قضائے عمری ، جواز وطریقہ
سوال:-میں 20سالہ نوجوان ہوں ۔ میں انجینئرنگ کالج میں طالب علم ہوں ۔ میں نے 19سال کی عمر میں نمازیں پابندی سے ادا کرنی شروع کی۔میں اس سے پہلے بھی پڑھا کرتا تھا لیکن پابندی سے نہیں ۔اب الحمد للہ نمازوں کو میں پابندی سے اداکرتاہوں ۔ مسلمان پر شرعی حکم کے تحت نماز زندگی کے کس مرحلے میں فرض ہوجاتی ہے ۔بعض علماء کہتے ہیںکہ7سال اور بعض کہتے ہیں 10اور کئی 18سال فے فرض قراردیتے ہیں ۔ اگر نمازیں اس عمر میں چھوٹی ہوئیں ہوں تو کیا وہ ادا کرنا لازمی ہے اور اگر یہ نمازیں ادا کرنا لازمی ہے تو ان نمازوں کے ادا کرنے کا طریقہ بتائیے۔ ہر نماز کایعنی فجر سے لے کر عشاء تک بیان کیجئے کہ کس وقت میں نماز قضائے عمر پڑھی جائے ۔ اس کا مسنون طریقہ بیان کیجئے ۔
محمد اقبال شاہ ،بڈگام
جواب:-نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام ایمان کی علامت اور قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنے کی فکر مواخذہ آخرت سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی نشانی ہے اور بلاشبہ یہ دونوں جذبے سبھوں کے لئے قابل نمونہ ہیں ۔
ہرمسلمان پر نماز فرض ہونے کاوقت بلوغ ہے یعنی جب کوئی بالغ ہو جائے تو اس پر نماز فرض ہوجاتی ہے ۔لڑکے کے بالغ ہونے کی علامت غسل فرض ہوناہے اور اگر غسل فرض نہ ہو تو پھر پندرہ سال کی عمر کا آغاز ہوناہے اور لڑکی کے بالغ ہونے کی عمر آغازحیض ہے یہ نہ ہو تو پندرہ سال کی عمر مکمل ہونا ہے ۔ یعنی لڑکا چودہ سال مکمل کرکے پندرھویں سال میں داخل ہوجائے اور لڑکی پندرہ سال مکمل کرسولہویں سال میں داخل ہو جائے تو بالغ قرار پائیں گے ۔
اب بالغ ہونے کے بعد آج تک کی عمر کی تمام چھوٹی ہوئی نمازوں کا حساب لگایا جائے ۔حقیقی حساب لگانا تو مشکل ہے اسلئے تخمینہ لگایا جائے ۔ جب پانچوں نمازوں کی تخمینی تعداد طے ہوجائے تو اب ان پانچوں نمازوں کے الگ الگ خانے بنائے جائیں اور پھر ان نمازوں کی ادائیگی شروع کی جائے جتنی نمازیں پڑھتے جائیں اس کا حساب اُس خانے میں درج کرتے رہیں۔ اس طرح ایک وقت آئے گا کہ ہر خانے میں درج شدہ قضا نمازیں ادا ہوجائیں گی ۔
ان نمازوں کی ادائیگی ہر وقت دُرست ہے ۔ہاں تین اوقات طلوع ، غروب اور زوال میں نمازیں نہ پڑھیں ۔
بہتر تو یہ ہے کہ روزانہ کچھ گھنٹے مغرب سے لے کر سونے کے وقت تک صرف قضا نمازوں کے پڑھنے میں مشغول رہیں۔اسی طرح فراغت کے دن مثلاً اتوار وغیرہ کو ایسی اہم کام میں صرف کیا جائے ۔
لیکن اگر ہو سکے تو کم از کم ہر نماز کے ساتھ ایک قضا نماز بھی پڑھی جائے ۔ اس طرح ایک سال کی چھوٹی ہوئی نمازیں ایک سال میں ادا ہوجائیں گی ۔
حدیث میں حکم ہے کہ بچے کو سات سال کی عمر سے نماز پڑھنے کی تلقین کرو۔اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر سزا دو ۔ یہ حکم صرف نماز کی عادت ڈالنے کے لئے ہے ۔ نہ کہ فرضیت کے لئے ۔ اس لئے کہ عبادات کی ادائیگی کا حکم بلوغ کے بعد ہوتاہے ۔ چنانچہ زکوٰۃ ، روزہ کا حکم بھی بلوغ کے بعد ہی لازم ہوجاتاہے ۔ اسی طرح نماز کا مسئلہ بھی ہے ۔
قضاء اُس عمل کو کہتے ہیں جواپنے مقررہ وقت پر ادا نہ ہو۔ جیسے رمضان کے روزے کسی نے نہ رکھے ہوں تو اب رمضان کے بعد ان روزوں کو ادا کرنا قضا کہلاتاہے ۔ اسی طرح جو نمازیں جب چھوٹ گئی ہوں اُن کا حساب کرکے تعداد مقرر کی جائے اور پھر اس قضا شدہ تعداد صلوٰۃ کی ادائیگی کا ایسا سلسلہ قائم کیا جائے کہ جلد سے جلد وہ قضا شدہ فریضے سے سبکدوش ہوجائے ۔اور پھر آگے کوئی نماز قضا نہ ہونے دیں ۔ اگر کوئی نماز وقت پر نہ پڑھی گئی تو رات ہونے سے پہلے اس کو پڑھ لیا جائے ۔lTl
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-کیا مسجد کی تعمیر قبرستانوں پر جائز یا دُرست ہے ؟
سوال:۲- اگر کوئی مسجد قبروں پر تعمیر کی گئی ہے جو ہمارے بزرگوں نے بنائی ہوگی ، کیا اس میں نماز پڑھنادُرست ہے ؟
عمیر رشید …بارہمولہ
قبرستان میں مسجد کی تعمیر
جواب:۱-قبرستان میں اگر مُردے دفن کئے جارہے ہوں اور تدفین کے لئے اس مقبرہ کی ضرورت ہو تو اس میں مسجد کی تعمیر درست نہیں ہے لیکن اگر مقبرہ میں تدفین کا سلسلہ جاری نہ ہو اور آئندہ بھی اس قطعہ زمین کی ضرورت مُردوں کے دفن کے لئے نہ ہو تو ایسے قطعہ زمین میں مسجد تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔چنانچہ عمدۃ القاری شرح بخاری کے حوالے سے فتاوی محمودیہ اور کتاب المفتی کے تعمیر مساجد کے باب میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
دراصل جب قبرستان میں مسجد تعمیر کرنے کا مسئلہ ہو تو پہلے اس مقبرہ کی پوری صورتحال اور کوائف بیان کرکے جوازوعدم جواز کا شرعی حکم حاصل کرنا ضروری ہے اس کے بعد ہی مسجد تعمیر کرنے یا نہ کرنے کا اقدام کرنا ہوتاہے ۔
جواب:۲-جومسجد کسی مقبرہ میں بنائی گئی ہے ۔ وہ شرعاً مسجد ہی ہے ۔ اگر مسجد کی تعمیر کے وقت نہ تو اُس قطعہ زمین کی ضرورت تدفین اموات کے لئے تھی اور نہ ہی تازہ مُردے اُس میں دفن شدہ تھے تو اس میں مسجد تعمیر کرنا درست تھا اور آج بھی وہ شرعی مسجد ہی ہے اور اگر کوئی شرط فوت ہوگئی تو ان تعمیر کرنے والوں کی غلطی تھی ۔مگر اس مسجد شریف میں اداشدہ نمازیں درست ہیں ۔جیسے سڑکوں ،باغوں ، دفتروں ، گھروں ،کھیتوں اور جنگلوں میں نماز دُرست ہیں۔Tl
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحابہؓ پر تنقید، رسولؐ کے اندازِ تربیت پر حملہ کے مترادف
سوال:-کچھ حضرات بلاخوف وجھجک کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہتے ہیں کہ فلاں صحابی سے غلطی ہوئی ،فلاں نے ایسا کیا۔ کیا صحابہ کرام کے بارے میں اس طرح کہنا مناسب ہے جب کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں رضی اللہ عنہم اور اولئک ھم الراشدون وغیرہ کے عظیم کلمات استعمال فرمائے ہیں اور جن کے معلم امام الانبیا ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہوں ۔
جاوید احمد بٹ …ڈوڈہ
جواب:-حضرات صحابہؓ اس کائنات میں انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے مقدس گروہ ہے ۔ ان کے ایمان اور عظیم المرتبت ہونے کی گواہی خود اللہ جل شانہ اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ۔ اسی لئے حضرت نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔ میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے خوف کھائو ۔ میرے بعد اُن کو اپنی تنقید وں کا نشانہ مت بنانا۔ ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ جب تم دیکھو کہ کوئی شخص صحابہ کو بُرا بھلا کہہ رہاہے تو فوراً کہنا تمہارے اس شر پر اللہ کی لعنت ہو۔
قیامت کی علامات جو احادیث میں آئی ہیں اُن میں سے ایک علامت یہ ہے کہ بعد والے لوگ اُمت کے گزرے ہوئے طبقے کو بُرا بھلا کہیں گے ۔ چنانچہ صحابہ فقہاء ، محدثین ، اولیاء کو بعد کے لوگ جب اپنی جہالت یا سطحی معلومات کی بناء پر طعن وتشنیع کریں اُن کو ہدف تنقید بنائیں تو وہ اس حدیث کا مصداق ہیں۔
صحابہ کی غلطی نکالنے کے لئے بیٹھنا اور اُس کو موضوع بنا کر اس پر رائے زنی کرنا بولنے والوں کے لئے خطرناک تو ہے ہی ، سننے والوں کے لئے بھی خطرے سے خالی نہیں ۔ ایسا شخص جس کی زبان پر صحابہ کے متعلق نازیبا جملے نکلتے ہوں یا جس کا وطیرہ یہ ہوکہ وہ صحابہ پر غلط کاری کا الزام لگانے سے نہ جھجکتاہو اُس سے ایک مرتبہ ہمدردی سے کہنا چاہئے کہ یہ خود ہمارے دین وایمان کے لئے خطرناک ہے اگر وہ اس سے رُک گیا تو بہت اچھا۔ دونوں کیلئے بہتر ہی بہترہے ۔اگر وہ پھر بھی اس روش کو ترک نہ کرے تو اس سے دینی امور کے متعلق ہرگز کوئی بات نہ کی جائے اور جب وہ خود گفتگو چھیڑے تو فوراً وہاں سے ہٹ جائے ۔ قیامت میں ہم صحابہ کے حامیوں اور محبت کرنے والوں میں کھڑے ہوں یہ بہت بہتر ہے بمقابلہ اس کے کہ ہم اُن پر ملامت کرنے والوں یا طعن تشنیع وتنقید وتوہین کرنے والوں کے گروہ میں شامل ہوں ۔
اس لئے ضروری ہے کہ مقام صحابہ کے متعلق لکھی گئی مستند کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
دراصل صحابہ کی غلطیاں بیان کرنا ، اُن پر تنقید میں خود حضرت نبی کریم علیہ السلام کے اندازِ تربیت پر حملہ کرنا ہے ۔ اس لئے صحابہ تو حضرت نبی علیہ السلام سے تربیت یافتہ تھے ۔ شاگرد کے نقائض بیان کرنا بالواسطہ استاد کے تربیت وتعلیم اصلاح و تزکیہ کے ناقص ہونے کا اعلان کرناہے ۔Tl
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:آج کل بہت سارے لوگ ، جن کے سر سے بال گر گئے ہوں، نقلی بال سر پر لگاتے ہیں ۔ س کی ایک صورت "WIG" ہے۔ یہ بالوںکی ایک ٹوپی نما کیپ ہوتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ مصنوعی بال لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ اور اگر لگائے گئے ہوں تو ان پر مسح کرنا صحیح ہوگا یا نہیں؟ اور اسی طرح غسل میں اگر اس ٹوپی یا مصنوعی بالوں کو ہٹائے بغیر غسل کیا جائے تو وہ غسل ادا ہوگا یا نہیں ؟
شوکت احمد …پٹن
مصنوعی بال لگانا حرام
جواب:-مصنوعی بال چاہے انسان کے بال ہوں یا جانوروں کے بال ہوں ۔ یہ ہر قسم کے بال لگانا سخت منع ہے ۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بال جوڑنے والے اور بال لگوانے والوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ (بخاری ومسلم)۔ ایک خاتون دربارِ رسالتؐ میں غرص کیا کہ میری بیٹی کے سر کے بال جھڑ گئے ہیں ۔ اگر اُس کو نقلی بال نہ لگائوں تو ہوسکتاہے کہ اُس کا ہونے والا شوہر اُس سے نفرت کرے۔ تو کیا یہ نقلی بال لگانے کی اجازت ہے ؟ اس پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا کہ اس کی اجازت نہیں ہے ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے دوسرے انسان یا حیوان (مثلاً گھوڑے) کے بال اپنے بالوں میں ملانا حرام ہے ۔بہرحال حدیث میں جس کام کی صریح اور صاف ممانعت موجود ہواُس کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ دورِ نبوتؐ میں تو عورتیں ہی یہ کام کرتی تھیں ۔ اس لئے ممانعت کا حکم اُن کے لئے ہی ارشاد ہوا۔
عورتوں کے لئے لمبے بال یقیناً مستحسن اور پسندیدہ ہیں لیکن اس کے باوجود جب اُن کو خارجی بال لگانے کی اجازت نہیں دی گئی تو مَردوں کے لئے کیسے اس کی اجازت ہوسکتی ہے ۔
بہرحال حدیث کی رو سے ’وگ‘ لگانے کی ہرگز اجازت نہیں ۔ جس شخص نے ’وگ‘ لگائی ہو اس کو نہ مسح درست ہے نہ غسل صحیح ہے ۔Tl