سوال:۔ ہمارے اس معاشرے میں ہر ُسو فاحشات، منکرات اور دیگرجرائم کا سمان روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ دخترا ن قوم کے حساس طبقے کیلئے ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ وقت اور زمانہ اُن سے آگے بڑھنے کیلئے مروجہ تعلیم اور دیگر علوم اور ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور استفادہ کرنے کا تقاضا کرتا ہے تاکہ انکی کے اندرکی فطری صلاحیتوں اور قابلیت میں نکھار آسکے اور اپنے گرد ونواح اور سماج میں اپنا مطلوبہ مقام حاصل کرسکیںلیکن بدقسمتی سے انہیں اپنا ’’ اصلی مقام‘‘ اور عزت اور وقار برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھنے میں بہت ساری رکاوٹیں حائل رہتی ہیں۔جن کے ساتھ اُن کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے وہ باطل نظریات اور مغربی تہذیب سے اس حد تک متاثر ہو چکی ہیں کہ حساس اور دین پسند خواتین کا اس ماحول میں عملاًPrecticallyاس جھنجھٹ سے بچ نکل کر آگے بڑھنا اگرچہ ناممکن نہیں لیکن انتہائی مشکل اور کارِ دار والا معاملہ ضرور ہے ۔ اس دلدل میں یہ کیسے دین پر جمی رہ کر آگے بڑھ سکتی ہیں؟
سوالـ۔ ان گردگوں حالات میں جب کہ قوم سرکار کے ناقص اقتصادی نظام کے سبب ایک عجیب قسم کی بے چینی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے ایک مفلوک الحال عورت اپنے شوہر کی وفات، علالت یا کسی معذوری کے سبب کیسے اس مہنگائی اور مقابلےCompetionکے دور میں ’’ عزت اور وقار ‘‘ کیساتھ اپنے اہل و عیال کی کفالت کرے, خصوصاً جب کسی کے سامنے اپنا حال عیاں یابیان کرنا یا ہاتھ پھیلانا اپنی عزت نفس کے خلاف اور گناہِ کبیرہ سمجھتی ہو؟
سوال:۔ میاں بیوی ملازمت کرتے ہیں، صبح کو نکلتے ہیں اور شام کو آجاتے ہیں اور اپنے شیر خوار بچے کو نوکر یا دادا، دادی کے سپرد کرکے اسکو فیڈر( بوتل) کے ذریعے دودھ پلایا جاتا ہے، بلکہ کئی خواتین اپنے حسن اپنے نشیب و فراز اور چال ڈھال برقرار رکھنے کیلئے سرے سے ہی بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں، اس میں کچھ قباحت تو نہیں؟ مذہب اور سائنس اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
سوال:۔ کیا ایک عورت کیلئے کسی ادارے مثلاً ہسپتال یا کمیونیکیشن(سینٹر) میںرات کی ڈیوٹی پر رہنا جائز ہے؟ کس صورت میں جائزہ اور کس صورت میں ناجائز ہے؟
سوال:۔ ہمارے یہاں روزمرہ کی زندگی میں ایک رواج ہے کہ حیاداری کے بہ سبب میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنے اپنے ناموں سے نہیں پکارتے( خصوصاً جب خاندان مشترکہ ہو) مثلاً، ’’بیوی‘‘ کو ’’ شوہر‘‘ کو پکارنا ہو تو’’ تو بیٹے‘‘ کا نام لیکر پکارتی ہے اسی طرح ’’ شوہر‘‘ کو ’’ بیوی‘‘ کو پکارنا ہو تو اپنی ’’ بیٹی‘‘ کا نام لے کر پکارتا ہے حالانکہ دونوں جانتے ہیں کہ بیٹا بیٹی وہاں موجود نہیں ہوتے یعنی ’’بیوی ‘‘ کو بلانے کی نیت سے اس طرح ’’ بیٹی‘‘ کا نام لیا جاتا ہے کہ ’’ بیوی‘‘ خود بہ خود سمجھ جاتی ہے کہ مجھے پکارا جا رہاہے اس میں کچھ قباحت تو نہیں ہے؟ وضاحت فرمائیں؟
دلشادہ رشید صوفی
مادی دنیا میں خواتین کو درپیش مسائل اور انکا تدارک
جواب :۔ خواتین کو تعلیم یا علاج معالجہ یا کمائی کیلئے باہر نکلنے کی اگر مجبوری ہو تو تمام باطل نظریات سے ، بے حیائی اور عریانیت سے اور طرح طرح کی ان خرابیوں سے ،جن میں مبتلا ہونے کا آج خطرہ رہتا ہے، سے حفاظت کرنے کا شدید اہتمام و فکر خود اُن کی اپنی ذمہ داری ہے ۔ایسا نہ ہو کہ سماج میں مقام پانے کے چکر میں عصمت لٹ جائے۔ جنسی آلودگی کا شکار ہو نا پڑے اور دین و اخلاق، حیاء و پاکدامنی سے ہاتھ دھونا پڑے وہ مقام جو سما ج میں حاصل کیا گیا نہ اُسکی حیاء باقی رہے گی نہ عصمت بچ سکی اور نہ عورت کی وہ فطری حالت باقی رہ سکی جو اُسکا جوہر تھا تو اُس مقام سے کہیں بہتر وہ گھر کا مقام ہے جہاں یہ سارے اخلاقی اور صاف محفوظ رکھے جاسکیں۔
اسلام نے صاف صاف حکم دیا کہ اپنے گھروں میں قرار کرو ( القران) یہ حکم دراصل عورت کی حفاظت کی غرض سے ہی ہے۔ اب اگر عورت صرف سماجی و مادی مقام پانے کیلئے اپنی حیاء ، عصمت اور نسوانیت کی پروا نہ کرے اور اسکی قیمت پروہ یہ سمجھے کہ میں نے سماج میں مقام پالیا ہے تو یہ وہ دھوکہ ہے جس کا شکار مغرب کی عورت ہو گئی ہے اور اب اُس مغربی عورت کی نظر میں نہ حیاء و عصمت کے کوئی معنیٰ یا قدر و قیمت ہے اورنہ اس کو بچانے کی کوئی حِس باقی بچی ہے۔ ظاہر ہے کوئی مسلمان خاتون اس کا تصوربھی نہیں کرسکتی۔ اس لئے اپنے ایمان ،ا خلاق، عادات ، عصمت، حیاء اور عفت کو پوری طرح محفوظ رکھنے اور اس کے کامیاب بنانے کا تمام تر انتظام اُسے خود کرنا لازم ہے۔ چاہئے اُس کو باہر نکلنا ترک کرنا پڑے۔ جس کی نظر میں اُن اوصاف و امتیازات کی اہمیت ہے جو اسلام عورت کے اندر دیکھنا چاہتا ہے اسکو سماج کا وہ مقام ہر گز قابل قبول نہیں جس کی قیمت پر اسکی اپنی نسوانی خصوصیات کی نیلامی ہو۔ اس کیلئے اجنبی ہی نہیں اپنے قریب تر اقارب سے بھی کچھ فاصلہ رکھنا ضروری ہے اور اپنے نفس و شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچنا بھی ضروری ہے۔ اورآج کے جو وسائل عموماً اس میں مبتلا ہونے کے سبب بنتے ہیں یا تو اُن کا استعمال ہی نہیں کرنا چاہئے یا پھر اُن کے استعمال میں بہت محتاط رہنا ہے۔ خصوصاً موبائیل، فیس بک، انٹرنیٹ اور دوسرے مواصلاتی ذرائع نیز اس کیلئے ضروری کہ ’’ مثالی بیٹی‘‘ نا م کی کتاب پڑھیں اور ویسی ہی بیٹی بن کر دکھا دیں۔ اختصار کے ساتھ یہ سمجھیں کہ اپنے ایمان، اخلاق، حیاء، عصمت، اور پاکدامنی کی ایسی حفاظت کریں کہ جب نکاح کے بعد اپنے ہونے والے شوہر کے پاس پہونچیں تو فخر سے کہہ سکیں کہ میں مکمل طور پر محفوظ، پاکدامنی با عفت اور ہر قسم کی آلاائشوں سے پاک ہوں۔ سخت سردی میں باہرنکلنے والا اپنا حفاظتی انتظام خود کرتا ہے یا باہر نکلنے سے پرہیز کرتا ہے یہ صحت کے لئے ہوتا ہے۔ بس یہی اصول عفت و عصمت کیلئے بھی ہے۔
یتیموں کی کفالت اعزاء و اقارب کی ذ مہ داری
جواب :۔ اگر کسی عورت کا شوہر وفات پا چکا ہے اور وہ یتیم بچوں کو چھوڑ کر رخصت ہو کیا تو اس شوہر کے والد، بھائیوں اور دوسرے اقارب کی بھی ذمہ داری ہے اور اس بیوہ عورت کے میکے والوں اور دوسرے رشتہ داروں کا بھی فرض ہے کہ ان کا تمام بوجھ اپنے کندھوں پر لیں۔ اگر خدانخواستہ بیوہ کے سسرال اور میکے والے سارے اس قدر بے غیرت ہوں کہ وہ نہ ان یتیم بچوں کی دیکھ بھال کرنے پر تیار ہوں اور نہ اُن کی کفالت پر آمدہ ہوں، حالانکہ یہ اُن کی دینی ذمہ داری بھی ہے اور ملی و اخلاقی ذمہ داری بھی ،تو ایسی صورت میں ان یتیم بچوں کی تعلیم اور پرورش کیلئے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ کسی قابل اعتماد یتیم خانے میں ان کی دینی و عصری تعلیم کابھی انتظام کرائیں اور پرورش کا بھی۔ ایسی حالت میں جب کہ کوئی انکا پرسان حال بن سکے اور نہ خبر گیری و کفالت کرنے کی فکر کرے تو پھر یتیم خانہ ہی اس کا حل ہے۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو پائے تو پھر اس عورت کو کمر ہمت باندھ کر اپنی عصمت بچا کر مزدوری کرکے اپنے بچوں کی پرورش اس وقت تک کرنی چاہئے جب تک کہ وہ کم از کم مزدوری کے قابل بن سکیں اور ساتھ ہی ان بچوں کو ایسے کام سکھائیں جن سے وہ روز گار کمانے کے قابل ہو سکیں۔ان میں معماری، نجاری،، گلکاری، بجلی و نکہ فیٹنگ اور شہید کی مکھیاں، ریشمی کیڑوں کی پرورش یا جو مروجہ گھریلو صنعتیں شامل ہیں۔ ایسے دسیوں کام ہیں۔ جن کیلئے کسی تعلیم کی بھی ضرورت نہیں سکھانا بہت بہتر ہوگا۔ اگر یہ بھی مشکل ہو تو یہ خاتون کسی ایسے مرد سے نکاح کرنے کی کوشش کرے جو اس کے یتیم بچوں کی کفالت کے لئے بھی آمادہ ہو جائے اور اس سب کے ساتھ ساتھ یہ بیوہ خاتون اپنے یتیم بچوں کیلئے اللہ کی رحیم بارگاہ میں مسلسل دست بد عا رہے۔ جب وہ اپنی پاکدامنی کا آنچل پھیلا کر رات کے اندھیرے میں اپنے اللہ کے سامنے آنسو بہا کر دُعائیں کرنے لگے گی تو یقیناً اللہ کی طر ف سے بچوں کیلئے مکمل کفالت کا محیرّ العقول غیبی انتظام سامنے آئے گا۔ یہ ہمار ایمان بھی ہے یقین بھی اور مشاہدہ بھی اور بار بار کا مشاہدہ ہے۔
ماں کا دودھ پینا بچے کا حق
جواب:۔ ماں کے ذمہ بچے کی پرورش کا حق ہے اس پرورش میں دودھ پلانا بھی ہے قرآن کریم میں حکم ہے : ترجمہ مائیں اپنے بچوں کو دو سال تک دودھ پلائیں۔ یہ دودھ پلانے کا کام احسان نہیں بلکہ عورت پر بچے کا حق ہے اور یہ صرف ایک صورت میں یہ معاف ہوگا اگر اس کا دودھ خشک ہو جائے یا وہ دودھ بچے کے لئے مضر ہو۔ اور معالج یہ بات کہے تو پھر اپنا دودھ پلانا منع ہے اگر عورت نے صرف ملازمت کی وجہ سے یا اپنے حسن و شباب کو بچانے کی وجہ سے دودھ نہ پلایا تو شرعاً اُس نے جرم کیا ۔طبی اعتبار سے بھی بچے کو دودھ پلانا خواتین کیلئے فائدہ مند ہے اور تحقیق کے مطابق یہ سرطان پستان سے بچانے کا سبب بھی ہے۔ اور اس کے بہت تجربات بھی ہوگئے ہیں۔ بچوں کو دودھ پلانے کے سائنسی فائدے بہت زیادہ ہیں اور ثابت شدہ ہیں۔ اُن فوائد کی تعداد دس سے پندرہ تک ہے اُ س کیلئے متعلقہ لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے۔ چند فائدے ملاحظہ ہوں حمل کے دوران خاتون کا پیٹ ڈھیلا ہوتا اور پیٹ پھیل جاتا ہے ، بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے وہ پیٹ پھر سکڑ جاتا ہے۔ اگر عورت دودھ نہ پلائے تو چھاتی میں ددھ پیدا ہوتا رہے گا اور چھاتی میں جمع ہو کر سڑ جاتا ہے اور پھر چھاتی کا کینسر ہو جاتا ہے ماں کا دودھ بچے کیلئے بہت مفید ہے اُس کا مقابلہ کوئی بھی فیڈر ہر گز نہیں کرسکتا۔ جب ماں بچے کو دودھ پلاتی ہے تو بچے پر اُس کے نفسیا تی اثرات بہت گہرے پڑتے ہیں اور دو طرفہ شدید محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب کہ فیڈر میں یہ تاثر نہیں ۔ اسی لئے مغربی ماں اور بچے میں وہ گہری جذباتی محبت نہیں پائی جاتی ہے جو ہمارے معاشرے میں ہوتی ہے۔ بہر حال ماں اپنی چھاتی میں دودھ ہونے کے باوجود اگر بچے کو نہ پلائے تو وہ سنگین حق تلفی کا جرم کرتی ہے۔ اور اس کے دینی ، اخلاقی، نفسیاتی و سائنسی نقصانات یقینی ہیں۔
…………٭…………
سوال:۔ ہم نے بہت سارے لوگوں کو دیکھا کہ وہ وضو کرکے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر پھر کلمہ شہادت پڑھتے ہیں۔ کیا اس کا کوئی حکم ہے یا اس میں کوئی اجر و ثواب ہے جواب سے ممنون فرمائیں؟
وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھنا حدیث سے ثابت
جواب: وضو کے بعد کلمہ شہادت ضرور پڑھنا چاہئے، یہ احادیث سے ثابت ہے۔ کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے نگاہ آسمان کی طرف اُٹھانا بھی ثابت ہے۔ اس لئے نگاہ آسمان کی طرف اٹھانا بھی درست ہے۔خصوصاً جب کھلے آسمان کے نیچے وضو کیا جائے تو اُس وقت کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے سراوپر کرکے نگاہ آسمان کی طرف اُٹھائی جائے بس اسی پر اکتفاء کیا جائے۔ شہادت کی انگلی اوپر کی طرف کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سوال: ہمارے معاشرہ کا عام مزاج یہ ہے کہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو میت کے گھر والوں کو سب سے زیادہ فکر اس کی ہوتی ہے کہ فوت ہونے والے شخص کیلئے چہارم و چہلم بہت دھوم دھام سے ہو اور تعزیت کے لئے اب باقاعدہ کمیٹیاں بنا ئی جاتی ہیں جو تین دن تک کھانے پینے کا بہت اہتمام سے انتظامات کرتی ہیں حالانکہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے مکہ میت کی وراثت شرعی اصول کے مطابق تقسیم ہو۔ جب کہ اس کی طرف سے کوئی توجہ نہیں ہوتی ہے۔مہربانی کرکے وراثت تقسیم کرنے کے متعلق تفصیل سے جواب تحریر فرمائیں تاکہ یہاں کے مسلمان اصل حکم، جو کرنے کا ہے، وہ جان لیں اور اس پر عمل کریں؟
وفات کے بعد سب سے اہم کام تقسیم وراثت
جواب:۔ کسی مسلمان کے فوت ہونے کے بعد شریعت کا سب سے اہم حکم یہ ہے کہ فوت ہونے والے میت کی وراثت شرعی ضوابط کے مطابق تقسیم کی جائے۔ اس کا اتنی سخت تاکیدوں کے ساتھ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اگر اس پر عمل نہ کیا گیا تو یہ سخت ترین حرام کام اور اللہ کے لازمی حکم کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے فاسقانہ عمل ہوگا۔
قرآن کریم میں وارثوں کے حصے بیان کرکے پھر حکم دیا گیا کہ اس طرح تقسیم و راثت اللہ تعالیٰ کا فریضہ ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ۔ ان کی پابندی کرو۔ اور جو اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرکے معصیت کا ارتکاب کرے اور اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پابندی نہ کرے اس کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل کرے گا اور اسی کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔ سورہ النساء رکوع (۳)
اس لئے کسی بھی فرد ،چاہئے وہ مرد ہو یا عورت، کے فوت ہونے پر اگر شرعی اصول کے مطابق اُس کی وراثت تقسیم نہ کی گئی تو یہ طر زعمل حرام ہوگا اور جن وارثوں کو محروم کرکے سب ترکہ کھچونے قبضہ میں کر لیا۔ تو اُن کے پاس یہ زائد حصہ حرام ہوگا اور وہ اُن کے لئے حلال بن ہی نہیں سکتا۔ گویا اُن کے گھر میں حرام ہوگا۔
بلا شبہ مسلمان کے فوت ہونے کے بعد سب سے اہم حکم اُس کی وراثت کی صحیح تقسیم ہے۔ مگر عموماً آج کے مسلمان اس سلسلے میں بہت غافل ہیں۔ اور بہت سارے مسلمان تو زبان سے بھی انکار کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ زبان سے انکار کریں تو ایمان سلب ہونے کا خطرہ ہے۔
شرعی طور پر صحیح طریقے سے وراثت تقسیم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ فوت ہونے والے فرد بھی اور اس کے تمام پسماندگان بھی اس کیلئے پہلے سے ہی آمادہ رہیں، اور اس کے لئے اپنی خواہش ، مفاد اور غرض کو یک طرف رکھ کر ذہناً تیار رہیں کہ شریعت جس طرح تقسیم کرے گی ہم کو قبول ہوگا اور جو چیز شرعی تقسیم میں ہم کو نہ ملے وہ ہم کسی بھی صورت میں لینے کیلئے تیار نہ ہونگے۔
اس کے بعد ضروری ہے فوت ہونے والے فرد ،چاہئے وہ والدین ہوں، بھائی بہن ہوں، زوجین ہو یا اولاد ہو جو بھی ہو، کی ساری جائیداد الگ رکھی جائے اور دوسرے کسی بھی فرد کی املاک فوت ہونے والے فرد کی املاک کے ساتھ خلط ملط نہ ہونے پائے۔
ہمارے معاشرے میں اس میں بڑی کوتاہی ہوتی ہے اور باب بیٹیوں کی ساری کمائی ایک ساتھ رہتی ہے اور پھر آگے شدید نزاعات ہوتے ہیں اس لئے زندگی میں ہی باپ بیٹے، میاں بیوی اور بھائی ، بہن اپنی اپنی املاک چاہئے، وہ جائیداد منقولہ ہو مثلاً گھر کے اندر استعمال کی چیزیں یا جائیداد غیر منقولہ ہو جیسے زمین دکان باغ وغیرہ، الگ الگ کر کے رکھ لیں۔ چاہئے مشترکہ استعمال کے ساتھ ہی رہیں مگر سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ چیز کس کی ہے۔ مثلاً گھرمیں فریج ہے۔ اگر یہ باپ کا ہے اور وہ فوت ہوگیا تو یہ مال وراثت ہے اور سب وارثوں کا اس میں حق ہے اور اگر بیٹے کاہے تو باپ کے مرنے پر یہ تقسیم میں شامل نہ ہوگا۔ دکان میں بیٹے کا جتنا حصہ ہے وہ سب کو معلوم ہونا ضروری ہے، تو باپ کے مرنے پر وہ بھی تقسیم میں شامل نہ ہوگا اور بیٹا مر جاے تو وہ حصہ بطور میراث تقسیم ہو جائے گا۔
غرض املاک الگ الگ رکھنا ضروری ہے اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے جو چیز فوت ہونے والے شخص کی ہے وہ چونکہ مال وراثت ہے اور اس میں سب کا حق ہے اس لئے اس کو کوئی بھی شخص استعمال نہ کرے۔
پھر فوت ہونے والے فرد کے قرضہ کی ادائیگی کی فکر کرنا بہت ضروری ہے بلکہ مالِ وراثت میں سے سب سے پہلے قرضہ کی ادائیگی کی فکر کرنا ضروری ہے اس میں زوجہ کا باقی ماندہ مہر بھی ہے اور کسی رشتہ دا ر کی کوئی چیز ہو تو وہ بھی واپس کرنا لازم ہے۔ یا کسی کا بھی قرضہ ہو۔
گھر میں کھانے پینے کی جو اشیاء مثلا ً چاول آٹا وغیرہ یا استعمال کی اشیاء ہیں مثلاً بسترے، گاڑیاں وغیرہ اگر یہ چیزیں فوت ہونے والے کی ہیں تو جب تک یہ مال وراثت کے طور پرتقسیم نہ ہو جائے ان کو استعمال کرنا کسی کیلئے جائز نہیں ہے۔
اگر فوت ہونے والے فرد کی دکان، زمین ، باغ، جانور، گاڑی یا کوئی بھی آمدنی کا ذریعہ بننے و الی کوئی جائیداد ہے تو اس کی فوت ہونے کے بعد فوراً اس کی شرعی تقسیم کاری ضروری ہے۔ ورنہ آگے چل کر ناقابل حل اختلاف پیدا ہونا تقریبا یقینی ہے یا کچھ کی حق تلفی ہونا کچھ پر ظلم ہونا یقینی ہے۔
اس لئے فوت ہونے سے پہلے متوقع میت کی املاک کو مشخص کرنا اور اس کے فوت ہونے کے بعد اس کی شرعی تقسیم شر یعت کا سب سے اہم ، سب سے لازمی اور سب سے زیادہ طویل اثرات ڈانے والا حکم ہے۔
اس کے لئے اماموں کی ذمہ داری بھی ہے اور عام علماء و مفتیاں کرام کی بھی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ مسلسل اور تفصیل سے اس کی ترغیب دیں کہ قرآن و حدیث کے اس حکم کو پورے معاشرے میں عملانے کا سلسلہ شروع کیا جائے ۔ بلکہ اسلام کے تقسیم وراثت کے نظام کو نافذ کرنے کیلئے ادارے بنائے جائیں جو اس کے تمام تقاضوں کو پورا کر سکیں۔
٭٭٭٭
صدر مفتی دارالافتاء
دارالعلوم رحیمہ بانڈی پورہ