سوال:- ہر سال ماہ فروری یا مارچ میں میں ملازمین انکم ٹیکس سے متاثر ہوتے ہیں او رطرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ حکومت نے اس میں مختلف اقسام کی چھوٹ دے رکھی ہے بشرطیکہ درج ذیل مدوں میں کچھ خرچ کیا گیا ہو ۔
جی پی فنڈ، لائف انشورنس ، ہائوسنگ لون ، صرف دو بچوں کی اسکولی ٹیوشن فیس ،بینک یا ڈاکخانہ پالیسی۔
کچھ رقم کی چھوٹ مہلک و خطرناک بیماریوں کے خرچے وخواتین ملازم کے میک اَپ خرچہ پر دی گئی ہے۔
بہت سارے ملازم انکم ٹیکس سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل راستے اختیار کرتے ہیں۔
(ا)۔کسی سودی لائف انشورنس ادارے یا بینک، ڈاکخانہ میں مطلوبہ رقم جمع کرواتے ہیں۔
(۲)۔کچھ نا م نہاد فلاحی اداروں میں معمولی رقم جمع کرکے بڑی رقوم کی جعلی رسیدیں حاصل کرکے انکم ٹیکس سے چھوٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
(۳)۔برادری کے ناطے یا تھوڑی بہت رقم دے کر نقلی میڈیکل رپورٹیں حاصل کرکے انکم ٹیکس سے چھوٹ جاتے ہیں۔
اس طرح سے کچھ حضرات غلط اندراجات کروا کے چھوٹ حاصل کرتے ہیں۔
اس صورتحال میں گذارش ہے کہ اس موضوع پر سیر حاصل روشنی ڈال کر عوام الناس کورہنمائی سے مستفید کریں۔
سہیل نبی
انکم ٹیکس…… جائز چھوٹ سے فائدہ اٹھانا دْرست، جعلی رسیدوں کا استعمال حرام
جواب:انکم ٹیکس ایک ایسا ٹیکس ہے جو شریعت اسلامیہ کا لازم کردہ نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی تمام ترقیات، حکومت کی ضروریات اور ملازمین کو ملنے والی تنخواہیں ، عوام کو ملنے والی سہولیات مثلاً تعلیم،صحت ، عدلیہ ،پولیس وغیرہ کا سارا انتظام جس آمدنی سے حکومتیں پورا کرتی ہیں ، ان میں ایک بہت بڑی مقدار اسی طرح کے ٹیکسوں سے پوری ہوتی ہیں۔ اس لئے اس طرح کے ٹیکس لگانے کا سلسلہ تمام ممالک، چاہے وہ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر اور چاہے مسلم ممالک ہوں یا غیر مسلم ، میں قائم ہے۔ اگرچہ اس میں بھی شک نہیں کہ حکومت کے کارندے جس طرح شاہ خرچی اور پرتعش زندگی گذارنے کا روّیہ اپناتے ہیں اور جس بے دردی سے اس عوامی ٹیکس کا فضول خرچی کی تمام حدود پھلانگ کر استعمال ہوتاہے وہ اس دور کی بے شمار خرابیوں میں سے ایک بدترین خرابی ہے۔
پھر اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ اس طرح کے ٹیکسوں کی جو شر ح مقرر کی جاتی ہے وہ انتہائی تعذی اور عوام کی گردنوں پر ظالمانہ بوجھ ہے۔اس حقیقت کے بعد اب جس ملک میں بھی مسلمان رہائش پذیر ہواس ملک کے وسائل ، ترقیات اور سہولیات سے جب وہ فائدہ اٹھاتاہے تو اسے ان مسائل وسہولیات کو فراہم کرنے کے لئے اگر ٹیکس بھی ادا کرنے پڑیں تو یہ ادائیگی اسلامی اصولوں کے مطابق حرام نہیں ہوگی۔ اسی لئے جب مسلمان یہ ٹیکس ادا کرے تو وہ یہ نیت تو نہیں کرسکتا کہ میں کوئی ایسا اسلامی حکم پورا کررہاہوں جیسے زکوٰۃوصدقات کی ادائیگی میں ہوتاہے۔ ہاں وہ یہ نیت ضرور کرسکتاہے کہ حکومت کا نظام چلانے ، ملازموں کوتنخواہیںدینے ، کسی بھی ملک کی ترقی میں معاونت کرنے کا مکلّف جس طرح کوئی ملک اپنے ہر شہری کو بناتاہے اسی طرح میں بھی اس کا مکلّف ہوںاور کسی ملک کی شہریت لینے کے معنی جہاں حقوق کی وصولیابی ہے وہاں فرائض کی ادائیگی بھی ہے۔
نیز مسلمان یہ نیت بھی کرسکتاہے کہ ٹیکس ادا نہ کرنے کی صورت میں جان ومال کو جو خطرہ ہوگا اْس خطرے سے اپنے آپ کو بچا نا خود اسلام کا حکم ہے اس لئے دفع ضرر کے لئے وہ ٹیکس ادا کرے۔
اس لئے جب کسی بھی ملک کے مقررہ کردہ ٹیکسوں کی ادائیگی کا قدم اٹھایا جائے تو ظاہرہے جن جن صورتوں میں خود اس ملک کے قانون کے مطابق ٹیکسوں کی چھوٹ دی گئی ہو ان سے فائدہ اُٹھانا بھی درست ہوگا۔البتہ یہ ضروری ہے کہ اس میں جھوٹ ، دھوکہ ، جعلی کاغذات بنا کر یہ چھوٹ حاصل نہ کی جائے۔چونکہ انکم ٹیکس شریعت کالازم کردہ نہیں اس لئے علماء وفقہاء نے اس کی اجازت دی ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس سودی رقم ہو تو وہ یہ سودی رقم اس ٹیکس میں دے سکتاہے۔اس لئے کہ جس محکمہ کو یہ رقم دینی ہے اس کی نظرمیں سودی وغیرسودی رقوم ایک جیسی ہی ہیں اور حلال وحرام کا وہاں کوئی تصور نہیں ہے۔چنانچہ اسلامک فقہ اکیڈیمی میں سینکڑوں علماء دین اور مسلمان ماہرین معیشت نے یہی فیصلہ کیا ہے ۔جو ’’ نئے مسائل اور علماء کے فیصلے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور موجود ہے ۔ اس لئے محکمہ انکم ٹیکس جی پی فنڈ کی ایک مقدار پر انکم ٹیکس میں چھوٹ دے تو اْسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرچہ اس زائد جی پی فنڈ پر اخیر میں جو اضافی رقم ملے گی وہ سود کے زمرے میں آتی ہے اس لئے اسے اپنی ذات پر خرچ کرنا درست نہ ہوگا۔ہاں اْس زائد رقم کو بھی انکم ٹیکس کی ادائیگی میں دے سکتے ہیں۔
ڈاکخانے کی پالیسی یا لائف انشورنس کی پالیسی اختیارکرنا درست نہیں ، اس لئے کہ اس میں ایک سودی کام کے لئے اپنی رقم کو استعمال کرنے کا گناہ ہوگا۔کسی مدرسہ ، یتیم خانے یا خیراتی ادارے کو جنتی رقم دی گئی اْسی مقدار کی رقم کی رسید دے کر انکم ٹیکس کی چھوٹ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اگر پانچ سو روپے کی رسید لے کر پانچ ہزار یا پچاس ہزار کی رسید دکھائی گئی تو یہ یقینا جھوٹ اور فریب ہے ،جس کا حرام ہونا طے ہے۔ اسی طرح کسی ڈاکٹر سے فرضی بیماری کا سرٹیفکیٹ لینا اور انکم ٹیکس سے اپنے آپ کو بچانا بھی درست نہیں ہے لیکن کسی مہلک بیماری کے علاج معالجہ کی میڈیکل سرٹیفکیٹ پر انکم ٹیکس کی چھوٹ چونکہ خودمحکمہ انکم ٹیکس کی طرف سے ہے اس لئے اگر کوئی شخص واقعتا اس طرح کی بیماری میں مبتلا ہوتو اْس کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اس سے فائدہ اُٹھائے۔
جی پی فنڈ میں مقررہ مقدار سے زائد رقم وضع کرانے پر انکم ٹیکس میں جو چھوٹ ملتی ہے اس سے فائدہ اُٹھانے کے بعد اب مزید انکم ٹیکس دینا پڑے تو اس زائد رقم پر ملنے والا اضافہ جو سود کے زمرے میں آتاہے وہ اضافہ اس انکم ٹیکس میں دے سکتے ہیں جیسا کہ اصل سودی رقم کے لئے اس کی اجازت ہے۔ آگے سوال یہ ہے کہ چونکہ آج کل ملازمین کی تنخواہ سے ہی انکم ٹیکس کی رقم وصول کرلی جاتی ہے اور ملازمین کے ہاتھ تنخواہ دے کر پھر انکم ٹیکس کی مقدار وصول کرنے کا طریق کار نہیں ہے تو کیا ملازم یہ نیت کرسکتاہے کہ میرے پاس جو اضافی جی پی فنڈ پر ملنے پر سودی رقم ہے وہ میں انکم ٹیکس میں دے رہاہوں۔ اس طرح ملازم گویا اس سودی رقم کو اس رقم کے بدلے اپنے لئے استعمال کرنے کا حق پاسکے گا جو رقم اس کی تنخواہ سے انکم ٹیکس کے کھاتے میں چلی گئی ہے۔ اس سلسلے میں متعدد اہل علم سے گفتگو اور غور وخوض اور شریعت کے اصولِ زر کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہاں ایسا کرنا درست ہے۔ یعنی ملازم کی تنخواہ سے انکم ٹیکس کی جو مقدار وضع ہونے والی ہو اس مقدار کے بقدر اگر اس کے پاس اضافی جی پی فنڈ کی سودی رقم ہو تو وہ یہ نیت کرے کہ میں اس اضافی سودی رقم کے عوض اپنی تنخواہ کی اتنی ہی رقم انکم ٹیکس میں دیتاہوں۔ گویا اگر وہ تنخواہ اپنے ہاتھوں میں لیتا پھر جی پی فنڈ کی اضافی سودی رقم کو بھی وصول کرتا اور وہ اضافی سودی رقم انکم ٹیکس میں دے دیتا۔ جیسے یہ طریقہ درست ہے۔ اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ وہ صرف نیت کرے کہ جتنی مقدار کا انکم ٹیکس میری تنخواہ سے وضع ہورہاہے وہ اسی مقدار کا عوض ہے جو میرے کھاتے میں جی پی فنڈ کے اضافے کی شکل میں موجود ہے ، جو سود کے زمرے میں آتاہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کرنسی جونوٹوں کی شکل میں ہے وہ مقرر نہیں ہے۔ اس کی مثال حوالہ رقم ہے۔ مثلاً ایک دور دراز علاقے میں رہنے والے شخص نے دوسرے سے کہاکہ میں پانچ ہزار روپے زکوٰۃاداکرناچاہتاہوں۔ یہ زکوٰۃکی رقم تمہارے اکائونٹ میں جمع کرتاہوں تم اپنی جیب کی رقم سے پانچ ہزار بطور زکوٰۃکے ادا کردو۔ ظاہرہے اس صورت میں ٹھیک وہی نوٹ اس مستحق کو نہیں مل سکتے ، جو زکوٰۃ دینے والے نے اکائونٹ میں ڈالے ہیں مگر زکوٰۃ ادا ہوگئی۔ ظاہرہے یہ صرف نیت کی بناء پر ایسا ہوا۔ اسی طرح زیر بحث معاملہ ہے۔
فرضی کرایہ نامہ دکھا کر انکم ٹیکس چھوٹ حاصل کرنے کا مسئلہ
جواب: ۱-انکم ٹیکس کی چھوٹ جن جن صورتوں میں ہوتی ہے ان میں ایک صورت یہ ہے کہ ملازم واقعتا کرایہ کے مکان میں رہتاہو اور ہ کرایہ نامہ اورکرایہ کی رسید یں وغیرہ بطور ثبوت کے پیش کرے تو اس سے انکم ٹیکس کی چھوٹ سے فائدہ اٹھانا چاہے تواس سے انکم ٹیکس ساقط کیا جاتاہے۔اب اگر کسی شخص نے غلط کرایہ نامہ اور اس کی بناء پر وہ انکم ٹیکس کی چھوٹ سے فائدہ اٹھانا چاہئے تو ظاہرہے کہ یہ کذب بیانی ہے ،فریب ہے اور دھوکہ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی اپنے باپ کے مکان میں ساتھ رہتا ہو یا بیوی یا کسی اور رشتہ دار کے مکان میں رہتا ہومگر اسے کوئی کرایہ نہ دینا پڑتاہو تو ظاہرہے کہ اس صورت میں اگر اس نے کرایہ دار کہہ کر انکم ٹیکس سے اپنے آپ کو بچا لیا تو اس میں بھی جھوٹ بولنے کا گناہ یقیناً ہوگا۔
لیکن یہ جھوٹ بول کر یا جعلی کرایہ نامہ دکھاکر فریب دینے ، جھوٹ بولنے ،کذب بیانی کا گناہ ہونے کے باوجود انکم ٹیکس کی جو رقم اس شخص نے بچالی وہ رقم اس کے لئے حرام نہ ہوگی۔
سوال: عورتوں کے لباس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
لباس کا مقصد
جواب: قرآن کریم کے بیان کے مطابق لباس کا سب سے اہم مقصد بدن کو چھپانا ہے ۔ خاص کر جسم کے وہ حصے جن کا ستر لازم ہے ۔اُن کا پردہ ہو جائے یہ لباس پہننے کا پہلا اور اہم ترین فرض ہے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ ہر ایسا لباس کہ جس سے جسم کا حجم ظاہر ہو جائے وہ شرعی لبا س نہیں اس لئے کہ جسم چھپانے کا قرآنی مقصد فوت ہو گیا۔ جیسے وہ باریک اور مہین کپڑا جس میں جسم کی رنگت باہر سے نظر آئے غیر شرعی لباس ہے ایسے وہ تنگ اور چست لباس جس میں اعضاء کی موٹائی اور لمبائی چوڑائی نمایاں ہو وہ بھی غیر شرعی ہے۔ لہٰذا جینز، سُتھنا، اور جسم سے چپکا ہوا کوئی بھی لباس غیر شرعی ہے۔
سوال: مسلمانوں کو جہیز دینا جائز ہے۔ یا نہیں اگر لڑکی کو کچھ دینا ہو تو اسکی شرعی صورتحال بتائیں؟
جہیز کا مطالبہ کرنا حرام
جواب:۔اسلام میںجہیز دینے اورلینے کی کوئی تاکید نہیں۔فضلیت نہیں اور کوئی اجر و ثواب نہیں۔ بلکہ جہیز کا مطالبہ کرنا حرام ہے اور رسم ر واج کی بنا پر دینا غیر شرعی ہے۔اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو بطور تحفہ کوئی چیز دینا چاہئے تو ضرور دے سکتا ہے مگر دینے کا طریقہ ایسا اختیار کیا جائے کہ اُس پر بطور رسم دینے کا وہم نہ ہو۔ اس کیلئے بہتر یہ ہے کہ بیٹی کی رخصتی کے ایک دو ماہ کے بعد اس کی ضرورت کی چیزیں بطور تحفہ اُسے دیں جائیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ پہلے دیکھا جائے کہ واقعنہ کن چیزوں کی ضرورت ہے وہی چیزیں مہیا کی جائیں۔ زیورات دینے میں کوئی حرج نہیں مگر دکھلاوے اور فخر کے طور پر دینے سے پرہیز کیاجائے۔
صدر مفتی دارالافتاء
دارالعلوم رحیمہ بانڈی پورہ