نزاعات سے بچنے کیلئے مشترکہ خاندان میں آمدنی اوراخراجات کے معاملات پہلے طے کرنے کی ضرورت
سوال:-ہم دوبھائی ہیں ۔ ایک گھر کا کام اور ٹھیکیداری کرتاہے ۔چھوٹا ملازم ہے ۔ بڑے بھائی نے اپنی بیوی کے ساتھ حج کیا ۔ دوسال پہلے ہم نے علیحدہ ہونے کا مشورہ کیا۔ تقسیم کے وقت چھوٹے بھائی نے حج کا خرچہ دولاکھ روپے بڑے بھائی کے نا م ڈال دیئے۔جورقم اس کے پاس موجود ہے وہ اس سے انکار کرتاہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ تقسیم کرتے وقت بڑے بھائی کوحج کا خرچہ الگ سے وضع کیا جائے گایا نہیں اور چھوٹے بھائی کے پاس جو رقم موجود ہے ، و ہ دونوں کا حق ہے یا صرف ایک کا ؟
حبیب اللہ …پٹن
جواب:-ایک سے زائد برادران جب ایک ساتھ ایک ہی چولہے سے جڑے ہوئے ہوں تو ضروری ہے کہ وہ اپنی آمدنی اور خرچ کے تمام تمام ضروری اصول پہلے ہی طے کرلیں ورنہ آئندہ قسم قسم کے نزاع اور ظلم وحق تلفی کا اندیشہ یقینی ہے ۔
اگر ایک قسم کے کاروبار مثلاً کاشکاری یا دوکانداری سے کئی بھائی جڑے ہوئے ہوں توپھر اُن کی آمدنی یقیناً یکساں ہوگی لیکن اگرآمدنی کے ذرائع الگ الگ ہوںمثلاً ایک تاجر اور دوسرا ملازم ہے تو چونکہ دونوں کا کام الگ الگ ہے اور آمدنی بھی جُدا جُدا ہے۔اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے ہی وہ آپس میں یہ طے کرلیں کہ کون بھائی مشترکہ گھر کے لئے کتنی رقم دے گا اور کتنی رقم وہ اپنے لئے مخصوص رکھے گا ۔کس بھائی کے بیوی بچے کتنے ہیں ۔ کس کا خرچہ کتنا ہے ۔ اس لئے کون کتنا ادا کرتا رہے گا ۔یہ طے کرنا ضروری ہے تاکہ پس اندازجو بھی ہو وہ ہرایک کا اپنا اپنا رہے گا ۔ چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ۔ اس میں اپنی اپنی محنت اور اپنی اپنی قسمت !
یا یہ طے کرلیں کہ ذریعۂ معاش اگرچہ الگ الگ ہے مگر آمدنی دونوں کی قرار پائے گی ۔ اگر یہ طے کیا گیا تو پھر ملازم بھائی کی ساری تنخواہ میں تاجر بھائی شریک ہوگااور تاجر بھائی کی ساری آمدنی میں ملازم بھائی حقدار ہے ۔
اس میں یہ بھی طے کرنا ضروری ہے کہ اگر کسی ایک بھائی کو کسی بھی قسم کا زائد خرچہ کرنا پڑے مثلاً کسی بچے کی اعلیٰ تعلیم ، بیماری پرطویل علاج کا صرفہ یا حج یا مکان کی تعمیر تو پہلے ہی یہ طے کریں کہ یہ اپنا اپنا ہوگا ؟ یا دونوں اس خرچ کو پورا کرنے میں برابر کے شریک ہوں۔ یہ زائد اور بہت زیادہ خرچہ مشترکہ آمدنی سے اٹھایا جائے گایا صرف ایک کوہی نہ خرچہ اٹھانا ہوگا۔ یعنی اگر کسی بھائی کو انفرادی طور پر کوئی زائد خرچہ مثلاً کسی بچے کی تعلیم ،کسی علاج معالجہ یا حج کا صرفہ درپیش ہوا تو یایہ طے کریں کہ یہ زائد خرچہ ہر بھائی اپنا اپنا کرے گا ۔یا یہ طے کریں کہ یہ بھی مشرتکہ ہوگا ۔اگر مشترکہ قرار پایا توآئندہ دوسرے بھائی کو اس زائد خرچ کے مطالبہ کا حق ہوگا یا نہیں ۔یہ بھی طے کرکے رکھا جائے یامثلاً ایک بھائی حج کو چلا گیا تو یاتو وہ صرف اپنی مخصوص آمدنی کو سفر حج کے لئے استعمال کرے گا اور دوسرا بھائی کوئی رقم نہ دے گا ۔ اگر وہ رقم دے تو یا تو وہ بطور تعاون ہے یا بطور قرضہ لیا اس بنیاد پر کہ آئندہ یہ دوسرا بھائی بھی حج کرے گا تو اتنی رقم اُسے بھی لینے کا حق ہوگا ۔
اگر اس اصول پر عمل ہوتاتو پھر اس طرح کے نزاعات سے تحفظ ہوسکتاہے ۔
اس کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے ۔
سفر حج میں جو رقم خرچ ہوئی ہے اُس میں چھوٹے بھائی نے کتنی رقم دی تھی ۔جو رقم بھی اُس نے دی تھی اگر وہ بطور تعاون دی تھی تو اب وہ بڑے بھائی کے نام پر لازم نہ ہوگی۔اگر بطور قرض دی تھی تو اُتنی رقم اُس کو دینا لازم ہوگا کیونکہ وہ قرضہ ہے ۔ اگر اس نے کوئی رقم نہیں دی تھی تو اب اتنی رقم بڑے بھائی کے نام ڈال دینا درست نہیں۔
چھوٹے بھائی نے جو رقم اپنے پاس رکھی اُس میں دو صورتیں ہیں ۔ اگر دونوں بھائیوں نے یہ طے کیا تھاکہ ہرایک آمدنی میں ہرایک کا حصہ ہے تو پھر چھوٹے بھائی کی تمام رقوم میں دونوں بھائیوں کا حصہ ہوگا اور بڑے بھائی کے رقوم میں بھی دونوں کاحق ہوگا۔
اور اگر یہ طے کیا تھاکہ دونوں کی اپنی اپنی پس ِ اندازاوربچائی ہوئی رقم اُسی کی مخصوص ہوگی تو پھر دونوں کی بچی ہوئی رقوم اپنی اپنی ہوں گی ۔
اگرکچھ بھی طے نہیں کیا ہے جب کہ عموماً یہی ہوتاہے تو پھر چھوٹے بھائی کی وہ رقم جو صرف اُسی کے پاس ہے وہ اُسی چھوٹے بھائی کی ہوگی ۔ بڑے بھائی کو اس میں حصہ نہ ملے گا ۔ lll
سوال:-ہمارے والد کی وفات ہوگئی ۔ انہوں نے اپنے پیچھے ایک زوجہ ہماری والدہ اور ایک بیٹا اور دوبیٹیاں چھوڑی ہیں ۔ ہم تینوں کی شادیاں ہوگئیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے مرحوم والد کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی ۔
محمدایوب زرگر…ڈوڈہ
والد کی میراث کیسے تقسیم ہوگی
جواب:-قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق فوت ہونے والے شخص کی زوجہ کو کل وراثت میں سے آٹھوں حصہ دیا جائے گا ۔ اگر فوت ہونے والا شخص صاحب ِ اولاد ہو۔ (سورہ النسائ)
اور فوت ہونے والے شخص کے ترکہ میراث میں اُس کی اولاد میں اس طرح وراثت تقسیم کی جائے کہ ایک بیٹے کو دوبیٹوں کے حصہ کے بقدر وراثبت دی جائے ۔ یعنی ایک بیٹی کو جو وراثبت د ی جائے اس سے دوگنا بیٹے کو دی جائے ۔ یہ دونوں اصول قرآن (النسائ) میں موجود ہیں ۔
اب اس حکم قرآنی پرعمل کرنے کے لئے علم المیراث کے بیان کردہ اصول تقسیم کے مطابق باپ کے کل وراثت کے بتیس (32)حصے کئے جائیں ان میں سے چار حصے مرحوم کی زوجہ کو ، چودہ حصے مرحوم کے اکلوتے بیٹے کو اورسات سات حصے اُس کی دختران کو دیئے جائیں ۔ اس طرح قرآن کے حکم پر عمل ہوگا ۔
نکاح سے قبل طے شدہ رشتہ ٹوٹنے پرتحائف کی واپسی کا مسئلہ
سوال:- کبھی اختلاف کی وجہ سے نکاح سے قبل طے شدہ رشتہ پہلے ہی مرحلے پر ٹوٹ جاتاہے اس کے بعد اختلاف اس پر ہوتے ہیں کہ جو تحفے تحائف لئے دیئے ہوئے ہیں اُن کا حکم کیا ہے ۔بعض دفعہ ایک فریق دوسرے سے جرمانے کا مطالبہ کرتاہے اور جو تحفے زیورات وغیرہ ہوتے ہیں ان کے بارے میں بھی شدید نزاعات ہوتے ہیں ۔اسی طرح کھلانے پلانے کا جو خرچہ ہوا ہوتاہے اس کے لئے بھی مطالبہ ہوتاہے کہ اس کی رقم بصورت معاوضہ ادا کیا جائے ۔
اس بارے میں شرعی اصول کیا ہے؟
محمد یونس خان…شوپیان
جواب :-نکاح سے پہلے جو تحائف دئے جاتے ہیں۔ اُن کی حیثیت شریعت میں ہبہ باشرط یا ہبہ بالعوض کی ہے ۔ یعنی یہ تحائف اس شرط کی بناء پر دئے جاتے ہیں کہ آئندہ رشتہ ہوگا ۔
اب اگر آگے نکاح ہونے سے پہلے ہی رشتہ کا انکار ہوگیا تو جس غرض کی بناء پر تحفے دیئے گئے تھے وہ چونکہ پوری نہیں ہوئی ۔ اس لئے یہ تحفہ کی اشیاء اُس شخص کی ملکیت نہیں بن سکیں جس کو وہ چیزیں دی گئی ہیں ۔ جب وہ اِن اشیاء کا مالک نہیں بنا توپھر اس سے وہ اشیاء واپس لینا درست ہے ۔
لیکن یہ حکم ایسے تحائف کے متعلق ہے جو موجود ہوں اور جو ختم ہوگئے ہوں مثلاًکھانے پینے کی اشیاء یا دعوتوں کے پُرتکلف کھانے تو وہ واپس لینا اور دینا درست نہیں ہے ۔
یہاں کشمیرکا عرف بھی یہی ہے کہ نکاح سے پہلے جو چیزیں لی اور دی جاتی ہیں اگر رشتہ ٹوٹ جائے تو وہ اشیاء واپس کی جاتی ہیں ۔ اس عرف کا مقتضیٰ بھی یہی ہے کہ نکاح سے پہلے دی گئی اشیاء واپس کر دی جائیں ۔
کھانے پینے کا معاوضہ بصورت رقم لینا ہرگز صحیح نہیں ہے ۔ اس لئے کہ کھلاتے وقت یہ دعوت تھی اور کھانے کا عوض مانگنا اُسی وقت درست ہے جب پہلے سے طے کیا گیا ہو ۔جیسے ہوٹل میں ہوتاہے ۔ پھر دعوت کا کھانا خود اپنے گھروالے اور اپنے عزیز واقارب بھی کھاتے ہیں تو کیا اس پورے کھانے کا معاوضہ اُن سے لینا درست ہوسکتاہے ؟ ظاہرہے کہ نہیں ۔
نکاح سے پہلے دئے گئے تحائف کے واپس کرنے کا مسئلہ اور دعوتوں میں کھانے پینے اور ماکولات ومشروبات (مثلاً مٹھائیاں ، کیک ، بیکری ،پیسٹری ،پھلوں کے ٹوکرے ،جوس کے ڈبے ، چاکلیٹ ، ڈرائی فروٹ وغیرہ) کے واپس نہ کرنے کا مسئلہ فتاویٰ قاضی خان درمختار کی شرح شامی اور فتاویٰ محمودیہ وغیرہ میں تفصیل سے لکھاہواہے ۔ll
سوال:۱-بہو ،ساس ، داماد ،سسر اگر غریب ہوں تو کیا ان کو زکوٰۃ ،عشر یا صدقہ فطر دے سکتے ہیں ؟
دادا، دادی ، ماں باپ اور اولاد کو زکوٰۃ ہمیشہ اور صدقہ فطر دینا جائز نہیں ہے ۔ کیا نانانانی کو دے سکتے ہیں ؟
سوال:۲-کیا بہو یا ساس محرم ہیں؟ کیا ساس داماد کے ساتھ اور بہو سسر کے ساتھ حج پر جاسکتی ہے اگر اور کوئی محروم ساتھ نہ ہو ؟
سوال :۳- ایک عورت صاحب نصاب نہیں ہے ۔ اس کی طرف سے کوئی حج کرنا چاہے جو رشتے دار بھی ہے او رصاحب نصاب بھی یاصاحب اسطاعت ۔اس عورت کی طرف سے حج کرنے کی کیا صورت ہوگی ۔ کیا ایسا حج حج بدل ہوسکتاہے اگر کوئی شخص نفلی حج کسی کو بخش دے تو اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟
غلام عباس شاہ …اونہ گام بانڈی پورہ ، کشمیر
اصول اور فروع کو زکوٰۃ دینا درست نہیں
جواب:۱-زکوٰۃکی رقوم ساس ، سسر ، داماد ،بہو ،بہنوئی او ربرادرِ نسبتی کو دینا درست ہے بشرطیکہ وہ مستحق ہوں ۔ جیسے دادا ،دادی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے اسی طرح نانا نانی کو بھی زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے ۔ اس لئے اصول اور فروع کو زکوٰۃدینا درست نہیں ہے اصول میں والدین اور والدین کے والدین آتے ہیں جبکہ فروع میں اولاد اور اولاد کی اولاد آتی ہے ۔
جواب:۲-جن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہو وہ محرم کہلاتے ہیں ۔سسر کو بہو کے اور داماد کو ساس کے ساتھ نکاح کرنا درست نہیں ہے ۔اس لئے یہ محرم ہیں ۔ اگرفتنہ اور گناہ کا اندیشہ نہ ہو تو ساس داماد کے ساتھ اوربہو سسر کے ساتھ حج کو جاسکتی ہے ۔
حج بدل کے لئے مرد اور عورت میں فرق نہیں
جواب:۳-حج بدل کرنے کے لئے مرد وعورت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اگر بیٹا باپ کی طرف سے حج بدل کرے تو جو احکام ومسائل اس کے حج بدل میں ہیں وہی احکام ومسائل اس صورت میں بھی ہیں جب وہ مثلاً اپنی ماں ، بہن یا ساس وغیرہ کسی خاتون کی طرف سے حج بدل کرے ۔ حج بدل کرنے کے مسائل ، شرائط وغیرہ حج کی مفصل ومستند کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں جیسے مسائل حج وعمرہ از مولانا رفعت قاسمی ۔
……………
سوال:- کسی حاجت کو پورا کرنے کے لئے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے کو نذر کہتے ہیں ۔ نذر رکھنے کا شرعی طریقہ کیاہے ؟ کیا نذرکی رقم یا چیز مسجد کی تعمیر یا مدرسہ کودی جاسکتی ہے ۔ اگر نذر کوئی جانور ہو تو اس گوشت کو کن لوگوں میں بانٹاجائے ۔
ابوعقیل …دردپورہ ،زینہ گیر، سوپور
نذراداکرنے کا شرعی طریقہ
جواب:-نذرکاشرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنے کسی مشکل مرحلے کے لئے یا کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس طرح زبان سے نیت کی جائے ۔
اگر میرا یہ معاملہ حل ہوگیا ، یا میری یہ ضرورت پوری ہوگئی یا ہمارا فلاںبیمار تندرست ہوگیا تو میں اللہ کی راہ میں اتنی رقم صدقہ کروں گا۔ یا جانور قربان کروں گا ۔ یا یہ مجھ پر لازم ہے ۔ پھر جب وہ معاملہ حل ہوجائے یا وہ مشکل حل ہوجائے گا ۔تواتنی رقم صرف غریبوں میں تقسیم کی جائے ۔ یہ رقم مسجد میں خرچ کرنا درست نہیں ہے ، ہاں جس مدرسہ میں غریب بچوں پر کھانے پینے میں یہ رقم خرچ ہوسکتی ہواُس مدرسہ میں نذر کی یہ رقم دینا درست ہے جیسے زکوٰۃ وصدقہ فطر کی رقم اُن مدارس میں دینا درست ہے ۔اگر قربانی کی نذر مانی تو اس جانور کا گوشت سارا کاسارا غرباء میں تقسیم کرنا ضروری ہے ۔
نذرکے لئے ضروری ہے کہ جس کام کو انسان اپنے اوپر لازم کرے اُس کی کوئی قسم شریعت سے پہلے ہی لازم کی ہو ۔
مثلاً نماز، روز ہ، صدقہ ، حج ، قربانی ، خیرات انہی کاموں کو جب کوئی شخص اپنے اوپر لازم کرے گا تو وہ شرعی نذر بن جائے گی۔اگر کسی ایسے کام کو اپنے اوپر لازم کیا گیا جو شریعت نے نہیں بھی لازم نہ کیا ہوتو وہ نذر نہیں بنے گی۔ اس لئے وہ عبادت نہ ہوگی اور نذر عبادت کے قبیل سے ہے چاہے بدنی عبادت ہویا مالی عبادت ہو ۔lll
صدر مفتی دارالافتاء
دارالعلوم رحیمہ بانڈی پورہ