھی آسان ہوگا ۔
۱۔ تھان دینا شرعی طور پر لازم بھی نہیں ہے اور منع بھی نہیں ہے۔اگر کوئی دے ،جیساکہ عموماً دیا جاتا ہے تو درست ہے اور کوئی نہ دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
۲۔شریعت اسلامیہ نے مہر دینا لازم کیا ہے اور وہ دونوں طرف کے ذمہ دار حضرات کو طے کرنا ہوگا ۔خود شریعت نے مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے ۔البتہ جو مقدار بھی مہر کی طے ہو ،اُس کو ادا کرنا لازم ہے۔یہ قرآن کریم و حدیث مبارکہ کا حکم ہے۔
۳۔تھان کے نام سے جوزیورات لائے گئے یا پہلے دیئے گئے ،سب سے بہتر یہ ہے کہ وہ مہر قرار دئے جائیںاور نکاح میں اس کی اچھی طرح سے وضاحت اور صراحت سے اظہار ہو ۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آئندہ اس بارے میں کوئی ابہام نہیں رہے گا کہ یہ شوہر کا ہے یا زوجہ کا ۔
۴۔اگر مہر الگ سے دونوں طرف کے ذمہ دار حضرات نے طے کیا اور وہ مہر اُسی مقدار کے مطابق ادا کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اپنی رضا مندی اور خوشی سے تھان کے نام سے زیورات دیئے جارہے ہیں تو مجلس ِ نکاح میں یہ طے کردیا جائے کہ تھان کے نام سے دیئے گئے تمام زیورات بطورِ تحفہ اور ہدیہ کے دیئے گئے اور لڑکے کا اس پر کوئی حق نہ ہوگا ۔پھر اس کے ساتھ ہی نکاح کےکالم میں مہر لکھ کر پھر تھان کے سامنے یہ جملہ لکھا جائے ،زیورات حسب منشا بلا مطالبہ بطور ِ تحفہ دیئے گئے اور منکوحہ کی ملکیت قرار پائے۔یا یہ جملہ لکھا جائے ،تھان کے نام سے دیئے گئے تمام زیورات منکوحہ کی مملوکہ ہیں بوجہ ہبتہً دینے کے۔جب دونوں طرف کے وکیل اور گواہان اور مجلس نکاح کے شرکا اس حقیقت کو سمجھ لیںگے کہ تھان کے نام سے دیئے گئے یہ تمام زیورات چاہے جس مقدار کے ہیں ،یہ سب تحفہ اور ہدیہ قرار پائے تو پھر آئندہ اس میں کسی نزاع کے پیدا ہونے کا کوئی خدشہ نہ رہے گا ۔
مجلس میں جب یہ واضح ہوگیا تو آئندہ یہ سوال ہی نہ ہوگا کہ یہ کس کا ہے۔اس کے ساتھ ہی کچھ مسلمان معاشروں میں یہ رواج بھی ہے کہ مہر کے علاوہ جو زیورات لائے جاتے ہیں ،وہ منکوحہ کو صرف استعمال کرنے دیئے جاتے ہیں اور زیورات لانے والے اور ان زیورات کو لینے والے اس سے واقف ہوتے ہیںکہ یہ زیورات صرف بطورِ استعمال کے ہیں اور لڑکی ان کی مالک نہیں ہے۔اب اگر یہاں کوئی شخص اس نیت سے زیورات دے کہ یہ صرف استعمال کرنے کے لئے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ نکاح مجلس میں اس کا اچھی طرح سے اظہار ہو اور نکاح نامہ میں بھی لکھا جائے کہ یہ زیورات بطورِ عاریت ہیں ۔اس صورت میں اگر لڑکی والے چاہیں تو وہ یہ زیورت اُسی وقت واپس کردیں گے اور اگر چاہیں تو صرف استعمال کرنے کی نیت سے رکھ لیں۔مگر ساتھ ہی یہ بات اچھی طرح واضح ہو نا ضروری ہے کہ عاریتہً دیئے گئے زیورات شوہر جب چاہے واپس لینے کا حق رکھتا ہے اور اگر رشتہ ٹوٹ جائے تو عاریتہً دِئے گئے زیورات لڑکے والوں کو واپس مانگنے کا حق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جن مدّوں پر چھوٹ ملتی ہے اس میں ایک تو وہ رقم بھی ہے جو بطور کرایہ یا رینٹ (House Rent Allowance) کے ایک ملازم کوملتی ہے ۔ بشرطیکہ وہ کرائے کے مکان میں رہ رہاہواور اس کے ثبوت میں ایک حلف نامہ اور کرائے کی ادا شدہ رقم کی رسیدیں بھی پیش کرناپڑتی ہیں ۔ کچھ لوگ یہ حلف نامہ بناکر یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ کے مکان میں رہ رہے ہیں یا مکان بیوی یا کسی اور رشتہ دار کے نام پر ہے جبکہ کچھ لوگ اپنے ملازم کے لئے ایک کمرہ کرایہ پر لے لیتے ہیں ا ور اس کو دکھایا جاتاہے ۔ یا کوئی دوکان وغیرہ بغرض پارٹ ٹائم جاب (Part Time Job)یعنی ڈیوٹی اوقات کے علاوہ وقت میں استعمال کے لئے لیا جاتاہے ۔کیا اس بنیاد پر چھوٹ حاصل کرنا دُرست ہوگا ؟
منصور احمد ——-سرینگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرضی کرایہ نامہ دکھا کر
انکم ٹیکس چُھوٹ حاصل کرنے کا مسئلہ
جواب: -انکم ٹیکس کی چھوٹ جن جن صورتوں میں ہوتی ہے ان میں ایک صورت یہ ہے کہ ملازم واقعتا کرایہ کے مکان میں رہتاہو اور ہ کرایہ نامہ کرایہ کی رسید یں وغیرہ بطور ثبوت کے پیش کرے تو اس سے انکم ٹیکس کی چھوٹ سے فائدہ اٹھانا چاہے تواس سے انکم ٹیکس ساقط کیا جاتاہے ۔اب اگر کسی شخص نے غلط کرایہ نامہ اور اس کی بناء پر وہ انکم ٹیکس کی چھوٹ سے فائدہ اٹھانا چاہئے تو ظاہرہے کہ یہ کذب بیانی ہے ،فریب ہے اور دھوکہ ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی اپنے باپ کے مکان میں ساتھ رہتا ہو یا بیوی یا کسی اور رشتہ دار کے مکان میں رہتا ہومگر اسے کوئی کرایہ نہ دینا پڑتاہو تو ظاہرہے کہ اس صورت میں اگر اس نے کرایہ دار کہہ کر انکم ٹیکس سے اپنے آپ کو بچا لیا تو اس میں بھی جھوٹ بولنے کا گناہ یقیناً ہوگا۔
لیکن یہ جھوٹ بول کر یا جعلی کرایہ نامہ دکھاکر فریب دینے ، جھوٹ بولنے ،کذب بیانی کا گناہ ہونے کے باوجود انکم ٹیکس کی جو رقم اس شخص نے بچالی وہ رقم اس کے لئے حرام نہ ہوگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔