Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
اداریہجمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: November 18, 2016 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
15 Min Read
SHARE
مسلم پر سنل لاء کی اہمیت اور سہ طلاق پر شور و غوغا کی حقیقت !
سوال: مسلم پرسنل  لاء بورڈ تین طلاق اور اسکے ساتھ جُڑے ہوئے چند مسائل کے متعلق ایک مہم چلا رہا ہے۔ اس سلسلے میں چند اہم سوالات ہیں؟
(۱) مُسلم پرسنل لاء کیا ہے۔ اس کے دائرے میں کیا مسائل ہیں؟
(۲) اسلام میں اُس کی حیثیت اور اہمیت کیا ہے؟
(۳) اس کا تحفظ اور بقاء کیسے ممکن ہے؟
(۴) خود مسلمانوں کا طرز عمل کیا ہے اور خود اپنی اصلاح کیلئے کن امور کی ضرورت ہے؟
(۵) مسلم پرسنل لاء بورڈ نام کا فورم کن افراد اور طبقات پر مشتمل ہے اور اس کی اعتباریت کیا ہے؟
محمد ادریس الرحمن متعلم علوم عالیہ
دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کشمیر
 
 جواب:۔ انسان کی عائلی زندگی(Family Life) کی بنیاد نکاح پر ہے۔ پھر جب ایک مرد او ر عورت کا نکاح ہوتا ہے تو دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض لازم ہوتے ہیں ۔ اس رشتہ نکاح کے نتیجے میں اولاد کی نعمت ملتی ہے تو اولاد کے حقوق اور فرائض کا بھی ایک دوسرا باب کھل جاتا ہے۔ پھر اگر رشتہ کامیاب نہ ہو پائے تو اُس کو ختم کرنے کے طریقہ کار کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ختم کرنے کا اقدام کبھی مرد کی طرف سے ہوتا تو اس کو طلاق کبھی عورت کی طرف سے ہوتا ہے تو اُسے خلع، اور کبھی مسلم عدلیہ کے ذریعہ مخصوص احوال و عوارض میں نکاح ختم کر دیا جاتا ہے۔  تو اُسے فسخ نکاح کہا جاتا ہے۔اگر رشتہ کامیاب رہے تو کبھی ایک دوسرے کو طرح طرح تحائف اور ھبہ کرنے کے معاملات ہوتے اور کبھی وصیت کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور پھر جب کسی ایک کی وفات ہوجائے تو اُس کی وراثت تقسیم کرنے کیلئے مفصل ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس طرح یہ عائلی زندگی ان مسائل کا احاطہ کرتی ہے جو اپنی ذیلی جزئیات کی بنا پر ہزاروں احکام کا مجموعہ بنتے ہیں۔ جن میں نکاح، مہر، جہیز، ھبہ، وصیت، تقسیم وراثت وغیرہ شامل ہے۔ یقینا ان میں ہر ہر عنوان اپنے ذیل میں بہت سی جزئیات و تفصیلات پر مشتمل ہے۔ اس پورے مجموعہ کو پرسنل لاء بھی کہا جاتا ہے اور عرب دنیا میں اس کو احوال شخصیہ کا عنوان دیا گیا ہے جب اس شعبۂ زندگی ، جس سے ایک خاندان کی تشکیل ہوتی ہے، کیلئے قانون بنایا جائے، تو اگر عام انسانوں یا حکومتوںیا قانون سازی کرنے والے کسی ادارے کی طرف سے بنایا گیا یہ قانون کسی ملک کے تمام باشندوں پر یکساں طور پر نافذ ہو تو اُسے کامن سول کوڈ کہتے ہیں اور اگر کسی مذہبی یا لسانی اکائی نے خود اپنا مخصوص قانون اس کے لئے مقرر کر رکھا ہو تو اُسے پرسنل لاء کہا جاتا ہے۔ چاہئے یہ کسی بھی مذہب یا سماج کے لوگوں کا ہو ،وہ یقیناً  ان کا پرسنل لاء کہلائے گا۔ اب مسلم پرسنل لاء عائیلی زندگی کے اُن تمام اہم ابواب ،جو اوپر درج ہوئے ، کے متعلق شریعت اسلامیہ کے اُس مجموعۂ قوانین کا نام ہے جو قرآن حدیث ، اجماع امت اور مجتہدین کے اجتہاد سے مدون کیا گیا ہے ۔ گویا مسلم پرسنل لاء مسلمانوں کے لئے اسلام کا مقرر کردہ قانون ہے۔ نکاح، طلاق، نفقہ، حضانت، ثبوت نسب، فسخ نکاح، مہر و جہیز، خلع، ھبہ و صیت وقف اور وراثت کے متعلق پیش آنے والے معاملات کے متعلق جو احکام قرآن وحدیث سے صراحتہً ثابت ہیں وہ بھی مسلم پرنسل لاء کا حصہ ہیں اور جن نئے پیش آمدہ مسائل کے متعلق قرآن و حدیث میں صراحتہً اور وضاحتہً حکم موجود نہیں ہے اُن کے متعلق فقہا اور مجتہدین نے اپنے اجہتادات کے ذریعہ جو احکام بیان کئے ہیں وہ بھی مسلم پرسنل لاء کا حصہ ہیں۔ اس طرح یہ ایک مکمل اور فطرت انسانی سے ہم آہنگ قانون ہے۔ اسلام اور دیگر مذاہب میں جو طرح طرح کے فرق ہیں اُن میں سے ایک فرق یہ بھی ہے کہ اسلام نے انسان کی عائلی زندگی کے لئے اخلاقی تعلیمات کے ساتھ مفصل قانون بھی عطا کیا ہے۔ اس لئے کسی مسلمان کے لئے اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہ اس قانون سے باہر نکلے جبکہ دیگر مذاہب میں ا س سلسلے میں صرف اخلاقی تعلیمات پر اکتفا کیا گیا ہے اور قانون سازی کا اختیار اُن کے مذہبی اداروں کو دیا گیا ہے ۔ جیسے عیسائیوں کے لئے کِلسایا مذہبی پارلیمنٹ۔ اصولی طور پر ہر مسلمان جیسے اپنے عقائد و عبادات میں اپنے دین و شریعت پر عمل کرنے کا پابند ہے اسی طرح وہ عائلی معاملات، معاشرتی مسائل۔ معاشی امور اور سماجی و سیاسی نظام میں بھی  اپنے دین پر عمل پیرا ہونے کا مکلف ہے۔ چنانچہ جہاں بھی مسلمانوں کے اپنے ہاتھ میں اقتدار اعلیٰ ہے،وہاں کے مسلمان سیاسی نظام میں خلافت قائم کرنے اور معاشی نظام میں اسلام کے نظام معیشت نافذ کرنے، اور معاشرتی و سماجی زندگی میں اسلام کی معاشرتی و عائلی تعلیمات و قوانین کو عملاً جاری کرنے اور پورے معاشرے کو  اسی پر استوار کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔ 
برصغیر میں جب برطانوی اقتدار قائم ہوا تو اُن کا اصل ہدف اس پورے خطے کو مذہبی طور پر بھی اور تہذیبی و تمدنی طور پر بھی مکمل طور تبدیل کرنا تھامگر یہاں کی اقوام نے اسے قبول نہیں کیا  اور اُن میں سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مزاحمت جس قوم نے کی وہ مسلمان تھے اور یہ اس لئے کہ انگریزوں نے یہاں کاا قتدار مسلمانوں سے ہی چھیننا تھا ۔ دوسرے سب سے زیادہ قتل عام انہوں نے مسلمانوں کا ہی کیا تھا اور تیسرے مسلمان اپنے مستحکم اور مضبوط مذہبی نظام حیات کے علمبردار ہونے اور قرآن و صاحب قرآن( حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان کے سبب اُن کیلئے سب سے بڑا سدِ راہ بلکہ کامیاب مقابل بن کر سامنے آئے۔ اس لئے اخیر میں انگریزوں نے اپنے اقتدار کے لئے عافیت اسی میں سمجھی کہ یہاں کی ہر چیز کو مٹانے کے نشے میں کہیں ہمارا اقتدار ہی جلد غروب کاشکار نہ ہو جائے، نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے یہاں مسلمانوں کے شدید مطالبہ پر مجبور ہو کر شریعت ایکٹ پاس کیا۔ جس میں عائلی زندگی کے تمام مسائل کے لئے یہ بات طے کی گئی کہ ان تمام معاملات میں مسلمانوں کی شریعت میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی اور اگر ان معاملات میں سے کوئی مقدمہ انگریزی عدالت میں آئے تو اُس عدالت سے بھی اسلام کی شریعت کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا۔ اور اس کے مسلمان علماء بطور جج ، قاضی رہیں گے۔ چنانچہ مفتی صدر الدین آزردہ ؔ،جو اصلاً کشمیری تھے اور انتہائی معتبر عالم تھے اورجن کے مداح سر سید احمد خان بھی رہے ہیں ( آثارلصنادید جو سرسید مرحوم کی تصنیف ہے میں اُن کی عظمتوں کا اعتراف ہے) انگریز گورنمنٹ کی عدالت میں جج تھے اور مسلمانوں کے عائلی مسائل کے فیصلے کرتے تھے۔ بس اس طرح انگریز دور سے پرسنل لاء کی اصطلاع رائج ہوئی اور اسی طرح انگریز دور میں مسلم پرنسل کو شریعت ایکٹ کے عنوان سے تحفظ دیا گیا۔
انگریزوں کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ہندوستان کو ایک جمہوری اور سکولر ملک قرا ر دیا گیا تو تمام مذہبی اکائیوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گذارنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن اس دستوری حق کے باوجودہندوستان کی بہت سارے سیاسی لوگ، پارٹیاں، دانشور حتیٰ کہ بعض مسلمان بھی اپنے سیاسی مفادات،  جہالت یا غلط اور سطحی معلومات کی بنا پر مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کیلئے بار بار کوشش کرتے رہتے ہیں اور آج بھی  اسی اقدام کی سعی ہو رہی ہے۔ اگر خدانخواستہ مسلم پرنسل لاء ختم کرکے کامن سول کوڈ نافذ کر دیا گیا تو پھر مسلمان ان تمام عائلی قوانین میں اسلام پر عمل کرنے سے محروم ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں نہ اُن  کے نکاح شرعاً درست رہیں گے، نہ اُن کے تعلقات زوجیت حلال رہیں گے نہ اُن کی اولاد حرامی ہونے سے بچ سکے گی۔ نہ اُن کی وراثت ہی  شرعی اصول کے مطابق تقسیم ہوگی اور جب تقسیم  شرعی اصول کے مطابق نہ ہوگی تو وہ حلال بھی نہ ہوگی۔ نکاح، طلاق، خلع،ہبہ، نفقہ، وصیت اور وراثت کے تمام اسلامی احکام ختم ہو جائیں گے اور اس طرح مسلمان طرح طرح کے حرام کاموں کا ارتکاب کرنے پر مجبور ہونگے اور قانون اُن کو تحفظ دیتا رہے گا۔ گویا مسلمان حرام اولاد اور حرام مال وراثت میں لینے کا ارتکاب کرنے لگیں گے۔ اس لئے1972میں ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک ادارہ بنام مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم کیا، جس میں پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی ہے ۔چنانچہ اس بورڈ جماعت اسلامی، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی، شیعہ، بوہرہ وغیرہ تمام طبقات شامل ہیں ۔ نیز علماء وکلاء حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے سبکدوش مسلم جج، مسلمان اہل سیاست، دانشور، ارباب صحافت اور اہل قلم، غرض کہ مسلمانوں کے تمام طبقات پر مشتمل یہ ایک متحدہ پلیٹ فارم ہے اور اپنے مقصد تاسیس میں ابھی تک کامیاب بھی ہے۔ آج جو تین طلاق کا مسئلہ اُٹھایا گیا وہ دراصل مسلم پرنسل لاء کو ختم کرنے کیلئے صرف ایک عنوان ہے۔ اس سے پہلے متبنٰی بل ، نفقۂ مطلقہ کابل اور شاہ بانو  کیس بھی اس طرح کی کوششیںتھیں۔ جو کامیاب نہیں ہوئیں اور اب آج پھر اس کی کوشش ہو رہی ہے اور عنوان تعدد ازواج اور تین طلاق اختیار کیا گیا جبکہ تین طلاق کو قانوناً بند کرنا اسلام کے اصول طلاق کے خلاف ہے۔ بخاری شریف کتاب الطلاق ( باب طلاق الثلاثہ) میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلا ق دی۔ بخاری میں ہی دوسری حدیث ہے کہ حضرت طویمر عجلانی نے اپنی بیوی کو لعان کے بعد تین طلاق دی۔ اس کے علاوہ بیہقی، مجمع الزوائد، طبرانی، نسائی، موطاء مالک، مصنف عبدالرزاق میں تین طلاق دینے کی احادیث موجود ہیں، جو نافذ کی گئیں ۔کبھی بھی تین طلاق کو غیر نافذ نہیں مانا گیا۔ اس پر پوری اُمت مسلمہ متفق ہے۔
اب اگر عورتوں پر رحم کرنے کے نام پر تین طلاق کو قانوناً جرم قرار دیا گیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں میں تین تین طلاق والی خواتین بیویاں بن کر مردوں کے ساتھ زندگی گذاریں گی اور شرعی طور پر اُن کا نکاح بھی باقی نہ ہوگا اور تعلقات بھی حرام ہونگے اس کے بعد جو نسل وجود میں آئے گی وہ بھی اولاد حلال نہ ہوگی۔ اس لئے اب ہندوستان کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ مسلم پر سنل لاء کے تحفظ کیلئے ہر ممکن و مفید قدم اُٹھائیں اور اس کے ہی ساتھ تمام مسلمانوں پر یہ فرض بھی ہوگاکہ وہ خود نکاح، طلاق، خلع اور وراثت غرض کہ تمام عائلی احکام شریعت پر عمل کریں نہ مرد عورتوں کے حقوق غصب کریں نہ اُن پر ظلم و زیادتی کریں اور نہ ہی عورتیں شوہروں کی نافرمانیاں کریں۔
اگر مسلمان اپنے معاشرے میں ظلم، اسراف، حق تلفی، غیر اسلامی رسموںکی پاسداری، جہیز اور اس طرح کے دوسرے غیر شرعی غیر اخلاقی کام کرتے ہیں تو اسلام کے مخالفین کو موقع ملتا ہے کہ وہ احکام اسلام کو ہی ختم کرنے کے نعرے لگائیں اور چونکہ مسلمان احکام اسلام توڑ کر عورتوں پر خود ظلم و زیادتی کرتے ہیں تو بہت سارے مسلمان بھی اپنی نادانی کی وجہ سے اس کو اسلام کے سرڈال کر اس کو ختم کرنے کی تائید کرتے ہیں حالانکہ کسی فرد ِمسلم کا جرم اسلام پر عائد کرنا غیر عقلی ہے لہٰذا مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کیلئے خود کی غلط روش اور خلاف ورزی کی اصلاح بھی ضروری ہے اور اس کے مخالفین کی تیشہ زنی سے بھی ضروری ہے۔ 
      
 صدرمفتی دارالافتاء
دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ 
 

 

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اننت ناگ میں اپنی پارٹی کا یک روزہ کنونشن ،سات دہائیوں سے زائد عرصے میں جو کچھ کھویا وہ راتوں رات واپس نہیں آ سکتا: سید محمد الطاف بخاری
تازہ ترین
جہامہ بارہمولہ میں 13سالہ کمسن دریائے جہلم میں ڈوب گیا،بازیابی کیلئے بچاؤ آپریشن جاری
تازہ ترین
امر ناتھ یاترا کے لیے جموں میں رجسٹریشن مراکز پر عقیدت مندوں کا ہجوم، سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات
تازہ ترین
امر ناتھ یاترا جموں و کشمیر کی روحانی یکجہتی اور ثقافتی ورثے کی علامت : نائب وزیر اعلیٰ
تازہ ترین

Related

اداریہ

کرتب بازی یا موت سے پنجہ آزمائی؟

June 30, 2025
اداریہ

! شائد یہ خواب کبھی حقیقت بن جائے

June 29, 2025
اداریہ

منشیات کیخلاف جنگ جیتنا ہی ہوگی

June 27, 2025
اداریہ

بھوک سے بڑی وباء کوئی نہیں!

June 26, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?